مراقبہ Meditation / Muraqba


Image may contain: one or more people
مراقبہ ۔  اسلامی تصوف میں اہمیت و افادیت
==========================================

مراقبہ اس تفکر کا نام ہے جس سے انسان اس علم کو حاصل کر لیتا ہے جو اس کی اپنی انا، ذات، شخصیت یا روح کا علم ہے۔ مراقبہ کا بنیادی اصول یہ ہے کہ دل کو دوسرے خیالات سے ہٹا کر ایک ہی خیال پر جما دیا جائے اور اسی خیال کے اندر فکر میں منہمک ہوجایا جائے۔ تفکر اور مراقبہ کا تعلق باطنی حواس سے ہےاس لیے اس علم کو علم ِباطن بھی کہتے ہیں۔
مراقبہ دل و دماغ کی استغراق والی کیفیت کا نام ہے۔ یہ کفیت دو طرح سے پیدا ہوتی ہیں ایک وہبی (ازخود )ہے جو اللہ کے مخصوص بندوں کو من جانب اللہ حاصل ہوجاتی ہے جیسے انبیاء کرام اور اولیاء کرام اور دیگر مخصوص بندے اور دوسری کسبی (اپنی محنت شاقہ سے)جس کے دو طریقے ہیں

۔ طریقہ محمود 1
۔ طریقہ غیر محمود۔ 2

 ذکر و ازکار کے ذریعے دل و دماغ کویکسوی کرلینا اور خود کو اللہ تعالیٰ کےحضورمیں حاضر سمجھنا مراقبہ ِ محمود کہلاتا ہے اور باقی مراقبے کی تمام مشقیں جیسا کہ ہپناٹزم والے یا جوگی اور مشرکین کسی چیز کا تصور جماکر یا سامنے رکھ کر کرتے سب شرک اور غیر اسلامی طریقہ ہے اور غیر محمود ہیں۔

اصطلاحات صوفیاء میں مراقبہ سے مراد دل کی ماسویٰ اللہ سے نگہبانی کرنا ہے ۔ مراقبے کا انحصار دل پر ہے ۔ دل جب متوجہ الی اللہ یا غیر اللہ ہوتا ہے تو سب اعضا ء بھی اسی کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں کیونکہ یہ سب دل کے تابع ہیں۔

اسلامی تصوف میں اللہ سےربط اور تعلق قائم کرنے کے لئے مراقبہ ضروری ہے۔ مراقبہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وہ پہلی سنت ہے کہ آپ نبیﷺ نے غار حرا میں طویل عرصے تک عبادت و ریاضت کی ہے جس کے نتیجے میں حضرت جبرئیلؑ سے رسول اللہﷺ کی گفتگو ہوئی اور ہادی برحق سرور کائنات سرکار دو عالم سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پر قرآن نازل ہوا۔

بالفاظ دیگر دنیاوی معاملات، بیوی بچوں کے مسائل، دوست احباب کے تعلقات سے عارضی طور پر رشتہ منقطع کر کے یکسوئی کے ساتھ کسی گوشے میں بیٹھ کر اللہ کی طرف متوجہ ہونا مراقبہ ہے۔

جب کوئی سالک اس کیفیت کے ساتھ مراقبہ کرتا ہے تو اس کے اوپر غیب کی دنیا کے دروازے کھل جاتے ہیں اور وہ بتدریج ترقی کرتا رہتا ہے۔ فرشتے اس سے ہم کلام ہوتے ہیں اور اس کے ساتھ رکوع و سجود میں شریک ہوتے ہیں۔ یہی وہ صلوٰۃ (مراقبہ) ہے جو حضور علیہ السلام کے ارشاد کے مطابق مومن کی معراج ہے 

مراقبہ میں اپنے باطن کی اتھا ہ گہرائیوں میں جا کر اپنے اللہ کو سنا جاتا ہے اور کائنات کی حقیقت سے نہ صرف آشنائی حاصل کی جاتی ہے بلکہ مشاہدۂ قدرت بھی کیا جاتا ہے۔ مراقبہ کا مقصد صرف اور صرف اپنے جسم، جذبات ،اور ذہن کو یکجا کرنا ہے اور اس اعلی درجے کی یکسوئی کا مقصد صرف اپنے باطن میں موجزن آگہی کے بحر بیکراں میں غوطہ زن ہونا ہے یہیں سے کشف و وجدان کے دھارے پھوٹتے ہیں ۔ اسطرح ایک انسان کا رابطہ کائنات کی اصل سے جڑ جاتا ہے اور علم و عر فان کے چشمے پھوٹ پڑ تے ہیں ۔ 
مراقبہ کرنے سے پہلے جن چیزوں کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے وہ یہ ہیں۔

۔ ذہن منتشر خیالات سے آزاد ہو.۱
 ۲۔ نشست ایسی ہو کہ جس میں جسم اور اعصاب کے اوپر بوجھ اور وزن محسوس نہ ہو۔  
 ۳۔ ماحول ایسا ہو جیسا کہ سونے کے لئے موزوں ہوتا ہے یعنی اندھیرا ہو اور شوروغل نہ ہو۔
               ۴۔  اس مخصوص ماحول میں آرام سے بیٹھنے کے بعد آہستہ آہستہ اور گہرے سانس لینے کے بعد جب ذہن بڑی حد تک یکسو ہو جاتا ہے جب ذہن یکسو ہو جائے تو مراقبہ کیا جائے۔
۵۔ مراقبہ کرتے وقت آنکھ بند ، زبان تالو سے چپکی ہوئی ہو نی چاہیں، ٹھوڑی سینہ پر جھکی ہوئی ہو،  کمر سیدھی دونوں ہاتھ زانوں پر نماز کی نششت یا چار زانوں ہوجایا جائے اور تصور کیا جائےکہ قلب پر ( اللہ)سورج کی طرح درخشاں و تاباں تحریر ہے اور اس کی تابانی میں اضافہ ہورہا ہے ۔ اسم اللہ کو ملا حظ کرتے وقت جل جلالہ بھی خیال میں دھرایا جائے۔پھر اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ کاتصور کریں کہ قلب پر دونوں نشان پستان کے درمیاں (محمد ﷺ ) چاند کی طرح روشن لکھا ہے اور سینے میں ٹحنڈک آرہی ہے ساتھ ہی صل اللہ علیہ وسلم دل میں دہراتے جائیں۔
۶۔ ان تصورات کے قائم ہوجانے کے بعد اس کلمہ، آیت یا اسم کے معنی کا تصور کرئے جس کا وہ مراقبہ کررہا ہے اور اس میں محو درمحو ہوجائے۔

صوفیاء اکرام فرماتے ہیں کہ ایک سالک کو عام طور پر مراقبہ محبت حق کرنا چاہیے یعنی یہ کہ حق تعالیٰ کو مجھ سے محبت ہے اور حق تعالیٰ مجھ کو بہت چاہتا ہے ۔ اس مراقبے سے بندہ خواہ کیسی پریشانی اور مصیبت میں ہو جہاں یہ مراقبہ کیا سب دور ہوجاتی ہیں۔
آیت کریمہ ألَم یَعلَم بأنَّ اللهَ یَری ( کیا اس کو خبر نہیں اللہ دیکھا رہا ) کا مراقبہ یہ ہےکہ تصور کرئے کہ اللہ تعالیٰ میرے ظاہر وباطن پر مطلع ہے اور کوئی بات کسی وقت اس سے پوشیدہ نہیں ، اس مراقبے سے وہ دھیان بندھنے لگے گا کہ پھر کوئی کام اللہ کی مرضی کے خلاف اس سے نہیں ہوگا۔
آیت ربانی کلُّ مَنْ عَلیها فَان وَ یبقَی وَجْهُ رَبَّک ذوالجلالِ والاکرامِ (جو کچھ زمین پر ہے فانی ہے اور تیرے رب کی ذات باقی رہے گی جو صاحب بزرگ اور انعام والا ہے۔
اس مراقبہ کو کرتے وقت تمام موجودات کی فنا اور اللہ تعالیٰ کی بقا کا تصور کرئے اور دل کی آنکھوں سے اُس کو دیکھے اور اس میں مستغرق ہوجائے تاکہ یہ معنی احسن طریقہ سے جلوہ گرہوجائیں اور سالک کو عقل وعلم کا اضمحلال (پژمردگی) حاصل ہوجائے۔
مناسب یہ ہے کہ یہ مراقبات کسی واقف تجربہ کار استاد جس کو پیر یا مرشد کہا جاتا ہے کی نگرانی میں کیے جائیں تو بہتر ہے۔ والسلام (محمد سعیدالرحمن ایڈوکیٹ

Comments

Popular posts from this blog

سلسلہِ صندلیہ . حضرت علی محمد المعروف میاں صندل شاہ رحمتہ اللہ علیہ

جون ایلیا ایک تعارف