خانقاہ شریف شیرزمانی مصطفے آباد ، رام پور ہندوستان۔موسوم بہ حضرت ابو شیر زماں خان ترابہ رحمتہ اللہ علیہ
موسوم بہ حضرت ابو شیر زماں خان ترابہ رحمتہ اللہ علیہ
سلسلۃ الذہب قادریہ ،سلسلۃ الوہب چشتیہ و سلسلہ نقش بندیہ کاروحانی مرکز۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرتبہ : محمد سعید الرحمنٰ، ایڈوکیٹ۔
برصغیر پاک وہند ودیگراسلامی ممالک میں جس طرح ظاہری علوم کی ترویج کے سلسلے میں مدارس و جامعات کو اہمیت حاصل ہے اس ہی طرح علومِ باطن کی ترویج جسے علم تصوف یا طریقت کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے کے لیے خانقاہوںکو بھی ایک خاص اہمیت حاصل رہی ہے۔خانقاہ جسے دائرہ ، آستانہ یا زاویہ کے نام سے بھی منسوب کیا جاتا ہے دراصل تصوف کے وہ علمی و روحانی مراکز ہوتے ہیں جہاںاربابِ طریقت اور صوفیائے اکرام راہ طریقت کے مبتدیوں کو حصول ِقرب الی اللہ کے لیے اپنے اپنے سلاسل کے نصاب و طرائقِ سکوک کے مطابق روحانی منازلِ طے کرواتے ہیں۔
عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں جامعہ، دارالعلوم، مدرسہ اور خانقاہ وغیرہ کی کوئی خاص اصطلاح مقرر نہیں تھی بلکہ یہ سارے امور مسجد ہی میں ادا کیے جاتے تھے۔ مگر بعد میں انتظامی ضرورت کے تحت ظاہری علوم کی تعلیم کتاب وحکمت اور تلاوت آیات کے لیے علیحدہ سے مدرسہ، مکتب، دارالعلوم اور جامعات وغیرہ وجود میں آئے، اس ہی طرح باطنی علوم کی تعلیم و ترویج یعنی تزکیہ نفس، تصفیہ قلب اور اخلاقیات کی عملی تربیت کے لیے خانقاہیں معروضِ وجود میں آئیں ۔
خانقاہیں درحقیقت درس گاہ ِصفّہ کی طرح وہ عملی تربیت گاہ ہے جہاں شیخ اپنے مرید کی روحانی و اخلاقی تربیت کرتا ہے، تزکیہ کراتا ہےاور ان کا تعلق ﷲ رب العزت کے ساتھ جوڑتا ہے۔ہر ادوار میں صوفیائے کرام کی خانقاہیں سالکین راہ ِ طریقت کی تربیت، تعلیم اور ذکر و فکر کا وہ مرکز رہی ہیں، جہاں سے کروڑوں تشنگان معرفت فیض یاب ہوئے اور لاکھوں گم گشتہ راہیوں کو محبت الہٰی کی منزل کا سراغ ملا۔
دراصل صوفیاء کے نزدیک علوم شریعت ( یعنی علوم ظاہری) کے بعد کا درجہ علومِ طریقت (علوم باطنی) کا ہے، اس لیے علم شریعت مقدم ہے اور علم باطنی( طریقت) شریعت کے ہی تابع ہے۔شریعت کی تعلیم کےمراکز مدارس اور جامعات ہوتے ہیں۔ کیونکہ طریقت میں سالک ظاہری علوم کے حصول کے ساتھ ساتھ اپنے باطن پر بھی خصوصی توجہ دیتا ہے اور اس توجہ کے لئے سالک کو کسی استاد کی ضرورت ہوتی ہے جسے شیخ ، مرشد یا پیر کہا جا ہے۔ اصطلاحاتِ تصوف میں شیخ کی تعلیم کے مطابق اپنے نفس کو عیوب سے پاک کرتا چلاجانا یہاں تک کہ اللہ کا قرب حاصل ہو جائے اور تزکیہ کے اس عمل کو یا اس راستے پر شیخ کی ہدایت و نگرانی میں چلنے کو طریقت کہتے ہیں۔ خانقاہوں میں ہر سالک کی روحانی تربیت کا انداز مختلف ہوتا ہے او روحانی تربیت کا یہ نصاب شیخِ طریقت سالک کے مزاج کے مطابق ہی ترتیب دیتے ہیں۔
تصوف میں سلسلہ سے مراد مُرشد یا شیخ کا روحانی طریقہ / شجرہ خلافت ہوتا ہے۔ سلسلہ کی جمع سلاسل کہلاتی ہے ۔ تصوف میں خانوادوں سے مراد خاندان ،گھرانہ، مشائخ یادرویشوں کا وہ خاندان (روحانی سلسلہ) جس سے انہیں توسل ہے۔ بنیادی طور پر چار (4) پیر اور چودہ (14) خانوادوں ہیں جن کی آگے چل کر اور بہت سی شاخیں ہوجاتی ہیں اور ہر ایک شاخ کو سلسلہ کہا جاتا ہے،ان میں ہر ایک شاخ (سلسلے) کا ایک بانی ہے۔ پاک وہند میں جتنے بھی سلاسل ِطریقت رائج ہیں ان میں چار سلاسل یعنی قادریہ، سہروردیہ، چشتیہ اور نقش بندیہ کو خاصی شہرت حاصل ہے۔
جب ہم تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں برصغیر پاک وہند میں قائم ریاستوں میں بھی جہاں ظاہری علوم کی ترویج کے لیے مدارس و جامعات کی تفصیلات ملتی ہیں اس ہی طرح روحانی علوم کی ترویج میں مصروف عمل معروف خانقاہوں کی تفصیلات بھی ملتی ہیں۔ ہندوستان میں اسلام کی پرچار میں مصروف ریاستوں میں سے ایک ریاست رام پور بھی ہے جو دہلی اور لکھنو کے درمیاں مسلمانوں کی ایک بڑی ریاست تھی جو افغان جنگجو قبائل نے”مصطفی آباد “ کے نام سے بسائی تھی مگر اس ریاست کو شہرت” رام پور “کے نام سے ہی حاصل ہوئی۔ اس ریاست کی سن 1719ء میں نواب علی محمد خان نے پہلے حکمران کی حیثیت سے باگ ڈور سنبھالی تھی ۔ اس ریاست میں علوم ظاہر کے مراکز کے علاوہ روحانی تربیت و منازل سلوک طے کرانے کے لیے معروف سلاسل کی متعدد خانقاہیں بھی تھیں جن میں ایک معروف خانقاہ”خانقاہ شریف شیرزمانی“ موسوم بہ حضرت ابو شیر زماں خان ترابہ رحمتہ اللہ علیہ بھی ہے جو محلہ لال مسجد مصطفے آباد، رام پور میں واقع ہے ۔
خانقاہ شریف شیرزمانی بنیادی طور پریہ خانقاہ رام پور کی ایک اور معروف خانقاہ سبحانیہ قلندریہ جس کے بانی برصغیر پاک و ہند کے معروف صوفی بزرگ حضرت میاں سبحان شاہ قلندرؒ تھےکی روحانی تعلیمات و طرائق سلوک کا تسلسل ہے۔ تاریخ تصوف کے مطابق حضرت میاں سبحان شاہ قلندر رحمتہ اللہ علیہ نسباقادری اورمشرباً چودہ خانوادوں سےفیض بخش نسبت کے حامل تھے اور آپ کو سلسلۃ الذہب قادریہ کی خلافت و جانشین کے علاوہ بھی دیگر کئی سلاسل کی دستار خلافت و فیضِ نسبتیں اپنےخاندان کے مختلف بزرگوں سے منتقل ہوتی چلی آرہی تھیں جن میں فیضانِ چشتی صابری و نظامی، نقشبدی، سہرودری، اویسی، مداروی، کبروی، رفاعی اور شازلی وغیرہ شامل ہیں جب کہ آپ کےجدبزرگوار کو ہندوستان آمد کے بعدحضرت معین الدین چشتی ؒکی بارگاہ دلایت سےنسبتِ چشتیہ بطریق اویسیت عطا ہوئی تھی۔ سلسلہ قلندریہ میںکئی صورتوں سے خلافت حاصل ہونے کی بناء پر اس خانوادےکے بزرگوں و مشائخ کاذوقِ روحانی قلندری تھا جب کہ طرائق سلوک میںسلسلے اویسیہ ، سہروریہ ، مداریہ اور شطاریہ کی نسبت کی حامل ہونے کی بنا پر اس سلسلے کی تعلیمات عام فہم نہیں اور صرف اہل ِعلم ہی ان تعلیمات کا فیض حاصل کرکے اپنے ذوقِ روحانی کی تکمیل کرسکتے تھے۔ اس سلسلے میں نسبتِ قلندریہ حاصل کر نے کے لیے سخت ترین مجاہدے کرنے پڑتے ہیں اور اکثرنسبت خود ہی القا ہوجاتی تھی۔ اس ہی لیے اس سلسلے کے مشائخ صاحب کمال ہوکر وصال پاتے رہے ہیں۔ حضرت میاں سبحان شاہ قلندر ؒ کے نام کے ساتھ قلندر کا لاحقہ بھی اس امر کی دلالت ہے اور یہی قلندی رنگِ صوفیت اس سلسلے کی پہچان ہے اور متذکرہ خانقاہ کا ہی یہ قول زبان زدِ عام ہے کہ قلندریت جانِ صوفیت ۔
واضح رہے کہ حضرت شیر زماںؒؒ کا سن ولادت 1268ہجری نبوی ( 1852ء) تھا اور حضرت میاں سبحان شاہ قلندر کاوصال(21 ستمبر 1867ء ) کو ہوا تھا ۔یعنی حضرت میاں سبحان شاہ قلندرؒ کے وصال کے وقت حضرت شیر زماں خان کی عمر مبارک تقریباً 15 سال سے بھی کم تھی اور یہ زمانہ آپ کی ظاہری علوم کے اکتساب کا ہے ۔ بہرکیف بعد از فراغت علوم ظاہری آپ نےسلسلہ سبحانیہ کی روحانی تعلیمات اور منازلِ سلوک حضرت مصطفی شاہ قلندر جانشین اول حضرت میاں سبحان شاہ قلندر ؒ کی زیر نگرانی طے کیے اور حضرت مصطفی شاہ قلندر ؒ نے ہی آپ کو سلسلہ سبحانیہ کی جملہ خلافتوں و سلسلتہ الذہب قادریہ کی خلافتو جانشینی و مسند ارشادپر متمکن فرمایا جوکہ آپ کے پاس امانتاً تھیں۔ سلسلۃ الذہب قادریہ کی تواسل کی کڑی میں شجرہ شریف میں حضرت میاں سبحان شاہ قلندر کےبعد حضرت میاں مصطفی شاہ قلندر کا نام آنا اس امر کی دلالت کرتاہے ۔مزید برآں حضرت میاں مصطفی شاہ قلندر ؒ کو سلسلتہ الوہب چشتیہ میں رام پور کے مشہور صوفی بزرگ حضرت امیرشاہ المعروف امیردوجہاں ؒ سے بھی خرقہ خلافت حاصل ہوا تھا۔ یوں سلسلۃ الوہب چشتیہ میں حضرت شیر زماں خاں ؒ کو خلافت حضرت میاں مصطفی شاہ قلندر ؒسے حاصل ہوئی۔ اس ہی تقدیم کی وجہ سے حضرت میاںمصطفی شاہ قلندر کا نام مبارک شجرہ سلسلۃ الوہب چشتیہ میں حضرت شیرزماںؒ سے قبل آتا ہے۔
یہاں اس امر کی صراحت بھی ضروری ہے کہ حضرت میاں سبحان شاہ قلندر اور آپ کے برادرِ حقیقی حضرت مولوی گل شاہ قلندر سجادہ نشین خانقاہ سبحانیہ حضرت شیر زماں ؒ کے نسبی و پدری قرابت دار تھے اور حضرت میاں مصطفی شاہ قلندر حضرت شیر زماں خانؒ کے حقیقی ماموں تھے اور آپ کی علمی و روحانی تربیت ان تینوںبررگوں نے بنفس نفیس خود فرمائی تھی۔ کیونکہ حضرت شیر زماں کے والد گرامی آپ کے بچپن میں ہی رام پور سے مدینہ ہجرت فرماگئے تھے اور اپنے فرزند کی تعلیم وتربیت کے لیے ان تینوں بزرگوں کو مامور فرمایا تھا۔ علاوہ ازیں تاریخ رام میں اس امر کا تذکرہ موجود ہےکہ حضرت شیر زماں خاں ؒ نےدیوہ شریف جاکر حضرت وراث شاہ ؒسے بھی براہ راست سلسلہ وارثیہ کی تعلیم و فیض حاصل کیا تھا ۔ حضرت شیرزماں خان ؒ نے سلسلہ نقش بندیہ کی دستار خلافت حضرت سعادت علی شاہ ؒخلیفہ مجاز حضرت نعیم شاہ ؒ سے حا صل کی تھی ۔حضرت شیرزمان ؒ کا وصال 23جولائی 1931 کو ہوا، قاضی شہر رام پور سید حامد شاہ نقوی نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور آپ کی تدفین اس ہی خانقاہ شریف شیر زمانی میں عمل میں لائی گئی۔ آپ کے مزار اقدس سے متصل خانقاہ سبحانیہ ہے۔
تاریخ ِسلسلۃ الذہب قادریہ کے مطابق خانقاہ شریف شیرزمانی، مصطفے آباد ، رام پور ہندوستان حضرت شاہ محمد سلطان میاں ؒ جنہیںاپنے والد گرامی اور پیر ومرشد حضرت شیر زماں خاں ترابہ ؒسے دستارِ خلافت اور مسندِ ارشاد غوث آعظمیہ کی جانشینی حاصل ہوئی تھی کی قائم کردہ خانقاہ ہے اور اس خانقاہ کا افتتاح آپ کے والد گرامی اور مرشد حضرت ابو شیر زماں خان ترابہ جو حضرت میاں سبحان شاہ قلندر ؒ کے جانشین تھے نے فرمایا تھا ۔حضرت شاہ محمد سلطان میاں ؒ نے سلسلۃ الذہب قادریہ میں دیگر مروجہ سلاسل کے روحانی طرائق سلوک کے علاوہ سلسلتہ الوہب چشتیہ و سلسلہ نقش بندیہ کے طرائق سلوک کو بھی شامل کرکے سلسلہ سلطانیہ کے نام سے متعارف کروایا گیا۔سلسلۃ الذہب قادریہ، سلسلۃ الوہب چشتیہ اور سلسلہ نقش بندیہ کے پیران شجرات کے روحانی فیوض وبرکات اور تعلیماتِ تصوف اس سلسلہ سلطانیہ کا ماخذ ہیں اورحق فرید۔ یا فرید کی طرح ” یا سبحان ۔یا سلطان“کا نعرہ وسلیہ ِ ہے ۔
سلسلہ سلطانیہ سے وابستہ ہر سالک کو وقت بیعت ان تینوں سلاسل کے شجرات برائے حصول ِروحانی فیوض و برکات عطا کیے جاتے ہیں۔ کیونکہ یہ سلسلہ اپنی طرز کا ایک منفرد سلسلہ ہے، اس لیے اس سلسلے کی تعلیمات ومنازل سلوک ایک ایسا ہی شیخ طریقت طے کراسکتا ہے جو ظاہری علوم پر دسترس رکھنے کے علاوہ خود بھی وصال بحق اورمقام بقا باللہ کا حامل ہو۔ حضرت شاہ سلطان الزمان ؒ کا شمار بھی اپنے دور کے ایک صاحبِ ارشاد اور فنا فی اللہ بقا باللہ صوفی بزرگوں میں ہوتا تھااور برصغیر پاک وہند کے علما ومشائخ آپ کے بلند علمی و روحانی مقام کے معترف رہیں ہیں اور آپ سے علمی و روحانی استفادہ حاصل کیا کرتے تھے اور ا ٓج بھی آپ کا مزار اقد س اکتساب فیض کے لیے عام زائرین کے علاوہ علماٗ و مشائخ کا مرجع ہے۔
کئی سلاسل کے فیضان و تعلیماتِ روحانی کو یکجا کرکے روحانیت کا ایک نیا اسلوب وضع کرنے کی روایت تصوف میں حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت ؒ کے ہاں بھی ملتی ہے۔حضرت مخدوم جہانیاں ؒاپنے ملفوظات میں فرماتے ہیں کہ حضرت شیخ رکن الدین نے خواب میں ان کو خرقہ پہنایا اور قطب عالم کے لقب سے یاد فرمایا تھا۔ جن بزرگوں و مشائخ نے ان کو خلافت کے خرقے بہنائے تھے آپ نے ان کی تعداد بیس بتائی ہے۔ (حوالہ بزم صوفیہ مرتبہ سید صباح الدین عبدا لرحمنٰ)۔
سن 1964ء میں امام سلسلہ سلطانیہ و بانی خانقاہ شیر زمانی حضرت سلطان الزماں خاںؒ سلسلے عالیہ کی ترویج کے لیے پاکستان تشریف لے آئے اور اس سلسلے کو فروغ دینے کے لیے کراچی کو اپنا مرکز بنایا اور اپنے اسلاف کی طرز پر اس شہر میں بھی ایک خانقاہ تعمیر فرمائی جو دربار سلطانی کے نام سے معروف ہے اورآج یہ سلسلے پوری آب و تاب کے ساتھ پاکستان میں بھی متلاشیاں حق کے قلوب کو منور کیے ہوئے ہے۔
فیس بک پر پوسٹ کیا گیا ایک آرٹیکل ۔ مورخہ ۱۲ جون ۲۰۲۳ ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Comments
Post a Comment