حضرت خواجہ محبوب مرزا چشتی قلندری حیدرآبادی۔



حضرت خواجہ  محبوب مرزا چشتی قلندری حیدرآبادی۔
برصغیر پاک وہند کی ایک معروف روحانی شخصیت۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرتب کردہ:  محمدسعیدالرحمنٰ، ایڈوکیٹ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تاریخ چشت کے مطابق    برصغیر پاک و ہند میں سلسلہ چشتہ کو  مرکزی خانقاہی کے  اعتبار سے  دو   ادوار میں  تقسیم کیا جاتا ہے۔ پہلا دور حضرت  معین الدین چشتی ؒسے شروع ہوکر حضرت  نصیر الدین چراغ دہلویؒ  تک محیط ہے جب چشتیہ خانقاہیں ایک مرکز سے مربوط تھیں۔  اور دوسرا  دور حضرت شاہ کلیم اللہ جہان آبادی سے  حضرت خواجہ محمد شاہ سلیمان چشتی تونسوی رحمتہ اللہ علیہ تک کا ہے۔ اس دور کو تاریخ چشت میں سلسلہ چشتیہ کا نشاط ثانی  دور بھی کہا جاتا ہے ۔


حضرت خواجہ محبوب مرزا رحمتہ اللہ کاسلسلہ طریقت سات واسطوں سے ہوتا ہوا حضرت شاہ کلیم اللہ جہاں آبادی چشتی سے جا ملتا ہے جو نشاط ثانی کا دور ہے۔ آپ کے سلسلہ طریقت میں تواسل کی کٹری میں حضرت خواجہ نظام الدین اورنگ آبادی، حضرت مولانا فخرالدین چشتی رحمتہ اللہ ، حضرت خواجہ نور محمد مہاروی رحمتہ اللہ علیہ، ، حضرت شاہ سلمان تونسوی رحمتہ اللہ علیہ اور حضرت خواجہ سید محمد علی خیر آبادی جیسی جلیل القدر روحانی ہستیاں شامل ہیں ۔

یہ سلسلہ حیدر آباد دکن میں بھی   حضرت سید محمد علی  خیر آبادی  کے توسط سے پہنچا۔  حضرت سید محمد علی خیر آبدی نے حفظ القرآن ۔ شرح وقایہ تک  کی تعلیم خیرٓباد میں ہی حاصل کی تھی۔ پھر آپ  شاہ جہاں پور تشریف لے گئے اور وہاں کچھ عرصہ تک تحصیلِ علم میں مشغول رہے۔ پھر آپ نے دہلی کا رخ کیا  ۔ دہلی میں مشکوة کا سبق آپ نے شاہ عبد القادر سے پڑھا۔ صیح بخاری کی سماعت آپ نے حرمین شریفین میں حاصل کی۔ حافظ محمد علی خیرآبادی نے ابتدا فی زمانہ میں سخت مجاہدات کیے آپ قطب صاحب کے مزار پر دہلی میں حاضر ہوئے اور حسب معمول مجاہدوں میں مشغول ہو گئے۔ دہلی سے آپ اجمیر شریف تشریف لے گئے۔ یہاں آپ نے ایک مسجد میں بارہ سال تک مقیم رہے۔ اجمیر سے آپ پاکپتن تشریف لے گئے۔ پاکپتن میں خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسوی کی عظمت و بزرگی کی شہرت سن کر آپ کا  دل اس طرف متوجہ ہو گیا۔ آپ نے تونسہ شریف کو ہی اپنی منزل مقصود قرار دیا اس لیے تونسہ شریف کی طرف روانہ ہو گئے۔ شاه محمد سلیمان تونسوی نے حافظ محمد علی خیرآبادی کو اپنے سلسلہ چشتیہ میں داخل کر لیا اور خلافت سے سرفراز فرمایا۔

حیدر آباد  دکن میں یہ سلسلہ ح حضرت خواجہ میر غلام حسین احمد المعروف میرزا سردار بیگ چشتی قلندری بلخی رحمتہ اللہ علیہ سے فروغ پایا جو حضرت خواجہ سید محمد علی خیر آبادی کے خلیفہ مجاز تھے۔ تاریخ اولیاء دکن (مولف سید مراد علی طالع) کے مطابق حضرت میرزا سردار بیگ ؒ  کے اجداد کا وطن بلخ تھا اور امرائے بلخ میں خاص مقام کے حامل تھے۔ انقلاب زمانے کے باعث بلخ کو خیر آباد کہہ  کر  ہندوستان چلے آئے اور حیدرآباد دکن میں آباد ہوگے۔ آپ کی پیدائش  حیدرآباد میں ہی ہوئی اور آپ  کے خاندان  کاشمار حیدرآباد کے  خوش حال گھرانوں میں ہوتا تھا۔ آپ صوم وصلوۃ اور شریعت کے پابند تھے اور  تلاش پیر میں سرگرداں تھے۔ اس ہی زمانے میں  حضرت خواجہ سید محمد علی خیر آبادی خلیفہ مجاز حضرت شاہ سلمان تونسوی رحمتہ اللہ علیہ حیدر آباد تشریف لائے تھے آپ  نے ان  کے دست حق پر شرف بیعت حاصل کیا۔  چند ہی روز میں  پیر ومرشد نے آپ کو خرقہ خلافت سے سرفراز فرمایا اور وظائف  و  ادوار  خاص بھی عطا کردیے۔ جب تک پیر ومرشد حیدرآباد دکن میں رہے آپ ان  کی خدمت میں رہے اور  روحانیت کے  اعلی  مقام حاصل کیا۔ بعدہ  مسند خلافت پر فائز ہوکر سلسلہ رشد وہدایات جاری فرمایا۔  حضرت سردار بیگ ؒ بہت کم سخن و گم گو تھے ۔ سماع کا ذوق رکھتے تھے، مثنوی شریف کا مطالعہ  آپ کا مشغلہ تھا۔ آپ ایک صاحب کشف و کرامت بزرگ تھے۔ آپ کا وصال  12جمادی الاول  سن 1310ہجری کو ہوا۔ آپ کا مزار اقدس  بھوی گوڑہ ، حیدر آبدد دکن میں مرجع خلائق ہے۔

حضرت خواجہ  محبوب مرزا چشتی قلندری حیدرآبادی کے پیر ومرشد حضرت خواجہ میرزا محمد بیگ چشتی قلندری حیدرآبادی   کا شمار  میرزا سردار بیگ چشتی قلندری بلخی رحمتہ اللہ علیہ کے  خلفاء میں ہوتا ہے۔ بمطابق  دیوان گنجنہ معرفت(مرتب کردہ  صاحبزادی  قیصر پاشا  چشتی مرزای محبوبی) حضرت محبوب مرزا  چشتی ؒ   کا مولد وطن حیدرآباد دکن اور تاریخ ولادت یکم رمضان المبارک 1309ھ ہے۔ آپ کے والد گرامی   نواب  داور الملک     شریک عنان ریاست  حیدرآباد دکن  تھے۔ آپ کے  آبا و اجداد کا تعلق  ترکستان سے تھا  جو  مغلیہ  دور میں  ہندوستان آئے تھے اور مغلوں کے ساتھ فتوحات کرتے ہوئے  دکن میں ہی مستقل  قیام پذیر ہوگے۔ آپ کی والدہ محترمہ کو   حضرت خواجہ میرزا محمد بیگ چشتیؒ   سے شرف بیعت حاصل تھی۔ آپ کی پیدائش کے بعد  آپ کی والدہ  ماجدہ آپ کو اپنے پیر ومرشد کے پاس لے گئیں   حضرت نے اپنے نور باطن سے آپ کے  اندر پوشیدہ صفات   کا مشاہدہ کرکے  فرمایا یہ میرا  بیٹا ہے اور  آپ کو محبوب کے نام سے  موسوم کیا ۔  اس ہی نسبت سے آپ کا نام محبوب مرزا رکھا گیا اور شاہاناں انداز سے آپ کی پروش فرمائی گئی۔  بنیادی طور پرحضرت محبوب مرزا خاندانی نواب تھے ۔ اس دور کے نوا بین  کے رواج کے مطابق آپ کی تعلیم وتربیت کا اہتمام   بھی محل مبارک میں ہوا۔  آپ نے رسمی تعلیم وتربیت کے علاوہ  مروجہ فنوں بلخصوص تلوار بازی،  نیزہ بازی،  گھڑ سواری  کی تربیت جو مغلوں کا خاصہ تھی میں کامل مہارت حاصل کی۔  دوران تعلیم و تربیت  آپ نے حضرت خواجہ میرزا محمد بیگ چشتی    ؒکے دست حق پر شرف بیعت بھی حاصل کیا۔ آپ باقاعدگی سے اپنے پیر ومرشد کی صحبت میں بھی رہ کر اکتساب فیض کیا  کرتے اور منازل سلوک بھی طے کرتے رہے۔ اللہ  تعالیٰ نے 18 سال می عمر میں آپ کو اوللاد نرینہ سے سرفراز فرمایا تھا۔  بائیس سال  (22)کی عمر میں  آپ کے مرشد نے آپ کو  دستار خلافت عطا فرمائی۔

اجازت و خلافت کے کچھ عرصے بعد  ہی حضرت خواجہ  محبوب مرزا چشتی کا دل  مادی دنیا کی رونقوں سے یکسر بیزار ہوگیا اور آپ  خاموشی کے ساتھ   تمام ظاہری   آسائشوں   و نوابانہ کرو فرکو ترک کرکے نفس کشی کے لیے صحرا نوردی کی راہ  لی جو تقریبا 9یا 12 سال کے عرصے پر محیط ہے ۔ اس عرصے میں آپ  دہلی اجمیر، سری لنکا، بمبی،  رنگوں ہمالیہ اور سرحد چین  تک تشریف لے گئے۔ اس دوران  آپ نے اکتساب فیض کے لیے مختلف بزرگانِ دین کے مزارت پر چلہ کشی بھی کی  اور آخر میں حج بیعت اللہ کی سعادت اور روضہ رسول کی  زیارت  سے مشرف یاب ہو کر حیدرآباد دکن واپس لوٹے  اور ایک نئے انداز سے متوکلانہ زندگی  کی شروعات کیں اور رشد وہدایت کا سلسلہ جاری فرمایا۔  آپ کے مریدین و وابستگان کی ایک کثیر تعداد تھی۔تقسیم ہند کے بعد آپ کے کچھ خلفاء اور مریدین پاکستان بھی منتقل ہوگے تھے اور پاکستان میں بھی  آپ کا یہ سلسلہ فروغ پایا۔ آپ اپنے مریدین و خلفا کی دل جوئی کے لیے   کراچی اور لاہور بھی تشریف لاتے رہیں ہیں۔ آپ کا وصال  2صفر المظفر  1394ہجری کو حیدر آباد دکن میں ہوا اور آپ کی تدفین  سرور نگر حیدر آباد دکن  میں عمل میں لائی گئی۔ آپ کا سالانہ عرس  پاکستان اور ہندوستان کے  مختلف شہروں کےعلاوہ سعودی عرب میں بھی منعقد ہوتا ہے۔

کراچی پاکستان میں آپ کے سالانہ عرس کی تقریبات   حضرت خواجہ صاجزادہ سید محمد متین چشتی محبوبی دہلوی کی زیر سیادت منعقد ہوا کرتی  تھیں ۔  حضرت خواجہ صاجزادہ سید محمد متین چشتی محبوبی دہلوی کا شمار حضرت خواجہ  محبوب مرزا چشتی کے خلیفہ مجا ز   ہونے کے علاوہ پاکستان کے معروف صوفی  بررگوں میں بھی ہوتا ہے  ۔ بمطابق   تذکرہ  صاجزادہ سید محمد متین چشتی محبوبی جس میں درج ہے کہ   حضرت صاجزادہ سید محمد متین چشتی محبوبی کا تعلق دہلی تھا اور  حضرت خواجہ محبوب چشتی ؒ کو حضرت خواجہ بختیار کاکی ؒ نے  خواب میں روحانی    ہدایت فرمائی تھی کہ  حضرت صاجزادہ سید محمد متین چشتی محبوبی کو داخل سلسلہ کیا جائے۔ اس ہدایت کے بموجب حضرت محبوب مرزا ؒ  دہلی تشریف لائے  اور آپ کو اپنی خلافت و اجازت سے  سرفراز فرمایا۔  حضرت  صاجزادہ سید محمد متین چشتیؒ کا وصال  11 رمضان  1402 ہجری کو کراچی میں ہوا، آپ کا مزار اقدس  محمد شاہ قبرستان ،  خواجہ اجمیر کالونی۔ نارتھ کراچی میں مرجع خلائق ہے۔آپ کے تین روزہ  سالانہ عرس کی  مرکزی تقریبات آپ کے فرزند صاحبزاده سید محمد ناصر علی متینی چشتی(المعروف عابد پاشا) مدظلہ العالیٰ  کی زیر سیادت بڑے تزک و احتشام کے ساتھ منعقد ہوتی ہیں   جس میں پاکستان اور بیرون ممالک مقیم آپ کے محبین و متوسل  کے علاوہ دیگر سلاسل کے مشائخ بھی  عقیدت کے ساتھ  شرکت کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔  والسلام ۔
مرتب کردہ: محمد سعید الرحمنٰ، ایڈوکیٹ۔  


 

Comments

Popular posts from this blog

دعائے حزب البحر منسوب بہ حضرت امام شیخ ابو الحسن الشاذلیؒ

حضرت عبد الکریم رحمتہ اللہ علیہ المعروف ملا فقیر اخوند، رام پوری / Hazart Abdul kareem Mulla Faqeer Akhwand

خواب کی تعبیر ( تعبیر رویا)