پیری مریدی (بیعت) وسلیہ برائے قرب الہیٰ

No photo description available.
پیری مریدی (بیعت) وسلیہ برائے قرب الہیٰ
آآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآ
امام مالک رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں جس نے علم فقہ حاصل کیا اور تصوف کو نظر انداز کردیا وہ فاسق ہوا اور جس نے تصوف کو اپنالیا مگر فقہ کو چھوڑ دیا وہ زندیق ہوا اور جس نے شریعت و تصوف دونوں کو جمع کیا اس نے حق کو پالیا۔
گویا علم دو طرح کا ہے ایک ظاہری (شریعت ،فقہ کا علم) اور دوسرا باطنی (طریقت و تصوف کا علم)۔ سورۃ البقرہ میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
كَمَآ اَرْسَلْنَا فِيْكُمْ رَسُوْلًا مِّنْكُمْ يَتْلُوْا عَلَيْكُمْ اٰيَاتِنَا وَيُزَكِّيْكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُمْ مَّا لَمْ تَكُـوْنُـوْا تَعْلَمُوْنَ ’’جیسا ہم نے تم میں بھیجا ایک رسول تم میں سے کہ تم پر ہماری آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور تمہیں پاک کرتا اور کتاب اور پختہ علم سکھاتا اور تمہیں وہ تعلیم فرماتا ہے جس کا تمہیں علم نہ تھا۔
اس آیت مقدسہ میں اﷲ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کے پانچ فرائض نبوت کا ذکر فرمایا ہے:
۱۔ اﷲ تعالیٰ کی آیات تلاوت کرنا
۲۔ کتاب اﷲ کی تعلیم دینا
۳۔ حکمت کی تعلیم دینا
۴۔ مومنوں کو پاک کرنا
۵۔ باطنی علم سکھانا
اس آیت مقدسہ میں‘ تلاوت آیات اور تعلیم کتاب و حکمت کے متعلق تمام مفسرین کا اجماع ہے کہ اس سے مراد قرآن پاک اور شریعت مطہرہ کی مکمل تعلیم ہے۔
تزکیہ سے مراد نبی کریمﷺکا لوگوں کے قلوب کو روحانی پاکیزگی عطا کرنا ہے۔ تزکیہ کا یہ عمل صرف صحابہ کرام علیہم الرضوان تک ہی محدود نہیں پے بلکہ قیامت قائم ہونے تک تمام امت کو حضورﷺ پاکی عطا فرماتے ہیں۔
یعلم کا اس آیات مبارک میں دوبارہ ذکر کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ تعلیم‘ کتاب و حکمت کی تعلیم سے جدا نوعیت کی ہے اور اس سے مراد علم باطنی ہے جو قرآن کے باطن اور نبی کریمﷺ کے سینہ مبارکہ سے حاصل ہوتا ہے اور اس کا حصول صرف انعکاس کے ذریعہ ممکن ہے‘‘یعنی یہ علم کتابوں سے نہیں ملتا بلکہ نور مجسمﷺ کے سینہ پرانوار سے علم لدنی کے تجلیات و انوار‘ اولیائے کرام کے قلوب پر منعکس ہوتے ہیں اور پھر سینہ بہ سینہ یہ اسرار و معارف اہل اﷲ حاصل کرکے تشنگان معرفت کے دلوں پر نقش کرتے ہیں۔ اسی باطنی علم کو علم لدنی یا علم طریقت و تصوف کہا جاتا ہے۔
اس اعتبار سے تعلیمِ بنوت ﷺ کے دو پہلو ہیں ایک ظاہری پہلو ہے اور دوسرا باطنی پہلو اور یہ دونوں پہلو یکساں اہمیت کے حامل ہیں۔
نبوت کے ظاہری پہلو کا تعلق ظاہری علوم کی تحصیل سے ہے اور با طنی پہلوکاتعلق تزکیہ باطن سے ہے۔جن حضرات کو بنوت کے ظاہری پہلو سے وافر حصہ ملا وہ عالمِ ظاہر کہلائے جاتے ہیں جنہیں فقیہ ، مفسر، محدث وغیرہ کہا جاتا ہےاور جنہیں اس علوم ظاہر کے علاوہ باطنی پہلو سے بھی سرفراز کیا گیا وہ اہل اللہ کہلائے جاتے ہیں اور انہیں اولیاء اللہ کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے۔
علم تصوف وہ علم ہے جس سے تزکیہ باطن/ نفس کی اصلاح ہو اور رب العالمین کی رضا اور اس کی معرفت حاصل ہوجائے ۔تصوف کی تعلیمات کا تمام ترمقصد تقویٰ اور پرہیزگاری حاصل کرنا ہے اوریہی ایک ایسا ذریعہ ہےکہ جس سے اللہ کی دوستی حاصل ہوسکتی ہے۔
صوفیاء کے نزدیک شریعت کے بعد کا درجہ طریقت ہے جس میں سالک اپنے ظاہر کے ساتھ ساتھ اپنے باطن پر خصوصی توجہ دیتا ہے۔ اس توجہ کے لئے اس کو کسی استاد کی ضرورت ہوتی ہے جسے شیخ ، مرشد یا پیر کہا جاتا ہے جو صراط مستقیم کی طرف راہنمائی کے علاوہ اصلاح باطن بھی کرتا ہے۔ اس شیخ کی تلاش اس وجہ سے بھی بہت ضروری ہے کہ شیخ کی تعلیم کے مطابق وہ اپنے نفس کو عیوب سے پاک کرتا چلاجاتا ہے یہاں تک کہ اسے اللہ کا قرب حاصل ہو جاتا ہے۔ اس سب عمل کو یا اس راستے پر چلنے کو طریقت کہتے ہیں ۔
تصوف میں شیخ طریقت وہ استاد ہے جو طالبان حق کو اپنی تعلیم وتربیت اور اپنے تواسل وفیٖضان ِ باطنی اورتصرف سے وصول الی اللہ تک پہنچانے والا ہو۔ بوجہ صاحب ارشاد ہونے کے یہ نائب ؎ِ رسول ہوتے ہیں انہیں عالمِ ملک و ملکوت میں حق تعالیٰ کی جانب سے تصرف عطا ہوتا ہے۔
۔شیخ کی تین اقسام ہیں:
 شیخ کامل جو خود کامل ہوتا ہے مگر دوسروں کو کامل نہیں بنا سکتا مگرتصوف کی ابتدائی تعلیم دے سکتا ہے۔ 
 شیخ مکمل یہ خود بھی کامل ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی کامل بنا دیتے ہیں۔
شیخ اکمل یہ شیخ مکمل کی سی قابلیت رکھتے ہیں مگر مغلوب الحال ہوتے ہیں انہیں اپنے سے فرصت ہی نہیں ہوتی جو دوسروں کی جانب متوجہ ہو۔
اولیاء اللہ (شیوخ طریقت) اللہ تعالیٰ کے وہ برگزیدہ بندے ہوتے ہیں جن کے دل اللہ تعالیٰ کی معرفت میں ہمہ وقت مستغرق رہتےہیں اور انہیں فنا فی اللہ ہوجانے کی بناٗء پرقربِ ذات باری تعالیٰ حاصل ہوتا ہے اور اسرار ذات حق اُن پر منکشف ہوتے ہیں کے سپرد ہدایت خلق ہوتی ہے اور ان کے احوال مخلوق پرظاہر ہوتے ہیں اور یہ حضرات انبیاء علیہ السلام کے حقیقی نائب ہوتے ہیں۔ لوگوں کے قلوب میں انوار وبرکات ان ہی کی برکات سے آتے ہیں۔ ان کے سپرد خدمت خلق متعلق اصلاح قلب و تربیت نفوس وتعلیم طرائق قرب الی اللہ ہے۔ یہ حضرات اہل ارشاد کہلاتے ہیں اور ان میں سے جواپنے عصر میں اکمل و افضل ہوتا ہے اور جس کا فیض اتم واعم ہو اُس کو قطبِ ارشاد کہتے ہیں۔
انہیں ہی اصطلاحاتِ تصوف میں شیخ کامل یا ہادی طریقت بھی کہا جاتا ہے کیوں کہ یہ اپنی تعلیم وتربیت اور تواسل وفیضان باطنی اور اپنے تصرف سے وصول الی اللہ تک پہونچانے والے ہوتے ہیں ۔ یہ بوجہ صاحب ارشاد ہونے کے نائبِ رسول ہوتے ہیں جو کام پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ظاہری حیات میں کیا اُسے بعد کے زمانوں میں جاری رکھتے ہیں انہیں عالم ملک و ملکوت میں حق تعالیٰ کی جانب سے تصرف عطا ہوتا ہے۔
فی زمانہ لوگوں کا یہ کہنا کہ آج کل شیخ اور مرشد اچھے نہیں ملتے، اس لیے ہم کہاں اور کس کے پاس جائیں؟ ان کی یہ بات درست نہیں، یہ اللہ تعالیٰ پر ایک طرح کا الزام ہے کیوں کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَ کُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِیۡنَ یعنی اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور (عمل میں) سچوں کے ساتھ رہو۔اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ ہر زمانے میں اللہ تعالیٰ ایسے صادقین (شیوخ طریقت) کو پیدا فرماتے رہیں گے۔گویا ہر دور اور ہر عہد میں باصدق و با صفا مشایخ کا ہونا لازمی ہے تاکہ لوگوں کو ان کی صحبت و معیت کا شرف حاصل ہوتا رہے جس سے اللہ کی یاد آئے، دنیا کی محبت کم ہو اور آخرت کی فکر بڑھے۔ کوئی ان مشایخ اور بزرگوں کو نہ جانے اور نہ پہچانے تو یہ اس کی کم نگاہی اور طبیعت کی سستی ہے، اس میں قانونِ قدرت کا کوئی قصور نہیں۔
تحریر: محمد سعید الرحمن ایڈوکیٹ 

Comments

Popular posts from this blog

سلسلہِ صندلیہ . حضرت علی محمد المعروف میاں صندل شاہ رحمتہ اللہ علیہ

جون ایلیا ایک تعارف