خرقہِ (لباس درویشی)

 


خرقہ (لباس درویشی)
خرقہ ارادت وہ لباسِ درویشی جو شیخِ طریقت اپنے اجتہاد سے وضع کرکے اپنے مریدین کو پہنے کی ہدایت کرئے۔
خِرقہ پوشی اِس امرکی علامت ہے کہ اُس کے پہننے والے نےدرویشی کاراستہ اختیار کر لیا ہے۔
خرقہ تبرک شیخِ طریقت کاوہ استعمال شدہ لباس ہے جو وہ اپنے خلیفہ کو عطا کرتاہے۔
تصوف میں ظاہری امور کی حفاظت اور درستگی کو بھی خرقہ کہتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حاصل مطالعہ : محمد سعید الرحمنٰ، ایڈوکیٹ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی، ارادت ہو تو ديکھ ان کو
يد بيضا ليے بيٹھے ہيں اپنی آستينوں ميں
(علامہ اقبال)
خرقہ سے مراد قبا ، عبا ، جبہ ، گلیم اور درویشوں کی قبا مراد لی جاتی ہے۔ لغت میں خرقہ کے اصطلاحی معانی کپڑے کا پھٹا ہوا ٹکڑا۔ کسی صوفی کا موٹا جھوٹا اونی لبادہ۔ لباس درویشی، صوفی کےفقر و قناعت کی ظاہری نشانی اونی کپڑےکےٹکڑوںکاچغہ ، پیوند لگا ہوا پھٹا پرانا لباس کے ہیں۔
تصوف میں خرقہ تبرک سے خاص طور پر وہ استعمال شدہ لباس مراد لی جاتی ہے جو شیخ طریقت اپنے مرید کو داخلِ سلسلہ کرتے وقت یا اپنی خلافت عطا کرتے وقت عطا کرتا ہے اور تصوف میں اس لباس کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور ایک شیخ طریقت کا ایک سالک کو خرقہ کا اس طرح عطا کیا جانا مستحسن عمل سمجھا جاتا ہے۔ تصوف میں ظاہری امور کی حفاظت اور درستگی کو بھی خرقہ کہتے ہیں۔
خرقہ میں ٹوپی، دستار، رومال ، مصلیٰ یا ایسا کوئی کپڑا جسے شیخ طریقت نے استمعال کیا ہو یا جسم سے مس ہوا ہو شامل ہے۔ ایسے سالک راہ طریقت جنہیں اپنے شیخ سے اس طرح کا لباس یا لباس کا کوئی جز بھی ملا ہو خرقہِ تبرک کہلاتا ہے۔ عام طور پر ایک شیخ طریقت اپنے کسی بھی ارادت مند کو جو داخل سلسلہ ہوتا ہے، وقت بیعت اپنی ٹوپی یا رومال دیتے ہیں جو خرقہ تبرک کے زمرے میں ہی آتاہے۔ مشائخ عظام کی وقتِ خلافت اپنے خلیفہ مجاز کوخرقہ تبرک کے طور پر اپنا پرانا استعمال شدہ لباس دینے کی بھی روایت ہےجس میں دستار خلافت بھی شامل ہوتی ہے ۔
صوفیوں میں اپنے مریدین کو خرقہ ارادت اور خرقہ تبرک دینے کا رواج زمانے قدیم سے چلا آرہا ہے اور یہ روایت آج بھی برقرار ہے ۔ واضح رہے کہ عطائے خرقہ کی یہ رسم خود نبی اکرم سے جاری ہوئی ہے۔ چنانچہ حضور اکرم ﷺ نے ایک خرقہ حضرت اویس قرنی علیہ الرحمہ کو عطا فرمایا تھا اور ایک خرقہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو عطا فرمایا تھا ۔ اس سننت کو مشائخ طریقت نے برابر جاری رکھا ہوا ہے۔
اس ہی طرح خرقہ ِارادت وہ لباس ہے جو شیخ طریقت اپنے اجتہاد سے سالکانِ راہ طریقت کو برائے اصلاحِ حال کی غرض سے وضع کرکے پہنے کی ہدایت کرتے ہیں۔ اس طرح کا خِرقہ زیب تن کرنا اِس امر کا اظہار ہے کہ اُس کے پہننے والے نے درویشی کی راہ اختیار کرلی ہے۔ شیخ کے تجویز کردہ لباس کو پہنا اور اس لباس پر استحکام قائم رکھنے والے سالک راہ طریقت ہی خرقہ پوش صوفی کہلاتے ہیں۔
شیخ طریقت کا اپنے مریدین کو اپنا وضع کردہ لباس پہنے کی تلقین کرنا مستحسناتِ صوفیاء اکرام سے ہے جس سے مراد وہ مستحب امور جو مثل لباس خرقہ یا بنائے خانقاہ یا اجماع ِاخوان برائے چلہ کشی کے مشائخ عظام اصلاح احوال کی غرض سے وضع کرتے ہیں۔ امام مالک کے نزدیک نیک کی طر ف لے جانے والی مصلحتیں اگرچہ سننتِ صریح سے اپنے لیے شہادت نہ بھی رکھتی ہوں تب بھی معتبر ہیں ۔ خرقہِ ارادت شیخ کی طرف سے صرف سالکوں کو ہی عطا ہوتا ہے اور یہ خرقہ مرید کی ارادت اور شیخ کی محبت کا گواہ ہوتا ہے ، یہ خرقہ مرید کے ساتھ وہ کام کرتا ہے جو پیراہن یوسفی نے دیدہ یعقوب علیہ السلام کے ساتھ کیا۔
خرقہ کےرنگ کا انتخاب شیخ طریقت کا اجتہاد ہے۔ کسی سلسلہ طریقت میں خرقہ کا رنگ سیاہ ہوتا ہے۔ کسی سلسلے میں سفید اور کسی سلسلے میں زرد اور کسی سلسلے میں سبز ہوتا ہے۔
سیاہ رنگ کا خرقہ اس امر کی علامت ہے کہ جب سالک فنا ءکے مقام پر پہنج جاتا ہے تو دونوں جہاں اس کے لیے تاریک ہوجاتے ہیں اور فناء کا یہ مقام پیش خیمہ بنتا ہے مقام بقاء کا۔
سبز رنگ کا خرقہ، سرسبزی اور شادابی پر دلالت کرتا ہے ۔نامرادی اور ہر قسم کی امنگوں کو خیرباد کہ دینا اس سرسبزی کا آغاز ہوتا ہے۔
خرقہ کے لیےزرد رنگ کو اس لیےمنتخب کیا جاتا ہےکہ عشق کی معراج فناء کامل ہوجانا ہے۔ اہلِ فنا کو خاک سے ایک خاص نسبت ہوتی ہے اور خاک کا رنگ زرد ہے۔
سفیدی علامت ہے کہ سالک کی صفات نفسانیہ کی کدورتوں سے کلیتاً خلاصی حاصل ہوگی ہے۔ کامل صوفی کے حسب حا ل خرقہ کایہی رنگ ہے اور مشاٗئخ عظام سفید رنگ کے لباس کو ہی پسند اور اختیار فرماتے ہیں۔ ان کے لباس کی سفیدی ان کے باطن کی نورانیت اور انخلا کا پتا دیتی ہے۔ اس رنگ کو افضلیتِ مسنونہ کا شرف بھی حاصل ہے اور یہی رنگ بہترین اور افضل قرار دیا گیا ہے۔
خرقہ ارادت کے پہنے میں نمایاں فوائد یہ ہیں کہ ۔
(1) مرید اپنے شیخ کا سا لباس پہنے تاکہ لباس ظاہری میں شیخ کی مشابہت نصیب ہو جائے۔
(2)شیخ کے عطا کیے ہوئے لباس سے مرید کو شیخ کی برکات حاصل ہوتی ہیں۔
(3)خرقہ عطا کرتے وقت شیخ کی ایک خاص حالت ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کا خاص کرم ہوتا ہے اور یہ کہ شیخ اپنی نورِ بصیرت سے مرید کے حال کو دیکھتا ہے اور اس میں جو کمی پائی جاتی ہے اسے پوری کرتا ہے اور اپنا جیسا بناتا ہے۔
(4) خرقہ کی برکت سے مرید کی شیخ سے محبت پروان چڑھتی ہے اور ہمیشہ کے لیے شیخ ِ طریقت سےقلبی لگاؤ قائم ہوجاتا ہے جو مقام فنا فی الشیخ ہے اور یہی تصوف کا مطلوب ہے اس کے بعد کی منزل فنا فی الرسول اور فنا فی اللہ بقا باللہ ہیں۔
دور حاضر میں بیشتر صوفی اور پیر ِطریقت زرق برق کے جبہ و دستار زیب تن کیے ہوئے نظر آتے ہیں جنکی خرقہ سے کوئی نسبت نہیں اور نہ ہی یہ فقر کی علامت ہے بلکہ یہ شان وشوکت کا اظہار ہے ۔ البتہ ایک شیخ طریقت کا اپنے سلسلے کے رنگ کی دستار و جبہ پہنا سلسلہ کی امامت کرنا کہلاتا ہے اور یہی طریق معتبر و احسن ہے اور اہل تصوف میں یہی طریقہ مروجہ ہے۔ واضح رہے کہ اکابرین صوفیا اکرام و مشائخین کا شعار کمبل پوشی ہے اور کمبل پوشی باتباع سننت ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا اپنے اوپر کمبل پوشی لازم کرؤ، اپنے دلوں میں حلاوتِ ایمان پاؤگئے۔
سلطان المشائخ حضرت نظام الدین اولیاء ؒ فرماتے ہیں جو لباس شیخِ طریقت کی طرف سے بطور خرقہِ تبرک عطا ہوتی ہے کسی دوسرے کو نہیں دیناچاہیے۔ اس لباس کو نہ دھونا بہتر ہے اگر دھو بھی لیا جائے تو کوئی ہرج نہیں۔ اگر کوئی خلیفہ یہ وصیت کرکے خرقہ تبرک اس کی قبر میں رکھ دیا جائے تو یہ امر بھی جائز ہے۔ حضرت سلطان المشائخ نے یہ بھی فرمایا کہ مجھے اپنے پیر حضرت بابا فرید الدین گنج شکر سے جو خرقہ تبرک ملا وہ میرے پاس محفوظ ہے۔ مگر آپ کے وصال کے بعد یہ خرقہ تبرک آپ کی لحد میں آپ کی وصیت کے مطابق رکھ دیا گیا اور وہ مصلیٰ جو آپ کو عطا فرمایا تھا آپ کے سر مبارک پر رکھ دیا گیا تھا۔ دراصل اہل تصوف کے ہاں خرقہِ تبرک ظلِ ولایتِ شیخ کہلاتا ہے۔ والسلام ۔ محمد سعید الرحمنٰ، ایڈوکیٹ۔

 


Comments

Popular posts from this blog

سلسلہِ صندلیہ . حضرت علی محمد المعروف میاں صندل شاہ رحمتہ اللہ علیہ

جون ایلیا ایک تعارف