حضرت عبد الکریم رحمتہ اللہ علیہ المعروف ملا فقیر اخوند، رام پوری / Hazart Abdul kareem Mulla Faqeer Akhwand


Image may contain: text

حضرت عبد الکریم رحمتہ اللہ علیہ المعروف ملا فقیر اخوند، رام پوری
سلسلۃ الوہب چشتیہ ( فیضانِ سلسلہ صابریہ و نظامیہ کا سنگم)
===========================================
سلسلۃ الوہب چشتہ سے مراد سلسسلہ چشتیہ کی ذیلی شاخیں صابریہ و نظامیہ کے فیص کا سنگم ہے۔ اس سلسلہ کے امام حضرت عبد الکریم رحمتہ
اللہ علیہ عرف ملا فقیر اخوند ؒ کو متصور کیا جاتا ہے،آپ حضرت عبدالقدس گنگوہی کی اولادوں میں سے تھے۔

تاریخ تصوف کے مطابق حضرت عبدالقدوس گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ جو امام اعظم ابو حنیفہ
کی چھبیسویں پشت میں شمار کیے جاتے ہیں۔ آپ ایک ایسے صوفی بزرگ گزرے ہیں جنہیں چاروں سلاسل میں خلافت حاصل تھی اور آپ سلسلہ چشتیہ میں صابری و نظامی خلافت کے حامل بھی تھے۔ حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہیؒ بظاہر حضرت شیخ محمدؒ کے مرید و خلیفہ تھے لیکن حضرت شیخ احمد عبدالحق ردولویؒ سے انھیں بے انتہا عقیدت و تعلق تھا، اسی تعلق کی وجہ سے ان کو حضرت شیخ احمد عبدالحقؒ سے بھی فیضِ روحانی حاصل ہوا۔ سلسلہ چشتیہ نظامیہ میں حضرت شیخ عبدالقدوسؒ کو حضرت شیخ درویش بن قاسم اودھیؒ ( خلیفہ حضرت سید بڈھن بہرائچیؒ ) سے اجازت حاصل تھی۔ آپ کو غیر معمولی احتیاط اور شرعی احکامات پر عمل کے باوجود بھی سماع سے غیر معمولی رغبت تھی، لیکن اپنی اس رغبت کے باوجود آپ نے کبھی بھی سماع کے مسئلے کو شرعی نقطہ نظر سے جواز کا رنگ نہیں دیا، بلکہ اپنے عملِ سماع کو ایک مجبور و معذور کا عمل بتایا۔
حضرت ملا فقیر اخوند کی ولادت گجرات پنجاب میں 4 رجب المرجب سن 1143 ہجری کو ہوئی۔ آپکی پیشانی مبارک پربچپن ہی سے ہی آثار
ولایت و ہدایت نمایاں تھے۔ بہت کم عمری میں ہی آپ کو اپنے والد گرامی حضرت شاہ رحمت اللہ قدس سرہ العزیز کے دست حق پر بیعت توبہ کا شرف حاصل ہوا۔ جلد ہی تکمیل سلوک کے بعد آپ کے والد نے خانوادوں روح جذبیہ اور صفات کشف کون وہب حنفیہ و دیگر سلاسل میں مشرف کرکے اپنی کلاہ پہنا کرسبزعمامہ اپنے ہاتھ سے باندھ اورخرقہ پہنایا اور ساتھ ہی سرخ پٹکہ کمر سے باندھا اور خلافت نامہ جملہ تبرکات خاندانی عطا فرمائے۔ جب تک آپ کے والد حیات رہے آپ کا زیادہ تر قیام پیلی بھیت میں رہا مگر آپ کبھی کبھی رام پور بھی
تشریف لاتے رہتے تھے۔ اپنے والد کی شہادت کے بعد آپ مستقل طور پر رام پور تشریف لے آئے ۔
سن 1188 ہجری میں جناب نواب سید فیض اللہ خان صاحب بہادر نے موضع مونڈ کے پاس جاگیر آپ کی نذر کی جہاں آپ نے اپنی خانقاہ
تعمیر کی۔ آپ نے اشاعت علم ظاہری وباطنی کے ساتھ تبلیغ اسلام کا مشن بھی جاری رکھا اورکثیر تعداد میں غیر مسلم آپ کے دست حق پر داخل اسلام ہوئے۔ آپ کا دسترخوان بہت وسیع تھا اور کثیر تعداد میں طالب علم اور سالکن راہ طریقت و مہمان مسافرآپ کی خانقاہ میں رہتے تھے۔ آپ کی یہ خانقاہ علومِ باطنی کی اشاعت کا مرکز رہی تھی۔عوام الناس کے علاوہ بہت سے علماء اکرام بھی آپ کے مرید تھے۔ آپ
کے مجاہدے کا یہ عالم تھا کہ کئی برس تک آپ نے زمین کو پیٹھ نہیں لگائی۔
حضرت شاہ محمد حسن ؒصابری چشتی، رام پوری کی تصنیف حقیقت گلزار صابری میں درج ہے کہ حضرت ملا فقیر اخوند کو حضرت منور علی شاہ ؒ
نے بحکم الہامی وِباطبی طلب فرمایا تھا اور آپ بتاریخ 15؍ ربیع الاخر سن 1199 ہجری نماز اشراق کے وقت رام پور سے الہٰ آباد پہنچ کر حضرت منور علی شاہ ؒ سے قدم بوس ہوئے۔ حضرت منور علی شاہ ؒ نے انہیں دیکھ کر ارشاد فرمایا کہ اے ولایتی بہت انتظار کرایا، دو روز کی دیر ہوگی۔ کچھ توقف کے بعد آپ نے وہ تمام تبرکات و جملہ مکتوبات و مراسلات خاندانِ صابریہ جو حضرت شاہ عنایتؒ جیو صاحب ذوالقوۃ المتین بہلول پوری نے کلیر شریف سے بدست عبدالغفور ابدال کے 05 رمضان المبارک سن 1167 ہجری آپ کو ارسال کیے تھے پیش کیے۔ یوں سلسلہ صابریہ کی مرکزیت آپ کو منتقل ہوئی۔
مزید برآں، وقت زوال کے بعد حضرت منور علی شاہؒ نے حضرت ملا فقیر اخواند کو حسبِ وصیت اپنے پیر ومرشد حضرت کبیر الدین شاہ دولہؒ سے ملنے والی کلاہ معنوتہ اور وہ تمام تبرکات و ملبوسات جو حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؒ نے آپ کو عطا فرمائے تھے اور آپ کے پاس امانتاً تھے پیش کیے۔ اور سلسلۃ الذہب قادریہ کی خلافت سے سرفراز فرمایا۔
حضرت سید منور علی ؒ 28 برس کی عمر میں قطب ربانی غوث الصمدانی شیخ محی الدین عبد القادر جیلانی ؒ کے ہاتھ پر بیعت توبہ سے مشرف ہوکر 22؍ برس تک آپ کووضو کرانے کی خدمت پر مامور رہے تھے۔ ایک روز دوران وضو کراتے ہوئے آپ ؒسے عرض کی یا حضرت! آب حیات کی کیا کیفیت ہے جس کو نوش کرنے سے حضرت خضر علیہ السلام کو حیاتِ ابدی حاصل ہوئی؟ حضرتؒ نے ایک جرعہ آب سیدھےہاتھ میں لےکر ارشاد فرمایا اس وقت میرے ہاتھ میں ساڑھے چھ سو برس کی عمر کا آبِ حیات ہے تو نوش کرلے۔ جسے آپ نے نوش کرلیا۔ اس وقت آپ کی عمر 50 سال کی تھی۔ حضور غوث پاکؒ کے وصال کے (16) سولہ سال بعد حضرت شاہ دولہ ؒ جنہیں براہ راست حضور غوث پاک سے خلافت و سجادگی اور تبرکاتِ خاندانی حاصل ہوئے تھے نے حضرت منور شاہ کو اپنی خلافت سے سرفراز فرما کر حضور غوت پاک سے حاصل ہونے والےجملہ تبرکات اپنی کلاہِ مبارک اور ایک جلد حرزِ ایمانی کی عنایت فرما کر الہٰ آباد ہندوستان بھیج دیا تھا ساتھ میں یہ بھی وصیت فرمائی کہ جب مخدوم علی احمد صابرؒ کی عروجِ ولایت کا زمانہ ہو اور تم کو باطن سےاس کی خبر ملے، ایک ولایتی اولادِ حنفی کا بتلائے گا اس کو یہ سب مرحمت کردینا۔
حضرت ملا فقیر اخونؒد فرماتے ہیں میں نمازِ مغرب سے فارغ ہوکر پھر حضرت موصوف کی خدمت میں پھردوبارہ حاضر ہوا۔ حضرت نے ارشاد فرمایا کہ تم ہماری تدفین کے بعد یہاں سے روانہ ہونا اور میری پیشانی پر بوسہ دے کر اپنی پیشانی سے پیشانی ملا کر کفیتِ باطن مرحمت فرمائی اور جان بحق تسلیم کیا۔ بعدِ نماز عشاء میں حضرت ممدوح کی خدمت ِغسل اور تدفین سے فراغ ہوکر مصطفے آباد ، رام پور واپس آگیا اور اپنے فرزند غلام شاہ معصوم ؒ قطب زمانی کو ان تبرکات اور تعلیمات باطنی سے مشرف کیا جو مجھے حضرت سید منور علی شاہ ؒ نےمرحمت فرمائے تھے۔
حضرت ملا فقیر اخواندؒ کو دیگر سلاسل میں بھی مختلف شیوخ طریقت سے مندرجہ ذیل خلافتیں حاصل ہوئیں مگرغلبہ چشتیہ صابریہ کا رہا :
سلسلہ قادریہ رزاقیہ ( حضرت ملا نظام الدین قدس سرہ العزیز)
سلسلہ مداریہ (حضرت شاہ عنایت اللہ قدس سرہ العزیز)
سلسلہ قادریہ مجددیہ (حضرت خواجہ محمد زبیر قدس سرہ العزیز)
سلسلہ قادریہ اویسیہ ( حضرت میاں جی نتھی خان قدس سرہ العزیز)
سلسلہ صابریہ قدوسیہ (حضرت شیخ نصر اللہ قدس سرہ العزیز)
سلسلہ صابریہ قدوسیہ کریمیہ (حضرت شاہ عنایت اللہ قدس سرہ العزیز)
سلسلہ نظامیہ کریمیہ ( شیخ عبدالباقی قدس سرہ العزیز)
سلسلہ چشتیہ قلندریہ (شیخ عبداللہ قدس سرہ العزیز)
سلسلہ قلندریہ (حضرت عبدالرحمن قلندر قدس سرہ العزیز)
سلسلہ نقشبندیہ جنیدیہ (حضرت مولانا شاہ ولی اللہ محدث دہلوی قدس سرہ العزیز)
سلسلہ نقش بندیہ مجددیہ ( حضرت اخوند صدیق قدس سرہ قدس سرہ العزیز)
سلسلہ نقش بندیہ اویسیہ ( حضرت شاہ سدمی قدس سرہ العزیز)

حضرت ملا فقیر اخوندؒ کا یوم وصال 2 شعبان المعظم سن 1206 ہجری نبوی ہے۔رام پورمیں حلقے والی مسجد میں آپ کا مزار اقدس مرجع خلائق ہے۔ جہاں آپ کا مزار اقدس واقع ہے کی بابت منقول ہے کہ آپ کے صاحبزدے حضرت میاں غلام شاہ مؑصومؒ جو بہت عبادت گزار تھے اور انہوں نے اپنے حجرہ میں گڑھا کھود کر اسم جلالیہ کی زکواۃ جس کی تعداد ایک کڑور بیس لاکھ بیس ہزار ہے ایک سال میں پوری کی۔ اس حالت میں وہ صرف چند بار باہر نکلے مگر کسی سے بات نہیں کی ، البتہ دو تین بار اپنے والد کے حجرے میں گئے تھے اور ان کو قطب الاقطابی کی خوشخبری بھی دی تھی۔ جس حجرے میں آپ نے ریاضت کی اس میں سے نہایت عمدہ خوشبو نکلتی تھی اور لوگ اس سے مد ہوش ہوجاتے تھے۔ بعد میں آپ کے والد نے اس گڑھے کو بند کروادیااور وصیت فرمائی تھی کہ مجھے اس ہی جگہ مدفون کیا جائے۔
واضح رہے کہ اگر کسی شیخ طریقت کو ایک سے زیادہ سلاسل کا فیض حاصل ہو تو ان میں سے غالب ایک ہی سلسلے کی نسبت ہوتی ہے جو اصل نسبت کہلاتی ہے۔ اس کے علاوہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی کے ایک سے زائد مرشد ہوں جیسا کہ حضرت مجدد الف ثانی ؒ کی مثال ہے آپ کے پانچ مرشد تھے مگرغلبے کی وجہ سے حضرت مجددالف ثانی ؒ نقشبندی کہلاے۔اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں ہے کہ کوئی سلسلہ دوسرے سلسلہ سے بہتر یا بلند ہے۔ اس ضمن میں کبھی کبھار ایسا بھی ہوجاتا ہے کہ غلبہ کسی اور سلسلے کا ہوجائےجیسے حضرت طاہر بندگیؒ کے مکتوب سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب آپ کو حضرت بابا فرید گنج شکر کی زیارت ہوتی تھی تو آپ کی نقشبندی نسبت سلب ہوجاتی تھی۔ یہاں یہ بھی صراحت ضروری ہے کہ اگر کسی شیخ طریقت کو ایک سے زائد نسبتیں حاصل ہوں تو اس کے خلفاء کو صرف وہی نسبت حاصل ہوتی ہے جن کا شیخ نےخود تذکرہ کیا ہو اوراس سلسلے میں منازل سلوک طے کروائے ہوں۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ دو شیوخ کا آپس میں گہرا محبت کا رشتہ ہوجاتا ہے اور وہ ایک دوسرے کو اپنی نسبتیں ہدیہ کے طور پر پیش کردیتے ہیں تو ایسی صورت میں کیوں کے دونوں شیوخ کامل ہوتے ہیں انہیں با قاعدہ منازل سلوک طے کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی نسبت کے فیض سے مقامات خود بخود طے ہوتے ہیں۔ والسلام
مرتبہ کردہ: محمد سعید الرحمن، ایڈوکیٹ۔


Comments

Popular posts from this blog

سلسلہِ صندلیہ . حضرت علی محمد المعروف میاں صندل شاہ رحمتہ اللہ علیہ

جون ایلیا ایک تعارف