Posts

Showing posts from January, 2020

Ahl-e-Takween Rijalullah Rijalul Gaib / رجال اللہ ظاہر و مستور(امور تکوینی)

Image
رجال اللہ ظاہری و مستور(امور تکوینی) یہ اللہ تعالیٰ کے وہ برگزیدہ بندے ہوتے ہیں جن کے دل اللہ تعالیٰ کی معرفت میں ہمہ وقت مستغرق رہتےہیں اور انہیں فنا فی ال لہ ہوجانے کی بناٗء پرقربِ ذات باری تعالیٰ حاصل ہوتا ہے اور اسرار ذات حق اُن پر منکشف ہوتے ہیں۔ قیام ِکائنات کا دار ومدار اِن پر ہے ۔یہ عبد اور رب کائنات کے درمیاں فیض رسانی کا ذریعہ ہیں۔ حق تعالیٰ نے انہیں امور تکوینی یعنی امر اللہ کو پائے تکمیل تک پہچانا کی قدرت سے بھی مشرف فرمایا ہوتا ہے۔ ان کی برکات سے نزول باران رحمت، سرسبزیِ نباتات، بقائے انواع حیوانات، انقلابِ حالات اغنیاء وسلاطین ومساکین، تنزیل وترقی اکابرین اور رفع بلا اور دفع وبا ء وغیرہ جیسےامور انجام پاتے ہیں۔ اِن رجال اللہ کا وجود حضرت آدم علیہ السلام سے لیکرحضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے تک رہا ہے اوراب آپؑ کے زمانے سے لیکر ظہور مہدی علیہ السلام تک رہے گا۔ مصنف سردالبراں حضرت شاہ محمد ذوقی ؒ فرماتے ہیں کہ جس طرح اللہ تعالیٰ اپنی حکمت بالغہ سے آفتاب کو نور عطا فرماتا ہے اور اس نور سے یہ عالم منور ہے، اسی طرح حق تعالیٰ غیب الغیب سے ایک نور ان حضرات پر ن

Sheikh al-Akbar, Mohiuddin ibn Arabi / شیخ اکبرؒ ( وحدت الوجود )

Image
شیخ اکبرؒ ( وحدت الوجود ) ---------------------- سید الطائفہ حضرت جنید بغدادی ؒ فرماتے ہیں کہ جب بندہ غیر اللہ سے کلیۃً قطع تعلق کرلے گا تو دوری کا ازلہ ہو جائے گا۔ جب دوری کا احساس مٹ جاتا ہے اوراللہ کا قرب حاصل ہوجاتا ہے تو صوفی پر یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ میری صفات دراصل خدا ہی کی صفات ہیں اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کی صفات فنا ہوجاتی ہیں۔ حضرت داتا گنج بخش ہجویریؒ نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ حقیقی توحید میں انسانی صفات قائم بالذات اورمستقل نہیں ہیں بلکہ یہ محض رسوم ہیں اورسراسر غیرمستقل اورعارضی جیسے آئینے میں عکس۔ فاعل حقیقی صرف خدا ہے اس لیے وہ دراصل صفات باری تعالیٰ ہیں۔ صوفیا کے اس نظریے کو کہ وجود دراصل ایک ہی ہےاوروہ اللہ تعالی ٰہے۔جوازل سےابدتک ہے،ہمیشہ ہے،ہرحال میں ہےہرجگہ ہے۔باقی وجود نہ ہونےکےبرابر ہیں اورصرف اسکےقائم رکھنےسےقائم رہتےہیں، اسکےمٹا دینےسےمٹ جاتےہیں اوران کی کوئی اپنی ذاتی حثییت نہیں ہے۔صوفیاکےاِس نظریےکووحدت الوجود کانام دیاگیاہےکہ وجودصرف ایک ہے اور وہ واحد لاشریک ہے،باقی وجودوں کا ہونا یا نہ ہونابرابرہے۔حضرت شیخ محی الدین ابن عربیؒ نےجب

Hazrat Syed Yousuf Ali Aziz Sulamani (R.A.)/ حضرت الحاج حافظ سید محمدیوسف علی عزیز سلیمانی المعروف عزیز الاولیاؒ

Image
حضرت الحاج حافظ سید محمدیوسف علی عزیز سلیمانی المعروف عزیز الاولیاؒ خانوادہ تونسہ شریف کے ایک کثیر التصنیف صوفی بزرگ ================================== حضرت سید یوسف سلیمانی المعروف عزیز الاولیا رحمتہ اللہ علیہ سلسلہ چشتیہ نطامیہ کے ایک نامور صوفی شاعر بزرگ ہونے کے علاوہ ساٹھ سے زائد کتب کے مصنف ہیں۔ آپ کی ولادت با سعادت وسط رجب سن 1306 ہجری بمطابق14 مارچ سن 1889ء بروز جمعرات محمد آباد، ریاست ٹونک بھارت میں ہوئی۔آپ کے والد بزرگوارحضرت سید افضل علی رحمتہ اللہ علیہ جے پور سے آکر یہیں سکونت پذیر ہوگے تھے، اس طرح آپ کا خاندان ریاست ٹونک اور ریاست جے پور دونوں میں سکونت پذیر رہا۔ آپ نے 9سال کی عمر میں قرآن کریم حفظ کیا ، ابھی دس سال کے ہی تھے کہ سایہ پدری سے محروم ہوگے اور اپنے نانا مفتی آعظم ٹونک حضرت مفتی محمد عطیم ٹونکی المعروف کبیر الاولیا ؒ سے فارسی اور دینیات میں حدیث، فقہ ، علوم منقول ومعقول کی تعلیم حاصل کی بعدہٗ مہارراجہ کالج جے پور میں داخلہ لیا اور فن حرب وضرب کی تعلیم حاصل کی اور فوج میں ملازم ہوگئے۔ گیارہ سال تک ریاست فوج میں مختلف اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے، پھر آپ ک

پیری مریدی (بیعت) وسلیہ برائے قرب الہیٰ

Image
پیری مریدی (بیعت) وسلیہ برائے قرب الہیٰ آآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآ امام مالک رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں جس نے علم فقہ  حاصل کیا اور تصوف کو نظر انداز کردیا وہ فاسق ہوا اور جس نے تصوف کو اپنالیا مگر فقہ کو چھوڑ دیا وہ زندیق ہوا اور جس نے شریعت و تصوف دونوں کو جمع کیا اس نے حق کو پالیا۔ گویا علم دو طرح کا ہے ایک ظاہری (شریعت ،فقہ کا علم) اور دوسرا باطنی (طریقت و تصوف کا علم)۔ سورۃ البقرہ میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے: كَمَآ اَرْسَلْنَا فِيْكُمْ رَسُوْلًا مِّنْكُمْ يَتْلُوْا عَلَيْكُمْ اٰيَاتِنَا وَيُزَكِّيْكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُمْ مَّا لَمْ تَكُـوْنُـوْا تَعْلَمُوْنَ ’’جیسا ہم نے تم میں بھیجا ایک رسول تم میں سے کہ تم پر ہماری آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور تمہیں پاک کرتا اور کتاب اور پختہ علم سکھاتا اور تمہیں وہ تعلیم فرماتا ہے جس کا تمہیں علم نہ تھا۔ اس آیت مقدسہ میں اﷲ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کے پانچ فرائض نبوت کا ذکر فرمایا ہے: ۱۔ اﷲ تعالیٰ کی آیات تلاوت کرنا ۲۔ کتاب اﷲ کی تعلیم دینا ۳۔ حکمت کی تعلیم دینا ۴۔

رجال اللہ ظاہری و مستور(امور تکوینی)

رجال اللہ ظاہری و مستور(امور تکوینی) ---------------------------------------- یہ اللہ تعالیٰ کے وہ برگزیدہ بندے ہوتے ہیں جن کے دل اللہ تعالیٰ کی معرفت میں ہمہ وقت مستغرق رہتےہیں اور انہیں فنا فی ال لہ ہوجانے کی بناٗء پرقربِ ذات باری تعالیٰ حاصل ہوتا ہے اور اسرار ذات حق اُن پر منکشف ہوتے ہیں۔ قیام ِکائنات کا دار ومدار اِن پر ہے ۔یہ عبد اور رب کائنات کے درمیاں فیض رسانی کا ذریعہ ہیں۔ حق تعالیٰ نے انہیں امور تکوینی یعنی امر اللہ کو پائے تکمیل تک پہچانا کی قدرت سے بھی مشرف فرمایا ہوتا ہے۔ ان کی برکات سے نزول باران رحمت، سرسبزیِ نباتات، بقائے انواع حیوانات، انقلابِ حالات اغنیاء وسلاطین ومساکین، تنزیل وترقی اکابرین اور رفع بلا اور دفع وبا ء وغیرہ جیسےامور انجام پاتے ہیں۔ اِن رجال اللہ کا وجود حضرت آدم علیہ السلام سے لیکرحضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے تک رہا ہے اوراب آپؑ کے زمانے سے لیکر ظہور مہدی علیہ السلام تک رہے گا۔ مصنف سردالبراں حضرت شاہ محمد ذوقی ؒ فرماتے ہیں کہ جس طرح اللہ تعالیٰ اپنی حکمت بالغہ سے آفتاب کو نور عطا فرماتا ہے اور اس نور سے یہ عالم منور ہے، ا

محبت کی انتہا” عشق “۔ عشق کی انتہا ” فناء فی الوجود

محبت کی انتہا عشق، عشق کی انتہا  فناء فی الوجود آآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآ ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں میری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں محبت ایک بے لوث اور بے غرض روحانی جذبہ ہے اور یہ ہر دور میں زندگی کا ایک لازمی جزو سمجھی گئی ہے اور پوری کائنات کی تخلیق میں محبت ہی کار فرما ہے۔ بنیادی طور پر محبت اس جذبہ کو کہا جاتا ہےجو کسی ایک شئے کا کسی دوسری شئے کی طرف ایسا میلان پیدا کردے کہ جسکی علت حسن و خوبی ہو تو اس جذبے کو محبت کہتے ہیں۔ محبت کی عمومی تعریف یہ بھی ہے کہ محبت سود و زیاں سے بے نیاز ہو کر کسی کودل کی گہرائیوں سے بے حد چاہنے کا نام ہے یعنی عشق کا ابتدائی درجہ۔ جس محبت کی بنیاد غرض پر مبنی ہو وہ محبت نہیں کہلاتی بلکہ یہ ایک ایسا رشتہ ہے جو اعزاض ومقاصد تک محدود ہے۔ کیونکہ محبت میں محبوب سے امیدیں یا توقعات وابستہ کر لینا اور ان امیدوں یا توقعات کے پورا نہ ہونے پر محبوب سے بے وفائی کا شکوہ کرنا سراسر محبت کی توہین ہے ۔ محبت سے محبوب اور محب کے درمیان ایک ایسا تعلق قائم ہوجاتاہے جو دونوں فریقین کو جینے کاحوصلہ بخش

رقصِ کی حقیقت ( رقصِ صوفی)

Image
رقصِ کی حقیقت ========== ﺭﻗﺺِ ﺩﺭﻭﯾﺶ ﮐﺎ ﯾﮧ ﺳﻠﺴﻠﮧ ﺩﻧﯿﺎ ﺳﮯ ﻧﮧ ﺟﻮﮌ هم ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ هی ﻟﺬﺕ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺟﮭﻮﻣﺘﮯ هیں اہل تصوف کے نزدیک اگر کسی شخص کے سامنے کوئی شعر پڑھا جائے جو اس کے موافقِ حال اور اس سے اس کی عقل پر مدہوشی غالب آجائے اور غیر اختیاری طور پراس سے حرکات صادر ہوں تو اس کیفیت کو صوفیاء اکرام رقص یا مستی سے تعبیر کرتے ہیں۔ قدرت نے ہر سلیم الطبع انسان کی فظرت میں یہ بات رکھی ہے کہ وہ صدائے دلکش اور نغمہ شیریں سن کر محظوظ ہو، سرور اور مستی میں آجائے۔ جب کہ صوت ِہوشربا ج انورں تک کے لیے بھی کشش مقناطیسی رکھتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آواز کو پیدا ہی اس لیے فرمایاہے کہ انسان کمالاتِ مقصودہ تک پہنچنے اور منعقت حاصل کرنے کے لیے اس سے مدد لے اور فاعدہ اُٹھائے۔ آواز بہت بڑی انسانی ضرویات کو پورا کرنے والی چیز ثابت ہوئی ہے اور کاروبار دنیا اس ہی آواز سے ہی چل رہاہے ۔آوازرحمتِ خداوندی نے بطور انعام کے انسان کو مرحمت فرمائی ہے اور انسان نے یہ دیکھا کہ اس کی طبعیت گویا اس آواز ہی کی صوری و معنوی کمالات کی تصویر ہے، اس ہی لیے انسان نے آواز سے محبت کی اور اس کی وحشتیں اس سے ہی دور ہو