محفل سماع / قوالی

 

قوالیوں کی محفلیں منعقدکرنا تصوف نہیں ۔
قوالیوں کی محفل کو محفل موسیقی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے جس میں سامعین عارفانہ کلام کے ساتھ موسیقی کالطف بھی اُٹھاتے ہیں۔
محفلِ سماع ایسی محفل کو کہتے ہیں جو سماع کے اصولوں کے تحت آراستہ کی جائے۔
 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر : محمد سعید الرحمنٰ، ایڈوکیٹ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


اکاربرین صوفیائے چشت  کےہاں سماع کو جائز سمجھا جاتا ہے۔  ان کے نزدیک سماع     شرعی
حجت نہیں بلکہ ایک  شغل ہے اور دیگر اشغال کی طرح  یہ شغل اس لحاظ سے جائز ہے کہ  نغمگی انسانی  کی فطرت  میں شامل ہے۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ برصغیر پاک وہند میں مروجہ دیگر سلاسل سماع کی محفل کے انعقاد کو اہمیت نہیں دیتے اور نہ ہی اس  شغل کی حرمت سے انکار کرتے ہیں۔  گویا سماع تصوف میں ایک ثانوی حیثیت رکھتا ہے اگر سماع کی محفلیں منعقد نہ  کی جائیں تو  تب بھی  سلوک کی منزلیں طے ہوجاتی ہیں۔  تصوف میں شغل سے مراد  تصور ِباری تعالیٰ میں  اپنے ذوق کے مطابق  محو ہوجانا  ہے۔جن صوفیاٗ کا ذوق سماع نہیں وہ اس ضمن میں کوئی اور شغل اختیار کرتے ہیں۔ 


سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کسی صوفی کو عبادت کے علاوہ کسی اختیاری شغل  کی ضرورت کیوں پڑتی ہے؟


تصوف میں  ایک اصطلاح استعمال ہوتی ہے  قبض  جس  سے مراد ہے  سالک کے دل پر ان واردات غیبی  کا نزول
بند ہوجانا  جس سے اسے  سرور  اور  ذوق و شوق اور لذت عبادت حاصل ہوتی ہےاس حالتِ قبض میں سالک کے دل پر وحشت ہوتی ہے اور کسی عبادت میں اس کا دل  نہیں لگتا یہ حالت بسط کے بعد  وارد ہوتی ہے۔  تصوف میں  قبض کی ضد بسط ہے  ۔ بسط سالک کی دل کی کشادگیِ دل  و سرور کو بسط کہتے ہیں، سالک پر  سیر الیٰ اللہ کی حالت میں بعض واردات ایسے وارد ہوتے ہیں جن سے عشق ومحبت کاغلبہ  اور دل میں سرور وشوق پیدا ہوتا ہےاور عبادت میں لذت آتی ہےجس سے سالک کی ترقیِ باطن ہوتی ہے۔ قبض و بسط کی کیفیت سے ہر سالک گزرتا ہے۔ اور قبض کی کیفیت سے نکلنے کے لیے سالک  شغل کا سہارا لیتا ہے۔ اس لیے صوفیا ءفرماتے ہیں شغل منزل نہیں۔


جب قبض  کی کیفیت تمام سلاسل کے سالکیں پر آتی ہے تو لازمی امر ہے وہ کوئی نہ کوئی شغل  اس کیفیت سے  نکلنے کے لیے  اختیار کرتے ہیں اور صوفیا کے ہاں ایسے تمام اشغال  جائز ہیں جو خلاف شرع نہ ہوں۔ جب کہ چشتیہ کے ہاں اسے کیفیت  میں  سماع کو ترجیح دی جاتی ہے ۔   اس ہی لیے چشتیہ سماع جو شرعی حدود کے اندر مکمل شرائط کے  ساتھ  منعقد کیا جائے اسے جائز قرار دیتے ہیں۔ صوفیاء چشت  کا یہ قول بہت مشہور ہے کہ  سماع اہل کے جائز اور نااہل کے ناجائز ہے ۔  اس ہی لیے اکابریں صوفیا چشت صرف خاص  کیفیت میں سماع کا اہتمام کرتے تھے۔ سماع رسم و رواج نہیں بلکہ قبض کی کیفیت سے نکل کر  بسط کی کیفیت  قائم رکھنے کی سعی ہے۔


جب ہم تاریخ تصوف پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں کوئی بھی اکابر صوفیاء اکرام میں  ایسا کوئی  بھی شیخ طریقت نظر نہیں آتاجس نے سماع کو ایک عوامی رسم ورواج کی محفل کی طرح رائج کیا ہو۔ دورِ حاضر میں سماع  کی حرمت پامال کرنے والے وہ پیشہ ور  خود ساختہ سجادہ نشین  اور نام نہاد صوفی ہیں جو سماع کی آڑ میں  سادہ لوح  عوام الناس میں شہرت حاصل کرنا چاہتے ہیں،مقصد مالی منافعت اور شہرت حاصل کرنا ہے، ان کا تصوف یا روحانیت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔


ایسی تمام قوالیوں کی محفلیں جو جائز سماع کے زمرے میں نہیں آتی ہیں انہیں ایک قسم کی  محفل موسیقی سے ہی تعبیر کیا جاسکتا ہے جس میں سامعین عارفانہ کلام کے ساتھ ساتھ موسیقی کے لطف سے بھی محظوظ ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ  علماءاکرام، فقہہ حضرات اور اہلِ علم اس طرح کی قوالیوں کی محفل میں شرکت سے اجتباب کرتے ہیں۔ والسلام ۔ محمد سعید الرحمنٰ، ایڈوکیٹ۔ 



Comments

Popular posts from this blog

سلسلہِ صندلیہ . حضرت علی محمد المعروف میاں صندل شاہ رحمتہ اللہ علیہ

جون ایلیا ایک تعارف