خانقاہی نظام رو بہ زوال (Khankhai Nizam)
خانقاہی نظام رو بہ زوال
خانقاہوں میں کاروباری سرگرمیاں اور مورثی سجادہ نشینی
=================================
اولیا اللہ جب بھی کسی علاقہ میں جا کر تبلیغِ اسلام کی خاطر قیام کرتے ہیں تو ان کے ارد گرد بہت سے طالبانِ حق اکٹھے ہو جاتے ہیں جنہیں سالک کہا جاتا ہے۔ اِن سالکین کی باطنی تربیت کے لیے ایک خاص جگہ تشکیل دی جاتی جو رشد وہدایت کا مرکز ہوتی ہےتاکہ انہیں صحبتِ مرشد میں رہنے کے زیادہ سے زیادہ مواقع مل سکیں اور وہ اپنے شیخ طریقت کی روحانی تربیت برائے قرب الی اللہ حاصل کریں۔ اس خاص جگہ کو تصوف میں خانقاہ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔جس طرح تعلیم کیلئے مدرسہ اورعمل کیلئے مسجد ضروری ہے اسی طرح باطنی تربیت کیلئے خانقاہ ضروری ہے ۔ جب کہ ہرزمانے میں ان خانقاہوں سے رشد و ہدایت کے ساتھ خدمت خلق کا کام بھی انجام دیا جاتا رہاہے۔
خانقاہوں میں کاروباری سرگرمیاں اور مورثی سجادہ نشینی
=================================
اولیا اللہ جب بھی کسی علاقہ میں جا کر تبلیغِ اسلام کی خاطر قیام کرتے ہیں تو ان کے ارد گرد بہت سے طالبانِ حق اکٹھے ہو جاتے ہیں جنہیں سالک کہا جاتا ہے۔ اِن سالکین کی باطنی تربیت کے لیے ایک خاص جگہ تشکیل دی جاتی جو رشد وہدایت کا مرکز ہوتی ہےتاکہ انہیں صحبتِ مرشد میں رہنے کے زیادہ سے زیادہ مواقع مل سکیں اور وہ اپنے شیخ طریقت کی روحانی تربیت برائے قرب الی اللہ حاصل کریں۔ اس خاص جگہ کو تصوف میں خانقاہ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔جس طرح تعلیم کیلئے مدرسہ اورعمل کیلئے مسجد ضروری ہے اسی طرح باطنی تربیت کیلئے خانقاہ ضروری ہے ۔ جب کہ ہرزمانے میں ان خانقاہوں سے رشد و ہدایت کے ساتھ خدمت خلق کا کام بھی انجام دیا جاتا رہاہے۔
خانقاہوں کے قیام کا مقصد کسی بھی زمانے میں کاروباری یا تجارتی نہیں رہا ہے۔ خانقاہوں اور درگاہوں میں یہی فرق ہے کہ درگاہیں مجاورں سے بھی چل سکتی ہیں لیکن خانقاہوں میں فیض شیخ کے وجود سے جاری ہوتا ہے۔ شیخ کا فیض صرف مذہبی اور روحانی نہیں ہے بلکہ اخلاقی ، نفسیاتی اور معاشرتی بھی ہے۔ یعنی خانقاہ اور شیخ دونوں لازم وملزوم ہیں۔
دور حاضر میں کچھ پیشہ ور سجادہ نشیوں نے جنہیں خانقاہیں وراثت میں ملی ہوئی ہوتی ہیں یا ریشہ دانیوں سے خانقاہوں پر اپنا تسلط قائم کیا ہوا ہوتاہے، ان خانقاہوں کی اصل روح کو مسخ کرکے انہیں ایک کاروباری مرکز میں تبدیل کردیا ہے جس کی بہت ساری مثا ل ہمارے سامنے ہیں ۔ بلخصوص یہ بات عام مشاہدے میں ہے کہ ان خانقاہوں میں براجماں خلفاءاور سجادہ نشین حضرات روحانیت تربیت کی بجائے پیری مریدی کے نام پر نذارنے بٹورنے اور خدمت خلق کی آڑ میں عمرہ وحج کی ٹریول ایجنسی چلانے یا تعویز گنڈوں ، جھاڑ پھونک کے نام پر مصیبت کے مارے ہوئے دکھی انسانوں سے اپنا رزق حاصل کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور ان خانقاہوں کو اپنے ذاتی کاروباری مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔ کیوں کہ انہیں خانقاہوں کی آڑ میں حاصل ہونے والی آمدنی پر حکومت کو کوئی ٹیکس ادا نہیں کرنا پڑتا ہے اور نہ ہی اُن سے آمدنی کا گوشوار طلب کیا جاتا ہے۔ یہ بھی ٹیکس چوری کی ایک شکل ہے.
واضح رہے کہ اسلام نے ہر اس آمدنی کو ناجائز قرار دیا ہے جس میں شبہ یا ابہام ہو اور جس میں استحصال کا شائبہ پایا جاتا ہو۔ اس ہی طرح فتوح، نذرانہ، نیاز، شکرانہ ، کمیشن اور اس طرح کی دیگر آمدنی بھی اس ہی زمرے میں آتی ہیں جنہیں ایک صاحب تقویٰ ہی محسوس کرسکتا ہے کیونکہ ان آمدنی میں کسی نہ کسی طور پر استحصال پایا جاتا ہے اور اس طرح کی آمدنی ایک حقیقی پیر طریقت یا سجادہ نشین کی شان نہیں ہوسکتی ۔
ایسی صورت میں جب خانقاہوںکو روزی کمانے کا ایک ٹھکانہ بنالیا جائے تو لازمی امر ہے کہ خانقاہوں سے علم بھی رخصت ہوگیاہے اور رشد وہدایت بھی راہ فرار حاصل کرچکی ہے اور اب اس طرح کی خانقاہیں کو درگاہ ہی کہا جانا مناسب ہے اور اصولی طور پر ایسی تمام خانقاہوں کے سجادہ نشین کوسجادہ نشین کہلانے کی بجائے ایک مجاور کہا جائے تو بہتر تاکہ اولیاء عظام کی حرمت قائم رہے۔
ستم ظریفی ہے کہ یہ پیشہ ور سجادہ نشین اپنی گدی نشینی کے لیے چناؤ کی اہلیت اور میعار کو نظر انداز کرکے اپنےبیٹوںکو ہی ترجیح دیتے ہیں تاکہ خانقاہ کی آمدنی پر ان کے خاندان کا کنڑول قائم رہے ۔ اگر خانقاہیں ان کی نظر میں ایک روحانی درسگاہ ہوتی تو وہ کبھی مشائخ چشت کی روایت کے برخلاف ایسا نہیں کرتے کہ اپنےحلقے ارادت میں سب سے زیادہ روحانی اور علمی شخصیت کو نظر انداز کرکے صرف اپنے بیٹے کو ہی سجادہ نشین بنا دیں خواہ وہ نابالغ ہی کیوں نہ ہو ۔ ہر ذی علم یہ سوال کرتا ہے کہ کیا خانقاہیں یا مساجد بھی کسی کی میراث ہوتی ہیں جن پر رواثت کے قوانین نافذ ہوں؟
زمانے اسلاف سےخانقاہوں میں مشائخ عظام کا طریقہ رہا ہے کہ وہ بھی اپنے خلیفہ کو باطنی نعمت سجادگی یا جا نشینی منتقل کیاکرتے تھے جس کے استحقاق کے لیے ان کا اولاد ہونا ضروری نہیں تھا اور نہ ہی سجادگی کے ساتھ خانقاہ اور اس کی آمدنی بطور جاگیرمنسلک ہوا کرتی تھیں۔ اسلاف میں جانشینی یاسجادگی کا مطلب شیخ طریقت کا مصلیٰ تسبیح ، خرقہ، عصا اور نعلین کا حق دار ہونا ہوا کرتا تھا۔
ایک مجلس میں کسی نے حضرت نظام الدین اولیاؒ سے پوچھا کہ اکثر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ مشائخ کی اولاد ان کے نقش قدم پر نہیں رہتی، ایسا کیوں ہے؟ آپ نے فرمایا کہ یہ بھی اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ اس سے اللہ تعالیٰ یہ دکھاتا ہے کہ رشد وہدایت اُسی کی جانب سے ہے اورشیخ محض بہانہ ہے۔ اگر رشد وہدایت شیخ کے اختیار میں ہوتی تو یہ نعمت وہ سب سے ذیادہ اپنی اولاد ہی کو دے سکتا
تھا۔
نااہل سجادہ نشینوں کی اس روش سے خانقاہی نظام کی تباہی کے اثرات ہمارے معاشرے پر بھی پڑ رہے ہیں اور آج پورا معاشرہ اخلاقی اور روحانی طور پر اپا ہج نظر آتا ہے کیونکہ سکون درویشی اور روحانیت میں ہی پنہاں ہے اور انسانیت اور اخلاقیات روحانیات کے بغیر نابینا ہیں ۔جب روحانی اداروں کو جن کا کام اصلاح قلب و نفس کرنا ہے ریاکاری اور دکھاوے کی بھینٹ چڑھا دیا جائے گا تو روح کی بالیدگی کی
بجائے تصوف محض چند رسومات کی حد تک ہی رہ جائے گا۔
بجائے تصوف محض چند رسومات کی حد تک ہی رہ جائے گا۔
یہ اہل تصوف کی ذمہ داری ہے کہ وہ خانقاہی نظام کی بحالی کے لیے اپنا کردار ادا کریں کیونکہ بقول حضرت علامہ اقبال ؒ:
میراث میں آئی ہے انہیں مسندِ ارشاد
زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن
زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن
والسلام (محمد سعید الرحمن ایڈوکیٹ
Comments
Post a Comment