خواب کی تعبیر ( تعبیر رویا)


 






خواب کی تعبیر ( تعبیر رویا)
ٓ====================

تحریر کردہ : محمد سعید الرحمن ایڈوکیٹ

خواب بھی ہماری عملی زندگی کا ایک جزہیں مگر ہم انہیں نظر انداز کردیتے ہیں۔ اگر ہم ان خوابوں سے استفادہ حاصل کریں تو ہماری بہت سی پریشانیاں اور مشکلات دور ہوسکتی ہیں۔جب کہ ان خوابوں کی رویت ایک خاص مقصد کے تحت منجانب اللہ تعالیٰ ہوتی ہے اور ان کا شمار مبشرات میں بھی ہوتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے الَّذِينَ آمَنُواْ وَكَانُواْ يَتَّقُونَO لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَياةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ. قرآن مجید کی تمام تفاسیر میں ہے کہ (لَهُمُ الْبُشْرَى )بشارت سے مراد وہ نیک خوابہیں جو اللہ رب العزت ایمان والوں کو عطا کرتا ہے۔ وَكَذَلِكَ يَجْتَبِيكَ رَبُّكَ وَيُعَلِّمُكَ مِن تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ. (سورہ یوسف) اسی طرح تمہارا رب تمہیں (بزرگی کے لئے) منتخب فرما لے گا اور تمہیں باتوں کے انجام تک پہنچنا (یعنی خوابوں کی تعبیر کا علم) سکھائے گا۔ ان آیت مبارکہ کے بعد خواب کا انکار کر دینا کہ خواب کا کوئی وجود نہیں ہے یا یہ گمان کرنا کہ خواب محض جھوٹ اور من گھڑت ہوتے ہیں جہالت اور لاعلمی ہے ۔ بنی اکرم ﷺ کا فرمان ہےمن لم يومن بالرويا الصالحه لم يومن باﷲ ولا باليوم الآخرة. ( جو شخص نیک خوابوں پر ایمان نہیں رکھتا وہ اللہ اور آخرت پرایمان نہیں رکھتا)۔حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااچھا خواب نبوت کے چھیالیس حصوں میں سے ایک حصہ ہے (صحیح بخاری ومسلم) ۔

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ معمول تھا کہ صبح کی نماز سے فارغ ہو کر صحابہ کرام کی طرف متوجہ ہو کر بیٹھ جاتے اور پوچھتے کہ کیا تم نے آج رات کوئی خواب دیکھا ہے اور یہ بھی فرماتے کہ میرے بعد نبوت باقی نہیں مگر نیک و صالح خواب باقی ہیں۔ اگر خواب بیان کرنے کی ممانعت ہوتی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی بھی ہر روز نماز فجر کے بعد بھری محفل میں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے ان کے خوابوں کے متعلق نہ پوچھتے اور انہیں سب صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے سامنے بیان کرنے کی اجازت نہ دیتے اور نہ ہی آپ تمام صحابہ کے سامنے ان کے خواب کی تعبیر بیان کرتے بلکہ حضور نبی اکرم ﷺ نے تو بذات خود صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی مجلس میں اپنے خواب بیان کیے ہیں۔ 

علامہ ابن سیرین جو تعبیر رویا کے امام متصور کیے جاتے ہیں فرماتے ہیں کہ خواب تین قسم کے ہوتے ہیں۔
(۱) ایک خواب رویا صادقہ جسکی پیدایش و رویت دونوں منجانب اللہ تعالیٰ کی طرف سےاپنے بندے کو بشارت ہے۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضور اکرم ﷺ سے سنا ہے کہ ایک دن صحابہ اکرام سے فرمارہے تھے کہ جب تم میں سے کوئی شخص کوئی اچھا خواب دیکھے تواس چاہیے کہ وہ حق تعالیٰ کا شکریہ ادا کرئے اور اس خواب کو اپنے مومن دوستوں اور بھائیوں کے سامنے بیان کرئے۔ ایک مرفوع حدیث ہے کہ جو شخص سب سے زیادہ راست گو ہے اس کا خواب بھی سب سے زیادہ سچا ہے۔ حضرت کرمانی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا مسلمانوں کا خواب کافروں کے خواب سے زیادہ سچے ہوتا ہے اور دانا کا خواب نادان کے خواب سے اور صالح آدمی کا خواب فاسق کے خواب سےبوڑھے لوگوں کا خواب بچوں کے خواب سے ، آزاد عورت کا خواب باندی کے خواب سےبہتر ہوتا ہے۔اگر بُرا خواب دیکھنے والا نیک بندہ ہے تو وہ چند بار أعوذ بالله من الشيطان الرجيم پڑھےاور اس بد خواب کو کسی سے نہ بیاں کرئے تاکہ اس کو کسی قسم کا نقصان اور صدمہ نہ پہنچے۔ اگر خواب دیکھنے والا کوئی ہولناک خواب دیکھے جس سے وہ خوف زدہ ہوجائے تو اس چاہیے کہ وہ تین دفعہ آیت الکرسی پڑھ کر اپنے اوپر دم کرلے، اس کے بعد دو رکعت نفل پڑھے اور صدقہ دے دے تو اُس خواب کے شر اور نقصان سےمحفوظ رہے گا۔
(۲) دوسری قسم خواب کی جھوٹااور مکروہ خواب ہے جو شیطان کی طرف سے القاء ہوتا ہے اس القاء سے شیطان کی غرض وغایت مومن کو ملول وغمزدہ کرنا ہوتی ہے ۔ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مروی ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا جب کوئی شخض مکروہ خواب دیکھے تو تین مرتبہ بائیں طرف تف کرکے شیطان سے اللہ کی پناہ چاہے اور اس کروٹ کو بدل دےجس پر خواب دیکھتے وقت تھا۔ اکل حلال اور صدق مقال کا بھی خواب میں دخل ہے۔ جو حضرات متوحش خواب دیکھتے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ اپنی اخلاقی حالت کا جائزہ لیں خصوصاً حرام یا مشتبہ غذا ، غیبت ، کذب بیانی سے اجتباب کریں جو اس بات کی طرف اشارہ ہے۔
(۳) تیسری قسم نفسانی خواب کی ہے یعنی انسان دن بھر جن امور میں مشغول رہتا ہے اوراس کے دل ودماغ پرجو باتیں چھائی رہتی ہیں وہی رات میں بصورت خواب مشکّل ہوکر نظر آتی ہیں اس طرح کے خواب کا کوئی اعتبار نہیں۔ حضرت دانیال علیہ السلام فرماتے ہیں جب کسی کی طبعیت پر گوشت اور حلوہ اور شراب کے استعمال سے خون غالب ہوگا، اسی طرح جب کسی کی طبعیت پر گرم یا خشک چیزیں کھانے سے صفراء کاغلبہ ہوجائے یا کسی شخص کی طعبیت میں بلغم بڑھانے والی چیزیں کھانے سے نعم کا غلبہ ہوجائے یا کسی شخص کی طبعیت پر سودا انگیز چیزوں (نمک ، گوشت یا ترش چیزیں )کے کھانے سے خلط سودا کا غلبہ ہوجائے اگر ایسا شخص کوئی خواب دیکھے جو ان غذاوں کے اثرات کی وجہ سے ہے تو اس کے خواب کی کچھ اصلیت و تعبیر نہیں اور اس کا خواب بھی بے اصل ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک اعرابی حضور اکرم ﷺ کے پاس آٓیا اور اپنا ایک پریشان خواب بیاں کرنے لگا ، حضور اکرم ﷺ نے اس اعرابی سے پوجھا تو نے کیا کھایا تھا ، اس نےعرض کیا کہ میں نے بہت پختہ کھجور کھائے تھے، آپﷺ نے فرمایا اس خواب کی تعبیر درست نہیں آئے گی۔

جب یہ ثابت ہوگیا کہ خواب ایک پُر اسرار نعمت ہیں تو ساتھ یہ بھی لازمی طور پرثابت ہوگیا کہ خواب کی تعبیر کاعلم بھی ایک نہایت اعلیٰ اور افضل چیز ہے۔

کیونکہ خواب کا اسلوب عموماً تمثیلی ہوتا ہے، بات علامتوں اور استعاروں کے ذریعے سمجھائی جاتی ہے اور انہی علامتوں اور استعاروں سےمفہوم اخذ کرنا خواب کہلاتا ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ جب کوئی خواب دیکھے تو اس خواب کی تعبیر جاننی واجب ہے تاکہ نیک خواب سے خوشی کا حصہ پائےاور بُرے خواب سے بچےیعنی دعا ، عبادت اور صدقات میں مشغول ہوجائے ۔ ابوداود کی روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا اپنا خواب کسی دوست یا ذی رائے کے سوا کسی کے سامنے نہ بیاں کرو۔۔حضرت امام جعفر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ چارقسم کے لوگوں سےتعبیر خواب پوجھنا منع ہے:

(1)   بے دین لوگوں سے

(2) عورتوں سے

(3) جاہلوں سے جو علم دین سے بخوبی واقف نہ ہوں

(4) دشمنوں سے کیونکہ اندیشہ ہے کہ وہ خواب کی بُری تعبیر بتا دیں اور یہ ظاہر ہے کہ خواب کی تعبیر جیسی بتائی جائے گی ویسی ہی واقع ہوگی۔

امام سیرین رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ معبر کاعالم دین ہونے کے علاوہ ضروری ہے کہ وہ لوگوں کے اطوار و خصائل و عادات کوو خوب پہچانے والا ہو اور اللہ تعالیٰ سے ہمیشہ یہی توفیق مانگتا ہو اور گناہوں سے بچتا رہتا ہو لقمہ حرام کھانے اور بے ہودہ باتیں کہنے سے دور رہتا ہو.

ابن سیرینؒ  باوجود یہ کہ علم تعبیر کے امام تھے لیکن جس خواب کی تعبیر سمجھ میں نہیں آتی تھی اس کی تعبیر ہرگز نہیں بیان کرتے تھے۔ آپ فرماتے ہیں کہ معبر کو چاہیے کہ وہ پہلے خواب بیان کرنے والے کے خواب کو اچھی طرح سننے اور اس کی تعبیر کو خوب اچھی طرح سمجھے اور اس میں غور و تامل کرئے۔ اگر کوئی بات سخت ہو لیکن اس کے معنی صحیح ہوں تو جس طرح اس کی تعبیر کا احتمال ہو اس کے مطابق اس وقت تعبیر کردے۔ اگر بات کے درمیان کوئی فضول مضمون ہو تو اس کو الگ کردے اور اصل بات کی تعبیر کرئے اگر تمام خواب بے جوڑ اور مختلف ہو اور اس کا مضمون ایک دوسرے سے نہیں ملتا ہو تو ایسے خواب کو پریشان خواب سمجھے اور اس کی تعبیر نہ دے۔ حضرت دانیال علیہ السلام فرماتے ہیں کہ (معبر) تعبیر دینے والےچاہیے کہ وہ یو ں ہی بلا سوچے سمجھے اپنی طرف سے ہرگز ہرگز تعبیر نہ بتائے ۔ حضرت جابر ؒ فرماتے ہیں کہ معبر کو تعبیر خواب میں ایسا تجربہ کار ہونا چاہیے جیسے طبیب بیماروں کے علاج میں تجربہ کار ہوتا ہے۔ والسلام

(محمد سعید الرحمن ایڈوکیٹ)

 

Comments

Popular posts from this blog

جون ایلیا ایک تعارف

Hazrat Sayyed Ahmad Kabir Rifai Rahematullah Alaih / حضرت شیخ سید احمد کبیر رفاعی قدس سرہ العزیز