Hazrat Syed Yousuf Ali Aziz Sulamani (R.A.)/ حضرت الحاج حافظ سید محمدیوسف علی عزیز سلیمانی المعروف عزیز الاولیاؒ
حضرت الحاج حافظ سید محمدیوسف علی عزیز سلیمانی المعروف عزیز الاولیاؒ
خانوادہ تونسہ شریف کے ایک کثیر التصنیف صوفی بزرگ
==================================
حضرت سید یوسف سلیمانی المعروف عزیز الاولیا رحمتہ اللہ علیہ سلسلہ چشتیہ نطامیہ کے ایک نامور صوفی شاعر بزرگ ہونے کے علاوہ ساٹھ سے زائد کتب کے مصنف ہیں۔ آپ کی ولادت با سعادت وسط رجب سن 1306 ہجری بمطابق14 مارچ سن 1889ء بروز جمعرات محمد آباد، ریاست ٹونک بھارت میں ہوئی۔آپ کے والد بزرگوارحضرت سید افضل علی رحمتہ اللہ علیہ جے پور سے آکر یہیں سکونت پذیر ہوگے تھے، اس طرح آپ کا خاندان ریاست ٹونک اور ریاست جے پور دونوں میں سکونت پذیر رہا۔
آپ نے 9سال کی عمر میں قرآن کریم حفظ کیا ، ابھی دس سال کے ہی تھے کہ سایہ پدری سے محروم ہوگے اور اپنے نانا مفتی آعظم ٹونک حضرت مفتی محمد عطیم ٹونکی المعروف کبیر الاولیا ؒ سے فارسی اور دینیات میں حدیث، فقہ ، علوم منقول ومعقول کی تعلیم حاصل کی بعدہٗ مہارراجہ کالج جے پور میں داخلہ لیا اور فن حرب وضرب کی تعلیم حاصل کی اور فوج میں ملازم ہوگئے۔ گیارہ سال تک ریاست فوج میں مختلف اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے، پھر آپ کی علمی و ادبی صلاحتیوں سےبھرپور استفادہ حاصل کرنے کے لیےریاست کے محکمہ خاص میں طلب کرلیے گے اور مختلف تحقیقی وعلمی کاموں کی انجام دہی کے بعد سن 1951کو ا ملازمت سے سبکدوش ہوکر پنشن یاب ہوئے۔
آپ کو ارود، فارسی عربی، ہندی، اور سنسکرت زبانوں پر عبور حاصل تھا ۔ شاعری کی تمام اصناف نعت، غزل، نظم ، قصیدہ ، قطعہ ، رباعی ، مثنوی اور مرثیہ وغیرہ میں مہارت حاصل تھی اور شاعری کی تمام اصناف میں کل ملا کر تقریباً نو(9) لاکھ سے اشعار کہے۔ شاعری میں آپ مرزا غالب کے مشہور تلمیذ احمد مرزا سید آگاہ دہلوی کے شاگرد تھے جنہوں نے آخری عمر میں اپنا قلمدان بھی آپ کو سونپ دیا تھا ۔
آپ ایک بے بدل عالم اور خطیب تھے، آپ کے ساحرانہ خطابت سے ہر طبقہ کا فرد یکساں محظوظ ہوتا اور کمال خطابت سے مبہوث رہ جاتا تھا۔ آپ بہترین استاد بھی تھے۔ آپ کےشاگرودں کی کثیر تعداد گزری ہےجن میں سے بعض دور حاضر کے استادِ سخن بھی کہلائے گے ہیں۔ آپ کی مذہب، ادب اور تاریخ مغلیہ تاریخ خصوصاً عہد عالمگیری پر خصوصی نظر تھی۔ تاریخ اورنگ زیب جو تین جلدوں پر مشتمل ہے کو جامعہ کراچی میں تاریخ کے طلبہ کے لیے لائق مطالعہ و ریفرنس بک قراد دیا گیاہے۔ آپ کی تصنیفات میں سیرت طیبہ میں معجزہ نما ،سیرت، ہادی برحق، قرآن ناطق اور ادبِ عزیز معرکتہ الارہ تصنیف ہیں۔ آپ کی تصانیف پر تبصرہ لکھنے والے مشاہرین میں بابا اردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق، جناب ممتاز حسین، اے بی حلیم، ڈاکٹر محمود حسین، ڈاکٹر معین الحق، سردار عبد الرب نشتر، پیر الہیٰ بخش، ڈاکٹر منطور الدین وغیرہ شامل ہیں۔
جب آپ کی قائد آعظم سے ملاقات ہوئی تو آپ نے اپنی کتاب تاریخ اورنگ زیب قائد آعظم کو پیش کی جس پر بابائے قوم نے آپ سے استفسار کیا کہ اس تاریخ سے ہماری قوم کو کیا فائدہ ہوگا، جس پر حضرت نے بلا توقف فرمایا کہ اس سے لوگوں کو یہ معلوم ہوگا کہ ایک مسلمان کس طرح بادشاہ ہوسکتا ہے اور ایک بادشاہ کس طرح مسلمان رہ سکتا ہے۔ قائد آعظم آپ کے اس جواب سے بہت محظوظ ہوئے مسکرائے اور مصافحہ کے لیے بے ساختہ اپنا ہاتھ آپ کی جانب بڑھایا۔ حضرت عزیز اولیا کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ بابائے اردو فرط محبت میں آپ کا ہاتھ چومتے تھے اور اپنے شاگردوں سے جب بھی آپ کا تعارف کراتے تھے تو فرمایا کرتے تھے کہ بابائے اردو سے تو ملتے ہی رہتے ہو آج دادائے اردو سے ملو۔
حضرت عزیز اولیاء ؒ کو حضرت خواجہ اللہ بخش تونسویؒ سجادہ نشین تونسہ شریف جو شاہ محمد سلیمان تونسوی المعروف پیر پٹھان ؒ کے پوتے تھے سے قادری وچشتیہ نظامیہ سلسلے میں شرف بیعت اور سلسلے عالیہ کی خلافت و نیابت حضرت خواجہ پیر محمد حامد تونسوی سے حاصل ہوئی۔ منقول ہے کہ حضرت خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسویؒ کےدونوں فرزند آپ کی ہی زندگی میں ہی فوت ہو چکے تھے اس لیے ان کی وفات کے بعد آپ کے پوتے خواجہ اللہ بخش تونسوی ؒ تونسہ شریف کی مسند پر جلوہ افروز ہوئے تھے۔ حضرت عزیز اولیاءؒ نے ظاہری علوم کے علاوہ باطنی علوم و منازل سلوک اپنے پیر ومرشد کی زیر نگرانی طے کرکے روحانیت کے اعلیٰ درجے پر بھی فائز ہوئے۔ریاست ٹونک و جے پور کے علاوہ پاکستان میں بھی آپ کے مریدین و متوسلین کی ایک کثیر تعداد ہے جو آپ کے دامن فیض سے وابستہ رہی ہے۔ قیام پاکستان کے بعد آپ تین مرتبہ پاکستان تشریف لائے۔ سن 1956میں آپ سردار عبد الرب نشتر کی خصوصی دعوت پر بھی پاکستان تشریف لائے تھے اور پھر سن 1959 میں اپنی اہلیہ کی وفات کے بعد بابائے اردو کے کہنے پر مستقل طور پر پاکستان ہجرت فرمائی اور اپنی پنشن بھی پاکستان منتقل کروالی۔
آپ نے سن 1975 میں مدینہ طیبہ میں سکونت اختیار کرنے کی غرض سے اپنا نہایت قیمتی کتب خانہ اپنے سب سے چھوٹے صاحبزادے حضرت سید صداقت علی جگر المعروف حاجی میاں کے گھر منتقل فرمادیا تھا جن کا قیام لانڈھی میں تھا۔مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا ، آپ ہی دنوں صاحب فراش ہوگے اور بیماری نے طول کھنچا ، معالجوں نے سفر کی اجازت نہیں دی۔ جب سفر آخرت کاوقت قریب آیا تو وہ تسبیح جو مدت العمر ہاتھ سے جدا نہیں ہوئی تھی اپنے صاحبزاد حضرت سید صداقت علی جگر المعروف حاجی میاں کو نظروں سے نظریں ملا کر سونپ دی اور اپنا سجادہ نشین بناکر بدہ کے دن 7 ذیعقدہ 1395 ہجری مطابق 12نومبر 1975 بوقت فجر داعی اجل کو لبیک کہا اور واصل حق ہوئے۔
آپ کی آخری آرمگاہ ایک عالیشان گنبد میں جو لانڈھی نمبر 1، ریڑھی قبرستان سے متصل اراضی پرتعمیر کردہ خانقاہ المعروف بہ خانقاہ و دربارِ عزیز الاولیا مرجع خاص و عام ہے جہاں آپ کا عرس ہرسال 6اور 7 ذیقعدہ کو بڑے اہتمام سے آراستہ ہوتا ہے۔ حصول فیض کے لیے آپ کے مزار اقدس پر لانڈھی اور اس کے قریب و جوار کے باشندوں کے علاوہ حضرت کے معتقدین کا روزانہ کافی مجمع رہتا ہے۔
کی شریعت کے مطابق زندگی اپنی بسر
زیر دامانِِ رسالت ہیں عزیز الاولیاء
سالِ رحلت ان کا صابر ؔ مل گیا یہ غیب سے
سایہ دار ِ باغِ جنت ہیں عزیز الاولیاء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔1975ء۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
والسلام (تحقیق و ترتیب: محمد سعید الرحمن، ایڈوکیٹ)
زیر دامانِِ رسالت ہیں عزیز الاولیاء
سالِ رحلت ان کا صابر ؔ مل گیا یہ غیب سے
سایہ دار ِ باغِ جنت ہیں عزیز الاولیاء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔1975ء۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
والسلام (تحقیق و ترتیب: محمد سعید الرحمن، ایڈوکیٹ)
Comments
Post a Comment