شراب ۔ عشق و شراب میں مماثلت
وہ خمیرکیاہوا مشروب جس کے پینےسےانسان میں سرور اور نشہ پیدا ہوتاہے۔
تصوف میں بادہ و شراب عشق و محبت کو کہتے ہیں ۔
عشق میں بھی شراب جیسا نشہ و سرمستی کی کیفیت ہوتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔
شراب سے مراد ایسا خمیر کیا ہوا مشروب لیا جاتاہے جس کے پینے سے انسان میں سروراور نشہ پیدا ہوتاہے۔ فرھنگ آصفیہ میں شراب کے معنیٰ پینے کی شئے خواہ وہ شربت ہو یا پانی کے ہیں۔ جب کے شراب کے دوسرے معنیٰ نشہ کرنے والا عرق ، مئے، خمر، صہبا (شرابِ سرخ)، مدرا د (نشہ آور چیز) اور دارو کے بھی درج ہیں۔ خمر عربی کا لفظ ہے جس کے اصل معنی کسی چیز کو چھپانے کے ہیں لفظ خمر سے خمار نکلا ہے یعنی ایسا نشہ جوعقل کو ڈہانپ لیتاہے۔بعض ماہرِ لسانیات کے نزدیک ہر نشہ آور چیز پر خمر کا لفظ بولا جاتا ہے جس سے نشہ طاری ہوجائے اور بعض کے نزدیک صرف اس مشروب کو خمر کہا جاتا ہے جو شراب، جو، انگور یا کھجور سے کشید کی گئی ہو ۔
تصوف میں شراب سے مراد عشق و محبت، ذوق وشوق، مدہوشی اور جلوہ محبوب سے جو مستی اچانک محب کے دل میں پیدا ہوجاتی ہے لی جاتی ہے۔ اصطلاحاتِ تصوف میں لفظ شراب بمعنیٰ معرفتِ حق کے بھی استعمال ہوتا ہے اور عشقِ حقیقی کو شرابِ معرفت سے مثال دی جاتی ہے۔ اس ہی طرح شراب اور اس سے متعلق دوسرے الفاظ مثلا بادہ و ساغر، رند و رندی، ساقی، جام، صراحی، میخانہ، میکدہ و دیگر الفاظ بھی تصوف اور صوفی شاعری میں مجازی معنیٰ میں استعمال ہوتے ہیں ۔
تصوف میں شراب کی عشق ومحبت کے ساتھ مشابہت دئیے جانے کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ نشہ عشق کا ہو یا شراب کا دونوں نشے میں مماثلت ایک جیسی ہے۔ شراب اور اس کے نشے سے جو سُکر و مستی پیدا ہوتی ہے اس ہی طرح کا نشہ و سرمستی کی کیفیات عشق میں بھی ہوتی ہیں۔ عشق میں بھی عاشق ایک شرابی کی طرح سرور ِ کیف محسوس کرتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ شرابی کو نشہ ،جو، انگور یا کھجور سے کشید کیا ہوا مشروب سے طاری ہوتاہے اور عاشق کا نشہ محبوب کے جلوے کی مستی و سرور ہے۔
شراب جس قدر زیادتی کے ساتھ نوش کی جائے گی اس ہی قدر شرابی میں ھل من یزید کی خواہش بڑھتی جاتی ہے اور یہی کیفت عشق کی بھی ہے کہ وہ جلوہ جانان میں غرق ہوتا چلا جاتا ہے ۔ مزید برآں شرابی میں تواضع و نیاز کی زیادتی ہوتی ہے اور عاشق بھی تواضع و نیاز مندی میں بہت آگے ہوتا ہے۔
شراب جسم کے ہر ہر حصہ میں اثر پیدا کرتی ہے۔ عشق کا اثر بھی عاشق کے رگ رگ اور ریشہ میں تاثیر کر جاتاہے۔ دونوں نشے کے غلبے کے زیر اثر اظہار و اعلان کی جانب مائل ہوتے ہیں۔ شرابی میں کسی راز کو راز رکھنے کا شعور باقی نہیں رہتا اس ہی طرح عاشق بھی افشاںِ راز کا مرتکب ہوتا ہے اور اسرارِ الہیٰ کو بیان کردیتا ہے۔ ایسے عاشق کو تصوف میں رند کہتےہیں۔
شراب مستی پیدا کرتی ہے، عشق بھی مستی پیدا کرتا ہے اور دونوں کی مستی میں بے خودی ہوتی ہے مگر شراب سے جو مستی پیدا ہوتی ہے وہ مطلوب سے غفلت اور جہالت کا نتیجہ ہوتی ہے جب کہ عشق سے جو مستی پیدا ہوتی ہے وہ کمالِ شعور اور محبوب سے آگاہی پر مبنی ہوتا ہے۔شراب سے جاہ و حشمت کی طلب قائم نہیں رہتی اور ایک قسم کی وحشت طاری رہتی ہے۔ یہی کیفیات جلوہ محبوب کے نشے سے عاشق پر بھی پربھی طاری ہوتی ہے اور دونوں اپنے نشے کو چھپا نہیں سکتے اور یہ نشہ ظاہر ہوجاتا ہے۔
والسلام ۔ محمد سعید الرحمنٰ، ایڈوکیٹ۔
Comments
Post a Comment