Sheikh al-Akbar, Mohiuddin ibn Arabi / شیخ اکبرؒ ( وحدت الوجود )
شیخ اکبرؒ ( وحدت الوجود )
----------------------
----------------------
سید الطائفہ حضرت جنید بغدادی ؒ فرماتے ہیں کہ جب بندہ غیر اللہ سے کلیۃً قطع تعلق کرلے گا تو دوری کا ازلہ ہوجائے گا۔ جب دوری کا احساس مٹ جاتا ہے اوراللہ کا قرب حاصل ہوجاتا ہے تو صوفی پر یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ میری صفات دراصل خدا ہی کی صفات ہیں اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کی صفات فنا ہوجاتی ہیں۔ حضرت داتا گنج بخش ہجویریؒ نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ حقیقی توحید میں انسانی صفات قائم بالذات اورمستقل نہیں ہیں بلکہ یہ محض رسوم ہیں اورسراسر غیرمستقل اورعارضی جیسے آئینے میں عکس۔ فاعل حقیقی صرف خدا ہے اس لیے وہ دراصل صفات باری تعالیٰ ہیں۔
صوفیا کے اس نظریے کو کہ وجود دراصل ایک ہی ہےاوروہ اللہ تعالی ٰہے۔جوازل سےابدتک ہے،ہمیشہ ہے،ہرحال میں ہےہرجگہ ہے۔باقی وجود نہ ہونےکےبرابر ہیں اورصرف اسکےقائم رکھنےسےقائم رہتےہیں، اسکےمٹا دینےسےمٹ جاتےہیں اوران کی کوئی اپنی ذاتی حثییت نہیں ہے۔صوفیاکےاِس نظریےکووحدت الوجود کانام دیاگیاہےکہ وجودصرف ایک ہے اور وہ واحد لاشریک ہے،باقی وجودوں کا ہونا یا نہ ہونابرابرہے۔حضرت شیخ محی الدین ابن عربیؒ نےجب اس نظریےکواپنی کتاب میں جگہ دی اوراس پربحث فرمائی توپھریہ مستقل ایک نظریہ بن گیا، جو وحدت الوجود کے نام سے موسوم ہے۔
حضرت شیخ محی الدین ابن عربیؒ کےمقلدین کامسلک یہ ہےکہ ظاہروباطن خداکےسواکوئی موجودنہیں ہے،یہ دکھائی دینےوالاعالم جو خدا کا غیرمحسوس ہوتاہے اور جسے ’’ماسوا‘‘کہتےہیں، ماسوانہیں ہےبلکہ خداکامظہرہے۔اللہ تعالیٰ اپنی لامحدودشان کےساتھ اس عاَلم میں جلوہ گرہے،یہ غیریت اورکثرت جومحسوس ہوتی ہے صرف ہمارا وہم اور ہماری عقل کاقصورہے،جسےہم غیرسمجھ بیٹھےہیں،حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔
شیخ اکبرمحی الدین محمد ابن العربی الحاتمی الطائی الاندلسی دنیائےاسلام کےممتاز صوفی،عارف،محقق، قدوہ علماء، اورعلوم كا بحربیكنارہیں۔ آپ اندلس کےشہرمرسیہ میں17رمضان المبارک 560ھ مطابق 1165ءکوایک معززعرب خاندان میں پیدا ہوئے۔شیخ اکبرؒکے جداعلیٰ حاتم طائی عرب قبیلہ بنوطےکےسرداراوراپنی سخاوت کےباعث صرف عرب ممالک میں ہی نہیں پوری دنیا میں مشہورتھے اور حاتم طائی کی نسل سے ہونے کی بنا پرآپ کا خاندان تقوی عزت اوردولت میں اہم مقام رکھتاتھا۔ آپ کوسب سےزیادہ شہرت الشیخ الأکبرکےلقب سےہوئی اورمسلمانوں کی تاریخ میں یہ لقب کسی دوسری شخصیت کےلیےاستعمال نہیں کیا گیا ہے۔صوفیا آپ کوشیخ الاکبرکہتےہیں۔ آپؒ کی تصانیف کی تعدادپانچ سوکےقریب ہے۔ جن میں فصوص الحكم اورالفتوحات المکیہ (4000 صفحات) بہت مشہورہے۔فتوحات المكيۃ 560 ابواب پرمشتمل ہےاورکتب تصوف میں اس کادرجہ بہت بلندہے۔
شیخ اکبرؒ شروع میں مالکی مذہب پر کاربندتھےمگرمنازل سلوک طےکرنےکےبعدآپؒ ایک ایسےمجتہدکےرتبے پر فائز ہوچکےتھےکہ تمام علوم گویا آپ کےسامنےعیاں ہیں۔ جہاں سےچاہتے ہیں آپ لےلیتےہیں۔ شیخ اکبرؒنےتصوف میں گویا سلف الصالحین کےمسلک کواپنانےکی کوشش کی اوراپنےعقائدکی بنیاد شرع کےمیزان پررکھی۔ اپنےایک رسالے میں اہلسنت کےلفظ سےاشارہ کرتے ہیں گویا وہ اپنے آپ کو اس حدیث کےتابع سمجھتےتھے۔ جس میں حضورﷺنےفرمایاکہ اسلام میں 73فرقےہوں گے۔ اوراُن میں سےصرف ایک راہ حق پرہوگااوریہ لوگ اس طریق پرہوں گےجس پر میں اورمیرےاصحاب ہیں۔
شیخ اکبرؒنےاپنےرسالہ نسب الخرقہ میں اپنےپانچ مختلف سلاسل سےبیعت کاتذکرہ کیاہے۔ جن میں دوسلسلوں میں حضرت خضرعلیہ السلام،ایک واسطےسےحضرت شیخ عبدالقادرجیلانی ؒکےسلسلہ قادریہ میں بیعت ہیں جب کہ ایک سلسلے میں وہ اویس قرنی کےواسطےسےحضرت علی کرم اللہ وجہہ اورحضرت محمدﷺتک پہنچتےہیں۔ سلسلہ قادریہ میں آپ کے اور حضور غوث پاک کے درمیان صرف ایک واسطہ ہے اور آپ کا یہ طریقہ طریقہ اکبریہ کہلاتا ہے یعنی :
حضرت سیدنا ابو محمد الغوث الاعظم محی الدین عبد القادر الگیلانی رحمتہ اللہ علیہ
و عنہ سیدنا ابو المسعود ابن الشبلی رحمتہ اللہ علیہ
وعنہ الشیخ محی الدین ابن عربی رحمتہ اللہ علیہ
حضرت سیدنا ابو محمد الغوث الاعظم محی الدین عبد القادر الگیلانی رحمتہ اللہ علیہ
و عنہ سیدنا ابو المسعود ابن الشبلی رحمتہ اللہ علیہ
وعنہ الشیخ محی الدین ابن عربی رحمتہ اللہ علیہ
شیخ اکبرؒ لکھتے ہیں کہ میرا دخول راہ طریقت میں سن 580ھ میں ہوا، جب آپ ؒ کی عمربیس برس کی تھی اس ضمن میں آپؒ بیان کرتے ہیں کہ آپ ؒاشبیلیہ کےکسی امیرکبیرکی دعوت میں مدعوتھے، جہاں پرآپ کی طرح دوسرےروساکےبیٹوںکوبھی بلایاگیاتھا ۔ کھانےکےبعدجب جام گردش کرنےلگااورصراحی آپ تک پہنچی اورآپ نےجام کو ہاتھ میں پکڑا ،توغیب سےآوازآئی"اےمحمدکیاتم کواسیلئےپیداکیاگیاتھا؟" آپؒ نےجام کو ہاتھ سےرکھ دیا اور پریشانی کےعالم میں دعوت سےباہرنکل گئے۔ گیٹ پرآپؒ نے وزیر کے چرواہےکو دیکھا،جس کالباس مٹی سے اٹاہواتھا ۔ آپؒ اسکےساتھ ہولیےاورشہرسےباہراپنےکپڑوں کا اس کےکپڑوں سےتبادلہ کیا ۔ کئی گھنٹوں تک ویرانوں میں گھومنےکےبعدآپؒ ایک قبرستان میں پہنچے،جونہرکےکنارےواقع تھا۔ آپؒ نےوہاں پرڈیرا لگانےکافیصلہ کیااورایک ٹوٹی ہوئی قبرمیں جا اترے۔ اس ہی قبر میں دن اوررات ذکرالٰہی میں مصروف ہوگئےاورسوائےنمازکی ادائیگی کےوقت کےاس میں سے باہرنہ نکلتےتھے۔ چار(4)روزکےبعدآپؒ باہرنکلے،تو آپ علوم کاایک دریا لےکرلوٹے ۔اسکےبعدآپؒ نےاپنےشیخ کی زیرنگرانی ایک نو(9) ماہ کاچلہ بھی کاٹا۔
شیخ اکبرؒنےاپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ مغرب اورمشرق کی سیاحت میں گزارا۔آپ ؒ سن586ھ میں قرطبہ بھی گئےجہاں دیگر بزرگان دین سےملاقاتوں کےعلاوہ آپ نے عالم رویا میں گزشتہ امتوں کےتمام اقطابوں کوعالم برزخ میں دیکھااوراُن کےاسماء سے آگاہ ہوئے۔آپ نے سن597ھ میں مراکش کا سفر کیا اور وہاںآپ نے خواب میں عرش الہی کی تجلی دیکھی۔ آپ فرماتے ہیں کہ میں نےدیکھا کہ نورہی نور ہے اسکے نیچےایک خزانہ ہےاور یہ بھی دیکھا کہ خوبصورت پرندےاڑرہے ہیں ان میں سے ایک پرندےنےآپؒ کوسلام بھی کیا۔
آپؒ نےسن 608ھ میں بغدادکاسفرکیا۔اس دوران سفر بغداد میں آپ نے معروف صوفی بزرگ سلسلہ سہروردیہ کے امام حفرت شہاب الدین ابوحفص عمرسہروردی سے ملاقات بھی کی ۔دونوں بزرگ کافی دیرتک بغیر ظاہری گفتگو کےایک دوسرے کے آمنےسامنےبیٹھےرہےپھرجداہوگئے۔ جب بعد میں حضرت شیخ شہاب الدین سہروردیؒ سےپوچھا گیا کہ آپ نے حضرت شیخ محی الدینؒ کوکیساپایا توانہوں نےکہا ۔"میں نےانہیں ایک سمندرکی طرح پایا،جس کاکوئی کنارہ نہیں ہے" ۔ شیخ اکبرؒ کی رائےشیخ شہاب الدین سہروردیؒ کےبارے میں یہ تھی۔ "میں نےانہیں ایک عبدصالح پایا"۔
سن611ھ میں مکہ گئےاور دوران قیام مکہ اپنی شاعری کادیوان ترجمان الاشواق ترتیب دیا۔ آخر میں شیخ اکبرؒ نے سن620ھ میں تمام دنیاکاسفرکرنےاورگراں قدرکتب تصنیف کرنےکےبعد 60برس کی عمر میں دمشق میں مستقل سکونت اختیار کی اورآخرعمرتک اسی شہر میں رہے۔دمشق میں آپ کا اعزازواکرام علماءاورسلاطین کی طرزپرہوا۔ ۔شیخ اکبرکو سن628ھ میں اسی شہردمش میں ایک مرتبہ انہیں ھویت الہی کےظاہراورباطن کامشاہدہ ہوا،لکھتے ہیں اس واقعےسےپہلے میں نےکبھی ایسی صورت نہ دیکھی تھی نہ کبھی ایساگمان ہوا اورنہ دل میں خیال گزرا تھا۔
شیخ اکبرنے75برس کی عمرمیں 22ربیع الثانی 638ھ، 9نومبر1240ء میں وفات پائی۔آپ کا مزاردمشق شام میں ہے۔ مزار پر نہایت عمدہ گنبد ہےاور ایک بہت عمدہ مسجد اس سے ملحق ہے۔ یہ مزار محلہ صالحیہ میں ہے۔ نزدیک قاسون پہاڑ ہے جس پر غار اہل کہف ہے۔ اس پہاڑ پر ہابیل کا خون بھی بتایا جاتا ہے۔(والسلام)، محمد سعید الرحمن ایڈوکیٹ)
Comments
Post a Comment