سلاسلِ طریقت میں معیارِ خلافت و سجادگی۔
اکابرینِ مشائخ خلافت کے لیے صرف ایسے لوگوں کو منتخب کیا کرتےتھے جو ظاہرہی علوم میں دسترس رکھتے تھے ۔
ایک بے علم انسان نہ تو خود تصوف کے اسرار کو سمجھ سکتا ہے اور نہ ہی روحانی تعلیم دے سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حاصل مطالعہ : محمد سعید الرحمنٰ، ایڈوکیٹ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر درسگاہیں خواہ وہ مدارس ہوں یا دارلعلوم ہوں
یا جامعات کسی بھی فارغ التحصیل
طالب علم کو سند ِفضیلت یا ڈگری دینے سے
قبل اس کی قابلیت کا امتحان لیا جاتا ہے اور جو طالب علم مقررہ نصاب کی تکمیل کے
بعد لیے جانے والے امتحان میں کامیابی حاصل کرلیتا ہے تو اس ہی سندِ فضیلت یا ڈگری
جاری کئی جاتی ہے ۔ اس ہی طرح سلاسل طریقت میں بھی
علم باطنی کی ترویخ کے لیے خانقاہیں بنائی جاتی ہیں جو علوم ِ باطنی کی درسگاہ کہلاتی ہے، جس میں ایک سالکِ راہ ِطریقت اپنے شیخ ِطریقت کی زیر نگرانی روحانی تربیت یعنی تزکیہ باطن اور تہذیب نفس کے ساتھ ساتھ
دینی تعلیم حاصل کرتا ہےاور جو سالک اپنے شیخ کی زیر نگرانی (روحانی تربیت )سلوک کے مراحلے طے کرلینے کےبعد
اس قابل ہوجاتے ہیں کہ وہ سلسلے کے کام کو آگے بڑھا سکیں تو شیخ
طریقت انہیں ہی میں
سے اپنے حسن گمان کے مطابق خلافت کے اہل صوفی کو اپنی
خلافت سے سرفراز کرتا ہے ۔
تاریخ تصوف میں درج ہے کہ ایک مرتبہ کچھ لوگوں نےحضرت سلطان المشائخ ؒ سے دریافت کیا کہ خلافت کے لیے کن اوصاف کے
حامل ہونے کی ضرورت ہے تو آپ
نے فرمایا جس زمانے میں میرے شیخ نے مجھے دولتِ خلافت عنایت فرمائی تھی ، ایک دن مجھ سے
یوں فرمایا تھا کہ خدا تعالیٰ نے
تجھے علم،عشق اور عقل تینوں چیزیں
عنایت فرمائی ہیں اور جو شخص ان
تینوں چیزوں کے ساتھ موصوف ہو وہی خلافت
کا سزاوار ہے۔ علاو
ازیں خلفاء کے لیے صرف یہی ضروری
نہیں تھا کہ اس میں ذاتی کردار کی خوبیاں بدرجہ اتم موجود ہوں بلکہ یہ بھی لازمی تھا کہ وہ دوسروں کو پوری طرح متاثر کرنے کی صلاحیت
بھی رکھتا ہو۔
خلافت کے لیے اکابریں مشائخ اکرام صرف ایسے لوگوں کو منتخب کرتےتھے جو ظاہرہی علوم میں
کامل دسترس رکھتے تھے۔ کیونکہ ایک بے علم انسان نہ تو خود تصوف کے اسرار کو سمجھ سکتا
ہے اور نہ ہی روحانی تعلیم دے سکتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی مشائخ اکرام صرف ظاہری تعلیم کو ہی کافی نہیں سمجھتے
تھے اور ان کی کوشش ہوتی تھی کہ کچھ اہم کتب کا درس اپنے طریقے پر بھی انہیں دیا جائے۔ حضرت سلطاں المشائخ کو آپ
کے پیر نے قرآن پاک، عوارف المعارف اور تمہید ابو شکور سالمی کا درس خود دیا تھا۔
بعد کے سلسلہ چشتیہ کے بزرگ اپنے خلفاء
کو اور بہت سی کتابوں کا درس دینے لگے تھے
جن میں احادیث ﷺ، ا حیاء العلوم ، قوت القلوب، مکتوبات عین القضاۃ، فصوص
الحکم، فتوحات المکیہ، کشف المحجوب، رسالہ قشیریٰ، کیمیائے سعادت، مثنوی مولانا
روم وغیرہـ شامل تھیں۔مقصد ان کتب کو پڑھانے کا
صحیح مذہبی وجدان بیدار کرنا ہوتا تھا۔
شیخ طریقت کا یہ
بھی کام ہوتا تھا کہ وہ اپنے خلیفہ کے دل کو مادی آلائشوں سے پاک صاف کرئے اور اسےتوکل و استغنا کی دولت سے مالا مال
کرئے۔ حضرت سلطان المشائخ نے جب حضرت مولانا حسام الدیں ملتانی کو خلافت عطا فرمائی تھی تو شہادت کی انگلی اُٹھا کر دو مرتبہ ارشاد فرمایا تھا ”دنیا کو ترک کر نا، دینا کو ترک کرنا “ ۔ اور یہ بھی وضاحت فرمائی تھی دنیا کو ترک کرنا یہ ہے کہ شہر میں ہی رہو اور اس طرح رہو جیسے اور
رہتے ہیں، آپ کے ارشاد کے مطابق ترک دنیا یہ ہے کہ اچھا سا لباس بھی پہنو اور کھاؤ بھی لیکن جو کچھ ملے اس کی طرف راغب نہ ہو اور اس سے دل نہ لگاؤ۔ تمام سلاسل میں خلفاء کے لیے لازمی تھا کہ وہ
اگر ایک ہاتھ سے قبول کریں تو دوسرے ہاتھ سے
حاجت مندوں میں تقسیم کردیں اپنے
لیے کچھ بھی پس انداز نہیں کریں۔
مشائخ اس بات کا خاص خیال رکھتے تھے کہ ان کے خلفاء میں اظہارِ کرامت کا جذبہ پیدا نہ ہو، کیونکہ کشف و کرامت حجاب ِراہ ہیں۔ مشائخ کے نزدیک ایک صوفی کی کرامت یہی ہے کہ وہ اپنے کام (راہ سلوک ) میں ثابت قدم رہے۔ ان کی
تعلیمات کے مطابق ایک فقیر کے پاس اگر کوئی چیز قیمتی ہے تو وہ وقت ہے اگر
وہ اسے بھی ضائع کردے تو یہ اس کی بد نصیبی ہے۔ مشائخ چشت اپنے خلفاء
کو ہدایت فرماتے تھے کہ وہ قرض
لینے سے بچیں اور کسی کی امانت نہ
رکھیں۔ حضرت بابا فرید ؒ تو یہاں تک کہتے تھے جس نے امانت قبول کی وہ میرا مرید نہ رہا۔
مشائخ کا طریقہ کار رہا تھا کہ اپنے خلفاء
کی تربیت کرنے کے بعد انہیں خرقہِ خلافت
پہنایا جاتا تھا اگر سلسلے میں ایسا کوئی اہل موجود نہ ہوتا تو ضروری نہیں تھا کہ کسی نا اہل کو خلافت دے دی جائے۔ بہت سے مشائخ تاریخ تصوف میں
ایسے بھی ملتے ہیں جن کا کوئی بھی خلیفہ
نہیں تھا اور نہ ہی ان سے سلسلہ جاری ہوا۔ کسی بھی مشائخ طریقت نے کبھی کسی ناہل کوخلافت نہیں دی
کیونکہ ایک خلیفہ اپنےتمام پیران شجرہ کا نمائندہ اور فیض رساں ہوتاہے۔بہرحال کسی ایسی پیرِ طریقت سے خلافت کا
حاصل کرنا تو درکنار بیعت بھی نہیں کرنی چاہیے جو اہل علم نہیں ہو کیونکہ
اس کی بیعت سے گمراہ ہوجانے کا اندیشہ
موجود ہے ۔حضرت شاہ کلیم اللہ دہلوٰی نے اہِل علم کو خلافت دینے کی وجہ
ہی یہ بتائی ہے کہ اس کی صحبت میں گمراہی
رواج نہیں پائے گی۔
والسلام ۔ محمد سعید الرحمنٰ، ایڈوکیٹ۔
Comments
Post a Comment