خاموشی (خاموشی کا ادب کرؤ، یہ آوازوں کی مرشد ہے۔)

 




خاموشی
خاموشی کا ادب کرؤ، یہ آوازوں کی مرشد ہے۔
ازلی خاموشی ہی نے کن کے بعد کائنات کے اس شور و ہنگامے کو جنم دیا۔
خاموشی بے آواز ضرور ہے مگر بے روح نہیں۔
زندگی کے راز کی دریافت خاموشی ہے۔
جو راز ِزندگی سمجھ گیا وہ خاموش ہوگیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حاصل مطالعہ: محمد سعید الرحمنٰ، ایڈوکیٹ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آو چپ کی زبان میں ناصر
اتنی باتیں کریں کہ تھک جائیں
(ناصر کاظمی)
خاموشی کے لغوی معنیٰ چپ اور سکوت کے ہیں اور اس کی ضد آواز اور شور و ہنگامہ ہے ۔خاموشی بے آواز ضرور ہے مگر بے روح نہیں بلکہ زندگی کا آغاز ہے، جس کی ایک ادنیٰ سی مثال دل کی دھڑکن کا ہر بار ایک وقفے کے ساتھ خاموشی اختیار کرنا اور پھر خاموشی کے اسی وقفے سے اگلی دھڑکن کا جنم لینا ہے۔ یہ خاموشی ایک دوسری زندگی کو جنم دیتی ہےاگر دل ڈھرکن رک جائے تو زندگی ختم ہوجاتی ہے جسے ہارٹ فیل ہونا کہتے ہیں۔ یعنی ہر لمحہ فنا کے بعد بقاء ہے۔ انسان اس دنیا میں روتے شور مچاتے آتا ہے اور اس دنیا سے واپسی کا سفر یعنی موت ایک خاموشی ہے۔ مگر یہ خاموشی بھی ایک زندگی کو جنم دیتی جس کو بعد از موت کی زندگی کہتے ہیں۔
قبل از تخلیق کائنات علم الہیٰ میں یعنی مقام الوہیت (باہوت ) میں اعیان کی جملہ صورتیں سب ایک پوشیدہ خزانہ ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں تو اس نے اس نے اپنی پہچان کرانے کے لیے مخلوق کو پیدا فرمایا كنت كنزاً مخفياً کا اشارہ اس طرف ہی ہے۔ صوفیوں کے نظریات کے مطابق جو قرآن و سنت سے اخذ کیے گئے ہیں اعیان ِحقائق کی جتنی بھی صورتیں علمِ َ الہیٰ میں ہیں (کنت کنزا محفیا میں ہیں ) ان کا پہلا ظہور عالم ِمثال میں ہوتا ہے جو عالم ارواح و عالم شہادت کے درمیان ہے۔ عالم ارواح (ارواح کی دنیا )مجرد (غیر مادی) اجسام کا عالم ہے اور عالم شہادت (مادی اجسام) کا عالم ہے۔ اس عالمِ مادی (جو ہماری دنیا ہے) کے علاوہ جتنے بھی عالم ہیں ان سب کی اظہار وبیان کی زبان بھی خاموشی ہے اور خاموشی کی زبان سے ہی سےاس کے اسرار قلب پر ہی کھلتے ہیں۔
کیونکہ سننا اور بولنا ظاہری حواس خمسہ میں شامل ہے ۔ کائنات کے اسرار و رموز کی رسائی ظاہری حواسِ خمسہ کے ذریعے ممکن نہیں اور ان رموز سے آگاہی قلب سے ہی ہوسکتی ہے ۔ حدیث قدسی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے َا یَسْعُنِیْ اَ رْضِیْ وَلَا سَمَآئِیْ وَلٰکِنْ یَّسْعُنِیْ فِیْ قَلْبُ عَبْدِ الْمُؤْمِنْ۔ نہ میں زمین میں سماتاہوں اور نہ آسمانوں میں لیکن بندۂ مومن کے دل میں سماجاتاہوں ۔
تخلیق کائنات سے متعلق صوفیوں کا یہی نظریہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے مقام الوہیت (سکوت ) سے کن فرمایا۔ اس ”کن “ کے فرمانے کا مطلب یہ ہے کہ”ہوجا“ پس یہ کائنات اس کے علم و ارادے کے مطابق وجود میں آگئی۔ لفظ ”کن“ سے قبل کی(خاموشی)کو سکوت ازلی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس ہی لیے یہ کیا جاتا ہے کہ خاموشی کا ادب کرؤ یہ آوازں کی مرشد ہے۔
بقول صوفیاء اکرام کے جب تک خاموشی کو اہمیت و فوقیت نہیں دی جائے گی اور خاموشی کا اہتمام نہیں کیا جائے گا خاموشی کے اسرار حاصل نہیں ہوسکتے۔ دراصل سب آوازوں کی اصل آواز جس کو اصطلاح ِ تصوف میں صوت ِسرمدی یا بانگِ جرس کہتے ہیں، تمام عالم اس آواز (صوت سرمدی) سے معمور ہے جو ہر وقت اور ہر جگہ جاری وساری رہتی ہے اور یہ آواز (صوت سرمدی) اس وقت تک نہیں سنی جاسکتی جب تک اس کو سننے کے لیے ظاہری دونوں کانوں کو بند کرنے کے بعد اس صوت کو باطنی طورپر سماعت نہ کیا جائے۔ جس طرح ذات باری تعالیٰ قدیم ہے اسی طرح یہ”صوت سرمدی “ بھی قدیم ہے۔ کیونکہ یہ آواز، روح کی آوازہے ۔ روح امر ربی ہے اور یہ آواز ہر ایک کے اندر (نفخت فيه من روحي) کی وجہ سے موجود ہے ۔
مفہوم قرآنی کے مطابق سب سے پہلے ’’کن‘‘ کی صدا بلند ہوئی اور اس صدائے کن سے کائنات پوری تفصیلات کے ساتھ ظہور میں آ گئی۔ الله کے کن کہنے سے جو صوت ابھری اسے صوت سرمدی کہتے ہیں۔ یہ آواز آج بھی کائنات میں گردش کر رہی ہے اور ہر لمحہ کن فیکون کا عمل جاری وساری ہے۔ لیکن مخلوق کو اس وقت تک سننے اور بولنے کا وصف حاصل نہیں ہوا تھا جب تک خالق (حق تعالیٰ ) نے مخلوق (حضرت انسان) کو مخاطب نہیں کیا اور کہا، کیا نہیں ہوں میں رب تمہارا ؟
وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِن بَنِي آدَمَ مِن ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَى أَنفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُواْ بَلَى شَهِدْنَا أَن تَقُولُواْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَذَا غَافِلِينَ (اور جب تیرے رب نے بنی آدم کی پیٹھوں سے ان کی اولاد کو نکالا اور ان سے ان کی جانوں پر اقرار کرایا کہ میں تمہارا رب نہیں ہوں انہوں نے کہا ہاں ہے ہم اقرار کرتے ہیں کبھی قیامت کے دن کہنے لگو کہ ہمیں تو اس کی خبر نہیں تھی)۔ القرآن۔
اس ہی اللہ کے تکلم نےمخلوق کو نگاہ عطا کی اور بصارت کی قوت عمل میں آ گئی۔ بصارت کے ساتھ ہی دوسرے حواس بھی متحرک ہو گئے اور مخلوق نے دیکھ اور سمجھ کر اقرار کیا کہ بے شک آپ ہی ہمارے پیدا کرنے والے ہیں۔
ازلی خاموشی ہی نے کن فیکون کے بعد کائنات کے اس شور و ہنگامے کو جنم دیا۔ جو کچھ ازلی خاموشی میں پوشیدہ تھا وہ کن فیکون سے ظاہر ہوا۔ گویا خاموشی بھی اپنا اندار ایک دنیا سمیٹے ہوئے ہے۔ ھو اول ھو آخر۔ یقیناً خاموشی ازلی بھی ہےاور ابدی بھی ہے۔
خاموشی کی زبان باطنی دنیا کی زبان ہے ۔ شور و ہنگامہ کی زبان ظاہری دنیا کی زبان ہے جو بولی اور لکھی جاتی ہے اور یہ زبان صرف اس ہی دنیا تک محدود ہے۔ جس طرح ظاہری زبان حقائق کے مفہوم کو بیان کرنے کے لیے وضع کی گئی ہے جو کہ ظنی ہے۔ اس ہی طرح باطنی زبان بھی قلب پر اپنے اصلی مفہوم کے ساتھ وارد ہوتی ہے اور اس کے مفہوم و معنیٰ حقیقی ہوتے ہیں۔
ظاہری دنیا کی زبان جسے تحریر میں بھی لا سکتے ہیں، کانوں سے سنتے ہیں اور یہ زبان باقاعدہ طور پر سیکھی جاتی ہے۔ دوسری زبان وہ ہے جو بغیر آواز کی خاموشی کی زبان ہے جو انسانئ چہرے کے تاثرات دیکھ کرقلب سے محسوس کی جاتی ہے۔ یعنی وہ اصحاب جو دونوں زبانوں سے آشنائی رکھتے ہیں اہلِ زبان بھی کہلاتےہیں اور اہلِ دل بھی اور ایسے ہی لوگ ایک کامیاب زندگی گزارتے ہیں۔یہ ایک عام سی بات ہے اور روز مرہ کے مشاہدے میں بھی ہے کہ اگر کوئی سائل کسی اہل ِدل کے پاس چلا جائے تو وہ اس سائل کے آنے کامقصد اور دل میں پنہاں خیالات کا ادارک اپنے قلب سے کرلیتا ہے اور اس کو اپنا اظہارمدعا کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔
خاموشی کی زبان بھی دو طرح کی ہے ایک اختیاری خاموشی اور دوسری حادثاتی خاموشی۔ اختیاری خاموشی اپنے جذبات و احساسات کا اظہار اپنے چہرے و آنکھوں سے کرتی ہے جب کہ حادثاتی خاموشی کی وجوہات میں غم، اداسی، ناراضگی، فکر، پچھتاوا، غصہ، خدشات، نفرت، احتیاط اور مصلحت وغیرہ ہوتےہیں ۔گویا یہ حادثاتی خاموشی بھی اپنے جذبات و احساسات کا اظہار خاموشی کی زبان میں ہی کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ اس لیے یہ کہنا مبلغ آرائی نہیں کہ صرف الفاظ کے ہی معانی نہیں ہوتے بلکہ خاموشی کے بھی بہت سارے معانی ہوا کرتے ہیں ، فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ الفاظ کے معانی ہمیں پڑھائے جاتے ہیں اور خاموشی کے معانی سامنے والے کے چہرے سے ہمیں خود پڑھنا پڑتے ہیں۔اس کے کرب کو سمجھنا پڑتا ہے اس کی کیفیات کو اپنے قلب پر طاری کرنا پڑتا ہے۔
یہی اصول عشق و محبت میں کار فرما ہے۔ ایک محب اپنے محبوب سے اپنی محبت کا اظہار خاموشی کی زبان میں قلب سےہی کرتا ہے وہ اپنی محبت کا اظہار کرنے کے لیے لفظوں کا سہارا نہیں لیتا، کیونکہ جو دل کی کیفیات ہیں ان کا احاط الفاظ نہیں کرسکتے۔ اس لیے محبت ایک قلبی واردات ہے۔ اوراہل ِمحبت ایک ایک دوسرے سے قلبی لگاؤ رکھتے ہیں۔
اہل تصوف کے ہاں بھی خاموشی کو بہت اہمیت حاصل ہے اور ایک صوفی جملہ مراحلِ تصوف اپنے شیخ طریقت کی زیر نگرانی خاموشی کی زبان میں ہی طے کرتا ہے کیونکہ تصوف کتابی علم (قال) نہیں بلکہ ایک حال ہے اور حال خاموشی کی علامت ہے۔ حضرت واصف علی واصف کا فرمان ہے صاحبِ حال اس مقام پر ہوتا ہے جہاں قال کی ضرورت نہیں ہوتی۔
اصطلاحاتِ صوفیا میں خاموشی کو باطنی توجہ سے بھی موسوم کرتے ہیں جو عبادت کادرجہ رکھتی ہے جسکی بہترین مثال مراقبہ یا تفکرہے جو علم حاصل کرنے کا باطنی ذریعہ ہے۔ تفکر سے ہمیں کسی شئے کے بارے میں علم حاصل ہوتا ہے اور پھر تفکر کے ہی ذریعہ اس علم میں گہرائی پیدا ہوتی چلی جاتی ہے اور اسی مناسبت سے ہم کسی چیز اور اس کی صفات سے باخبر ہو جاتے ہیں۔ تفکر یامراقبہ دل و دماغ کی استغراق والی کیفیت کا نام ہے ۔اللہ تعالیٰ شہ رگ سے زیادہ قریب ہے، کائنات کے رموزکی تلاش کسی بیرونی سفر کا نام نہیں۔ یہ اندر کا سفر ہے۔ اندر کےانسان سے ہی یہ راز ملتا ہے اور خاموشی سےملتا ہے اور ملنے کےبعدانسان کو خاموش کر دیتا ہے۔
بقول صوفیا اکرام آ فاق جس عالم کبیر بھی کہا جاتا ہے یعنی کائنات میں جو کچھ ہے وہ سب اجمالی طور پر انفس( من کی دنیا) جسے عالم صغیر سے تعبیر کیا جاتا ہےمیں بھی ہے۔ جو کچھ (آفاق) میں ہے وہی یہاں (انفس) میں بھی ہے ۔ یہ انفس کی دنیا خاموشی کی دنیا ہے اظہار و بیان کی نہیں ہے۔ صاحبِ حال وہی ہے جو کائنات کا راز سمجھ گیا اورخاموش ہوگیا ۔
والسلام ۔ محمد سعید الرحمنٰ، ایڈوکیٹ۔

Comments

Popular posts from this blog

سلسلہِ صندلیہ . حضرت علی محمد المعروف میاں صندل شاہ رحمتہ اللہ علیہ

جون ایلیا ایک تعارف