خانقاہوں، آستانوں اور درگاہوں میں فرق۔

 


درگاہیں
/ دربار کسی مذہبی شخصیت، صوفی بزرگ یا درویش کی لحد مبارک  پر تعمیر کیا جانے والی عمارت کو کہا جاتا ہے۔

خانقاہ کسی  حاملِ خلافتِ طریقت کاوہ مرکز کہلاتی ہے جہاں روحانی تعلیم کے لیے  آستانہ اور عبادت کے لیے مسجد ہو ۔

کسی پیر طریقت کی قیام گاہ بھی آستانے کے زمرے میں آتی ہے مگر اسکو خانقاہ نہیں کہا جاسکتا۔ 


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر: محمد سعید الرحمنٰ، ایڈوکیٹ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خانقاہیں اور آستانے روحانی علوم کے مراکز تصور کیے جاتے ہیں جہاں ایک پیر ِطریقت اپنے مریدین کی روحانی تربیت کے ساتھ ساتھ تصوف کی بنیادی کتابوں کا درس بھی دیتا ہے ۔ خانقاہ  دو لفظوں کا مرکب ہے جو فارسی زبان کا ہے۔ ابتدا میں  فارسی زبان میں یہ لفظ خان گا ہ تھا جو بعد میں خانقاہ ( خان+ قاہ  )بن گیا۔ خان جس کے معنیٰ ہوتے ہیں روحانی تربیت گاہ دل اور روح کے علاج کی جگہ اور قاہ بمعنیٰ عبادت اور دعا یعنی عبادت کا گھر جہاں روحانی تعلیم   کے لیے  آستانہ  اور عبادت کے لیے    مسجد موجود ہو ۔ حضرت نصیرالدین چراغِ دہلیؒ نے خانقاہ کے یہی  تعریف بیان فرمائی ہے۔ کسی پیر طریقت کی قیام گاہ بھی آستانے کے زمرے میں آتی ہے مگر اسکو خانقاہ نہیں کہا جاسکتا۔  دورحاضر میں خانقاہی نظام کی ناکامی کے بعد اکثریت اہلِ طریقت  کی اپنی قیام گاہ  پر ہی  روحانی تعلیم وتربیت دیتی ہے۔ 


تصوف میں   کسی خانقاہ یا آستانے میں اپنے مریدیں و حلقہ ِ ارادت کو روحانی تعلیم دینےا ور تزکیہ کرانے والے  ولیِ کامل کو  پیرِ طریقت  یا شیخِ طریقت  کہتے ہیں ۔ اور یہ اہلِ طریقت بھی باقاعدہ طور پر اپنے سلسلے کے شیخ طریقت سے خلافت کے حامل ہوتے ہیں اور شیخِ  طریقت انہیں خلافت کے مطلوبہ میعار پر پورے اُترنے کے بعد انہیں   سلسلے کی خلافت سے سرفراز کرتا ہے۔

درگاہیں /  دربار کسی مذہبی شخصیت، صوفی بزرگ یا درویش کی لحد مبارک  پر تعمیر کیا جانے والی عمارت  کو کہا جاتا ہے اور یہ درگاہ صاحبِ مزار  بزرگ کے نام سے موسوم ہوتی ۔ مگر یہ ضروری نہیں ہے کہ  ہر درگاہ  کا شمار  خانقاہ   میں ہوتا ہو     اور یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ کسی درگاہ /دربار  ہ کا  منتظم کوئی  شیخ ِ طریقت  ہو۔  گدی نشینی میعار خلافت  یا جانشینی  کے اصولوں کے مطابق نہیں ہوتی اس لیے گدی نشین ایک دنیا دار شخص بھی ہوسکتا ہے انہیں سجادہ نشین کہنا مناسب نہیں ہے ۔  


عام طور پرکسی بھی درگاہ کا منتظم و متولی  عموماً  صاحب ِ مزار  کی اولاد ہوتی ہے جنہیں دیوان یا گدی نشین کہا جاتا ہے۔ یہ بات عام مشاہدے میں ہے  درگاہیں
/ دربار روحانی  اکتساب ِ فیض  کےمرکز کے علاوہ  آمدنی کا ذریعہ   بھی ہیں  اس لیے درگاہیں / دربار روں  کا کنٹرول صاحبِ مزار کی اولادوں کے  ہاتھ  میں ہوتا ہے تاکہ اس درگاہ  / دربار کی آمدنی ان کے تصرف میں رہے۔  یہی وجہ ہے کہ  بیشتر درگاہوں / درباروں میں مورثی گدی نشینی چلی آرہی ہے۔  درگاہوں/ درباروں کی گدی نشینی ایک لحاظ سےکاروباری معاملہ  بھی ہے اس لیے  یہ منصب ِ گدی نشینی تصوف  کی روح کے منافی ہے۔


باوجود اس منفی پہلو کے درگاہوںکی حرمت سے انکار نہیں کیاجاسکتا۔اولیاء اللہ  کے مزارات پر جانا باعثِ برکت اور رفعِ حاجات کا ذریعہ ہے۔ اس لیے بزرگانِ دین کا یہ طریقہ رہا ہے کہ وہ اولیاءِ کرام کی قبور پرجاتے  ہیں اوراللہ عزوجل کی بارگاہ میں ان کے وسلیے سے اپنی حاجات کیلئے دعا کرتے ہیں۔ اسلامی شعائر کے مطابق انبیاء
اورمشائخ و علماء واولیاءِ عِظام  کی قبروں پر مزار بنایاجاسکتاہے شرعاً اس میں کوئی حرج نہیں۔ اس سے مقصود لوگوںکی نگاہوں میں ان کی عظمت پیداکرنا ہوتا ہے۔


دورِحاضر میں درگاہوں
/ درباروں کی آمدنی کو دیکھتے ہوئے  ایک یہ رجحان بھی عام ہوگیا ہے کہ ہر محلے میں کوئی نہ درگاہ موجود ہوتی ہے۔ اور عموماً کسی بھی عام  حیثیت کےصوفی کے اہلِ خانہ اور عقیدت مند  اس صوفی کو بعدازوصال   کسی قبرستان میں تدفین کرنے کی بجائے اس کی رہائش گاہ پر  ہی اس  کی لحد تعمیر کردیتے ہیں ۔


درباروں
/ درگاہوں  کےدیوان حضرات /گدی نشینوں کا طرز عمل خالص دنیاداری کے زمرے میں آتا ہے جب کہ تصوف  قناعت پسندی اور توکل پر زور دیتا ہے ۔ دیوان /گدی نشینوں کی یہ روش ہی عوام الناس کو تصوف پر اعتراضات کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے اور وہ مزارات پر عرس کی تقریبات  کے روحانی پہلو کو یکسر نظر انداز کرکے ان روحانی محافل کوخرافات اور آمدنی کا ذریعہ  تصور کرتے ہیں۔  خانقاہی نظام کی ناکامی کی بنیادی وجہ بھی درباروں/ خانقاہوں کے دیوان حضرات  /گدی نشینوں کا یہی غیر سنجیدہ کردار ہے کیونکہ عوام الناس انہیں تصوف کا نمائندہ متصور کرتے ہیں اور ان کےاس عمل کو میعارِ تصوف سے تعبیر کرتے ہیں۔


بیشتر خانقاہوں کےسجادہ نشینوں کا کردار بھی درباروں
/درگاہوں کے دیوان /گدی نشینوں جیسا ہی ہے جنہوں نے اپنے کاروباری مقاصد کے تحت خانقاہوں کی سجادہ نشینی کو بھی مورثی  بنایا ہوا ہے۔ دور حاضر کے مفکرین کی رائے ہے کہ  آجکل کے تصوف کے بیشتر حلقوں میں سرکار  اور دربار کے سوائے  کچھ بھی نہیں رہ گیا ہے اوراس کی آڑ میں سادہ لوح انسانوں کو  تصوف کے نام پر بے وقوف بناکر دنیا پرستی کا ایک باقاعدہ نظام  چلایا جارہا ہے اس لیے تصوف  کے ان حلقوں سے دور رہنا چاہیے جو درباروں، خانقاہوں اور درگاہوں کو اپنا کاروبار بنائے ہوئے ہیں۔ والسلام۔ محمد سعید ارحمنٰ، ایڈوکیٹ۔  

Comments

Popular posts from this blog

سلسلہِ صندلیہ . حضرت علی محمد المعروف میاں صندل شاہ رحمتہ اللہ علیہ

جون ایلیا ایک تعارف