Ahl-e-Takween Rijalullah Rijalul Gaib / رجال اللہ ظاہر و مستور(امور تکوینی)
رجال اللہ ظاہری و مستور(امور تکوینی)
یہ اللہ تعالیٰ کے وہ برگزیدہ بندے ہوتے ہیں جن کے دل اللہ تعالیٰ کی معرفت میں ہمہ وقت مستغرق رہتےہیں اور انہیں فنا فی اللہ ہوجانے کی بناٗء پرقربِ ذات باری تعالیٰ حاصل ہوتا ہے اور اسرار ذات حق اُن پر منکشف ہوتے ہیں۔ قیام ِکائنات کا دار ومدار اِن پر ہے ۔یہ عبد اور رب کائنات کے درمیاں فیض رسانی کا ذریعہ ہیں۔ حق تعالیٰ نے انہیں امور تکوینی یعنی امر اللہ کو پائے تکمیل تک پہچانا کی قدرت سے بھی مشرف فرمایا ہوتا ہے۔ ان کی برکات سے نزول باران رحمت، سرسبزیِ نباتات، بقائے انواع حیوانات، انقلابِ حالات اغنیاء وسلاطین ومساکین، تنزیل وترقی اکابرین اور رفع بلا اور دفع وبا ء وغیرہ جیسےامور انجام پاتے ہیں۔ اِن رجال اللہ کا وجود حضرت آدم علیہ السلام سے لیکرحضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے تک رہا ہے اوراب آپؑ کے زمانے سے لیکر ظہور مہدی علیہ السلام تک رہے گا۔ مصنف سردالبراں حضرت شاہ محمد ذوقی ؒ فرماتے ہیں کہ جس طرح اللہ تعالیٰ اپنی حکمت بالغہ سے آفتاب کو نور عطا فرماتا ہے اور اس نور سے یہ عالم منور ہے، اسی طرح حق تعالیٰ غیب الغیب سے ایک نور ان حضرات پر نازل فرماتا ہے پھر اس نور کو اصلاحِ عالم اور نظامِ بنی آدم کا وسلیہ بناتا ہے۔
رجال اللہ جنہیں اولیاء اللہ بھی کہا جاتا ہے ان کی دو اقسام ہیں ۔ ایک (اولیاء ظاہرین )مردان خدا اور دوسرے (ا ولیاء مستوریں) مردانِ غیب ۔
اولیاء ظاہریں کے سپرد ہدایت خلق ہوتی ہے اور ان کے احوال مخلوق پرظاہر ہوتے ہیں۔ ان کا طرز طرز نبوت ہوتا ہے اور یہ حضرات انبیاء علیہ السلام کے حقیقی نائب ہوتے ہیں۔ لوگوں کے قلوب میں انوار وبرکات اِن اولیاء ظاہریں کی برکات سے آتے ہیں۔ ان کے سپرد خدمت خلق متعلق اصلاح قلب و تربیت نفوس وتعلیم طرائق قرب الی اللہ ہے۔ یہ حضرات اہل ارشاد کہلاتے ہیں اور ان میں سے جواپنے عصر میں اکمل و افضل ہوتا ہے اور جس کا فیض اتم واعم ہو اُس کو قطبِ ارشاد کہتے ہیں۔ انہیں اصطلاحاتِ تصوف میں شیخ کامل یا ہادی طریقت بھی کہا جاتا ہے کیوں کہ یہ اپنی تعلیم وتربیت اور تواسل وفیضان باطنی اور اپنے تصرف سے وصول الی اللہ تک پہونچانے والے ہوتے ہیں ۔ یہ بوجہ صاحب ارشاد ہونے کے نائبِ رسول ہوتے ہیں جو کام پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ظاہری حیات میں کیا اُسے بعد کے زمانوں میں جاری رکھتے ہیں انہیں عالم ملک و ملکوت میں حق تعالیٰ کی جانب سے تصرف عطا ہوتا ہے۔
اولیاء مستوریں جنہیں اصطلاحات تصوف میں رجال الغیب اور مردان غیب بھی کہتے۔ یہ اغیار کی نگاہ سے مستور (پوشیدہ) ہوتے ہیں۔ یہ صاحب خدمت ہوتے ہیں اور امورِ انتطامی کے انصرام کے لیےضرورت اظہار سے مستغنی ہوتے ہیں۔ ان کے سپرد انصرام اور امورتکوینی و خدمت خلق متعلق اصلاح معاش و انتظام امور د ُنیا و دفع ہے اور ہوہوتا ہے اور یہ اپنی ہمتِ باطنی سے باذن الہیٰ ان امور کی درستی کرتے ہیں ۔ ان رجال اللہ کو عرف عام میں اہل خدمت بھی کہتے ہیں ۔ امورتکوینی اللہ تعالیٰ کا وہ امر ہے جوکہ کن کہنےکی صورت میں صادر ہوتا ہے اور فیکون تک پہنچنے تک یعنی عدم سے وجود میں آنےتک جو اسباب کار فرما ہوتے ہیں۔ ان اسباب کو بجا لانے والے وہ صاحبان قضاء وقدر جو کسی بھی واسطے سے بے نیاز ہوکر امر الہی ٰ کو پورا کرتے ہیں مردان غیب کہلاتے ہیں۔ حضرت خضر علیہ السلام کی ذات بابرکات بھی ان صاحبان میں شامل ہے۔ ان مردان غیب کی مثل ملائیکہ علیہم السلام کی سی ہوتی ہے جن کو مدبرات امر فرمایا گیا ہے۔ ان میں جو اعلیٰ و قوی اور دوسروں پر حاکم ہوتا اس کو قطب ِتکوین کہتے ہیں۔
رجال الغیب میں ایسے اصحاب بھی ہوتے ہیں جو انبیاء علیہ السلام کے قدم بہ قدم چل کر عالم شہادت سے اُس غیب کی جانب منتقل ہوگے ہیں جسے مستوی الرحمن کہتے ہیں۔ یہ اصحاب وہ ہیں جو نہ پہچانے جاتے ہیں اور نہ ہی ان کا وصف بیان کیا جاسکتا ہےحالانکہ وہ انسان ہیں ۔عوام الناس کو مردان غیب ا کا ادراک نہیں ہوتا۔ عملی طور پر ایسے لوگ بظاہر صورت سے خستہ حال و شکستہ بال ہوتے ہیں۔ قطب تکوین کے لیے ضروری ہے کہ اس کو اپنے قطب ہونے کا علم ہو کیونکہ یہ ایک منصب ہے۔ حضرت ابن عربی ؒ فرماتے ہیں کہ ایک وقت میں قطب التکوین متعدد بھی ہوسکتے ہیں، حضرت شیخ اکبر ؒ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ہر بستی میں خواہ و کفار کی ہوایک قطب ہوتا ہے۔
اولیا مستورین (مردان غیب ) کے اکثر لوگ صرف اپنے ٹھکانوں میں ہی پائے جاتے ہیں۔ یہ اصحاب عالم احساس میں جس انسان کی صورت چاہیں اختیار کرلیتے ہیں۔ یہ لوگوں کو غیب کی خبر دیتے ہیں اور پوشیدہ امور بھی ظاہر کرسکتے ہیں۔ ان میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو دنیائے عالم میں پھرتے ہیں، لوگوں پر ظاہر ہوتے ہیں پھرغائب ہوجاتے ہیں، اُن سے باتیں بھی کرتے ہیں اور انہیں جواب بھی دیتے ہیں ، یہ اصحاب زیادہ تر جنگل پہاڑ اور نہروں کے کنارے بستے ہیں لیکن ان میں جو قوی تر ہیں وہ شہروں میں بھی بستے ہیں ، صفات بشری کو اپنے اوپر اوڑھے لپٹے رہتے ہیں ، اچھے اچھے مکانوں میں رہتے ہیں ، شادی بیاہ کرتے ہیں ، کھاتے پیتے ہیں ، بیمارپڑتے ہیں، علاج کرتے ہیں ، اولاد واسباب اموال و املاک رکھتے ہیں، لوگ ان سے حسد بھی کرتے ہیں ، دشمنی بھی برتے ہیں ، لوگ انہیں ایذا بھی پہنچاتے ہیں مگر ان تمام معاملات کے باوجودحق تعالیٰ ان کے حُسن احوال اور کما لاتِ باطنی کو اغیار کی نگاہ سے پوشیدہ رکھتا ہے۔
رجال اللہ ظاہرین ہوں یا مستورین یہ سب کل بارہ (12) گروہ ہیں۔
(1) ابدال
: یہ سات (7) ابدال وہ ہوتے ہیں جن کا کام مدد معنوی ہے اوریہ
سات اقالیم پر متعین ہیں ۔ ان سات ابدالوں میں سے دو (2) ابدالوں کو اُس ملک یا
قوم پر مسلط کیا جاتا ہے جن پر اللہ تعالیٰ قہر خداوندی فرماتا ہے۔ اس کے علاوہ
پانچ (5) ابدال اور بھی ہوتے ہیں جو یمن میں رہتے ہیں
جنہیں قطب ولایت کہا جاتا ہے۔ ان کے علاوہ چار سو چار (404) ابدال اور ہوتے ہیں یہ
مختلف انبیاء کے مشرب پر مختلف خدمات کو سر انجام دیتے ہیں۔
(2) ابرار:
ان (404) چار سو چار ابدال میں سے چالیس (40) ابدال ابرار کہلاتے
ہیں۔
(3) اخیار : ان (۴۰) ابدال میں سے سات ہمیشہ
سفر میں رہتے ہیں یہ اخیار کہلاتے ہیں اور ان سب کے نام حسین ہوتے ہیں۔
(4) اقطاب
: قطب عالم ایک ہوتا ہے۔ اس کو قطب ارشاد یا قطب الاقطاب و قظب المدار بھی کہتے
ہیں اور عالم غیب میں اس کا نام عبد اللہ ہوتا ہے۔ بارہ (12) قطب اور ہوتے ہیں جن
میں سات (7) تو سات اقلیم میں رہتے ہیں جو قطب اقلیم کہلاتے
ہیں اور پانچ (5) قطب یمن میں رہتے ہیں ان کو قطب ولایت کہتے ہیں۔
اسکے علاوہ غیر معین تعداد اقطاب کی ہوتی ہے اس لیے کہ ہر شہر اور ہر قریہ میں ایک
قطب رہتاہے۔ یہ تمام قطب عالم کے ماتحت ہوتے ہیں۔
(5) امامین:
قطب عالم کے دو (2) وزیر ہوتے ہیں جو امامین کہلاتے ہیں۔
(6) اوتاد
: یہ چار ہوتے ہیں عالم کے چاروں کونے میں رہتے ہیں ۔ اوتادِ مغرب کا نام عبد
الودود، اوتاد مشرق کا عبد الرحمن، اوتادِ جنوب کا عبدالرحیم اور اوتادِشمال کا
عبدالقدوس ہوتا ہے۔ قیام عالم میں ان سے میخوں کا کام لیا جاتا ہے اور یہ بمنزلہ
پہاڑ کے ہوتے ہیں جن سے زمین کی سرسزی قیام اور سکون مقصود ہے۔
(7) عمد:
یہ چار ہوتے ہیں زمین کے چاروں گوشے میں رہتے ہیں سب کا نام محمد ہوتا ہے۔
(8) غوث:
ایک ہوتا ہے۔ بعض کہتے کہ قطب الاقطاب ہی غوث ہوتا ہے مگر ابن عربی ؒ فرماتے ہیں
غوث جداگانہ منصب ہے۔ غوث مکہ میں رہتا ہے۔
(9) مفرداں:
مفردان فرد کی جمع ہے۔غوث یا قطب عالم ترقی کرتا ہے تو وہ فرد ہوجاتا ہے اور فرد
ترقی کرکے قطب وحدت ہوجاتا ہے۔
(10)
مکتوماں: یہ لوگ چار
ہزار ہوتے ہیں آپس میں ایک دوسرے کو پہچانتے ہیں لیکن اپنے آپ کو نہیں پہچانتے ۔
ایسے لباس میں ہوتے ہیں کہ اغیار نہیں پہچان سکتے یعنی پوشیدہ اور چھپے ہوئے ہوتے
ہیں۔
(11)
نجباء: یہ ستر ہوتے ہیں اور
مصر میں رہتے ہیں سب کا نام حسن ہوتا ہے۔
(12)
نقباء: تین سو ہوتے ہیں مغربی
ممالک میں رہتے ہیں سب کا نام علی ہوتا ہے۔
والسلام (محمد سعید الرحمن)
حوالہ جات: (۱) سرِدلبراں مصنف حضرت شاہ محمد ذوقی ؒ (۲) اصطلاحات صوفیہ مرتب حضرت شاہ محمد عبدالصمد ؒ (۳) شریعت و طریقت مصنف حضرت مولانا شاہ اشرف علی تھانوی ؒ (۴) کشف النورمصنف امام عبدالغنی بن اسماعیل (اردو ترجمہ بنام فیضان ِ کمالات ِاولیاء) ۔
والسلام (محمد سعید الرحمن)
حوالہ جات: (۱) سرِدلبراں مصنف حضرت شاہ محمد ذوقی ؒ (۲) اصطلاحات صوفیہ مرتب حضرت شاہ محمد عبدالصمد ؒ (۳) شریعت و طریقت مصنف حضرت مولانا شاہ اشرف علی تھانوی ؒ (۴) کشف النورمصنف امام عبدالغنی بن اسماعیل (اردو ترجمہ بنام فیضان ِ کمالات ِاولیاء) ۔
Comments
Post a Comment