سلسلے چشتیہ میں جانشینی ،سجادگی اور خلافت ۔۔

 

سلسلے چشتیہ  میں  جانشینی ،سجادگی    اور خلافت ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حاصل مطالعہ: محمد سعید الرحمنٰ، ایڈوکیٹ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

برصغیر پاک وہند میں مروجہ  سلاسل میں چار سلاسل  یعنی سلسلے قادریہ ، سلسلہ چشتیہ، سلسلہ  سہروریہ اور سلسلہ نقش بندیہ بہت ،معروف ہیں   اور  یہ چاروں سلاسل  کی خانقاہیں اپنے اپنےسلسلے کی مرکزیت کو قائم رکھنے کے لیے آپس میں  ایک نظام کے تحت  اکائی قائم رکھی ہوئیں تھیں اور خانقاہی نظام سے مراد  یہی مرکزیت لی جاتی تھی ۔یہی  خانقاہی طرز  چشتیہ سلسلہ میں بھی تھا  جس کا ایک مرکزی نظام تھا۔ اس ہی مرکز سے سلسلے  سے وابستہ  سالکین  کی روحانی  اور اخلاقی زندگی کی اصلاح وتربیت ہوتی تھی۔ حضرت معین الدین چشتی، حضرت خواجہ قطب الدین ؒ ، حضرت بابا فریدگنج شکرؒ اور سلطان المشائخ حضرت نظام الدین اولیا ؒ  کے خلفاء  اور مریدین  ملک کے دور دراز علاقوں میں سلسلے کی تروجج کا کام  کرتے تھے مگر ان کی نگاہیں ا جمیر، دہلی یا اجودھن کی طرف  لگی  رہتی تھیں۔ وہ اپنے آپ کو ایک مرکزی نظام کے ماتحت تصور کرتے تھے۔


جانشینی  کو     اصطلاحات تصوف میں   خلافت ِ الہیٰ بھی کہتے ہیں۔  حضرت بابا فرید الدین گنج شکر ؒ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ نظام الدین ؒ  میرے  خلیفہ ہیں مگر وہ باری تعالیٰ  کے خلیفہ  اور حضرت محمد صل اللہ علیہ وسلم کے نائب ہیں۔  


بہت سے روحانی سلسلوں کی طرح  سلسلہ چشتیہ بھی حضرت  علی کرم اللہ وجہہ   سے شروع ہوتا ہے اور اس سلسلے کی ترو یج کے لیے  کچھ بزرگ ہندوستان بھی تشریف لائے تھے  مگر ایک منظم خانقاہی نظام کے تحت  اس سلسلے کو   حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ  کو جاری کرنے کا شرف حاصل ہوا۔آپ پرتھوی  راج کے عہد میں  ہندوستان  تشریف لائے تھے اور اجمیر کو اپنا  مستقر بناکر  تبلیغ و اشاعت کا کام  شروع کیا۔  حضرت امیر خورد نے   اپنی تصنیف  سیر اولیاء میں آپ کو  نائب رسول اللہ فی الہند بھی  لکھا ہے۔


 حضرت  خواجہ معین الدین   چشتی ؒنے مرکزیت قائم رکھنے کے لیے اپنے بعد       سلسلہ چشتیہ  کی جانشینی و ولایت   اپنے خلیفہ حضرت  خواجہ بختیار کاکی ؒ کو عطا فرمائی اور حضرت   خواجہ بختیار کاکی نے    حضرت بابا فرید گنج شکرؒ کو     حضرت بابا فرید نے   سلطان المشائخ  حضرت نظام الدین اولیاء  کو   مرحمت فرمائی۔  حضرت شیخ نظام الدین اولیاء ؒ  کے  خلفاء کی  فہرست بڑی لمبی ہے مگر آپ کے وصال کے بعد چشتیہ سلسلہ  کی مرکزیت کو    حضرت شیخ نصیر الدین  چراغ دہلوی  نے  سنبھالا کیونکہ آپ میں اپنے پیر ومرشد کی بہت سی خوبیاں تھیں۔  جو لوگ حضرت نظام الدین اولیاء کی صحبت سے مستفید ہوئے تھے بیان کیا کرتے تھے کہ  جو خوشبو  سلطان المشائخ  کی مجلس سے آتی تھی ، ویسی ہی خوشبو شیخ نصیر الدین محمود ؒ  کی مجلس سے بھی آتی تھی۔

 تاریخ چشتیہ میں درج  ہے کہ     سلطان المشائخ       نے اپنے وصال سے  قبل چشتیہ سلسلے کے کچھ تبرکات  اپنےمختلف خلفاء  کو عطا  کرکے انہیں  خاص خاص مقامات پر جانے کا حکم دیا مگر سلسلہ چشتیہ کی مرکزیت دہلی میں ہی  قائم رکھنے کے لیے آپ نے   حضرت شیخ نصیر الدین  چراغ کو  جانشینی کے اعزاز سے سرفراز کرکے حضرت بابا فرید گنج شکر  کا عنایت کیا ہوا  مصلی، خرقہ، تسبیح اور کاسہ چوبین دے کر فرمایا  

شماررا دردہلی بود و جفا مردم باید کشید ۔ اس طرخ سلسلہ چشتیہ کا مرکز  سلطان المشائخ کے وصال فرماجانے کے بعد بھی دہلی ہی رہا  ۔

حضرت چراغ دہلی ؒ کی  وفات سے  پہلے حضرت مولانا زین الدین  علی ؒ  جو آپ کے خلیفہ و بھانجے بھی تھے نے آپ  سے عرض  کیا کہ آپ کے اکثر مرید اہل کمال  ہیں کسی ایک کے لیے  اشارہ ہوجائے جو آپ کی جگہ بیٹھ جائے کہیں ایسا نہ ہو کہ سلسلہ بالکل ہی ختم نہ ہوجائے تو آپ  نے فرمایا جن دریشوں کو تم اہل متصور کرتے ہو ان کے نام لکھ  لاؤ۔ مولانا زین الدین نے تین فہرستیں تیار کیں ۔ اعلیٰ، اوسط اور ادنیٰ۔  آپ نے فہرست  کے مطالعہ کے بعد فرمایا کہ یہ لوگ وہ ہیں جو اپنے دین کا غم کھائیں گے لیکن دوسرے کا بارنہ اُٹھا سکیں گے۔ اس کے بعد وصیت فرمائی  کہ  مشائخ سلسلہ کے سب تبرکات ان کے ساتھ دفن کردئیے جائیں ۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ آپ کو حضرت خواجہ سید محمد گیسو دراز نے غسل دیا تھا اور جس پلنگ پر غسل دیا گیا تھا اس کی ڈوریاں پلنگ سے جدا کرکے آپ  نے  اپنی گردن میں ڈالی لیں   اور  فرمایا کہ  یہی میرے لیے خرقہ ہے اور یہی کافی ہے  ۔

 سلسلہ چشتیہ کی تاریخ کا وہ دور جو حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ؒ سے شروع ہوا تھا  شیخ نصیر الدین چراغ دہلوی پر ختم ہوگیا۔ خانقاہی نظام  ایک مرکز کے تابع  رہنے کی بجائے انفرادی سسٹم میں ڈھل گیا۔ اور  ہر ہر  شہروں میں قائم تمام خانقاہیں مرکزی  جانشین  کے زیر نگرانی کام کرنے کی بجائے انفرادی  حیثیت میں سلسلے کی ترویج میں مشعول  ہوگیئں اور ایسی تمام خانقاہوں کا جو بھی  نگران تھا وہ اس خانقاہ کا سجادہ نشین کہلایا  جاتا  ہے۔

 اصطلاحات تصوف میں سجادہ  سے مراد  کسی شیخ طریقت  یا  پیر کی گدی یا مسند ہے ۔   اگر کوئی پیر یا مشائخ اپنے کسی خلیفہ  کو  اپنئ  اس گدی  یا مسند پر   خانقاہ  کے نظام کو چلانے کے لیے  مقرر کرتا ہے وہ خلیفہ اس خانقاہ کا سجادہ نشین کہلاتا ہے۔ جب  کہ خلافت اس ذمہ  داری کو کہتے ہیں  جب شیخ اپنے مرید کی محنت و ریاضت  دیکھ کر اس کے ساتھ حسن ظن قائم کرتا ہے اور اپنی نظر میں اس کا معاملہ نیک پاکر اس خلافت سے مشرف فرماتا ہے۔ اپنا  لباس اسے بطور خرقہ کے مرحمت فرماتا ہے اور اس کے لیے کوئی شہر یا قبضہ  یا کوئی اور مقام  متعین فرما دیتا ہے کہ وہاں رہ کر وہ  ارشاد تکمیلِ طالبانِ حق میں مصروف رہے۔   یہی بنیادی فرق سجادہ نشین  و خلیفہ مجاز میں ہے۔


حضرت نظام الدین اولیاء ؒ نے اپنی خانقاہ  و درگاہ کی تولیت جو سجادہ نشینی کے زمرے  میں  ہی  آتی ہے، اپنی حیات میں ہی  اپنے  درج ذیل  قرابت دارخلفاء کو تفویض کردی تھی   
:     

(
1) حضرت بدر الدیں اسحاق ؒ کے فرزندگان حضرت  محمد اور حضرت  خواجہ موسیٰ جن کی تعلیم و تربیت آپ کی زیر نگرائی ہوئی تھی    اور حضرت خواجہ محمد  جنہیں آپ نے اپنی خلافت سے بھی سرفراز فرمایا اوروہ آپ کی  امامت کے لیے مختض تھے۔

(
2) اپنے خواہر زداہ    خواجہ  رفیع الدین  ہارون جو آپ کے حقیقی بھانجے کے  بیٹے تھے اور آپ اپنے تمام  عزیزوں  سے زیادہ ان کو مقدم رکھتے تھے یہ سلطان المشائخ کی زندگی ہی میں  گھر اور روضے کے متولی تھے۔
 
(
3)   حضرت ابو بکر  مصلی دار  جو  آپ کی قرابت سے مفتخر تھے اور  آپ کی  جلوت و خلوت میں خدمت کے علاوہ  آپ کا مصلیٰ  ہر جمعہ کو  جامع مسجد لے جاتے تھے   اور اس ہی نسبت کی وجہ سے مصلیٰ بردار ا مشہور ہوئے۔  

(
4)    حضرت قاضی محی الدین کاشانی  جو  شہر بھر کے استاد تھے اور سلطان المشائخ  کی نظر میں  بھی ان کی بڑی عزت تھی سلطان المشائخ ان کے لیے کھڑے  ہوجاتے تھے یہ عزت و احترام مریدوں میں  بہت کم لوگوں کو حاصل تھا۔


حضرت  سلطان المشائخ کے وصال کے بعد آپ کی درگاہ  کے انتظام و انصرام کے ساتھ ساتھ   نظامیہ سلسلے کی مسند پر  یہی خاندانِ نظامیہ جلوہ افروز ہوا۔ اور بعدہ یہ سجادگی اس ہی خاندان  نظامیہ کی اولادوں  میں تواتر کے ساتھ چلی آرہی ہے۔  


قیام پاکستان کے بعد اس درگاہ   سے منسلک خاندان ِنظامیہ  کے  کچھ  گھرانے پاکستان تشریف لے آئے  اور  اپنی اس قدیم شناخت کو برقرار کرکھتے ہوئے   ان باصفا ہستیوں  نےپاکستان کے مختلف شہروں   میں آستانے نظامیہ   قائم  کئے ۔ یہ   ہجرت کردہ خاندانِ نظامیہ  پاکستان میں بھی درگاہ  نظام الدین اولیاٗ دہلی  ہندوستان کی نمائندگی کرنے کے لیے اپنے خاندان میں سے  کسی ایک  کو سجادہ نشین  پاکستان   نامزد کرتا ہے اور درگاہ نظام الدین اولیاءؒ  میں منعقد ہونے والی مختلف روحانی محافل و تقریبات و رسومات کا اہتمام اُس ہی قدیم طرز پرپاکستان میں بھی کیا جاتا ہے۔  مستند ذرائع  کے مطابق اس وقت پاکستان میں درگاہ نظامیہ  کی سجادگی پر  صاحبزادہ سیؔد ناصر حسین نظامی ہارونی   فائز ہیں۔
 والسلام ۔  محمد سعید الرحمنٰ، ایڈوکیٹ۔

 


Comments

Popular posts from this blog

سلسلہِ صندلیہ . حضرت علی محمد المعروف میاں صندل شاہ رحمتہ اللہ علیہ

جون ایلیا ایک تعارف