محبت کی انتہا” عشق “۔ عشق کی انتہا ” فناء فی الوجود

محبت کی انتہا عشق، عشق کی انتہا  فناء فی الوجود
آآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآ

ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
میری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں

محبت ایک بے لوث اور بے غرض روحانی جذبہ ہے اور یہ ہر دور میں زندگی کا ایک لازمی جزو سمجھی گئی ہے اور پوری کائنات کی تخلیق میں محبت ہی کار فرما ہے۔ بنیادی طور پر محبت اس جذبہ کو کہا جاتا ہےجو کسی ایک شئے کا کسی دوسری شئے کی طرف ایسا میلان پیدا کردے کہ جسکی علت حسن و خوبی ہو تو اس جذبے کو محبت کہتے ہیں۔ محبت کی عمومی تعریف یہ بھی ہے کہ محبت سود و زیاں سے بے نیاز ہو کر کسی کودل کی گہرائیوں سے بے حد چاہنے کا نام ہے یعنی عشق کا ابتدائی درجہ۔ جس محبت کی بنیاد غرض پر مبنی ہو وہ محبت نہیں کہلاتی بلکہ یہ ایک ایسا رشتہ ہے جو اعزاض ومقاصد تک محدود ہے۔ کیونکہ محبت میں محبوب سے امیدیں یا توقعات وابستہ کر لینا اور ان امیدوں یا توقعات کے پورا نہ ہونے پر محبوب سے بے وفائی کا شکوہ کرنا سراسر محبت کی توہین ہے ۔ محبت سے محبوب اور محب کے درمیان ایک ایسا تعلق قائم ہوجاتاہے جو دونوں فریقین کو جینے کاحوصلہ بخشتا اور اعتماد فراہم کرتا ہے۔ بالفاظ دیگر
یہ وہ جذبہ ہے جو خالص ہوتا ہے جسے احساس یا حوصلہ دینے کا نام بھی دیا جاسکتا ہے۔
مسلمہ حقیقت ہے کہ وہی محبت بہت عظیم ہوتی ہے جو ایک دوسرے کی عزت پر مبنی ہو، کیونکہ محبت یک طرفہ بھی ہوسکتی ہے، لیکن عزت دو طرفہ چیز ہے، یہ یک طرفہ نہیں ہوسکتی۔ یہ الگ بات ہے کہ محبت سچی ہو تو دل کشادہ ہوجاتا اور عیوب نظر آتے بھی ہیں تو محبت کا غلبہ اسے نظر انداز کردیتاہے۔ محبوب اور محب کے درمیان محبت اس پاکیزہ احساس کا نام ہے جس کا ادراک ان دونوں کے سوا کسی کو نہیں ہوتا اور نہ ہی ہونا چاہیے کیونکہ محبت میں محبوب اور محب کے علاوہ کسی تیسرے کی شرکت کی اجازت نہیں ہوتی ۔یہ کہنا کہ محبت صرف محبوب کے سامنے سر خم کرنے کا نام ہے درست خیال نہیں، اگر یہ دوطرفہ محبت ہے تومحبت میں تنقید بھی ہوتی ہے، سوال بھی ہوتے ہیں اور محب و محبوب کوان کے جواب بھی دینے پڑتے ہیں ۔ محبت میں محبوب اور محب کو اختلاف رائے کا حق حاصل ہوتا ہے ۔ اگر محبت میں اختلاف رائے کی اجازت نہیں دیتی تو وہ محبت نہیں غلامی کہلاتی ہے۔
محبوب و محب محبتوں کے دکھ سکھ کے ساتھ جیتے اور محبت کے دکھ اور سکھ کے ساتھ ہی مرجاتے ہیں۔ یہی محبت کی بقا ہے۔ محبت میں گزار ہواایک پل ہزاروں سال جینے سے زیادہ قیمتی ہوتا ہے۔ دنیا داری میں الجھے لوگ محبت سے نا آشنا ہوتے یا نظر انداز کردیتے ہیں اور محبت کو ثانوی حیثیت دے کر اس سے صرفِ نگاہ کرلیتے ہیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ محبت زندگی کے کسی دور میں بھی ثانوی حیثیت کی حامل نہیں رہی،وہ ہمیشہ سانس کی طرح لازم اور دھڑکن کی طرح مقدم رہی ہے اور اس کے بغیر جینے والے زندگی کے حسن سے نا آشنا رہتے ہیں۔
محبت کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ہے اور یہ کسی سے بھی کسی بھی وقت ہوجاتی ہے۔ عزت، شہرت، دولت، محبت ان چاروں کا تعلق قسمت سے ہے۔ پیدائش کے وقت قدرت نے جو عزت، محبت، شہرت نصیب میں لکھ دیتی ہے وہ مل کر ہی رہتی ہے۔ زبردستی کسی کے دل میں محبت کو نہیں بسایا جاسکتا ہے۔ اگر کسی کے دل میں محبوب کے لئے محبت جاگتی ہے تو یہ اس کےاندر کی طلب ہوتی ہے۔ بلعموم کسی کی کشش ستاتی ہے تو محبت دل میں قیام کرتی ہے۔ حسن و خوبی سے محبت برانگختہ ہوتی ہے۔محب ومحبوب میں ہمیشہ کچھ مناسبتیں ہوا کرتی ہیں جن کی بناء پر محبت اُبھرتی ہے اور بھڑکتی ہے، کبھی ان مناسبتوں کا اظہار علماً تو نہیں ہوتا مگر باطناً قلب اُنہیں محسوس کرلیتا ہے۔ وہ محبت جو دل میں پیدا ہوتی ہےیہ کبھی قوی ہوتی ہے اور کبھی ضعیف اورکبھی بلا قصد و اختیار محبت میں تیزی آجاتی ہے اور رفتہ رفتہ وہ محبت عشق کے درجے تک پہنج جاتی ہے۔ اس ہی لیے محبت کا انتہائی مرتبہ عشق ہے جو حضرت انسان ہی کےحصہ میں آیا ہے۔
عشق محبت سے ایک بالاتر چیز کا نام ہے۔ جذبہ محبت ہر انسان میں پایا جاتا ہے۔ انسان میں کئی طرح کی محبتیں موجود ہیں مثلاً دوستوں کے درمیان باہمی محبت، مرید کی اپنے مرشد، پیر کی مرید سے محبت، بیوی اور شوہر کے درمیان محبت، والدین اور اولاد کے درمیان محبت ان کا شمار معمول کی محبتوں میں ہوتا ہے اور یہ محبتیں عشق کے زمرے میں نہیں آتی ہیں۔
جسے عشق کہتے ہیں۔ یہ لفظ ”عشقہ“ عربی زبان سے لیا گیا ہے ”عشقہ“ آکاس کی بیل کو کہتے ہیں۔ یہ بیل جس چیز تک بھی پہنچتی ہے اس کے اردگرد لپٹ جاتی ہے مثلاً جب کسی درخت یا گھاس تک پہنچتی ہے تو اس طرح اس کے اردگرد لپٹ جاتی ہے کہ اسے اپنے چنگل میں جکڑ لیتی ہے اس کو مکمل طور سے اپنے قابو میں کر لیتی ہے۔ شدت محبت میں اس طرح کی ایک حالت انسان میں بھی پیدا ہو جاتی ہے اور اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ معمول کی محبت کے برعکس عشق انسان کو اس کی روزمرہ زندگی کے معمول سے خارج کر دیتا ہے اس کی نیند حرام کر دیتا ہے اور کھانا پینا اس سے چھوٹ جاتا ہے اس کی تمام تر توجہ کا مرکز اس کا معشوق بن جاتا ہے۔ ان کے درمیان ایک طرح کی وحدت و یکتائی وجود میں آ جاتی ہے عشق اسے ہر چیز سے کاٹ دیتا ہے اور اس کی توجہ کو صرف ایک چیز کی جانب مرکوز کر دیتا ہے اس طرح کہ اس کے لئے سب کچھ معشوق کی ذات ہو جاتی ہے ایسی شدید محبت کو عشق سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ حیوانات میں عشق کی یہ کفیت نہین پائی جاتی ہے۔ ان میں زیادہ سے زیادہ جو احساسات اور جذبات پائے جاتے ہیں وہ اسی حد تک ہیں کہ جو والدین اولاد یا میاں بیوی کے درمیان پائے جاتے ہیں۔
محبت پہلی نظر میں ہو جاتی ہے‘ لیکن اس کو عشق کا مقام دینے کے لیے اس محبت کو کئی منزلیں طے کرنا پڑتی ہیں۔ کئی دشوار راستوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ محبت میں فیصلے، حالات، جذبات اور انتخاب بدلتے رہتے ہیں لیکن عشق حتمی فیصلہ ہوتا ہے. محبت انسان کو بدل دیتی ہے لیکن عشق انسان کو ادھورا کر کے بھی مکمل کر دیتا ہے۔ انسان کی جب تک سانسں چلتی رہتی ہیں، وہ کئی محبتیں کرتا ہے۔ شاید انسان کی آخری سانس تک تو محبت کا وجود اور تصور ہی اس کی زندگی سے ختم ہو جاتا ہے۔ عشق میں کبھی الوادع کا لمحہ نہیں آتا۔ عشق کا آخری مقام عاشق کی آخری سانس ہے۔ اس ہی کہا جاتا ہے کہ عشق کوئی احسن شے نہیں ہے جسکے حصول کیلئے مجاہدہ کیا جائے. عشق ایک غیر متوازن رویہ ہے ،جس میں انسان اپنے ہوش وحواس سے بیگانہ ہوکر ایک ہی جانب اپنی توجہ مرکوز کرکے مبہوت ہوجاتا ہے۔اسلام نے ہمیں محبت کرنا سکھایا ہے، شدید محبت کرنا سکھایا ہے مگر عشق کی تلقین بالکل نہیں کی. محبت میں توازن و حسن ہوتا ہے، یہ ایک ہی وقت میں کئی سے ہوتی ہے. والدین سے محبت، دوست احباب سے، بیوی بچوں سے محبت وغیرہ ۔ الغرض محبت ایک دائرہ کار میں محدود رہتی ہے اور ابتدا سے اختتام تک کہیں نہ کہیں پابندِ سلاسل نظر آتی ہے، جب کہ عشق بحرِ بے کنار ہے عشق میں معشوق کے سوا سارے رشتے معدوم ہو کر رہ جاتے ہیں ۔
پورےقرآن مجید میں ایک مرتبہ بھی لفظ عشق استعمال نہیں ہوا ہے، البتہ لفظ محبت استعمال ہوا ہے۔ لفظ عشق محبت کی انتہائی ا سٹیج ہے اس لیے یہ لفظ قرآن میں"اشدحبا" (مومن محبت کی انتہا کر دیں) کے طور پر استعمال ہوا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہ لفظ استعمال نہیں کیا۔ ابتداً یہ لفظ ایرانی شاعری میں استعمال ہوا پھر اردو شاعری میں بھی آگیا اور اس قدر استعمال ہوا کہ لفظ محبت کے ہم پلہ قرار پایا۔حالانکہ یہ غلط ہے محبت عشق کا ہم پلہ نہیں۔ معشوق اور محبوب میں فرق ہوتا ہے ، عاشق اور محب ہم معنی الفاظ نہیں ہیں۔
عشق جیسا کہ اسکی لغوی ترکیب سے بھی ظاہر ہے کہ کسی شئے کو اپنے اندر کمال استغراق سے جذب کرلینے اور پھر اسے اپنا جزو حیات بنا لینے کا نام ہے، جسے صوفیہ کی اصطلاح میں فنا ءیا بے خودی بھی کہتے ہیں۔ فنا کے سفر پر گامزن رہنا ہی عشق کی زندگی ہے اور عشق میں فنا ہونا ہی اس کی بقا ہوتی ہے اور عشق جس کو اپنے حصار میں لے لے اس کے پلے کچھ نہیں چھوڑتا۔ عشق مجازی اور عشق حقیقی میں فرق بس اتنا ہے کہ مجازی میں اس کا محبوب خالق حقیقی نہیں بلکہ ایک انسانی پیکر ہوتا ہے۔ ۔ عشق میں دوئی ہوتی ہی نہیں ، وہ تو جنون ہے ، پاگل پن ہے، یکسوئی ہے. اس میں محبوب نظر کے سامنے نہ ہو تو سانس نہیں آتی ، صحت چاہ کر بھی ساتھ نہیں دیتی اور فراق جان لے کر دم لیتا ہے. یہی عشق کا دستور ہے. ہر چہرہ اپنے معشوق کا چہرہ دکھتا ہے اور حالت یہ ہوتی ہے کہ پہلے اردگرد بھول جاتا ہے اور پھر اپنا وجود بھی بھول کر محبوب کا عکس بن جاتا ہے. اسی کیفیت کو صوفیاء فنا فی الوجود سے تعبیر کرتے ہیں۔
 تحریر: محمد سعید الرحمن، ایڈوکیٹ)

Comments

Popular posts from this blog

سلسلہِ صندلیہ . حضرت علی محمد المعروف میاں صندل شاہ رحمتہ اللہ علیہ

جون ایلیا ایک تعارف