جون ایلیا ایک تعارف
جون ایلیا ایک تعارف
===============
جون ایلیا 14 دسمبر، 1937ء کو امروہہ، اتر پردیش کے ایک نامور خاندان میں پیدا ہوئے۔ آپ برصغیر پاک و ہندمیں نمایاں حیثیت رکھنے والے شاعر، فلسفی، سوانح نگار اور عالم تھے اور وہ اپنے انوکھے انداز تحریر کی وجہ سے علمی و ادبی حلقوں میں شہرت کے حامل ہیں۔ آپ معروف صحافی رئیس امروہوی اور فلسفی سید محمد تقی کے بھائی اور مشہور کالم نگار زاہدہ حنا کے سابق خاوند تھے۔
جون ایلیا کو عربی، انگریزی، فارسی، سنسکرت اور عبرانی میں اعلیٰ مہارت حاصل تھی۔ وہ اپنے بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ ان کے والد، علامہ شفیق حسن ایلیا کو فن اور ادب سے گہرا لگاؤ تھا اور اس کے علاوہ آپ کے والد نجومی اور شاعر بھی تھے۔
جون ایلیا کی ابتدائی تربیت ایک فلسفیانہ مذھبی گھرانے میں ہوئی۔ جون ایلیا امروہہ کے سید المدارس کے طالب علم بھی رہے۔ یہ مدرسہ امروہہ میں اہل تشیع حضرات کا ایک معتبر مذہبی مرکز رہا ہے۔ اگرچہ خاندانی طور پر اثنا عشری شیعہ تھے مگر عربی زبان اور فلسفہ دیوبندی علماء سے حاصل کرتے رہے اور آخر تک آپ ان علماء کے فقر و تقوی کے معترف رہے۔ چونکہ جون ایلیا خود شیعہ تھے اس لیے وہ اپنی شاعری میں جابجا شیعی حوالوں کا خوب استعمال کرتے تھے۔ حضرت علی علیہ السلام کی ذات مبارک سے انہیں خصوصی عقیدت تھی اور انہیں اپنی سیادت پر بھی ناز تھا۔۔
اپنی جوانی میں آپ عبد الکلام کی طرح ہندوستان کی تقسیم کے سخت خلاف تھے لیکن بعد میں اسے ایک سمجھوتہ کے طور پر آپ نے قبول کر لیا اور 1957ء میں پاکستان ہجرت کی اور کراچی کو اپنا مسکن بنایا اور جلد ہی وہ شہر کراچی کے ادبی حلقوں میں مقبول ہو گئے۔ آپ اردو میں ڈائجسٹ شروع کرنے والے ابتدائی لوگوں میں سے تھے اور آپ نے طویل عرصے تک عالمی ڈائجسٹ کی ادارت بھی کی۔
اسلامی صوفی روایات، اسلامی تاریخ، اسلامی سائنس، فلسفہ، منطق، مغربی ادب اور واقعۂ کربلا پر آپ کا علم کسی انسائکلوپیڈیا کی طرح وسیع تھا۔ اس علم کا نچوڑ انہوں نے اپنی شاعری میں بھی داخل کیا تا کہ اپنے ہم عصروں شعرا، علمی و ادبی حلقوں میں نمایاں مقام حاصل کرسکین۔ ان کی شاعری ان کے متنوع مطالعہ کی عادات کا واضح ثبوت تھی، جس وجہ سے انہیں وسیع مدح اور پزیرائی حاصل ہوئی۔
جون ایلیا نے عربی کی تعلیم دیو بند سے حاصل کی وہ عربی کے بے پناہ صلاحیت رکھنے والے مترجم تھے اور انہوں نے ’ کتاب التواسین ‘ سیمت متعدد تصانیف کے تراجم کیے جو ان کی زندگی میں شائع نہ ہو سکے۔ ان کی مطبوعہ نثری کتب میں حسن بن صباح، جوہر صقلی اور فرنود کے نام شامل ہیں جبکہ ان کے شعری مجموعے شاید، یعنی، لیکن، گمان اور گویا کے نام سے اشاعت پذیر ہوچکے ہیں۔ ان کی علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی ایوارڈ بھی دیا تھا۔
مسلم فلاسفر و متکلیمن کے ہاں ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ خدا کو موجود کہنا خدا کو محدود کردینے کی طرح ہے۔ اسلامی الہیات میں یہ نظریہ تنزیہہ کہلاتا ہے۔ مسلم فلاسفی (علم الکلام ) میں معتزلہ اور تصوفِ اسلام میں حضرت شیخ محی الدین ابن عربی قدس سرہ العزیز دونوں کے ہاں الہیّات کے حوالے سے تنزیہہ کا ذکر پوری آب و تاب کیساتھ ملتا ہے۔ معتزلہ نے اسی بنیاد پر ایک درجے میں صفات کا انکار کیا کہ اس سے ذات باری تعالیٰ کا حادث ہونا اور تعدّد لازم آتا ہے۔ کیونکہ جون ایلیا اپنی ذہنی عبقریت کیساتھ یقیناً ان مباحث سے اعلی درجے پر واقف رہے ہیں اور اس نظریے کے پس منظر کو جاننے کے بعد ہی اس طرح کے اشعار کہے ہیں:
اے خدا ! جو کہیں نہیں موجود
کیا لکھا ہے میری قسمت میں
کیا لکھا ہے میری قسمت میں
یُوں جو تکتا ہے آسمان کو تُو
کوئی رہتا ہے آسمان میں کیا؟
کوئی رہتا ہے آسمان میں کیا؟
مسلم مفکرین کی متفقہ رائے ہے کہ جو بالا شعر پڑھ کر یہ حکم جاری کردے کہ جون ایلیا خدا کے منکر، اور ملحد تھے!۔ تو ان کے فکری و عقلی افلاس پر ماتم کرنا چاہیے ۔برصغیر پاک و ہند کے یہ ممتاز ادیب، منفرد شاعر، مشہور فلسفی اور معروف تاریخ دان طویل علالت کے بعد 8 نومبر 2002ء کو کراچی میں انتقال کر گئے۔ اور انہوں نے اپنی وفات سے قبل اپنے بارے میں یہ شعر کہا تھا جو حقیقت حال ہے۔
فکر مر جائے تو پھر جون کا ماتم کرنا
ہم جو زندہ ہیں تو پھر جون کی برسی کیسی
ہم جو زندہ ہیں تو پھر جون کی برسی کیسی
والسلام (محمد سعید الرحمن ایڈوکیٹ)
Wonderful .
ReplyDelete