حضرت اخی سراج الدین عثمان چشتی نظامی رحمتہ اللہ علی ( Hazrat Akhi Siraaj chisti Nizami)

 


حضرت اخی سراج الدین عثمان چشتی نظامی  رحمتہ اللہ علیہ
جنہیں علم ظاہری  کا عالم  نہ ہونے کی بناء پر سلطان المشائخ نے اپنی خلافت نہیں دی تھی
 تاوقت کہ انہوں نے ظاہری علم کی باقاعدہ تحصیل نہیں کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حاصل مطالعہ: محمد سعید الرحمنٰ، ایڈوکیٹ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تصوف بنیادی طور پر علم ِظاہر اور علم ِباطن  کا مرکب ہے  اور   صوفی  وہی کہلاتا ہے جس کو دونوں علوم     پر دسترس ھاصل ہوتی ہے۔ بقول  حضرت    امام مالک جس نے  تصوف کو اپنالیا اور علم شریعت حاصل نہیں کیا  وہ زندیق ہوا۔   اس ہی لیے سلاسل طریقت میں   خلافت کا اہل وہی سالک /صوفی ہوتا ہے جس نے  علم دین کے ساتھ ساتھ علم تصوف (راہ    سلوک ) طے کیا ہو۔  خلافت کے لیے صرف سلوک کی منازل طے کرنا ہی کافی نہیں ہے۔ 

تمام سلاسل طریقت میں   عطائے  خلافت کا یہی معیار مقرر ہے ۔ اس ہی لیے کسی ایسے شخص کو جو علم ِظاہر  کا عالم نہیں ہے، اسے پیرطریقت    یا رہبر َشریعت کہنا،  یا  ایسےشخص سے خلافت حاصل کرنا  بھی درست نہیں  بلکہ سلاسل کی بد نامی ہے۔   ایسی تمام خلافتیں  جوعلم ظاہری سے نابلد  پیروں  سے حاصل کی  جاتی ہیں   حقیقی خلافتیں نہیں ہیں بلکہ  معیار خلافت سے متصادم ہونے کی بناء پر  باطل  متصور ہوتی ہیں۔حضرت بابا فرید گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ اور سلطان المشائخ   نے بھی  میعار خلافت کی بنیاد علوم ظاہری  میں  دسترس   ہی مقرر کی تھی۔  جس کی ایک   مثال حضرت اخی سراج رحمتہ اللہ کی  خلافت کا واقعہ  بھی ہے۔

حضرت اخی سراج  رحمتہ اللہ علیہ کا مولد وطن  اود
ھ، ہندوستان تھا اور آپ لکھنوتی میں قیام پذیر ہوئے تھے۔ آپ کا اصلی نام عثمان تھا  اور عرفی نام سراج الدین، دونوں ناموں کو ملا کر آپ کا نام  سراج الدین عثمان لکھا جاتا تھا اور اخی کا خطاب آپ کو دربارِ سلطان المشائخ سے عطا ہوا تھا۔ آپ کا سن پیدائش سن 656 ہجری ہے۔ آپ عین عالم جوانی میں جب آپ کے ڈارھی کے بال بھی نہیں آئے تھے   سلطان المشائخ کے حلقہ ارادت میں داخل ہوگے تھے۔  آپ کو   خانقاہ ِمرشد میں  خادمِ خاص کا  درجہ حاصل  تھا۔ اور آپ کا شمار   دربارِسلطان االمشائخ  میں ہمیشہ حاضر باش خدام میں ہوتا تھا او ر  آپ کی  پرورش بھی ان ہی خواص  مریدیں کی طرح ہوئی تھی   جو ہمیشہ سلطان المشائخ  کی خدمت میں رہا کرتے تھے۔
سلطان المشائخ کے دربار میں جاکر آپ نے دنیا  مافیاکو یکسر بھلا دیا تھا   اور فکر فراد سے بے نیاز ہوکر اپنے شیخ کی خدمت میں لگے رہتے تھے۔ آپ سلطان المشائخ کی خانقاہ  میں ایسے رہا کرتے تھے جیسے ان کی زندگی کی  کوئی  اور ضروریات ہی نہیں  ہیں۔ اگر آپ کے پاس کچھ تھا تو قلم دوات اور کچھ کتابیں۔ یہی کچھ آپ کا اثاثہ تھا جو اس  امر کی خمازی کرتا ہے کہ آپ بالکل ہی ناخواندہ نہیں تھے۔
 
تاریخ  تصوف سے یہی شواہد ملتے ہیں کہ حضرت اخی سراج   ؒ  ابتدائی  تعلیم حاصل کرنے کے بعد ہی   دہلی  آئے تھے اور دہلی آنے کا مقصد مزید تعلیم بھی حاصل کرنا تھا۔  اس لیے یہ کہنا درست ہے کہ  دہلی  آکر  آپ نے اپنا وقت صرف  مطلقا ًخدمت گزاری میں ہی صرف نہیں  کیا بلکہ غیر رسمی  لکھنے پڑھنے کا سلسلہ بھی جاری رکھا ہوا تھا۔  مگر  آپ اتنا علم حاصل    نہیں کرسکے تھے جتنا سلطان المشائخ کی خلافت  کا مستحق بنے کے لیے ضروری ہے یعنی اس وقت آپ عالم دین نہیں تھے جو خلافت کی بنیادی شرط  ہوتی ہے۔

جب سلطان المشائخ نے  اپنے اعلیٰ تربیت یافتہ مریدوں کی فہرست تیار کرنے کا حکم  دیا،  تاکہ انہیں  خلافت سے نواز کر ایسے  علاقوں میں روانہ کیا جائے جہاں رشد وہدایت کی ضرورت ہے اور سلسلے کی ترویج ہوسکے۔ اس فہرست میں حضرت اخی سراجؒ کا نام بھی شامل تھا۔ جب   سلطان المشائخ کی  زبانی اہل مجلس نے  یہ بات سنی  کہ
مجھے افسوس ہے میں اخی سراج کو  اپنے پیر ومرشد  کی وصیت کے مطابق خلافت نہیں دے سکتا ہوں اس لیے کہ    یہ باقاعدہ طور پر ظاہری علم حاصل کیے ہوئے نہیں ہیں  اور خلافت کے لیے  باقاعدہ ظاہری علم حاصل کرنا شرط  ہے تو سب دم بخود رہ گے۔

 کیونکہ   حضرت اخی سراج ؒعین جوانی میں  دربار شیخ میں داخل ہوئے تھے، شیخ کی خدمت میں  لگے رہتے تھے، خوش مزاج  ،اعلیٰٰ اخلاق،  سے مزین تھے، ، عبادت و بندگی، ظہارت و تقویٰ  کا نمونہ تھے، سارے اعلیٰ انسانی اقدار کے جواہر  آپ  میں بدرجہ اتم موجود تھے، اگر کچھ پاس نہ تھا تو وہ باقاعدہ  علم ظاہر  کی تحصیل تھی   ورنہ علم لدنی کی  دولت گراں مایہ بھی ان کے پاس تھی۔

جوں ہی یہ بات حضرت   حضرت 
 مولانا فخر الدین زراوی ؒ خلیفہ مجاز سلطان مشائخ کے کان تک پہنچی ، آپ کی زبان سے نکل گیا کہ میں انہیں چھ ماہ میں  عالم متحیر بنادوں گا۔ کیونکہ آپ کو یہ علم تھا کہ  حضرت اخی سراجؒ کو صرف  حرف شناسی اور مصطلحات فن  کوحفظ  کرانے کی ضرورت ہے  ورنہ  آپ کا سینہ  علوم کا خزینہ بناہوا ہے۔ ایسا ہی  ہوا،  آپ چھ ماہ    م میں متحیر عالم دین بن گئے۔ بعض روایتوں میں یہ بھی درج  ہے کہ  سلطان المشائخ نے جب یہ محسوس کیا  کہ علم دین کا وافر حصہ نہ ہونے کی وجہ سے  اخی سراج خلافت سے محروم ہورہے ہیں تو  خود ہی  سلطان المشائخ  نے حضرت مولانا فخر الدیں زراوی  کو  حکم دیا تھا کہ انہیں  علم دین سے آراستہ کردیں۔ کیوں کہ یہ  اچھی سیرت اور  عمدہ طبعیت کے مالک ہیں  اور حقیقت یہ ہے کہ بے علم زاہد  شیطان کا مسخرہ ہوتا ہے۔  چنانچہ حضرت مولانا فخر الدین زراوی  آپ کو اپنے ساتھ گھر لے گئے اور چھ ماہ  کے عرصے میں انہیں بہت سے علوم سے واقف کروادیا۔ جب حضرت اخی سراج  اپنے استاد  کی تعلیم سے  فارغ ہوئے تو آپ کو  سلطان المشائخ کی خدمت میں پیش کیا گیا۔  سلطان المشائخ نے آپ سے ہر علم وفن کے چند سوالات کیےجن کا  حضرت اخی سراج نے  اطمینان بخش جواب دئیے جس کی وجہ سےسلطان المشائخ مطمعن ہوگے۔ حصول علم کے بعد آپ کو  سلطان المشائخ سے خلافت بھی ملی مگر  اب معاملہ خلافت کا نہیں  تھا  آپ کو علم دین سے عشق ہوگیا  اور آپ علم کے دلداد ہوگے ۔ چنانچہ سلطان المشائخ جب تک حیات رہے آپ علم دین حاصل کرتے رہے۔

سلطان المشائخ کے وصال کے بعد بھی آپ تین سال تک دہلی میں رہے،  یوں آپ نے اپنی عمر کے دس سال  ظاہری علوم وفنون  میں صرف کییے اور روحانیت کی اعلیٰ منازلیں بھی طے  کیں۔ پھر آپ  لکھنوتی چلے گئے  اور بنگال میں رشد وہدایت کا کام کرنے لگے۔ اس طرح 
بنگال میں چشتیہ سلسلے کی تنظیم کا پہلا کام آپ ہی   سےشروع ہوا۔ بنگال میں انھیں حد درجہ مقبولیت ملی اور لوگ جوق در جوق آ کر بیعت ہونے لگے۔ آپ کے مرید وخلفاء میں شاہان بنگال کا ذکر بھی کتابوں میں ملتا ہے، ان  ہی شاہان بنگال کے ذریعے  تمام بنگال ااور آسام کے لوگ آپ کے حلقہ بگوش ہوگئے تھے۔  بنگال میں آپ کی خانقاہ سراجیہ  کو بڑی شہرت حاصل ہوئی  جو کسی   دارالعلوم و جامعہ سے کم نہیں تھی ،یہاں تشنگان علوم اسلامیہ  اپنی علمی تشنگی کی سیرابی کے لیے آیا کرتے تھے۔آپ کی خانقاہ علماء صوفیاء کا مرجع اور پناہ گاہ  بنی  ہوئی تھی، بڑٰ ی  تعداد میں  بلند اور کم رتبہ لوگوں بھی رشد وہدایت کے لیے اس خانقاہ میں  آیا کرتے تھے۔  

حضرت خواجہ حسن نظامی لکھتے ہیں کہ حضرت   اخی سراج  بنفس نفیس چین بھی تشریف لے گئے تھے اور وہاں بھی سلسلہ نظامیہ  کی ترویج و اشاعت فرمائی تھی  ۔
اخی سراج الدین نے ایک طویل عمر پائی تھی مگر تاریخ تصوف میں مستند آپ کے وصال   کی تاریخ، ماہ اور سال کی تفصیلات نہیں ملتی ہیں البتہ سال وصال  کے شواہد ملتے ہیں کہ آپ کاسن وصال 
758 ہجری ہے۔  

 
آج جو تصوف میں  خرافاتیں اور قابل اعتراض   رجحانات نظر آتے  ہیں  ، ان کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ دور حاضر کے  بیشتر  صوفیوں  نے سلاسل  کی    خلافت اور سجادگی کے معاملے میں علم ظاہر (علم شریعت) کی اہمیت کو پس پشت ڈال دیا  ہے۔  انہیں اس بات کا احساس ہی نہیں ہوتا  کہ  بزرگان دین نے سلاسل کی حرمت کو برقرار رکھنے کے لیے  اپنے مریدوں کو کتنے سخت مراحل سے گزارا  کرتے تھےتب کہیں جاکر وہ  خلافت کے اہل قرار پاتےتھے خواہ وہ ان کی  حقیقی اولاد ہی کیوں نہ ہو۔
  ایک خلیفہ کا کام دنیا کمانا نہیں رشد وہدایت ہے، جس خلیفہ کے پاس  نہ علم ظاہر  ہوگا  اور نہ ہی  روحانیت (علم باطنی) ہے تو پھر وہ کیا رشد وہدایت کا  کام کرئے گا ۔  عام الناس  کاتصوف سے متنفر  ہونا  لازمی امر ہے، کیونکہ عوام الناس چاول کے ایک دانے کو دیکھ کر پوری دیگ کا اندازہ لگاتے ہیں،   انہیں کسی بھی سلاسل کی تحقیق سے کیا  سروکار  کہ ماضی میں  اس سلسلے میں کتنے عظیم الشان بزرگ گزرے تھے۔   اہل ِتصوف کی ذمہ داری ہے کہ ایسے جاہل پیروں  کی بیخ کنی کی جائے جو تصوف کی بدنامی کا باعث بنے ہوئے ہیں  ۔ والسلام



Comments

Popular posts from this blog

دعائے حزب البحر منسوب بہ حضرت امام شیخ ابو الحسن الشاذلیؒ

حضرت عبد الکریم رحمتہ اللہ علیہ المعروف ملا فقیر اخوند، رام پوری / Hazart Abdul kareem Mulla Faqeer Akhwand

خواب کی تعبیر ( تعبیر رویا)