حضرت ابو عبداللہ حارث بن اسد المحاسبی ؒ مصنف کتاب الرعایتہ
اسلامی تصوف کی اولین
مستند کتاب (کتاب الرعایتہ(
آآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآ
حضرت ابو عبداللہ حارث بن اسد المحاسبی ؒ طبقہ اولیٰ کے وہ عظیم صاحب تصنیف صوفی بزرگ ہیں جن کا وصال سن 243 ہجری میں ہوا، جب آپ کا جنازہ آپ کےمکان سے نکلا تو قبرستان تک صرف 4 آدمی اس جنازےکے ساتھ تھے۔ آپ کا ناقابل معافی جرم یہ تھا کہ آپ نے اپنی فکر خداداد سے کام لیا اور فقہیہ شہر کو ناراض کردیا تھا۔ نیرنگی زمانہ ۔ اگر آپ کےجنازے میں اُس وقت صرف چار افراد تھے مگر صاحب جنازہ کی تصنیف کتاب الرعایتہ اُس دور سے لیکر آج تک لاکھوں آدمیوں کی رہنما بنی ہوئی ہے اور قیامت تک بنی رہے گی۔ آپ کا اجمالی تعارف درج ذیل ہے۔
آآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآ
حضرت ابو عبداللہ حارث بن اسد المحاسبی ؒ طبقہ اولیٰ کے وہ عظیم صاحب تصنیف صوفی بزرگ ہیں جن کا وصال سن 243 ہجری میں ہوا، جب آپ کا جنازہ آپ کےمکان سے نکلا تو قبرستان تک صرف 4 آدمی اس جنازےکے ساتھ تھے۔ آپ کا ناقابل معافی جرم یہ تھا کہ آپ نے اپنی فکر خداداد سے کام لیا اور فقہیہ شہر کو ناراض کردیا تھا۔ نیرنگی زمانہ ۔ اگر آپ کےجنازے میں اُس وقت صرف چار افراد تھے مگر صاحب جنازہ کی تصنیف کتاب الرعایتہ اُس دور سے لیکر آج تک لاکھوں آدمیوں کی رہنما بنی ہوئی ہے اور قیامت تک بنی رہے گی۔ آپ کا اجمالی تعارف درج ذیل ہے۔
حضرت ابو عبداللہ
حارث بن اسد المحاسبی رحمتہ اللہ علیہ ایکصاحب تصنیفِ صوفی بزرگ تھے اور آپ کی
تصینف کتاب الرعایتہ کو اسلامی تصوف کے موضوع پر لکھی جانی والی پہلی مستند و
مستقل کتاب متصور کیا جاتا ہے۔ اس کتاب سے قبل بقول حضرت جنید بغدادی ؒ قرون اولیٰ
کا تصوف مقید بالکتاب و السنۃ تھا۔
حضرت محاسبی ؒ سن
165ہجری میں بصرہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد مجوسی تھے اور بعض تذکرہ نگار آپ کے
والد کو قدری (معتزلی) لکھتے ہیں ۔اس لیے آپ نے ترکہ پدری سے دستبرداری فرمائی
تھی کیونکہ نبی اکرم ﷺ کا فرمان
ہے کہ دومختلف المذہب افراد ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوسکتے یہی وجہ ہے کہ حضرت
محاسبی ؒ نے تمام عمر مفلسی میں بسر کی مگر ترکہ پدری سے کچھ بھی وصول نہیں کیا۔
آپ ایک بلند مرتبہ
صوفی ہونے کے علاوہ متکلم ، محدث، مفسر اور فقہیہ بھی تھے اور آپ نے تمام دینی
علوم امام شافعی ؒ سے حاصل کیے اورایک عرصے تک بغداد میں اِن علوم کا درس دیا۔ اس
لیے مابعد کے بیشتر علماء اور فضلاء نے اپنی اپنی تصانیف میں آپ کا تذکرہ کیا ہے۔
چونکہ آپ علم الکلام میں بہت بلند مرتبہ رکھتے تھے اور اپنے افکار و نظریات کو اس
علم کی روشنی میں ثابت کرتےتھے اس لیے ظواہر پرستوں کے پیشوا حضرت امام احمد بن
حنبلؒ آپ کے شدید مخالف ہوگے اور اپنے اثر و رسوخ سے آپ کا درس بھی بند کروادیا
اور آپ کی تصنیف کا مطالعہ بھی ممنوع قرار دے دیا گیا۔
حنابلہ کی دشمنی اور
مسلسل مخالفت کی وجہ سے بغداد کے لوگ آپ سے بد گمان ہوگےتھے اور آپ خود بھی تنگ
نظر فقہا سے عاجز آگئے تھے اس لیے گوشہ نشینی میں ہی آپ نے عافیت سمجھی اور بقیہ
عمر تصنیف و تالیف میں ہی بسر کی ۔ آپ کا شمارکثیر التصا نیف بزرگوں میں ہوا۔ آپ
کی تصانیف میں سے صرف سترہ (17) نسخے دنیا میں موجود ہیں اور ان تمام تصانیف میں
کتاب الرعایتہ آپ کا شاہکار ہے۔
اس کتاب کی خصوصیت یہ
ہے کہ تصوف پر جس قدر کتابیں لکھی گئیں ہیں یہ کتاب اُن سب میں قدیم ترین اور ایک
مستند کتاب ہے۔ ابتدائی زمانے میں تصوف قرآن اور حدیث پر مبنی تھا اور اس کا مقصد
تزکیہ نفس کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ اس کتاب میں بھی مصنف نے قرآن و حدیث سے
استشہاد اور استدلال کیا ہے اور پوری کتاب قال اللہ تعالیٰ اور قال النبی ﷺ سے مزین ہے۔ قرآن و سنہ کے علاوہ مصنف
نے صحابہ اکرام کے ارشادات و روایات سے بھی استفادہ کیا ہے۔ اس اعتبار سے بھی اس
کتاب کو فوقیت حاصل ہے کہ اُس دور میں اسلامی تصوف میں عجمی یا ایرانی افکار کی
آمیزیش نہیں ہوئی تھی اس لیے یہ کتاب غیر اسلامی نظریات کی آمزیش سے بھی مبرا
ہے۔
حضرت المحاسبی ؒ نے
اس کتاب میں سالک کے لیے نظام الاوقات، اصلاح نفس، ضبط نفس اور تزکیہ نفس کی ضرروت
کو واضح کیا ہے تاکہ وہ اپنے آپ کو خدا کی خدمت کے لیے تیار کرسکے گویا یہ کتاب
تصوف کی روح ہے۔
حضرت المحاسبی فرماتے
ہیں جس نے مراقبے اور اخلاص کی بدولت اپنے باطن کو صحیح کرلیا، اللہ تعالیٰ اس کے
ظاہر کو مجاہدہ اور اتباع سنت نبوی سے مزین کردیتا ہے۔آپ فرماتے ہیں جو شخص اپنے
نفس کو ریاضت کی مدد سے مہذب نہیں کرتا اس پر مقامات کا راستہ نہیں کھولا جاتا۔
آپ کا یہ بھی ارشاد ہے کہ صفتِ عبودیت یہ ہے کہ تو اپنے نفس کو کسی شئے کا مالک
نہ سمجھے اور یہ یقین رکھے کہ تو اپنے نفس کو نفع یا نقصان پہنچانے پر قادر نہیں
ہے۔
حضرت مولانا جامی ؒ
نفحات الانس میں راقمطراز ہیں کہ حضرت المحاسبی ؒ کا شمار طبقہ اولیٰ میں ہوتا ہے
۔ آپ جامع علوم ظاہر و علوم اصول ومعاملات و ارشادات تھے، آپ اہل بغداد کے استاد
اور صاحب تصینف مشائخ میں سے تھے۔
حضرت شیخ ہجوئری
لکھتے ہیں کہ حضرت المحاسبی عالمِ اصول و فروع تھے اور اپنے زمانے میں اہل علم کے
پیشوا تھے، وہ ہر فن میں عالی حال اور بزرگ ہمت تھے اور اپنے وقت میں بغداد کے شیخ
المشائخ تھے۔
والسلام۔ مرتبہ: (
محمد سعید الرحمن ایڈوکیٹ)
Comments
Post a Comment