رقصِ کی حقیقت ( رقصِ صوفی)



رقصِ کی حقیقت
==========
Image may contain: one or more people and fire

ﺭﻗﺺِ ﺩﺭﻭﯾﺶ ﮐﺎ ﯾﮧ ﺳﻠﺴﻠﮧ ﺩﻧﯿﺎ ﺳﮯ ﻧﮧ ﺟﻮﮌ
هم ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ هی ﻟﺬﺕ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺟﮭﻮﻣﺘﮯ هیں

اہل تصوف کے نزدیک اگر کسی شخص کے سامنے کوئی شعر پڑھا جائے جو اس کے موافقِ حال اور اس سے اس کی عقل پر مدہوشی غالب آجائے اور غیر اختیاری طور پراس سے حرکات صادر ہوں تو اس کیفیت کو صوفیاء اکرام رقص یا مستی سے تعبیر کرتے ہیں۔ قدرت نے ہر سلیم الطبع انسان کی فظرت میں یہ بات رکھی ہے کہ وہ صدائے دلکش اور نغمہ شیریں سن کر محظوظ ہو، سرور اور مستی میں آجائے۔ جب کہ صوت ِہوشربا جانورں تک کے لیے بھی کشش مقناطیسی رکھتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے آواز کو پیدا ہی اس لیے فرمایاہے کہ انسان کمالاتِ مقصودہ تک پہنچنے اور منعقت حاصل کرنے کے لیے اس سے مدد لے اور فاعدہ اُٹھائے۔ آواز بہت بڑی انسانی ضرویات کو پورا کرنے والی چیز ثابت ہوئی ہے اور کاروبار دنیا اس ہی آواز سے ہی چل رہاہے ۔آوازرحمتِ خداوندی نے بطور انعام کے انسان کو مرحمت فرمائی ہے اور انسان نے یہ دیکھا کہ اس کی طبعیت گویا اس آواز ہی کی صوری و معنوی کمالات کی تصویر ہے، اس ہی لیے انسان نے آواز سے محبت کی اور اس کی وحشتیں اس سے ہی دور ہوتی ہیں، اس کی ترقی کے راستے اس ہی سے کھلتے اور پیداہوتے ہیں۔ جب اس آواز میں خوش ترکبیاں (لحن وسُر) شامل ہوجائے اور دلکشیاں بڑھیں اور مد ہوشیاں پیدا کرنے والے سازو ساماں کا آضافہ ہوجائےتو اس آواز سےمحبتِ طبعی جوش میں آتیں ہیں ، لذتیں آنے لگتی ہیں اورمستیاں بڑھنی اور بے خودی طاری ہونی شروع ہوجاتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يَزِيدُ فِي الْخَلْقِ مَا يَشَاءُ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (اللہ تعالیٰ بڑھتا ہے خلقت میں جو چاھتا ہے) یعنی جسمانی ترکیب میں زیادتی فرما دیتا ہے۔ مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ اس زیادتی سے اشارہ آواز کی جانب ہے جو ترکیب ِ جسمانی پر ایک اضافہ ہے۔

سب سے پہلی مستی جو روح پر طاری ہوئی ألست بربكم کے دلکش نغمے کو سن کر طاری ہوئی تھی اور آخری مستی جو انسانی روح پر طاری ہوگی اس آخری نفخِ صور کو سن کر طاری ہوگی جس کی حیات بخش آواز مردوں میں جان ڈال دے گی اور جسے سن کر مردے زندہ ہوجائیں گے اور رقص کرتے ہوئے اپنے پرودگار کے حضور مین حاضر ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت داود علیہ السلام کو حسنِ صوت اور خوش الحانی کا معجزہ عطا فرمایا تھا، جب آپ زبور شریف کی تلاوت فرماتے تھے تو آپ کی مجلس میں بعض سننے والے جان دے دیتے تھے اور مجلس کے اختتام پر وہاں سے جنازے اُٹھتے تھے۔

الغرض ہر چیز میں قدرتی طور پر حسن پایا جاتاہے۔ اس ہی طرٰح آواز میں دلکشی و سرور کا ہونا آواز کا حسن ہے۔ جب دلکش آواز میں طبع زاد یا اصولی وقواعد ِ موسیقی کی پابندی سے تناسب و موزونیت ترقی دے دی جاتی ہے تو یہ آواز کاحسن اوربڑھ جاتا ہے۔ جب دونوں حسن یعنی حُسن کلام اور حُسن آواز آپس میں مل جاتے ہیں توان دونوں میں باہمی ترکیبِ لطیف واقع ہوجاتی ہے جس کا اثر ذوق ِ سلیم رکھنے والی طبعیت پر پڑتا ہے اور اس پر ایک مستی کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے جو وجہ ِرقص ہوتی ہے۔رقص ایک غیراختیاری فعل ہے۔
تحریر: محمد سعید الرحمن، ایڈوکیٹ)۔

Comments

Popular posts from this blog

سلسلہِ صندلیہ . حضرت علی محمد المعروف میاں صندل شاہ رحمتہ اللہ علیہ

جون ایلیا ایک تعارف