حضرت کیپٹن واحد بخش سیال رحمتہ اللہ علیہ
حضرت کیپٹن واحد بخش سیال رحمتہ اللہ علیہ
خلیفہ مجاز حضرت شاہ سیدمحمد ذوقی قدس سرہ
العزیز۔
سلسلہ چشتیہ صابریہ ذوقیہ کے ایک صاحب
ارشاد صوفی بزرگ۔
تصوف
عقل و منطق کی سطح سے آگے کا علم ہے۔ جس طرح ایک فقہی یا
مجتہد کوعلم شریعت پر دسترس حاصل ہونا ضروری ہوتا ہے
اس ہی طرح تصوف پر لکھنے یا بات کرنے کے لیے ایک صوفی کا علم شریعت پر دسترس کے
علاوہ کسی پیر کامل کی نگرانی میں راہ سلوک طے کرنا ضروری ہے جنہیں اصطلاح تصوف میں "صاحب
ِاجازت" (صاھب ارشاد )کہتے ہیں اس ہی بنا پر تصوف پرلکھنے والے ہر دور میں خال خال ہی
پائے جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں تذکرہ نگاری یا تاریخ تصوف کو مرتب کرنا ایک
علیحدہ منصب ہے بہرحال اس کام کے لیے بھی وہی لوگ موزوں رہتے ہیں جو علم تصوف اور اصطلاحات
تصوف سے آگاہی رکھتے ہوں ۔
دور ھاضر میں تصوف پر لکھنے والوں خال
خال مصنفین میں
ایک معتبر نام میں پاکستان کے ایک معروف صوفی بزرگ حضرت کپتان (ریٹائرڈ) واحد بخش سیال رحمتہ للہ علیہ کا نام بھی ہے جن کا
روھانی تعلق سلسلہ چشتہ صابریہ سے رہا ہے۔آپ نے تصوف پر
اردو اور انگریزی زبان میں متعدد کتابیں تحریر
فرمائی ہیں۔اس کے علاوہ تصوف
کی کئی مایہ ناز کتب کا فارسی سے
اردو اور انگریزی میں ترجمے کیے ہیںمثلا شرح لوائح جامی، شرح جوامع الکلم ، کشف المحجوب ،
اس کے علاوہ ا صوفیاء اکرام کا ضخیم اور
اہم تذکرہ "مرآۃ الاسرار" (مؤفلہ عبد الرحمن چشتی) کا فارسی سے اردو میں
ترجمہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ شاہ عبد القدوس گنگوہی کے مکاتیب کا مجموعہ
"مکتوبات قدوسیہ" اور تذکرہ مشایخ چشتیہ صابریہ تالیف
حضرت شیخ محمد اکرم قدوسی ؒ "اقتباس الانوار" کا بھی فارسی سے
اردو میں ترجمہ کیا ہے۔
آپ کی تصانیف میں مقام گنج شکر، مقابس المجالس (ملفوظات حضرت خواجہ غلام فرید)،
تربیت العشاق اردو و انگریزی زبان
میں (ملفوظات حضرت سید شاہ محمد ذوقی جو آپ کے پیر ومرشد بھی تھے
اور اپنے پیر و مرشد کی تصوف پر معروف تصنیف
سر
دلبراں کا انگریزی میں ترجمہ بھی شامل ہے۔
حضرت واحد بخش سیال کا سن پیرائش سن1910ء ہے۔ آپ نے بی اے مکمل کرنے
کے بعد بہاول پور اسٹیٹ فارسز میں شمولیت اختیار کی، نیز 1933 میں انڈین ملٹری
اکادمی، دہرہ دون ( ہندوستان میں واقع فوجی
افسران کی تربیت گاہ ) کو کوالیفائی کیا۔ برطانوی کالونیل فوج میں آپ کپتان
تھے لیکن تقسیم ہند کے وقت ا ٓپ نے دوسری جنگ عظیم کے دوران فوج سے ریٹائرمینت لے
لی۔ یہ فیصلہ آپ نے اپنے شیخ حضرت سید محمد ذوقی شاہ رحمتہ اللہ علیہ کے حکم پر
کیا تھا۔ 1946 میں وہ فوج سے ریٹائر ہرنے کے بعد بہاول پور حکومت کے سول سیکریٹریٹ
سے منسلکہ ہوگے۔ بعد ازاں 1955 میں آپ کو مغربی پاکستان سیکریٹڑیٹ، لاہور ٹرانسفر کر
دیا گیا، یوں آپ 1968 میں سول سروسز سے
بھی ریٹائر ہو گئے۔
حضرت
واحد بخش سیال چشتیؒ نے سلوک کا آغاز حضرت شاہ شہیداللہ فریدیؒ کی زبانی حضرت سید محمد ذوقی شاہ رحمتہ اللہ علیہ کا تذکرہ سن کر
کیا۔ حضرت شاہ شہید اللہ فریدی اور ان کے
بھائی فاروق ؒ نے جنوبی ایشیا کی تقسیم سے پہلے حضرت داتا گنج بخش ہجویری ؒ کی
معروف کتاب کشف المحجوب
کا انگریزی ترجمہ پڑھ کر اسلام قبول کیا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے
شمالی افریقہ، مشرق وسطی اور بالآخر جنوبی ایشیا کا سفر کیا تاکہ کسی اعلیٰ درجہ
کے صوفی شیخ کو ڈھونڈھ سکیں اور اس کی صحبت اختیار کریں۔ اس تلاش کے دوران ان دونوں
برادران کی ملاقات حضرت واحد بخش سیال چشتیؒ سے بھی ہوئی تھی۔ حضرت واحد بخش سیال چشتی اور ان
کے کچھ فوجی ساتھی ان انگریزی نو مسلم سے بہت
متاثر ہوئے تھے اور انہوں نے ان سے یہ درخواست بھی کی کہ اگر وہ کسی عظیم صوفی شیخ سے ملیں تو
انہیں بھی اس بابت ضرور آگاہ کریں۔ چنانچہ یہ نو مسلم انگریز تلاش کرتے کرتے حیدر آباد دکن بھی گئے جہاں ان کی ملاقات حضرت مولانا سید
محمد ذوقی شاہ سے ہوئی اور یہ دونوں برادر انہی کے دامن سے ہمیشہ کے لیے وابستہ ہو
گئے تھے اور قیام پاکستان کے بعد اپنے شیخ طریقت کے ساتھ ہی پاکستان تشریف لے آئے
تھے اور کراچی میں ہی مقیم رہے۔
حضرت شاہ شہید اللہ فریدی کے ذریعے ہی حضرت
واحد بخش سیال چشتی کاتعارف حضرت ذوقی شاہ
سےہوا تھااور پھر آپ بھی حضرت ذوقی شاہ
کی خدمت میں پندرہ سے بیس سال تک رہ کر سلوک کی منازلیں طے کیں۔بارہ سال تک ذوقی
شاہ سے تربیت حاصل کرنے کے بعد ذوقی شاہ کے دیگر خلفاء کے ساتھ آپ کو
بھی خلافت عطا ہوئی یوں حضرت واحد بخش
سیال بھی اپنی وفات تک تصوف کی تعلیم و
تربیتِ مریدین میں لگے رہے۔ آپ کے
بھی بے شمار مریدین پاکستان،
ملائیشیا، انڈونیشیا، سنگاپور، آسٹریلیا، ماریشس، ریاست ہائے متحدہ امریکا،
کینیڈا، فرانس اور برطانیہ وغیرہ میں موجود ہیں۔
حضرت واحد بخش سیال ؒ کا وصال 21 اپریل 1995ء میں ہوا اور ضلع رحیم یار خان میں
آپ کی تدفین عمل میں لائی گئی۔
Comments
Post a Comment