عشق مجازی سےعشق حقیقی کا سفر
عشق مجازی سےعشق حقیقی کا سفر
=====================
عشق کیا ہے کی بابت اکابرین اولیاء اکرام فرماتے ہیں کہ عشق دریا نا پیدا کنارہ ہے اور اس کے بیان سےزبان عاجز ہے اور اس کے ادراک سے عقل قاصر ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ العشق ھواللہ۔ حضرت خواجہ بندہ بواز گیسو دراز ؒ فرماتے ہیں عشق و عاشق ومعشوق ایک ہی چیز کا نام ہے لیکن مبتدیانِ سلوک کے سمجھانے کی غرض سے صاحبِ کاملین نے اپنی اصطلاحات میں اس کو بیان کیاہے اور جس پر جوکیفیت گزری اس نے اس کے مطابق اسے الفاظوں کا جامہ پہنایا۔ بعض نے عشق کو لفظ نار (آگ) سے تعبیر کیا ہے بعض نے لفظ درد سے تعبیر کیا الغرض یہ جو کچھ ہوا ہے اور ہورہا ہے اور ہوتا رہے گا یہ سب اس عشق کے ہی کرشمے ہیں۔
=====================
عشق کیا ہے کی بابت اکابرین اولیاء اکرام فرماتے ہیں کہ عشق دریا نا پیدا کنارہ ہے اور اس کے بیان سےزبان عاجز ہے اور اس کے ادراک سے عقل قاصر ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ العشق ھواللہ۔ حضرت خواجہ بندہ بواز گیسو دراز ؒ فرماتے ہیں عشق و عاشق ومعشوق ایک ہی چیز کا نام ہے لیکن مبتدیانِ سلوک کے سمجھانے کی غرض سے صاحبِ کاملین نے اپنی اصطلاحات میں اس کو بیان کیاہے اور جس پر جوکیفیت گزری اس نے اس کے مطابق اسے الفاظوں کا جامہ پہنایا۔ بعض نے عشق کو لفظ نار (آگ) سے تعبیر کیا ہے بعض نے لفظ درد سے تعبیر کیا الغرض یہ جو کچھ ہوا ہے اور ہورہا ہے اور ہوتا رہے گا یہ سب اس عشق کے ہی کرشمے ہیں۔
حدیث میں ہے کہ اللہ جمیل ہے اور خوبصورتی کا تقاضا ظاہر ہونا ہے۔چنانچہ حدیث قد سی ہے کنت کنزا مخفیا فاحببت ان اعرف فخلقت الخلق(میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا پس میں نے ارادہ کیا کہ پہچانا جاﺅں تو میں نے مخلوق کو پیدا کر دیا)۔ باالفاظ دیگر اس ذات قدسی کو یہ خیال آیا کہ میں جو جلال و جمال، لطف و عطا اور جود وکرم کا ایک لا محدود ولامتناہی خزانہ ہوں تو کوئی اسے دیکھنے والا بھی تو کوئی ہو، کوئی ایسی آنکھ بھی تو ہوجو ذوق نظارہ لئے مشاہدہ جمال میں ایسی کھو جائے کہ اسے اپنی خبر بھی نہ ہو ،اور یہی سوچ کر حضرت انسان کو عدم سے وجود میں لایا گیا اور اسکے دل میں اپنی محبت کو جاگزیں کیا تاکہ اسے پتہ چلے کہ میرا خالق و مالک اور محبوب حقیقی وہی ذات اقدس ہے اور اسے پانا ہی اصل زندگی ہے۔اور اس ہی کا نام عشق حقیقی ہے۔
عشق مجازی کیا ہے۔صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ اس دنیا (عالم ناسوت ) میں آنے سے پہلے یہ ارواح لشکروں کی صورت میں عالمِ اروح میں ایک ساتھ تھیں۔جب اس عالم ارواح میں کچھ ارواح کی آپس میں ملاقات ہوئی تو ان میں باہم الفت پیدا ہو گئی ا ور کچھ ارواح ایک دوسرے سے دور رہیں تو ان میں ناآشنائی باقی ہے۔ مفکریں کی یہ رائے ہے کہ بعض اوقات انسان کو خواہ مخواہ کسی سے الجھن محسوس ہوتی ہے اور معلوم بھی نہیں ہوتا کہ کیوں ہو رہی ہے؟ تو اس کی وجہ یہی نا آشنائی ہے۔ اور جب کسی سے بہت شدید محبت پیدا ہوجاتی ہے تو اس کی وجہ عالم ارواح کی آشنائی ہے جسے عشق مجازی کہا جاتا ہے اور یہ عشق مجازی ہی روحانی عشق کے زمرے میں شامل ہے۔ ڈاکٹر میر ولی الدین ، سابق صدر شعبہ فلسفہ ، جامعہ عثمانیہ ،حیدر آباد،د کن نے اپنی کتاب میں اسباب عشق کی بابت فرماتے ہیں کہ عشق مجازی کے اسباب میں صرف "حسن وجمال" شامل نہیں ہے جیسا کہ عام طور سمجھا جاتا ہے بلکہ بعض اوقات انسان کو کسی سے محبت اس لیے بھی ہو جاتی ہے کہ اس نے آپ پر "احسان" کیا ہو۔ یا محبت کا ایک سبب "کمال" بھی ہے کہ کسی کے اوصاف اور اخلاق کے کسی درجے کامل ہونے کے سبب اس سے محبت محسوس ہونے لگتی ہے۔
الغرض عشق مجازی کی بھی دو قسمیں ہیں ایک عشق حیوانی اور دوسری عشق نفسانی۔ عشق حیوانی وہ کہلاتا ہے جو محبوب کی رنگت، شکل وصورت اور حسن وجمال کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے اور اس میں حرص وہوس شامل ہوتی ہے لہذا اس عشق میں کوئی خیر نہیں ہے اور نہ ہی عشق کی یہ قسم پسندیدہ ہے۔ جب کہ عشق مجازی کی دوسری قسم عشق نفسانی ہے یعنی جو عشق کسی سے اس کے اوصاف اور خصائل کی وجہ سے پیدا ہوجائے ۔ اس عشق میں لطافت اور نفاست ہوتی ہے، اور یہ عشق دل کی نرمی، فکر کی اصلاح اور شخصیت کی تعمیر کا باعث بن جاتا ہے لہذا یہ مذموم نہیں ہے اور جائز ہے۔
عشقِ مجازی دراصل ایک انسان کے مکمل وجود یا کسی ایک حصے سے شدید پیار کرنا اور اپنی طلب کو وجودِ محبوب کے دائرے تک محدود رکھنا ہے۔دوسرے لفظوں میں کسی ایک بنی نوع انسان کے لیے اپنی آپ کو اس کی خواہشات کے مطابق ڈھال لینا یا وقف کر دینا عشق مجازی ہے جبکہ عشقِ حقیقی میں محبوب کے وجود سے ماوراء ہو کر اُس کی ذات کا طالب بن جانا ہے اس صورت میں محبوب کا وجود موجود ہونا لازم نہیں کیونکہ یہاں وجود کی حیثیت ہی باقی نہیں رہتی۔ اللہ کی ذات ہی وہ مقدس ذات ہے جو عشق حقیقی کی مترادف ہے جبکہ عشق مجازی میں کوئی بھی شمار میں آ سکتا ہے۔
بہرحال عشق کی دونوں صورتیں روحانی ترقی کا باعث ہوتی ہیں۔ روحانی ترقی کے لئے لازمی ہے کہ نفسانی خواہشات کو دبایا جائےاور ترک کیا جائے اور دنیاوی خواہشات سے نجات حاصل کی جائے۔
عربی مقولہ ہے "عشق آگ ہے جو محبوب کے سوا ہر چیز کو جلا کر بھسم کر دیتی ہے ۔جس کی وضاحت یوں کی جاسکتی ہے کہ جب کوئی انسان عشق میں مبتلا ہوجائے تو اسکا مقصود صرف محبوب ہوتا ہے۔ اورمحبوب کے علاوہ ساری خواہشات اسکے اندر سے آہستہ ختم ہونی شروع ہو جاتی ہیں۔ اسےنہ روزگار کی فکر ہوتی ہے،نہ کھانے پینے کا ہوش ہوتا ہے، نہ اپنے فرائض کا احساس اورنہ ہی اپنے حقوق کا احساس ہوتا ہے۔ یعنی محبوب کو پانے کی شدید خواہش انسان کو ہر چیز سے بے راغب کر دیتی ہے اور غافل کر دیتی ہے۔ انسان کی صحت بھی گرنے لگتی ہے اور وہ سوکھ کر کانٹا ہوجاتا ہے۔ اس کی رنگت پیلی ہوجانا تو ایک معمول سی بات ہے۔
جب ایک عاشقِ صادق عشق میں کافی عرصے تک اس کیفیت میں مبتلا رہتا ہے اور وہ آہستہ آہستہ تمام نفسانی اور دنیاوی خواہشات سے نجات حاصل کر لیتا ہےتو اسکی روح بہت طاقت ور ہوجاتی اور وہ قرب الہی کا مزا چکھنے لگتی ہے اوراس پر ایک وقت آجاتا ہے جب عاشقِ صادق قرب الہی کی لذت معشوقِ مجازی کے شوق سے بہت زیادہ پانے لگتا ہے تو معشوقِ مجازی اسکا مقصود نہیں رہتا اور عشق ِحقیقی اسکی منزل ہوجاتی ہے۔
عشق ِمجازی صرف آدابِ عشق سیکھنے کی ابتدا ہے جس میں عاشق اپنے محبوب کی خوشی کے لئیے ہر قسم کی قربانی دینے کے لئیے کمر بستہ رہتا ھے لیکن اس کو سب سے چھپا کر رکھنا چاہتا ھے۔ عاشق چاہتا ھے کہ میں اپنے معشوق سے بے پناہ پیار کروں اور وہ مجھ سے پیار کرے لیکن کوئی ہمارےدرمیان میں نہ آئے۔
عشق مجازی عشق حقیقی کا پہلا زینہ ھے اور اس عشق مجازی کی کامیابی محبت کی طرف لے جاتی ہے اور اس کا فراق عشق حقیقی کی طرف لے جاتا ھے۔ اشفاق احمد عشق مجازی اور عشق حقیقی کے فرق کو بیاں کرتے ہوئےکہتے ہیں مجھے بہت جستجو تھی کہ عشق مجازی اور عشق حقیقی کا فرق جان سکوں ایک دن ابا جی نے بتایا کہ بیٹا اشفاق ! اپنی انا کو کسی ایک کے سامنے ختم کرنا عشق مجازی ہےاور اپنی انا کو سب کے سامنے ختم کرنا عشق حقیقی ہے۔
یہ بھی ایک امرِحقیقی ہے کہ عشق حقیقی میں مبتلا لوگوں کو گرد و پیش کی گراوٹوں سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی نہ ہی ان کا دنیاوی کاموں میں دل لگتا ہے ۔ اس ہی طرح عشق مجازی کے مارے لوگ بھی دنیا ومافیہا سے بے خبر ہو جاتے ہیں، کوئی مجنوں بن جاتا ہے تو کوئی شیریں فرہا بن جاتا ہےد۔ سب پرکچھ ایسی حالت طاری ہوجاتی ہے کہ ہر وقت انہیں اپنے محبوب کا خیال ہی بے قرار رکھتا ہے اور اس سے ملنے کی تڑپ انہیں کہیں کا نہیں رہنے دیتی ۔ ایسے اصحاب کو کبھی لوگ دیوانہ کہتے ہیں تو کبھی درویش کا خطاب ملتا ہے۔ عشق مجازی والے دنیا سے لڑتے ہیں، سماج کی روایات سے لڑتے ہیں تو عشق حقیقی کے لوگ اپنے نفس سے لڑتے ہیں۔ لڑائی ہر جگہ ہے، کہیں نفس سے کہیں دنیا سے اور کہیں اپنے آپ سے، بس ایک کشمکش ہے۔ عشق میں مبتلا لوگ عام لوگوں کو عجیب انسان سمجھتے ہیں تو عام اور نارمل لوگ عشق میں مبتلا لوگوں کو عجیب سمجھتے ہیں ۔ نہ وہ ان کی دنیا سمجھ پاتے ہیں نہ یہ ان کی دنیا سمجھتے ہیں ۔اور جو سمجھ جاتے ہیں وہ مجازی سے حقیقی کا سفر طے کرلیتے ہیں۔
والسلام (محمد سعید الرحمن ایڈوکیٹ)
والسلام (محمد سعید الرحمن ایڈوکیٹ)
Comments
Post a Comment