سلسلہِ صندلیہ . حضرت علی محمد المعروف میاں صندل شاہ رحمتہ اللہ علیہ
حضرت علی محمد المعروف میاں صندل شاہ رحمتہ اللہ علیہ
امام سلسلہِ صندلیہ
===============
مرتب کردہ:
محمد سعید الرحمن ایڈوکیٹ
==================
حضرت میاں صندل شاہ
رحمتہ اللہ علیہ ہندوستان کے شہر" پہاڑم ضلع مین پوری" میں پیدا ہوئے۔ آپ کا شمار قادریہ و نقشبندیہ سلسلے کے اولیاء
اللہ میں ہوتا ہے ۔ آپ کےجسم مبارک سے قدرتی طور پر صندل کی خوشبو اس قدرپھونٹی تھی کہ آپ جس محفل میں ہوتے تھے یا مقام سے
گزرجاتے تو وہ مقام آپکی جسم مبارک کی اس خوشبو سے مہک اُٹھتا تھا۔یہ خوشبو ربِ
کائنات نے آپ کےبباطن میں ودیعت فرما دی تھی اور آپ کےجسمِ مبارک کے مسانوں سے نکل کر
بیرونی ماحول کو معطر کیا کرتی تھی۔کیونکہ
آپ کو صندل سے ایک خاص نسبت حاصل
رہی تھی اس ہی لیے آپ سے جاری اس سلسلے قادریہ نقشبندیہ کو " سلسلہ
صندلیہ" کہا جاتا ہے۔
اولیاء اللہ کے بدن سے
مہکنے والی خوشبوں کی بابت سلطان المشائخ
حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءؒ فرمایا کرتے تھے یہ محبت کی خوشبو ہے جس کو اللہ
تعالیٰ نے اپنے محبت کرنے والوں کی ذات میں پوشید رکھا ہواہے۔
جس مقام پر اہلِ دل جمع ہوتے ہیں ان کے چلے جانے کے بعد بھی دیر تک یہ خوشبو اس جگہ باقی رہتی ہے، یہ خوشبو خارجی نہیں بلکہ ہر ایک کی
ذات میں ایک نافہ ہے، بعض کی خوشبو ظاہر ہوتی ہے اور بعض کی پوشیدہ اور ہر ایک
خوشبو دوسرے سے مختلف ہوتی ہے کسی میں کافورکی خوشبو ہوتی ہے اور کسی میں عنبر کی خوشبو ۔
حضرت
میاں صندل شاہ رحمتہ اللہ علیہ نے ظاہراً کسی مدرسے یا مکتب میں باقاعدہ تعلیم
حاصل نہیں کی تھی اور آپ کو علم کا جوبھی خزانہ ملا وہ علم لدنی (سماوی) تھا۔ علم
لدنی اس علم کو کہتے ہیں جو علم بغیر کسی خارجی سبب کے خود بخود قلب میں منجانب
اللہ آتا ہو۔ چناچہ آپ معقولات اور
منقولات کے بڑے بڑے مشکل اور ادق مقامات کو اس طرح حل فرما دیا کرتے تھے کہ علماء
حیران رہ جایا کرتے تھے۔ آپ علمِ حدیث، علمِ تفسیر اور علم ِفقہ میں خصوصی مہارت
رکھتے تھے، آپ کو شعر وشاعری
سے بھی
شغف تھا اور عشق حقیقی میں ہر وقت مستغرق رہتے تھے لہذا شعر بہت کم کہتے
تھے، آپ نے جو کچھ بھی اشعار کہےدل کی گہرائیوں میں ڈوب کر کہے، آپ کی کہی گئی کچھ غزلیں اوربجھن محفوظ ہیں۔آپ کو حضرت مولانا
سراج الاسلامؒ جو امام شاہی مسجد اگرہ تھےسے شرف بیعت و خلافت حاصل ہوا تھا۔ حضرت
میاں صندل شاہ کےمریدوں کی تعداد ہزاروں میں ہے ۔پہاڑم کے علاوہ مختلف شہروں
آگرہ، متھر، علیگڑہ، فیض آباد، بارہ بنکی، بمبئی، جھانسی، احمد آباد، گجرات،
کراچی اور لاہور میں آپ کے مریدین کی ایک کثیر تعداد ہے جنہوں نے آپ سے اکتساب
فیض حاصل کیاتھا۔
حضرت میاں صندل شاہ ؒ
کا سلسلہ طریقت دس واسطوں سےحضرت امام ربانی مجد
د الف ثانی تک پہچتا ہے۔ حضرت مجدد الف ثانی نے تصوف میں سلسلہ چشتیہ کی تعلیم
اپنےوالدسےپائی تھی، سلسلہ قادریہ کی حضرت شیخ سکندرکیتھلیؒ سے اورسلسلہ نقشبندیہ
کی تعلیم دہلی جاکرخواجہ باقی باللہ سےحاصل کی تھی ۔ اس ہی وجہ سے حضرت میاں صندل
شاہؒ کا سلسلہ طریقت قادریہ ہے اور ذوق
نقشبندیہ ہے اور یوں یہ سلسلہ قادریہ و نقشبندیہ کہلاتا ہے۔ آپ کا یہ سلسلہ طریقت
قادری ونقشبندی (23) واسطوں سے بشمول حضرت مجدد الف ثانیؒ سے ہوتا
ہوا شیخ عبدالقادرجیلانی رحمتہ علیہ سے جاملتا ہے جو سلسلہ قادریہ کے امام کہلاتے
ہیں ۔
حضرت میاں صندل شاہ ؒ کی ذات بابرکت سے کئی مخیرالعقول
واقعات بھی ظہور پذیر ہوئے مثلا ایک مرتبہ آپ ایک ایسے چلہ کشی کے عمل میں متکف
تھے جس میں اس پابندی کا التزام رکھنا تھا کہ دوران چلہ مخلوقِ خدا سے مکمل قطع
تعلق اخیتار کیا جائے اور نہ ہی کسی بشر کی کوئی آواز بھی سماعت میں آئے۔ آپ کے
مجاہدات میں یہ ایک مشکل چلہ تھا بہر کیف اسی ہی چلے کے دوران ایک رات آپ پر ایک
خاص قسم کیفیت طاری ہوئی اور آپ شب کی تاریکی میں اپنی چلہ گاہ سے بہت بے قراری
کے عالم میں باہر تشریف لائے اور ایک اضطرابی کیفیت میں بآواز بلند تین مرتبہ
فرمایا کہ حاجی صاحب کی خیر ہو۔ اس واقعہ کے عینی شاہدین کا بیان ہے کہ اس ہی روز
صبح بارہ بنکی سے اطلاع آئی کہ وارثی سلسلے کے امام حضرت وارث علی شاہ رحمتہ اللہ
علیہ کا وصال ہوگیا ہے۔ جب آپ چلے سے فارغ ہوگے تو بعض مریدین نے آپ سے آپ کی
اس کیفیت کے بارے میں استفسار کیا تو آپ نے فرمایا کہ حاجی صاحب کے وصال کی اطلاع
اولیاء اکرام تک پہنچانی تھی جو میری ذمہ داری تھی ۔ میری یہ آواز جن جن اولیاء
اکرام نے سماعت فرمائی وہ سب حاجی صاحب کی نماز جنازہ میں شریک ہوئےتھے اور میں نے
بھی جسم مثالی سے نماز جنازے میں شرکت کی تھی۔
نشاندھی مزارِ بزرگان دین سے متعلق آپ کا ایک یہ واقعہ بھی مشہور ہے کہ جب آپ قیام پاکستان سے قبل اپنے عقیدت مندوں اور مریدیں سے ملنے کے لیےکراچی تشریف لائے تھے
تو برائے زیارتِ مزارتِ بزرگان دین آپ اپنے وابستگان و ارادت مندوں کے ساتھ شہر ٹھٹہ کے قدیمی قبرستان مکلی بھی تشریف لے گے تھے ۔ دوران
زیارت ِمزارت آپ نے اپنے مریدین
سے اپنے سلسلہ عالیہ کے مشائخ حضرت شاہ فضیل
رحمتہ اللہ کے مزار مبارک کے بارے
میں استفسارکیا اور حاضری دینے کی خواہش ظاہر کی کیونکہ آپ کو یہ علم تھا کہ آپ کامزار اقدس بھی مکلی کے قبرستان میں واقع ہے۔جب
آپ کو حضرت شاہ فٖضیل ؒ کے مزار مبارک پر لے جایاگیا اورآپ وہاں کچھ دیر کے
لیےمراقب ہوئے۔ بعد مراقبے کے آپ نے
فرمایا یہ مزار آپ کا نہیں
ہے۔ پھر آپ اپنے وابستگان کے ساتھ حضرت عبداللہ اصحابی ؒ کے مزار
اقدس پر تشریف لے گے اور
آپ سے بذریعہ مراقبہ حضرت شاہ فضیل ؒ کے مزار اقدس کی نشاندھی کے طالب
ہوئے۔ جب آپ مراقبے سے فارغ ہوئے تو اپنے
وابستگان کے ساتھ حضرت عبداللہ
اصحابیؒ کی مکاشفہ میں
آشکار کردہ قبرِ مبارک پر تشریف
لے گے جو حضرت عبداللہ اصحابی کے مزار
اقدس سےتقریباً ایک فرلانگ دور تھی۔ چنانچہ آپ حضرت عبداللہ اصحابی ؒ کی مراقبے میں آشکار
کردہ مزار مبارک پر گئے، وہاں کچھ دیرمراقب ہوئے ، اس مزار مبارک پر مراقبے میں توثیق کے طور پر آپ
کی ملاقات حضرت شاہ فضیل قادریؒ سے ہوئی۔
چنانچہ نشانی کے طور پر آپ نے اس مزار
مبارک پر ایک سنگ بھی اپنے دست مبارک سے نصب کیا اور سلسلے عالیہ سے منسلک
وابستگان کوبھی اپنے اس مکاشفے سے آگاہ کیا اور حضرت شاہ فضیل ؒ کے اصلی مزار شریف کو ظاہرفرمایا ۔
بعدہُ اس مزارِ مبارک پر حضرت شاہ فضیل قادریؒ کےنام مبارک اوریوم وصال کا تحریر کردہ کتبہ نصب
کیا گیا اور درگاہ عالیہ تعمیر کی گئی۔ آپ کے عرس کی تقریبات ہر سال
اس ہی درگاہ پر ہی منعقد ہورہی ہیں اور اس عرسِ مقدسہ کے
انتظام و انصرام کی سعادت حضرت میاں
صندل شاہ کے وابستگان کو حاصل ہے۔
حضرت سید شاہ محمد ذوقی ؒ اپنے تصینف
سر ِدلبران میں تحریر فرماتے ہیں کہ اولیا اللہ کو بعض صورتوں میں بعد اکتساب کے ایک خاص نوعیت و لطائف و قوت کی صورت ِ
مثالی عطا فرمائی جاتی ہے جو صورتاً
بدن ِ عنصری کے مشابہ اور لطائف میں روح کے قریب قریب ہوتی ہے اور قوت میں
عوام کی صورت ِ مثالی سے بڑھی ہوئی ہوتی ہے ۔ بعض اولیاء کو حیاتِ ظاہری
میں ونیز بعد ممات ِ اضطرابی یہ قدرت حاصل
ہوجاتی ہے کہ وہ جس شکل اور جس صورت میں چاہیں اپنے آپ کو ایک ہی وقت میں مختلف مقامات پر
دکھلائی دیں۔حضرت میاں صندل شاہ ؒ کے مریدین نے آپکی صورت مثالی کی بیک وقت مختلف مقامات پر مشاہدے سے متعلق ایک واقعہ بھی بیان کیا ہے کہ ایک عیدکے موقع پر آپ بیک وقت اپنے سات (7) مختلف مریدیں کےگھروں پرتشریف لے گئے تھے جو
مختلف شہروں میں رہتے تھے اور ان کی دلجوئی کے لیے بطور ضیافت ان کے ہاں عید کی سوئیاں (میٹھا) بھی تناول فرمایا
تھا۔
آپ نے اپنے آبائی شہر
پہاڑم شریف میں 5 ذی الحجہ سن 1362 ہجری بنوی کو وصال فرمایا اور وہیں آپ کا
مزارمبارک زیارت گاہ خلق ہے۔
آپ کا عرس مبارک ہر
سال پہاڑم شریف ضلع مین پوری،ہندوستان میں آپ کے نواسے جناب عبدالرشید مد ظلہ
العالیٰ کی زیرسیادت جو دربار صندلیہ کے موجودہ سجادہ نشین بھی ہیں 4
ذی الحج تا 6
ذی الحج نہات تزک و
احتشام سے منایا جاتا ہے۔ موجودہ سجادہ نشین صاحب کے والد گرامی کا نام حضرت
بوالحسن ؒ ہے جو حضرت میاں صندل شاہ ؒ کے خلیفہ مجاز اور داماد بھی تھے ۔ حضرت
میاں صندل شاہ ؒ کے عرس کی تقریبات ہرسال کراچی، پاکستان میں بھی آپ کےخلیفہ مجاز حضرت صوفی میاں اسحاق صندلی
ؒ کی خانقا ہ دربارہ اسحاقیہ علیمیہ واقع نارتھ کراچی اور حضرت مولانا ابراہیم صندلیؒ کی خانقاہ آستانہ
صندلیہ کورنگی میں منعقد ہوتی ہیں جس
میں وابستگان ِ حضرت میاں صندل شاہ ؒ اور دیگر سلاسل کے مریدین ومتوسلین برائےحصولِ فیوض وبرکات کے لیے خصوصی طور پر
شرکت فرماتے ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد
آپ کےپانچ خلفاء مجاز (1) حضرت صوفی
اسحاق میاں صندلیؒ (2) حضرت صوفی ڈاکٹر علیم الدین صدیقی صندلیؒ (3) حضرت صوفی حکیم
عبدالعزیز صندلیؒ عرف چھوٹے میاں (4) حضرت مولانا محمد ابراہم صندلیؒ (5) حضرت مولانا فضل الرحمن
صندلی ؒ پاکستان تشریف لے آئے تھے ۔ حضرت صوفی میاں اسحاق صندلیؒ اور حضرت صوفی حکیم عبدالعزیز صندلیؒ عرف چھوٹے میاں نے کراچی کو اپنامسکن بنایا تھاجب کہ
حضرت صوفی علیم الدین صدیقی صندلی
ؒ نے سکھر میں سکونت اختیار کی اور بعدہ آپ بھی کراچی تشریف لے آئے اور مولانا
ابراہیم صندلیؒ نے لاڑکانہ قمبر علی شاہ
میں کچھ سال قیام کرنے کے بعد لانڈھی کراچی میں مستقل سکونت اختیار کی اور
کئی مساجد میں امام و خطابت کے فرائض انجام دئیے۔ حضرت
مولانا فضل الرحمن صندلیؒ بھی کراچی میں سکونت پزید ہوئے اور ایک عرصے دراز تک جامع مسجد قصابان ، صدر کراچی کے امام و خطیب کے منصب پر فائز رہے۔حضرت میاں صندل شاہ کے وہ تمام خلفاء حضرات جو
پاکستان تشریف لائے تھے اب وصال فرماچکے ہیں اور اب یہ سلسلہِ صندلیہ پاکستان میں
آپ کے خلفاء کے متوسلین سے جاری وساری ہے۔
والسلام ۔ محمد سعید الرحمن، ایڈوکیٹ۔
Comments
Post a Comment