Posts

Showing posts from April, 2019

حضرت نصیراللہ قادری رزاقی قطبی المعروف چراغِ موتی میاں

Image
پیر طریقت حضرت نصیراللہ قادری رزاقی قطبی المعروف چراغِ موتی میاں =============================================================== حضرت   پیرنصیراللہ قادری رزاقی قطبی المعروف چراغِ موتی میاں کا روحانی تعلق سلسلہ قادریہ رزاقیہ قطبیہ سے ہے اورآپ کا خاندانی نسب یوسف زئی پٹھان ہے ۔آپ کی ولادت سن 1959 میں پاکستان کے شہر حیدرآباد سندھ میں ہوئی۔آپ کے والدِماجد حضرت بشیراللہ گولڑوی اور والدہ محترمہ کو گولڑہ شریف کے سجادہ نشین المعروف بڑے بابو جی سے شرف بیعت حاصل ہوا ، جب کہ آپ کے جد امجد (دادا )حضرت پیر مہر علی شاہ قدس سرہ کے حلقے ارادت میں شامل تھے۔قیام پاکتاون سے قبل آپ کے والدین کی سکونت ہندوستان کے شہر گوالیارمیں تھی اور قیام پاکستان کے بعد آپ کے خاندان نے ہندوستان سے پاکستان ہجرت فرمائی۔ کچھ عرصے حیدرآباد سندھ میں قیام پذیر رہنے کے بعدآپ کے خاندان نے لیاقت آباد (لالو کھیت) کراچی میں مستقل سکونت اختیار کرلی۔ آپ نے ظاہری تعلیم حیدرآباد سندھ اور کراچی میں حاصل کی تھی ۔ حضرت پیر نصیر اللہ قادری رزاقی قطبی کے پیر ومرشد حضرت سید درویش احمدعرف موتی میاں ثروت قادری رزاقی قطب

حضرت ابو عبداللہ حارث بن اسد المحاسبی ؒ مصنف کتاب الرعایتہ

Image
ا سلامی تصوف کی اولین مستند کتاب (کتاب الرعایتہ ( آآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآ حضرت ابو عبداللہ حارث بن اسد المحاسبی ؒ طبقہ اولیٰ کے وہ عظیم صاحب تصنیف صوفی بزرگ ہیں جن کا وصال سن 243 ہجری میں ہوا، جب آپ کا جنازہ آپ کےمکان سے نکلا تو قبرستان تک صرف 4 آدمی اس جنازےکے ساتھ تھے۔ آپ کا ناقابل معافی جرم یہ تھا کہ آپ نے اپنی فکر خداداد سے کام لیا اور فقہیہ شہر کو ناراض کردیا تھا۔ نیرنگی زمانہ ۔ اگر آپ کےجنازے میں اُس وقت صرف چار افراد تھے مگر صاحب جنازہ کی تصنیف کتاب الرعایتہ اُس دور سے لیکر آج تک لاکھوں آدمیوں کی رہنما بنی ہوئی ہے اور قیامت تک بنی رہے گی۔ آپ کا اجمالی تعارف درج ذیل ہے۔ حضرت ابو عبداللہ حارث بن اسد المحاسبی رحمتہ اللہ علیہ ایکصاحب تصنیفِ صوفی بزرگ تھے اور آپ کی تصینف کتاب الرعایتہ کو اسلامی تصوف کے موضوع پر لکھی جانی والی پہلی مستند و مستقل کتاب متصور کیا جاتا ہے۔ اس کتاب سے قبل بقول حضرت جنید بغدادی ؒ قرون اولیٰ کا تصوف مقید بالکتاب و السنۃ

حضرت سید شاہ فضیل قادری البغدادی، مزار اقدس مکلی ٹھٹھ ،سندھ

حضرت سید شاہ فضیل قادری البغدادی، مزار اقدس مکلی ٹھٹھ ،سندھ ========================================= حضرت   شاہ فضیل قادری رحمتہ اللہ علیہ المعروف زندہ پیر سلط ان بہلول لودھی کے دور میں 14 صفر المظفر 871ھجری کو پیدا ہوئے۔ آپ کا وطن بغداد شریف ہے اور آپ کا سلسلہ نسب گیارہ پستوں سے ہوتا ہوا حضرت غوث آعظم دستگیر رحمتہ اللہ علیہ تک پہنچتا ہے ۔ آپ انتہائی پرہیزگار اور صاحب کرامت بزرگ گزرے ہیں اور آپ اپنے وقت کے سرداراولیاء، امام العارفین و قطبِ ارشاد صوفی بزرگ تھے۔ آپ ؒ کے روحانی مقام کے بارے میں حضرت مجدد الف ثانی ؒ فرماتے ہیں کہ جب مجھ کو خاندان قادریہ کا کشف ہوتا ہے تو مجھےحضرت غوث اعظم دستگیرؒ کے بعد حضرت شاہ فضیل قادریؒ اور آپ کے خلیفہ حضرت شاہ کمال کیتھلی قادری رحمتہ اللہ جیسے علو مرتبت بزرگ نظر آتے ہیں۔ حضرت سید شاہ فضیل قادریؒ کے پیر ومرشد حضرت سید شاہ گدارحمان ثانی رحمتہ اللہ علیہ تھے جن سے آپ نے خرقہ خلافت حاصل کیا تھا اور آپ کے پیر ومرشد نے یہ خرقہِ خلافت حضرت سید شمس الدین عارف رحمتہ اللہ علیہ سے کابل میں حاصل کیا تھا ۔ اس خرقہ کی بابت سلطان المشائخ حضرت خواج

مراقبہ Meditation / Muraqba

Image
مراقبہ ۔   اسلامی تصوف میں اہمیت و افادیت ========================================== مراقبہ اس تفکر کا نام ہے جس سے انسان اس علم کو حاصل کر لیتا ہے جو اس کی اپنی انا، ذات، شخصیت یا روح کا علم ہے۔ مراقبہ کا بنیادی اصول یہ ہے کہ دل کو دوسرے خیالات سے ہٹا کر ایک ہی خیال پر جما دیا جائے اور اسی خیال کے اندر فکر میں منہمک ہوجایا جائے۔ تفکر اور مراقبہ کا تعلق باطنی حواس سے ہےاس لیے اس علم کو علم ِباطن بھی کہتے ہیں۔ مراقبہ دل و دماغ کی استغراق والی کیفیت کا نام ہے۔ یہ کفیت دو طرح سے پیدا ہوتی ہیں ایک وہبی (ازخود )ہے جو اللہ کے مخصوص بندوں کو من جانب اللہ حاصل ہوجاتی ہے جیسے انبیاء کرام اور اولیاء کرام اور دیگر مخصوص بندے اور دوسری کسبی (اپنی محنت شاقہ سے)جس کے دو طریقے ہیں ۔ طریقہ محمود  1 ۔ طریقہ غیر محمود۔ 2  ذکر و ازکار کے ذریعے دل و دماغ کویکسوی کرلینا اور خود کو اللہ تعالیٰ کےحضورمیں حاضر سمجھنا مراقبہ ِ محمود کہلاتا ہے اور باقی مراقبے کی تمام مشقیں جیسا کہ ہپناٹزم والے یا جوگی اور مشرکین کسی چیز کا تصور جماکر یا سامنے رکھ کر کرتے سب شرک اور غیر اسلامی طریقہ ہے

انفس و آفاق

Image
انفس و آفاق   آآآآآآآآآآآآآآآآآآآآ ہم تو زنجیر سفر شوق میں ڈالے ہوئے ہیں ورنہ یہ انفس و آفاق کھنگالے ہوئے ہیں صوفیاء اکرام کی اصطلاح میں نفسِ انسانی مع اپنے ظاہر وباطن کے انفس کہلاتی ہے اوراس کے ملاحظ و مطالعہ کرنے کے عمل کو سیرِ انفسی کہا جاتا ہے۔اس کے بر عکس کائنات میں جو کچھ ازقسم ظاہر وباطن ہے آفاقی ہے اور اُس سے بطریق کشف و شہود آگاہ ہونا سیرِ آفاقی ہے۔ بقول صوفیاء اکرام آفاق میں جو کچھ ہے وہ سب اجمالی طور پر انفس میں بھی ہے جو کچھ یہاں ہے وہی وہاں (آفاق) میں ہے اور جو کچھ  وہاں (آفاق) میں ہے وہی یہاں (انفس) میں ہے ، صرف اجمال وتفصیل کا فرق ہے۔ سیر ِانفسی سیرِ اجمالی ہے اور سیرِ آفاقی سیرِتفصیلی ہے۔  (والسلام  (محمد سعید الرحمن ایڈوکیٹ

عشق مجازی سےعشق حقیقی کا سفر

Image
عشق مجازی سےعشق حقیقی کا سفر ===================== عشق کیا ہے کی بابت اکابرین اولیاء اکرام فرماتے ہیں کہ عشق دریا نا پیدا کنارہ ہے اور اس کے بیان سےزبان عاجز ہے اور اس کے ادراک سے عقل قاصر ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ العشق ھواللہ۔ حضرت خواجہ بندہ بواز گیسو دراز ؒ فرماتے ہیں عشق و عاشق ومعشوق ایک ہی چیز کا نام ہے لیکن مبتدیانِ سلوک کے سمجھانے کی غرض سے صاحبِ کاملین نے اپنی اصطلاحات میں اس کو بیان کیاہے اور جس پر جوکیفیت گزری اس نے اس کے مطابق اسے الفاظوں کا جامہ پہنایا۔ بعض نے عشق کو لفظ نار (آگ) سے تعبیر کیا ہے بعض نے لفظ درد سے تعبیر کیا الغرض یہ جو کچھ ہوا ہے اور ہورہا ہے اور ہوتا رہے گا یہ سب اس عشق کے ہی کرشمے ہیں۔ حدیث میں ہے کہ اللہ جمیل ہے اور خوبصورتی کا تقاضا ظاہر ہونا ہے۔چنانچہ حدیث قد سی ہے کنت کنزا مخفیا فاحببت ان اعرف فخلقت الخلق(میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا پس میں نے ارادہ کیا کہ پہچانا جاﺅں تو میں نے مخلوق کو پیدا کر دیا)۔ باالفاظ دیگر اس ذات قدسی کو یہ خیال آیا کہ میں جو جلال و جمال، لطف و عطا اور جود وکرم کا ایک لا محدود ولامتناہی خزانہ ہوں تو کوئی اسے دیکھنے و

حضرت اسحاق میاں صندلی رحمتہ اللہ علیہ .Hazarat Ishaq Mian Sandali R.A

Image
کراچی، پاکستان کی ایک معروف روحانی شخصیت حضرت صوفی اسحاق میاں صندلی رحمتہ اللہ علیہ ============================== دربار اسحاقیہ ٹرسٹ ، گلشن صندل، نارتھ کراچی موسوم بہ حضرت صوفی اسحاق میاں صندلی رحمتہ علیہ کا شمار کراچی کی بڑی خانقاہوں میں ہوتا ہے یہ خانقاہ فن تعمیر کا ایک اعلیٰ نمونہ ہونے کے علاوہ مرکزفیضان بھی ہے۔ دورِ حاضر میں اس طرح کی خانقاہیں خال خال نظر آتی ہیں۔ حضرت صوفی اسحاق میاں صندلی کی زیر سرپرستی پاکستان میں سلسلہ صندلیہ کو کافی فروغ حاصل ہوا ہے۔ آپ کے پیر و مرشد حضرت میاں صندل شاہ قادری نقشبندی رحمتہ اللہ علیہ کا شمار سلسلےقادریہ و نقشبندیہ کے اولیاء کاملین میں ہوتاہے جن کا مزار اقدس ہندوستان کے شہرپہاڑم شریف ضلع مین پوری میں زیارت گاہ خلق ہے۔ اس سلسلہ عالیہ میں سلسلہ قادریہ اور نقشبندیہ کے انضمام کی تاریخ کچھ یوں ہے کہ حضرت مجدد الف ثانی نے تصوف میں سلسلہ چشتیہ کی تعلیم اپنےوالدِ محترم سےپائی، تھی اور سلسلہ قادریہ کی شیخ سکندرکیتھلی اورسلسلہ نقشبندیہ کی تعلیم دہلی جاکرخواجہ باقی باللہ سےحاصل کی تھی اورآپ کو حضرت خواجہ باقی باللہ رحمتہ اللہ علیہ کی وفات کے بع

حضرت موسیٰ سہاگ رحمتہ اللہ

مام المجاذیب حضرت مولوی سیدی موسیٰ سہاگ رحمتہ اللہاا چوڑیاں اور زنانہ لباس پہنے والے ایک بزرگ (سدا سہاگن) =================================== حضرت سیدی موسیٰ  سہاگ رحمتہ اللہ علیہ کا شمار مشہور مجازیب میں ہوتا ہےجو ایک مردکامل تھے مگر زنانہ وضع اختیار کیے ہوئے تھے۔ آپ سلسلہ سہروردیہ میں حضرت سکندر بود رحمتہ اللہ علیہ کے مرید تھےجن کا مزار سندھ کے شہر سہون میں لال شہباز قلندر کے دربار کے قریب ہی واقع ہے۔ حضرت سیدی موسیٰ سہاگ ہاتھوں میں چوڑیاں پہنتے تھے۔ ہیجڑوں رقاصوں اور گانےوالوں کے ساتھ محفل سماع کرتے تھے اور ان ہی کے طرز کا لباس میں رہ کر اپنے آپ کو پوشیدہ رکھے ہوئے تھے۔ لوگ انہیں ہیجڑہ ہی سمجھتے تھے۔ کہاں رہتے ہیں؟ کیا نام ہے؟ احمد آباد میں کسی کو معلوم نہیں تھا۔ کوئی نام پوچھتا تو کہتے تھے میں اللہ کی گھر والی ہوں اور آپ وہاں اس ہی نام سے مشہور ہوگے تھے۔ امام احمد رضاخاں بریلویؒ فرماتے ہیں کہ حضرت سیدی موسیٰ سہاگ رحمتہ اللہ علیہ مشہور مجاذیب سے تھے، زنانہ وضع رکھتے تھے ۔ احمدآباد، گجرات میں آپ کا مزار شریف ہے،میں زیارت سے مشرف ہوا ہوں۔ آپ کا تذکرہ یوبند کےمکتب فکر ک

خواجگانِ سلاطین اربع . وسلیہ برائےکشاکش رزق و حل المشکلات

Image
خواجگانِ سلاطین اربع . وسلیہ برائےکشاکش رزق و حل المشکلات أأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأ حضرت ا لحاج صوفی خواجہ محمد اقبال سلطانی عرف (اقبال باپو) رحمتہ اللہ جو سلسلۃ الذہب قادریہ کی ایک بزرگ ہستی ہیں اور آپؒ کاسلسلہ خلافت و بیعت سات واسطوں سے ہوتا ہوا حضرت غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جا ملتا ہے کا معمول تھا کہ وہ ہر سال ماہ رجب کی چار (4) تاریخ کو برائے کشاکش رزق و حل المشکلات کے لیے نذر و نیاز برائے سلا طین اربع قدس سرہ العزیز کاخصوصی اہتمام فرماتے تھے اور آپ کا متعارف کردہ نذر ونیاز کا یہ سلسلہ آپ کے وصال کے بعد بھی جاری و ساری ہے اور وابستگان سلسلۃ الذہب قادریہ و دیگر کراچی کے مشائخ اکرام اس محفل مقدس میں حصول برکت کے لیے خصوصی شرکت کا اہتمام فرماتے ہیں۔ تاریخ تصوف میں خواجگان سلاطین اربع کا تعارف کچھ اس طرح ہے کہ وہ اولیاء اکرام جو عوام الناس کے درمیان میں رہ کر ان کی اصلاحِ نفس و روحانی تعلیم فرماتے ہیں ، انہیں” اولیاء ظاہرین “ کہا جاتا ہے اور یہ عوام الناس کے درمیان رہتے ہیں۔ اسی طرح ”ا

خانقاہی نظام رو بہ زوال (Khankhai Nizam)

خانقاہی نظام رو بہ زوال خانقاہوں میں کاروباری سرگرمیاں اور مورثی سجادہ نشینی ================================= اولیا اللہ جب بھی کسی علاقہ میں جا کر تبلیغِ اسلام کی خاطر قیام کرتے ہیں تو ان کے ارد گرد بہت سے طالبانِ حق اکٹھے ہو جاتے ہیں جنہیں سالک کہا جاتا ہے۔ اِن سالکین کی باطنی تربیت کے لیے ایک خاص جگہ تشکیل دی جاتی جو رشد وہدایت کا مرکز ہوتی ہےتاکہ انہیں صحبتِ مرشد میں رہنے کے زیادہ سے زیادہ مواقع مل سکیں اور وہ اپنے شیخ طریقت کی روحانی تربیت برائے قرب الی اللہ حاصل کریں۔ اس خاص جگہ کو تصوف میں خانقاہ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔جس طرح تعلیم کیلئے مدرسہ اورعمل کیلئے مسجد ضروری ہے اسی طرح باطنی تربیت کیلئے خانقاہ ضروری ہے ۔ جب کہ ہرزمانے میں ان خانقاہوں سے رشد و ہدایت کے ساتھ خدمت خلق کا کام بھی انجام دیا جاتا رہاہے۔ خانقاہوں کے قیام کا مقصد کسی بھی زمانے میں کاروباری یا تجارتی نہیں رہا ہے۔ خانقاہوں اور درگاہوں میں یہی فرق ہے کہ درگاہیں مجاورں سے بھی چل سکتی ہیں لیکن خانقاہوں میں فیض شیخ کے وجود سے جاری ہوتا ہے۔ شیخ کا فیض صرف مذہبی اور روحانی نہیں ہے بلکہ اخلاقی ، نفسیاتی ا

جون ایلیا ایک تعارف

Image
جون ایلیا ایک تعارف =============== جون ایلیا 14 دسمبر، 1937ء کو امروہہ، اتر پردیش کے ایک نامور خاندان میں پیدا ہوئے۔ آپ برصغیر پاک و ہندمیں نمایاں حیثیت رکھنے والے شاعر، فلسفی، سوانح نگار اور عالم تھے اور وہ اپنے انوکھے انداز تحریر کی وجہ سے علمی و ادبی حلقوں میں شہرت کے حامل ہیں۔ آپ معروف صحافی رئیس امروہوی اور فلسفی سید محمد تقی کے بھائی اور مشہور کالم نگار زاہدہ حنا کے سابق خاوند تھے۔ جون ایلیا کو عربی، انگریزی، فارسی، سنسکرت اور عبرانی میں اعلیٰ مہارت حاصل تھی۔ وہ اپنے بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ ان کے والد، علامہ شفیق حسن ایلیا کو فن اور ادب سے گہرا لگاؤ تھا اور اس کے علاوہ آپ کے والد نجومی اور شاعر بھی تھے۔ جون ایلیا کی ابتدائی تربیت ایک فلسفیانہ مذھبی گھرانے میں ہوئی۔ جون ایلیا امروہہ کے سید المدارس کے طالب علم بھی رہے۔ یہ مدرسہ امروہہ میں اہل تشیع حضرات کا ایک معتبر مذہبی مرکز رہا ہے۔ اگرچہ خاندانی طور پر اثنا عشری شیعہ تھے مگر عربی زبان اور فلسفہ دیوبندی علماء سے حاصل کرتے رہے اور آخر تک آپ ان علماء کے فقر و تقوی کے معترف رہے۔ چونکہ جون ایلیا خود شیع