حبس دم (شغلِ صوفیاء)
حبس دم (شغلِ صوفیاء)
سانس کو دماغ میں لے جا کر روکنا اور اس حالت میں خدا کا خیال باندھنا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حاصل مطالعہ: محمد سعید الرحمنٰ، ایڈوکیٹ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شغل کی جمع اشغال ہے۔ شغل سے مراد کسی کام ، بات، خیال یا آواز پر مکمل قلبی توجہ اور ذہنی یکسوئی کے ساتھ مشغول ہوجانا ہے۔اصطلاحاتِ تصوف میں ذات و صفات کا تصور کرنا اور اس میں محو ہوجانا شغل کہلاتا ہے جو منتج ہوتا ہے مراقبے پر۔ صوفیاء کے ہاں بہت سے اشغال رائج ہیں اور ان اشغال کا آخر و انجام مراقبہ ہے اور یہ اشغال صرف اس ہی حد تک عمل کرنے کے لیے ہیں کہ تصور ذات قائم ہوجائے۔ آیت قرآنی إِنَّ أَصۡحَٰبَ ٱلۡجَنَّةِ ٱلۡيَوۡمَ فِي شُغُلٖ فَٰكِهُونَ (سورہ یٰسین آیت نمبر 55) ۔ بے شک آج کے دن جنتی لوگ اپنے شغل میں ہشاس بشاس ہیں۔
بالفاظ دیگرشغل یا مراقبہ کا مطلوب اپنی سوچ کو ایک خاص شئے پر مرکوز کرنا۔ مراقبہ یعنی ذہنی یکسوئی حاصل کرنا صدیوں سے انسانی عمل کا حصہ رہا ہے۔ مراقبہ ایک قلبی عمل ہے جو انسان سکون حاصل کرنے لیے کرتا ہے۔ جدید تحقیق سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ مراقبہ ٹینشن ، بلند فشار خون ، ذہنی بیماریوںاور دل کی دیگر بیماریوںکے لیے موثر ہے ۔اسکے ساتھ ساتھ یہ ذہنی قابلیت،درازئ عمر اور قوت ارادی کو بھی مضبوط کرتا ہے۔
صوفیا ء کی اصطلاح کے مطابق مراقبہ کے معنی غور کرنا یا کسی چیز پر توجہ مرکوز کرنا ہے۔ جس کا مقصود یہ ہے کہ اپنے ذہن کو منتشر خیالات اور افکارِ پریشاں سے ہٹا کر یکسر بے نیاز ہو کر اللہ کی طرف یا اللہ کی کسی صفت کی طرف یا اس کی کسی نشانی کی طرف متوجہ ہو جانا ہے۔ اس معنی میں مراقبہ کی غرض وغایت یہ ہے کہ آدمی ظاہری حواس کو ایک نقطے پر مرتکز کر کے اپنی روح یا باطن کی طرف متوجہ ہو جائے تاکہ اس کے اوپر روحانی دنیا کے معانی و اسرار روشن ہو جائیں۔ یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ ایسے اشخاص جو اشعال سے عاری ہوتے ہیں ان میں دل کی کی قوت پیدا نہیں ہو پاتی ہےاور وہ مراقبے کے نتائج و فوائد سے بھی محروم رہتے ہیں کیونکہ صوفیانہ شغل کی غرض وغایت فقط تصور ِخیال کو قائم کرنا ہوتا ہے ۔ اگر کوئی شغل کے اصل اصول سے ناواقف ہے گو وہ اپنے دل میں کچھ ہی کیوں نہ سمجھے لیکن کمال محویت کو نہیں پہنچ سکتا۔ یہ اور بات ہے کہ کوئی زبردست ولیِ کامل اس کے حواس عشرہ کو قوی وقائم کردے مگر یہ اعزاز ونسبت ہر ایک کو حاصل نہیں ہوتی ۔
حبس دم بھی صوفیوں میں ایک شغل ہے اور اس شغل کی غرض و غایت بھی سوچ کو ایک مرکز پر قائم کرنا ہے ۔ اصطلاحی معنیٰ میں حبس دم سے مراد سانس کو قابو کرنا۔ سانس کو دماغ میں لے جا کر روکنا اور اس حالت میں خدا کا خیال باندھنا ہے۔ ہندو ازم میں بھی حبس دم ایک طرح کی عبادت میں شمار ہوتی ہے جس میں وہ سانس روکنے کی اس قدر مشق کرتے ہیں کہ سیکڑوں برس زندہ رہ سکتے ہیں۔ اس طریقہ ریاضت میں یوگی یا سادھو اتنی دیر تک سانس روک لیتے ہیں کہ موت کا شبہ ہونے لگتا ہے اور ان کی دل کی حرکت پر اثر نہیں ہوتا ۔ یہ شغل مسلم صوفیاء میں بھی رائج ہے اور اسلامی تصوف کے بہت سے سلسلوں میں فنا فی ا ﷲیا فنا فی الشیخ یا ذکر قلب کے اوراد میں حبسِ دم بھی شامل ہے جن کے صوفیاء عامل ہوتے ہیں جسکی غایت فقظ تصور ذات قائم کرنا ہوتی۔
حضرت غوث گوالیاری ؒ کا شمار شطاری سلسلے کے عظیم المرتب صوفیوں میں ہوتا ہے۔ آپ نے شطاری سلسلہ تصوف کو نہ صرف آگے بڑھایا بلکہ اسے ایک مستحکم سلسلے کی شکل دی اور ان طرائق روحانی کو بھی اسلامی تصوف میں شامل کیا جو ہندوستان میں رائج ہیں اور جن پر کوئی شرعی اختلاف نہ ہو۔۔آپ کی ابتدائی کتاب جواہر خمسہ میں بھی اس کی ایک جھلک نظر آتی ہے۔
حضرت غوث علی شاہ قلندر کی تعلیمات کے مطابق حبس دم میں دو امر بہت ٖ ضروری ہیں :
1۔ حبسِ نفس جو دو طرح پر ہے، اول بطریق تخلیہ اور دوئم بطریق تملیہ
2۔ حضر ِنفس ۔
سانس کا بطن و ناف سے اور ان کے اطراف سے پشت کی طرف کھینچنا ، اور سانس کا سینہ یا دماغ میں روکنا تخلیہ کہلاتا ہے۔ سانس کا شکم میں کھینچنا اور شکم کو ہوا سے بھر کر سانس کو بطن میں بند کرنا تملیہ ہے۔
مذکورہ بالا دونوں صورتوں میں حد درازی نفس سے قطع نفس کرنا حضر نفس ہے۔
اس شغل کی اصل ترکیب یہ ہے کہ پانی میں غوط لگا کر کرئے۔ جیسا کہ حضرت خضر علیہ السلام نے حضرت شیخ عبد الحق غجدوانی ؒ کو پانی میں اس شغل کے کرنے کا حکم فرمایا تھا۔ اگر غوط لگانے کے قابل پانی نہ ملے تو مندرجہ ذہل طرائق پر یہ شغل کرنا چاہیے۔
عمومی طریقہ اس کا یہ ہے کہ پرسکون جگہ پر التی پالتی مارکر ترجیح دو زانونشست بیٹھ جائےجس طرح نماز کی حالت میں بیٹھا جاتا ہے، آنکھیں بند کریں اور دونوں ہونٹ بند کرکے آہستہ آہستہ ناک سے سانس اندرکھینچنا شروع کریں اور شکم کو مکمل ہوا سے بھر لیں۔ جب تک سانس سینے میں رک سکتی روکے رکھیں جب دم گھٹنے لگے یا سانس کا روکنا سینے میں بوجھل لگے تو جتنی آہستگی کے ساتھ سانس کو اندر کھینچا تھا اتنی ہی آہستگی کے ساتھ یاحی یا قیوم کا ورد کرتے ہوئے ناک کے نتھنوں سے رک رک کر سانس خارج کریں۔
اس ہی طرح سانس کھینچے ، سانس کو سینے میں روکنے اور خارج کرنے کی مدت میں رفتہ رفتہ اضافہ کیا جائے۔ یعنی اگر سانس کی مشق کی ابتدا پانچ سیکنڈ میں سانس کھینچنے، دس سیکنڈ تک سانس روکنے اور پانچ سیکنڈ میں سانس خارج کرنے کی مدت سے کی ہے تو چند دنوں بعد سانس کھینچنے، سانس روکنے اور نکالنے کی مدت دس سیکنڈ، بیس سیکنڈ اور دس سیکنڈ تک کردینا چاہیے اور یہ بتدریح اس ہی تناسب سے بڑھاتے رہیں۔ بہرحال مشق سے رفتہ رفتہ سانس کی مدت پر قابو پاسکتا ہے، باکمال لوگ رفتہ رفتہ سانس کی مشق پر اتنا قابو پالیتے ہیں کہ ایک ایک گھنٹے تک سانس کو سینے میں روکنے، پندرہ منٹ سانس کو اندر کھینچنے اور تیس منٹ تک سانس کو آہستہ آہستہ خارج کرنے پر قادر ہوجاتے ہیں۔ واضح رہے کہ سانس کھینچنے اور خارج کرنے کا عمل جتنی نرمی اور آہستگی کے ساتھ ہوگا۔ قوت ارادی اور خود اعتمادی میں اتنا ہی اضافہ ہوگا، نیز یہ بھی کہ جتنی دیر تک سانس کو سینے میں روکیں گے (کوشش کیجیے کہ سانس روکنے کی مدت میں برابر اضافہ ہوتا رہے) روحانی ترقی میں اتنا ہی اضافہ ہوتا رہے گا۔
نقش بندیہ کے ہاں نفی اثبات (لا الہ الا اللہ ) کا ذکر اس شغل حبس دم کے ساتھ کیا جاتا ہے، یعنی سانس روک کر کرتے ہیں، اس کا طریقہ یہ ہے کہ اول اپنی سانس کو ناف کے نیچے بند کیا جاتا ہے اور خیال کی زبان سے کلمہ لا کو ناف سے نکال کر اپنے دماغ تک پہنچایا جاتا ہےاور لفظ الہ کو دائیں کندھے کی طرف لے جاتا ہےاور لفظ الا اللہ کی قوت خیال سے دل پر ضرب لگائی جاتی ہے ۔ ایک سانس میں طاق عدد ذکر کرنے کی رعایت کرئے۔ ابتدا میں تین پھر پانچ، پھر سات ، اپنی طاقت و مشق کے مطابق بڑھاتا جائے حتی کہ ایک سانس میں اکیس تک پہنچا دے۔ یہ شغل کشف کے حاصل ہونے کا سبب ہوتاہے۔ کیونکہ اس ذکر میں گرمی بہت ہوتی ہے اس لیے بعض بزرگوں نے یہ ذکر پانی میں کیا ہے۔ والسلام
حاصل مطالعہ : محمد سعید الرحمنٰ، ایڈوکیٹ
کتابیات: (1) تعلیم غو ثیہ (سید شاہ گل حسن قلندری قادری)۔ (2) رودِ کوثر ( شیخ محمد اکرام ) ۔ (3) تحفہ نقش بندیہ (حضرت مولانا عبد القیوم مہاجر مدنی)۔ (4) مراقبہ (خواجہ شمس الدین عظیمی) (5) فرہنگ آصفیہ ( مولوی سید احمد دہلوی) ۔ (6) کالم بعنوان مشق تنفس نور (شایان تمثیل) اشاعت ایکپریس نیوز، 21 اپریل 2013 ۔
فیس بک پر مورخہ 06 جون 2022ء کو پوسٹ کیا گیا ایک آرتیکل۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Comments
Post a Comment