شبِ یلدا۔ ایرانی تہذیب کا ایک قدیم تہوار۔
شبِ
یلدا۔ ایرانی تہذیب کا ایک قدیم تہوار۔
یہ تہوارسال کی طویل اور سرد ترین رات کے گزرنے اور اس
کےبعد دنوں کے طویل ہونے پر بطور جشن منایا جاتا ہے۔
یہ مذہبی نہیں ایک ثقافتی
تہوار ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حاصل مطالعہ: محمد سعید الرحمنٰ، ایڈوکیٹ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تہوار کو زبان
وادب میں جشن کہتے ہیں جو اجتماعی
طور پر کسی ایک مقررہ تاریخ کو منایا جاتا ہو۔ تہوار بنیادی طور
پر کسی بھی ملک و قوم کی ثقافتی اور قومی
تشخص کی وہ تقریب ہوتی ہے جو روایت کے طور
پر منائی جاتی ہے۔ شب یلدا بھی ایران،
افغانستان ، تاجکستان، عراق اور ترکی میں منایا جانا والا ایک قدیمی روایتی تہوار ہے۔ یہ تہوار ان ممالک میں20 اور
21ڈسمبر کی درمیانی شب کو منایا جاتا ہے۔ یہ جش شمالی نصف کرہ زمین پر سال کی طویل اور سرد ترین
رات کے گزرنے اور اس کے بعد دنوں کے طویل ہونے پر منایا جاتا ہے اور
اس جش کے منانے کی وجہ شہرت بھی یہی ہے۔ یہ رات ایرانی مہینے " آذر" (افغانستان میں ماہ قوس) کی آخری رات
اور اور سال کی سب سے لمبی رات ہوتی ہے ۔
یعنی 20 دسمبر کا دن سال کا سب سے چھوٹا
دن اور رات سال کی سب سے لمبی رات ہوتی ہے۔
لفظ "یلدا" دراصل سریانی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ” پیدائش ”
کے ہیں ۔ خیال کیا جاتا ہے کہ "شب یلدا " یہ وہی رات ہے جس رات کو حضرت عیسی (علیہ السلام) کی پیدائش ہوئی تھی ۔
بعض روایات کے مطابق ایران میں یہ لفظ
مسیحی لائے تھے اور اس وقت سے لے کر اب تک یہی لفظ ایران میں رائج ہے۔مگر اس رات یہ جش "شب
میلاد مسیح " کی نسبت سے نہیں منایا جاتا ، شب میلاد مسیح منانےکے لیے پوری
دنیا میں 25ڈسمبر کی شب مقرر ہے۔ یہ لفظ جو سریانی زبان سے فارسی زبان میں آیا ہے مگر
فارسی ادب میں یہ لفظ "شب میلاد مسیح " کے جشن منانے کے لیے نہیںاستعمال ہوتا ہے۔ قدیم ایرانی تہذیب میں شب یلدا کو تاریکیوں کے
مقابلے میں روشنی کی فتح کا تہوار کے طور پر مناتے ہیں ۔
شب یلدا ایران
کے قدیم ترین تہواروں میں سے ایک ہے، اس رات کو ایرانی تاریخ و ثقافت میں بڑی اہمیت حاصل
ہے۔ آج بھی یہ رات فارسی یا ایرانی تہذیب و ثقافت کے حامل علاقوں میں بھرپور انداز
میں منائی جاتی ہے۔ اس شب سارے رشتے دار خاندان کے سب سے زیادہ بزرگ شخص جیسے دادا، دادی، یا نا یا انی کے گھر جمع ہوتے ہیں اور رات کا زیادہ
تر حصہ گفتگو، ماضی کی یادوں، قصےکہانیوں اور شعر پڑھنے میں بسر کرتے ہیں۔ اس رات دیوانِ حافظ کے اشعار پڑھ کر سنائےجاتے ہیں اور
دیوان حافظ سے فال نکالی جاتی ہے۔اس موقع پر شاہنامہ فرووسی پڑھنے کا بھی
خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔ مزے دار کھانوں، خشک میووں، انار، تربوز اور دوسرے پھلوں
سے مہمانوں کی تواضع کی جاتی ہے ۔ اس تہوار میں سرخ رنگ کو خاص اہمیت حاصل
ہے چنانچہ سرخ رنگ کے پھل خاص طور پر دسترخوان کی زینت بنے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس رات نئی
نویلی دلہن اور داماد کے رشتہ دار بھی ایک
دوسرے کو تحفے تحائف بھی دیتے ہیں۔ اور رات بھر روائتی لوک کہانیاں سنائی جاتی ہیں۔
ایرانئ تہذیب میں اس رات کی اہمیت کا انازہ اس بات سے بھی لگایا
جاسکتا ہے کہ شب یلدا کی عید کی تیاری
کی طرز کی طرح چند دن
پہلے سے ہی شروع ہوجاتی ہے۔ لوگ بازاروں کا رخ کرتے ہیں اور تحفہ
تحائف کے ساتھ ساتھ مہمانوں کی
تواضع کے لیے خشک میوہ جات کی بہت اہتمام کے ساتھ کی جاتی ہے ۔ واضح رہے کہ یہ
کوئی مذہنی تہوار نہیں ہیں بلکہ ایک
تقافتی تہوار ہے اور اس تہوار کو مناے کا مقصد اہنی قدیم تہذیب سے محبت کا اظہار کرنا ہے۔ زندہ قومیں اپنے تہوار جوش و
خروش سے مناتی ہیں کیوں یہ تہوار انہیں دوسروں قوموں سے منفرد اور جداگانہ حثیت
عطا کرتے ہیں ۔والسلام ۔
محمد سعید الرحمنٰ، ایڈوکیٹ۔
Comments
Post a Comment