حضرت موسیٰ سہاگ رحمتہ اللہ


مام المجاذیب حضرت مولوی سیدی موسیٰ سہاگ رحمتہ اللہاا
چوڑیاں اور زنانہ لباس پہنے والے ایک بزرگ (سدا سہاگن)
===================================
حضرت سیدی موسیٰ سہاگ رحمتہ اللہ علیہ کا شمار مشہور مجازیب میں ہوتا ہےجو ایک مردکامل تھے مگر زنانہ وضع اختیار کیے ہوئے تھے۔ آپ سلسلہ سہروردیہ میں حضرت سکندر بود رحمتہ اللہ علیہ کے مرید تھےجن کا مزار سندھ کے شہر سہون میں لال شہباز قلندر کے دربار کے قریب ہی واقع ہے۔ حضرت سیدی موسیٰ سہاگ ہاتھوں میں چوڑیاں پہنتے تھے۔ ہیجڑوں رقاصوں اور گانےوالوں کے ساتھ محفل سماع کرتے تھے اور ان ہی کے طرز کا لباس میں رہ کر اپنے آپ کو پوشیدہ رکھے ہوئے تھے۔ لوگ انہیں ہیجڑہ ہی سمجھتے تھے۔ کہاں رہتے ہیں؟ کیا نام ہے؟ احمد آباد میں کسی کو معلوم نہیں تھا۔ کوئی نام پوچھتا تو کہتے تھے میں اللہ کی گھر والی ہوں اور آپ وہاں اس ہی نام سے مشہور ہوگے تھے۔
امام احمد رضاخاں بریلویؒ فرماتے ہیں کہ حضرت سیدی موسیٰ سہاگ رحمتہ اللہ علیہ مشہور مجاذیب سے تھے، زنانہ وضع رکھتے تھے ۔ احمدآباد، گجرات میں آپ کا مزار شریف ہے،میں زیارت سے مشرف ہوا ہوں۔ آپ کا تذکرہ یوبند کےمکتب فکر کے مشائخ بلخصوص قطب الاقطاب شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریہ صاحب مہاجرمدنی قدس سرہ کے خلیفہ اجل مولانا محمد یوسف ابن سلیمان متالا ؒ نےاپنی تصنیف مشائخ احمد آباد میں، حضرت محمد روح اللہ نقشبندیؒ نے اپنی تالیف مجاذیب کی پُراسراردنیا میں اور حضرت شاہ ولی اللہ رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب القول الجلی فی ذکر آثارالولی میں بھی بڑی تکریم کے ساتھ کیا ہے ۔
کیونکہ حضرت منصور الحلاجؒ کی طرح آپ کا روحانی مقام بھی تصوف میں ہمیشہ متنازعہ رہا ہے۔ مگر جو علماء وصوفیاء اکرام مجازیب کے مقام و مرتبہ کو سمھتے ہیں وہ آپ کو ولی اللہ اور صاحب مقام بزرگ متصور کرتے ہیں ۔ اس لیے معترضین کو آپ کے روحانی مرتبے اور مقام کو جاننے کے لیے تصوف میں مجذوب کا مقام کیا ہے؟ جاننا بہت ضروری ہے۔
راہِ طریقت میں ظاہری شرع پرعمل کرتے ہوئے سلوک کی منزلیں طے کرنے والےسالک کہلاتے ہیں اور یہ شرع پر ہرحال میں کاربند رہتے ہیں۔ جب کہ مجذوب پر ظاہری شرع ساقط ہو جاتی ہے۔ کیونکہ شریعت ہوش مند پر نافذ ہوتی ہے۔ مجذوب ظاہری اعتبار سے مد ہوش ہوتے ہیں۔ یہ اپنے باطنی اسرار و رموز میں محو و مست رہتے ہیں جو اللہ کی طرف سے عطا کردہ ہوتے ہیں۔ ان کا ہر عمل، ہر حرکت ، ہر ہر ادا مصلحت سے بھرپور ہوتی ہے۔ ان کی ہر بات کے پیچھے کوئی تمثیل ہوتی ہے ۔ بعض اوقات غیر متوقع بات کر دیتےہیں۔ کسی کو گالی دے دیں گے۔ مگر ہر بات کسی مصلحت کی بناء پر ہوتی ہے۔ مجذوب کی عزت و تکریم اپنی جگہ مسلم ہے اور انکی گستاخی سے ایمان جانے کا بھی خطرہ ہوتا ہے کیونکہ یہ اللہ والے ہوتے ہیں اور اللہ کے ہاں بہت خاص مقام و مرتبہ رکھتے ہیں۔ اکثر ان کے ایک جملے سے زندگیاں بدل جاتی ہیں اور ان کے ایک ہی جملے سے اجیرن ہو جاتی ہیں ۔
مجذوب اللہ کے بہت قریب ہوتے ہیں یہ اپنی زبان میں بہت تاثیر رکھتے ہیں۔ عشق الہی سے سرشار ہوتے ہیں۔ان پر ہمیشہ وجدان کا عالم طاری رہتا ہے، انہیں ہر شے میں اللہ کا خیال ہوتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے "تم جس طرف بھی نظر اٹھاؤ گے تمہیں اللہ کا چہرہ نظر آئے گا(البقرہ)۔ یہ جذب میں ہوں اور ان کے جسم کا کوئی حصہ کاٹ بھی دیا جائےتو بھی انہیں تکلیف نہیں ہوتی کیوں کہ انکی وہ حس جو درد محسوس کرتی ہے مردہ ہو چکی ہوتی ہے عام لوگ انہیں پاگل خیال کرتے ہیں مگر یہ تو خود کو خدا کے عشق میں فنا کیے بیٹھے ہوتے ہیں۔
حضرت سید سلیمان ندویؒ سے پوچھا گیا کہ تصوف کیا ہے تو آپ نے فرمایا کہ اپنے آپ کو مٹا دینےکا نام تصوف ہے اور جب اللہ کے عشق میں خود کو مٹا کر فنا کر دیا جائے اوراپنی انا کو ختم کر دیا جائے تو پھر وہ شخص مجذوبیت اور کشف کے دائرات میں داخل ہوتا ہے۔
حضرت موسیٰ سہاگ ؒ کا وہ قول جوقابل اعتراض ہے (خود کو اللہ کے گھر والی کہنا) کی بابت تصوف کی مختلف مستند کتب میں درج ہے کہ حضرت موسیٰ سہاگ جب کبھی بازار میں نکلتے تھے تو اوباش نوجوان آپ پر آواز کستے، مذاق کرتے آپ کا دوپٹہ کھینچتے، فحش قسم کی حرکتیں کرتے تھے مگروہ صبر سے سہ لیتے تھے، زیادہ تنگ کرتےتو اتنا کہہ دیتے، اجی چھوڑ اللہ کے گھر والی سے مذاق اچھا نہیں۔ ایک دفعہ احمد آباد کےعلماء نے آپ کو جامع مسجد بلوایا اور آپ وہاں گے،علماء نے آپ کو آپ کی مرضی کے خلاف زنانہ لباس اُتروا کر سفید مردانہ لباس پہنایا، وضو کرکے آپ نماز میں شریک ہوئے، امام نے تکبیر تحریمہ کہی، اﷲ اکبر سنتے ہی ان کی حالت بدلی۔ فرمایا: ﷲ اکبر، میرا خاوند حی لا یموت ہے کہ کبھی نہ مرے گا۔ اور یہ مجھے بیوہ کیے دیتے ہیں۔ اتنا کہنا تھا کہ سر سے پاؤں تک وہی سرخ لباس تھا اور وہی چوڑیاں۔نماز کے بعد آپ نے فرمایا کہ میرا میاں کہتا ہے کہ تو سہاگن رہے، ارے میں اپنے میاں کے کہنے پر چلوں گی۔ یہ کرامت دیکھ کر علماء متعجب ہوئے اور آپ کو آپ کے حال پر چھوڑ دیا۔
حضرت قطب الاقطاب حضرت شاہ سید محمد ذوقی قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں حضرت موسیٰ سہاگؒ مجذوبیت سے قبل دہلی کے ایک معروف عالم تھے، آپ ایک دفعہ حضرت محبوب الہیٰؒ کے مزار اقدس پر فاتحہ کے لیے حاضر ہوئے وہاں انہوں نے دیکھا کہ ہیجڑے کھڑے گارہے ہیں یہ دیکھ کر آپ کے دل میں خیال آیا کہ صاحبِ مزار کو یہ چیزیں منظور ہیں جب ہی یہاں ہونے دیتے ہیں ورنہ یہ خرافات یہاں کہوں ہوں۔
اس خیال کے کچھ عرصے بعد وہ حج پر گئے اور قافلے کے ساتھ مکہ المکرمہ سے مدینہ شریف جار ہے تھےکہ رات میں خواب میں حضور اکرم ﷺ کی زیارت ہوئی آپﷺ خشمگین تھے اور حکم فرمایا ہمارے پاس مت آؤ واپس چلے جاؤ۔ جب بیدار ہوئے تو مغموم بہت تھے مگر واپس کیسے جاسکتے تھے کیونکہ قافلے کے ساتھ تھے۔دوسرے روز پھر حضور اکرم ﷺ نے سختی سے منع فرمایا۔ اس سے وہ بہت گھبرائے اور سفر جاری رکھا، تیسری رات حضور اکرم ﷺ نے فرمایا واپس چلے جاؤ ورنہ ایمان سے بھی محروم کردئیے جاؤ گے۔
اب وہ بہت بے چین ہوئے، قافلہ چھوڑ کر وہیں بیٹھ گئے،حیران تھے کہ اب کیاکریں۔ لوگوں سے کسی اہل اللہ کا پتہ دریافت کیا، لوگوں نے بتایا کہ دائیں جانب گاؤں میں ایک بزرگ رہتے ہیں۔ چنانچہ آپ اس بزرگ کے پاس گے اور پورا ماجرا بیان کیا۔ انہوں نے تھوڑی دیر کے لیے گردن جھکائی اور آنکھیں بند کرلیں، اس کے بعد سر اُٹھا کر فرمایا رسول اکرم ﷺ آپ سے سخت ناراض ہیں آپ سے کسی ولی اللہ کی شان میں بے ادبی سرزد ہوئی ہے۔ چنانچہ انہوں نے سوچنا شروع کیا تو وہی واقعہ یاد آگیا جب ہیجڑے حضرت محبوب الہیٰ کے دربار میں گار ہے تھے اور جو بےادبی کا خیال ان کے دل میں گزرا تھا۔
لہذا آپ وہاں سے واپس دہلی آئے اور معافی طلب کرنے کی خاطر حضرت سلطان المشائخ کے دربار میں حاضر ہوئے لیکن معافی اسطرح پر مانگی کہ ہیجڑوں کے سے کپڑے پہن لیے، ہاتھوں میں چوڑیاں پہن لیں۔ ناک چھدوالی اور وہی ہیجڑوں کی طرح گاتے بجاتے حاضر ہوئے،اس لیے ان پر ایک نظر عنایت ہوئی اور ان کا کام بن گیا۔پہلے وہ خالی تکلف سے گارہے تھے، بعدہُ کیف و مستی کی حالت میں آکر گاتے رہے اور اس کے بعد گھر چلےگئے لیکن وہ کپڑے نہیں اتارے۔ کسی محرم راز نے ان سے کہا اب تو کام بن گیاہے ان کپڑوں کو اتار دیجیے، جس پر انہوں نے کہا واہ جس لباس کی وجہ سے نواز گیا ہوں اب اس سےمیں کس طرح جدا ہوسکتا ہوں۔ چنانچہ وہ ہمیشہ اس ہی طرح کے لباس میں رہے۔ کیونکہ آپ خود بھی دہلی کے رہنے والے تھے اورعالم تھے لوگ انہیں جانتے تھے لیکن انہوں نے لوگوں کی کوئی پرواہ نہیں کی۔ جب لوگوں نے انہیں تنگ کرنا شروع کیا تو آپ دہلی سے احمد آباد، گجرات چلے گے۔وہاں کسی بڑی طوائف کے ہاں ملازم ہوگئے اور روزانہ اس کی خدمت کرتے اور برتن مانجتے تھے۔
ایک مرتبہ احمدآباد شہر میں قحط پڑا اور شہر میں کہیں بارش نہ ہوئی۔ علماء و صلحائے شہر جمع ہوکرایک بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور درخواست کی کہ آپ دعا فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ بارش بھیجے، انہوں نے فرمایا میں کوئی چیز نہیں ہوں فلاں طوائف کے پاس ہیجڑوں کے لباس میں ایک بزرگ رہتے ہیں ان کے پاس جاؤ ، اگرانہوں نے ہاتھ اُٹھا دئیے تو تمھارا مقصد پورا ہوجائے گا۔
چنانچہ یہ لوگ حضرت موسی سہاگ سہروردی کی خدمت میں جا پہنچے اور عرض گزار ہوے۔انہوں نے جواب دیا مجھے دعا سے کیا تعلق میں گناہ گار بندی اس طائفہ میں گزر کرتی ہے ۔ دعا کسی اللہ والےسے جاکر منگواؤ۔ لوگوں نے کہا کہ حضورہم آپ کے مقام کو اچھی طرح جان چکے ہیں ،آپ اللہ کے ولی اور مقرب ہیں۔
آپ نے کہا کہ سوکن نے رازفاش کردیا۔
لوگوں کے اصرار یعنی بار بار عرض کرنے پر حضرت موسی سہاگ نے آسمان کی طرف اپنا چہرہ کیا اور آبدیدہ ہو کر ( رو کر ) عرض کی " میرے خاوند ( مالک ) اگر ابھی ابھی پانی نہ برسا تو میں اپنا سہاگ ٹوڑ دوں گی یوں کہہ کر چوڑیاں توڑ نا ہی چاہتے تھے کہ اچانک ابر اٹھا اور خوب پانی برسا۔ لوگ آپ کی یہ کرامت دیکھ کر پہلے سے زیادہ آپ کے عقیدت مند ہوگئے اسی دن سے آپ کی ولایت کا شہرہ پورے ملک ہندوستان خصوصا گجرات میں مشہور ہو گیا ۔
آپ اپنی اس کرامت کے ظہور کے بعد جب وہاں سے بھاگے۔لوگ بھی ان کے پیچھے بھاگے تھے۔ جب کچھ دور ایک مقام پر پہنچے تو زمین شق ہوگی اور وہ اندر گھس گئے۔ لوگوں نےاس مقام کو کھودنا شروع کیا چنانچہ وہ وہاں سے بھاگ کر وسرے مقام پر زمین کے اندر گھس گے۔ جب لوگوں نے وہاں کھودنا شروع کیا تو تیسرے مقام پر گم ہوگے اور جب لوگوں نےاس مقام کو بھی کھودنا شروع کیا تو چوتھے مقام پر گم ہوگئے۔ اب لوگوں نے کھودنا بند کردیا اور وہ ہمیشہ کے لیے گم ہوگئے۔ ان چاروں مقام پر مقبرے بنادئیے گئے ہیں۔ آپ کا عرس مبارک ہر سال ۱۰ رجب المرجب کو انتہائی ادب و احترام کے ساتھ منایا جاتا ۔ آپ سدا سہاگیہ سلسلے کے بانی ہیں ۔آپ کا گروہ سدا سہاگیہ کے نام سے جاری ہوا ۔اس سلسلے سے وابستہ لوگ اب تک موجود ہیں اوراجمیر شریف و یگر مقامات پر زنانہ کپڑوں میں نظر آتے ہیں اورسدا سہاگن کے نام سے جانے جاتے ہیں۔
والسلام (محمد سعید الرحمن ایڈوکیٹ)
.

Comments

Popular posts from this blog

سلسلہِ صندلیہ . حضرت علی محمد المعروف میاں صندل شاہ رحمتہ اللہ علیہ

جون ایلیا ایک تعارف