سلسلہ چشتیہ صابریہ بانی سلسلہ حضرت مخدوم علاو الدین علی احمد صابر کلیر قدس سرہ العزیز ۔
سلسلہ چشتیہ صابریہ
بانی سلسلہ حضرت مخدوم علاو الدین علی
احمد صابرکلیرقدس سرہ العزیز۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حاصل مطالعہ : محمد سعید الرحمنٰ، ایڈوکیٹ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت مخدوم علاو الدین علی احمد صابر کلیر
قدس سرہ العزیز بانی سلسلہ صابریہ ہندوستان
کے مشہور و معروف صوفی بزگ ہیں جن کے فیوض
وبرکات سے ہندوستان کا چپہ چپہ منور ہے۔ اس سلسلے کی
شہرت عام شما لی
ہند میں اس وقت شروع ہوئی جب سلسلہ نظامیہ
حکومت دہلی کے ضعف کے دوران میں اطراف
کے ممالک میں منتشر ہوگیا اور اس سلسلے کے بزرگوں نے شمالی ہندوستان کو چھوڑ کر گجرات ، دکن ، مالوہ، بنگال وغیرہ میں ارشاد و ہدایت کے فرائض سنبھا لیے تھے ۔ دہلی اور اس کے اردگرد تمام علاقے
چشتیہ سلسلے کے بزرگوں سے خالی تھے۔تاریخ ِتصوف کے مطابق حضرت مخدوم پاک کے
ایک ہی خلیفہ حضرت شمس الدین ترک تھے اور ان کے خلیفہِ اعظم
جلال الدین کبیر پانی پت (وفات 1364 عیسوی) تھے۔ حضرت جلال الدین کبیر
پانی پتؒ کے خلفاء میںسرفہرست حضرت
شیخ احمدعبدالحق توشہ ردولوی تھے جنہوں نے
ردولوی (ضلع بارہ بنکوی) میں ایک صابریہ
خانقاہ قائم کی جو سلسلہ صابریہ کا سب سے
پہلا مرکز ہے۔حضرت شیخ احمد عبدالحق نے سیاحت کے دوران میں نظامیہ سلسلہ کی بعض خانقاہوں کو دیکھا تھا اور حالات کا جائزہ لیاتھا، رودلی
میں ان کی خانقاہ رشد وہدایت کا بڑا
اہم مرکز بن گئی اور شمالی ہند کے لوگ
کثرت سے اس سلسلے میں داخل ہونے لگے ۔
بہرحال یہ ایک حقیقت ہے کہ سلسلہ صابریہ
کے ابتدائی حالات لکھنے میں بڑی
دشواری ہوتی ہے۔ اول تو یہ کہ بانی سلسلہ صابریہ کے حالات، آپ کےکسی مرید یا عقیدت
مند کے لکھے ہوئے نہیں ملتے، دوسرے تمام معاصرین کے تذکرے آپ کے حالات زندگی لکھنے کے معاملے میں خاموش
ہیں ۔ البتہ مراۃ الاسرار (شیخ عبد الرحمٰن چشتی)جو سن 1045سے 1065ھ کی تالیف ہے جو آپ کے وصال کے ساڑھے تین سو سال بعد کی ہے جس میں آپ کے تفصیلی حالات اور روایات درج ہیں۔
بقول تاریخ مشائخ چشت کے مولف خلیق احمد نظامی سترھویں اور آٹھارھویں
صدی کے مذہی تذکروں میں حضرت مخدوم پاک کے حالات بڑی تفصیل سے ملتے ہیں مگر یہ تحریریں ایک سوالیہ نشان ہیں
کہ ان تذکروں کے ماخذ کیا ہیں اور ان کی
تاریخی افادیت کس حد تک درست ہے۔ یہی اندازہ لگایا جاسکتا ہےکہ ان تذکروں کی
بنیاد یا تو کشف پر ہے یا سنی سنائی باتوں
پر اور ان دونوں صورتوں میں ان پر اعتماد کرنا
خظرے سے خالی نہیں۔باوجود ان تمام دشواریوں کے تذکرہ نگاروں نے بہت احتیاط
سے کم لیتے ہوئے آپ کے حالات مرتب کیے ہیں کیونکہ سلسلہ صابریہ ایک حقیقت ہے اور
اس سلسلےکا فیض جاری و ساری ہے جو کہ سلسلہ چشتیہ کی ایک شاخ ہے۔
اقتباس الانوار(زمانہ تالیف 1130 ہجری) کے مطابق حضرت مخدوم علاوالدین صابر ، قطب ابدال حضرت شیخ فرید الدین گنج شکر کے بھانجے
اور محبوب ترین خلیفہ اور احباب میں سب سے پہلے مرید ہیں ۔ صاحب اخبار
الاظیار (مصنف شیخ عبد الحق محدث
دہلوی)آپ حضرت بابا صاحب ؒ کے داماد بھی
ہیں۔ بمطابق مراۃ الاسرار آپ
بنی اسرائیل کی اولاد میں سے تھے اور آپکا سلسلہ نسب حضرت موسیٰ علیہ
السلام سے جا ملتا ہے۔ سیر الاقطاب کے مطابق آپ صحیح النسب سید ہیں اور آپ نے حضرت بابا صاحب ؒ کی بہت خدمت کی
چنانچہ آپ نے فرمایا کہ میرا ظاہری وباطنی علم شیخ نظام الدین کوپہنچا
اور میرے شیخ کا ظاہری و باطنی علم شیخ علاوءالدین علی احمد صابرکو ملا۔
اہل تصوف کے نزدیک یہ بات مسلم ہے کہ ہر ولی کی ولایت کسی ایک نبی
علیہ السلام کے نقش قدم پر ہوتی ہے، حضرت مخدوم پاک قلب اسرائیل پر تھے اور آپ کی ولایت
موسوی تھی۔ طریق تصوف میںآپ کی شان
بلند وہمت قوی تھی غلبہ استغراقِ ذاتِ مطلق کی وجہ سے آپ ہمیشہ دنیا سے الگ تھلک رہے۔ آپ نے وحدت کا خالص شراب نوش
کیا اس نے دنیا اور عقبےٰ کو فراموش
کردیا۔ ابتدا سلوک میں آپ نے اس قدر
مجاہدات ، ریاضت اور ترک و تجرید کی جس کی کوئی انتہا نہیں۔ آپ تمام ظاہری و
باطنی قیود سے آزاد اور بے نیاز تھے اور فردالافراد کی سی زندگی بسر کرتے تھے۔ آپ نفس
قانع رکھتے تھے یعنی جو کچھ زبان سے نکلتا
تھا فوراً ہوجاتا تھا۔ آپ کے احوال و مقامات شیخ نجم الدین کبریٰ ؒسے بہت مشابہت رکھتے تھے۔
اکثر ارباب تصوف کا یہ خیال ہے کہ حضرت
مخدوم صابر پاک، حضرت بابا صاحب کے سب سے پہلے
خلیفہ ہیں اور حضرت سلطان المشائخ سے پندرہ سال قبل خلافت حاصل کرکے اجودھن سے کلیر شریف تشریف لےجاچکے تھے۔ حضرت شیخ جلال الدین ہانسوی اورحضرت شیخ بدر الدین اسحاق اور حضرت
سلطان المشائخ نے ایک ساتھ حضرت
بابا صاحب ؒسے تربیت حاصل کی تھی اس لیےسیرالاولیا اور فوائد الفواد جیسی
مستند کتابوں میں حضرت مخدوم پاک کی تفصیل نہ ہونے کے برابر ہے۔ کیونکہ سیر
الاولیا اور فوائد الفواد جیسے کتب میں حضرت سلطان المشائخ اور حضرت شیخ جمال الدین ہانسوی کا ایک ساتھ سلوک طے
کرنا پایا جاتا ہے اسلیے صاف ظاہر ہے کہ مخدوم صابر پاک کو خلافت شیخ جمال الدین ہانسوی سے پہلے ملی تھی اس
لیے خلافت نامہ پر شیخ جمال الدین ہانسوی سے مہر ثبت کرانے والا واقعہ درست نہیں۔ حضرت سلطان المشائخ، حضرت بابا صاحب کی عمر کے آخری حصے میں 15رجب 655 ہجری کو مرید ہوئے
تھے اور تقریباً ایک سال خدمت میں رہ کر
خلافت حاصل کی تھی۔ حضرت بابا صاحب کا وصال 5محرم 664 ہجری کو ہوا تھا۔ ان کتابوں کے مصنف جو
سلطان المشائخ کے مریدین تھے حضرت مخدوم صابر ؒکے متعلق زیادہ علم نہیں رکھتے تھے۔ (اقتباس الانور ، تالیف حضرت شیخ اکرم قدوسی ؒ
سن تالیف 1130 ہجری)۔
مزید برآں، ایک اور مورخ شیخ محمد اکرام
اپنی شہرہ آفاق تصنیف
آب کوثر میں اخبار الاخیار کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ قدیمی تذکروں میں شیخ علی صابر ؒ کا ذکر تھوڑا ہے ، جس کے جواب میں سیر الاقطاب کے مصنف نے دور شاہجہانی میں اپنی یہ کتاب
لکھی تھی اور حضرت مخدوم پاک اور
ان کے خلفاء کے حالات بڑی تفصیل سے لکھے
تھے۔ بعد کے تذکرہ نگار بہت سے واقعات حضرت صابرؒ سے منسوب کرتے ہیں مثلا، آپ کے جلال سے حضرت بابا صاحب کے لڑکوں کی وفات، آپ کی زوجہ کی وفات،
شیخ جمال الدین ہانسوی سے نزاع،
شہر کلیر کی ویرانی وغیرہ
وغیرہ۔ متعقدین ان واقعات کو آپ کا جلال
تصور کرتے ہیں مگر معترضین کا یہ اعتراض ہے کہ
یہ واقعات کسی مستند قدیمی کتاب میں نہیں ملتے ہیں۔
تاریخ مشائخ چشت کے مطابق حضرت مخدوم پاک کے خلیفہ
اور سجادہ نشین حضرت شیخ شمس
الدین ترک ؒ تھے جو ترکستان کو چھوڑ کر تلاش مرشد میں ہندوستان آئے تھے۔مرشد نے اپنے
وصال سے قبل آپ کوپانی پت میں قیام کی
ہدایت فرمائی تھی ، مدت العمر آپ وہاں
تلقین و ارشاد میں مصروف رہے ۔ حضرت مخدوم پاک کا وصال13؍ ربیع الاول کو ہوا ، مورخین کا آپ
کے سن وصال پر اختلاف ہے۔صاحب مراۃ
الاسرار لکھتے ہیں کہ حضرت مخدوم صابر ؒ
سلطان المشائخ کے ہمعصر تھے اور
آپ کو حضرت سلطان المشائخ سے بے حد محبت
تھی اور حضرت سلطان المشائخ کے وصال سے قبل ہی آپ کا وصال ہوگیاتھا۔
بمطابق سیر الاولیاء حضرت خواجہ نظام
الدین اولیاء کا وصال18 ربیع
الثانی بروز بدھ 725ھ بمطابق 4
مارچ 1325ء کو ہوا تھا۔ مراۃ الاسر اور تذکرہ ، اولیائے پاک وہندمیں حضرت مخدوم پاک کا وصال کا سن 690 ہجری درج ہے۔
یعنی آپ کا وصال حضرت بابا صاحب کے وصال کے 26 سال بعد ہوا اور سلطان المشائخ کے وصال سے
35سال قبل ہوا تھا۔ آپ
کا مزار اقدس ضلع سہارن پور سے تیس کوس کے
فاصلے پر کلیر شریف میں ہے جہاں ہر سال
عرس کی تقریبات منعقد ہوتی ہے۔ والسلام ۔
محمد سعید الرحمنٰ، ایڈوکیٹ۔
Comments
Post a Comment