ملامتی فقیر۔ فرقہ ملامتیہ .صوفیوں کا ایک گروہ .




 ملامتی فقیر۔ فرقہ ملامتیہ (صوفیوں کا ایک گروہ ) اس گروہ کو اصطلاحات تصوف میں” اُمناء“ بھی کہا جاتا ہے

حضرت ابو صالح حمدون رحمتہ اللہ علیہ ، بانی فرقہ ملامتیہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرتبہ : محمد سعید الرحمنٰ، ایڈوکیٹ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اذیت مصیبت ملامت بلائیں
ترے عشق میں ہم نے کیا کیا نہ دیکھا
(خواجہ میر درد)
تاریخ تصوف کے مطابق ملامتیہ صوفیوں کی وہ جماعت ہے جو اخلاص میں بے حدکوشش کرتی ہے۔ ریاء سے بہت بچتی ہے اور اپنے کمالات باطن کو ظاہری شکستہ حالی (غربت) کے تحت میں پوشیدہ رکھتی ہے۔ اس گروہ کو اصطلاحات تصوف میں” اُمناء“ بھی کہا جاتا ہے۔ ملامتیہ فرقہ کے بعض لوگ فرقہِ قلندریہ کو بھی اپنے اندر شمار کرتے ہیں مگر اہلِ تصوف کے نزدیک قلندر اور صوفی ہم معنیٰ الفاظ ہیں دونوں واصلِ بحق ہوتے ہیں اور طبقے اولیٰ میں شمار ہوتے ہیں۔ بقول حضرت شاہ نعمت اللہ ولی ؒ جب صوفی اپنے مقصد پر جا پہنچتا ہے وہ قلندر ہوجاتا ہے۔ جب کہ ملامتیہ کا شمار دوسرے طبقے کی صوفیوں میں ہوتا ہے جو سالکینِ راہ طریقت کہلاتے ہیں اور سلوک کی منازل طے کررہے ہوتے ہیں۔
ملامت کے لغوی معنیٰ لعن طعن، برا بھلا کہنا، ڈانٹ پھٹکار، سرزنش، فضیحت کے ہیں ،مگرتصوف میں”ملامتیہ “ فقرا ءکے ایک فرقے کا نام ہےجو پوشیدہ طور پر عبادت میں مصروف رہتا ہے تاکہ خلق پر ان کا تقویٰ ظاہر نہ ہو، یہ فقراء اپنا ظاہر بالکل خراب رکھتے ہیں تاکہ لوگ ان کو حقارت کی نگاہ سے دیکھیں۔ بالفاظ دیگر وہ فقیر جو چھپا کر عبادت کرتا اور اسرار الٰہی ظاہر نہیں کرتا ہے ملامتی فقیر کہلاتا ہے ۔ حضرت ابو صالح حمدون رحمتہ اللہ علیہ جن کو ملامتیہ مسلک کا بانی کہا جاتا ہے ان کا یہ فرمان اور طریق تھا کہ بندے اور رب کے درمیان جو کچھ ہے (اسرار حق) کسی دوسرے کو ان کیفیات سے آشنا کرنا درست نہیں۔
یہ ملامتی فقراء ریا کاری کے برخلاف اپنے نفس کو لعن طعن ڈانٹ پھٹکار کرتے ہوئے اپنے نیک اعمال و عبادات و زہد مخلوق سے چھپاتے ہیں۔ دانستہ لوگوں کے سامنے کبھی کبھی ایسے کام یا ایسی کوئی حرکت جو خالص شرعی اصولوں یا فرائض کے خلاف نہیں ہو کر جاتے ہیں جو عوام کو ان سے بدظن کر دے یا بظاہر یوں لگے کہ شاید ایسا کرنے والا شریعت کا پابند نہیں۔ مقصد اس طرح کے عمل کا صرف یہ ہوتا ہے کہ اپنے کمالات باطن کو اپنی ظاہری شکستہ حالی کے تحت میں پوشیدہ رکھنا کہ کسی کو ان کی بزرگی یا صاحب عرفان ہونے کی خبر نہ مل جائے اور وہ عقیدت مندی کا شکار نہ ہوجائیں۔ یہ لوگ دوسروں پر لعن طعن نہیں کرتے بلکہ ان کی نشت وبرخاست اس طرح کی ہوتی ہے کہ خلق ان کے قابل اعتراض اعمال و حرکات کی وجہ سے ان سے قربت نہ رکھیں۔ ان کا یہ بھی نظریہ ہے کہ ایمان و آزمایش کے عمل کو مسلسل جاری رکھنے کے لیے اللہ رب العزت نے انسانوں کے اندر ملامت کرنے والا نفس رکھ دیا ہے، تا کہ وہ انھیں ان کے افعال پر ملامت کرتا رہے۔ اگر ان سے کوئی لغزش ہوجاتی ہے تو وہ اس لغزش پر اپنے آپ کو ملامت کرتے، اور اگر وہ کوئی نیکی کرتے ہیں تو اس میں کمی رہ جانے پر اپنی ذات کو ہدفِ ِملامت بناتے ہیں۔
حضرت ا بو صالح حمدون رحمتہ اللہ علیہ جن کو ملامتیہ مسلک کا بانی کہا جاتا ہے تبع تابعین میں شمار ہوتے ہیں۔ آپ قدیم پرہیزگار مشائخ میں سے ہیں۔ فقہ اور شریعت کے علوم میں اعلیٰ درجہ پر پہنچے ہوئے تھے۔ حضرت امام ثوری رحمتہ اللہ علیہ کے طریق پر چلتے تھے اور طریقت میں ابوتراب بخشی کے مرید تھے۔ تذکرۃ اولیاء میں درج ہے کہ آپ حضرت سفیان ثوری اور حضرت عبداللہ بن مبارک جیسے جلیل القدر بزرگوں کےمرشد تھے، آپ کے معتقدین کو قصاری کہا جاتا ہے ۔ طبقات اولیاء میںدرج کے کہ حضرت ابو صالح حمدونؒ نیشا پور میں ملامتیوں کے سرگردہ تھے اور ان ہی سے ملامتیہ مذہب پھیلا۔ آپ نے سن 271 ہجری میں دنیا کی ملامت سے نجات پائی اور نیشاہ پور میں حیدہ کے مقبرے میں مدفون ہوئے۔ آپ ہی کا یہ اقوال زرین ہے کہ جس نے یہ گمان کیا کہ فرعون کے نفس سے اس کا نفس بہتر ہے اس نے اظہار تکبر کیا۔
بحوالہ کشف المجوب حضرت ابو صالح حمدون کی اتباع میں مشائخ طریقت کے ایک گروہ نے ملامت کا طریقہ اختیار کیا ہے کیونکہ ملامت کو محبت الہیٰ کے خالص ہونے میں بڑا دخل ہے اور اہلِ حق تمام عالم میں خلقت کی ملامت سے مخصوص ہیں، خصوصاً اس امت کے بزرگ اور خود رسول اکرم ﷺ جو اہل حق کے مقتدا، امام اورمحبان الہیٰ کے پیشواتھے، جب تک بزبان حق کا آپ پر ظہور نہیں ہوا اور وحی الہیٰ آپ پر نہ آئی تھی سب لوگوں کے نزدیک آپ نیک نام صادق اور امین تھے۔ جب اللہ تعالیٰ نے خلعتِ محبوبیت ( یعنی نبوت) سے نواز تو خلقت نے آپ پر زبانِِ ملامت درازی کی ایک گروہ نے آپ کو کاہن ایک گروہ نے آپ کو شاعر ایک گروہ نےدیوانہ اور ایک گروہ نے جھوٹا کہا۔ خدا کا دستور یوں ہی چلا آتا ہے کہ جو اس کا حال بیان کرتا ہے، وہ ساری دنیا کی ملامت کا ہدف بن جاتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نےمومنوںکی تعریف میں فرمایا:
وَلَا یَخَافُونَ لَوْمَۃَ لَآءِمٍ ط ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآءُ ط
(وہ ملامت کرنے والوں کی ملامت سے نہیں ڈرتے۔ یہ خدا کا فضل ہے جسے وہ چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔ (المائدہ)۔
ملامتی صوفیاء یا فرقہ ملامتیہ کے تعارف میں معروف محقق و نقاد ڈاکٹر سرفراز حسین قاضی لکھتے ہیں ’’فرقہ ملامتیہ کی پہچان بہت زیادہ مشکل ہے۔ عام لوگ ان کے ظاہری طور طریقوں سے اس لئے دھوکہ کھاتے ہیں کہ ان ظاہری طور طریقوں میں انہیں شریعت کی مروجہ شکل کی نفی دیکھائی دیتی ہے “۔ بہرحال ان کی خستہ حالی کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ راہ سلوک پر چلنا انتہائی مشکل ترین عمل ہے۔ اس راہ میں ایک سالک کو ذہنی، بدنی اور مالی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو ان کی خستہ حالی کا سبب بنتا ہے۔ واضح رہے کہ فقر میلے کچلے لباس زیب تن کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ غیر اللہ سے آرزویں اور امیدیں توڑ کر اللہ سے امیدیں وابستہ کرنا، اور پھر سادہ زندگی کو اختیار کرتے ہوئے اسراف سے بچنے کا نام ہے۔۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مال ودولت کی فراوانی کی بجاے فقر کو پسند فرمایا حضرتِ ابوسعیدخُدرِی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ فرماتےہیں : مَساکین سےمحبّت کرو ، کیونکہ میں نے رسولِ خُدا ، محبوبِ اَنبِیا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو دُعامیں یہ اَلفاظ شامل فرماتے سنا :
اَللَّہُمَّ اَحْیِنِیْ مِسْکِیْنًاوَاَمِتْنِیْ مِسْکِیْنًاوَاحْشُرْنِیْ فِیْ زُمْرَۃِ الْمَسَاکِیْنَ ۔ اے اللہ پاک! مجھے مسکینی کی حالت میں حیات اور مسکینی کی حالت میں ہی وِصال عطافرما اورگروہِ مساکین میں میراحشرفرما۔( ابن ماجہ ، کتاب الزھد ، باب مجالسۃ الفقراء )۔
ملامتی فرقہ کی وضاحت اس طرح بھی کی جاسکتی ہے کہ یہ اہلِ تصوف کا وہ گروہ ہے جو نام ونمود سے اجتناب کرتا ہے کیونکہ ان کے نزدیک یہ ریاکاری کی ایک صورت ہے ۔ اس کے مقابلے میں یہ ملامتی فقراء نام ونمود سے چھتکارا حاصل کرنے کے لیے اپنی نیکیوں کو پوشیدہ رکھتے ہیں بلکہ اپنے بارے میں پھیلائی گئی غلط فہمیوں کے متعلق بھی کسی قسم کی وضاحت تک دینا پسند نہیں کرتے اور ان کی کوشش بھی یہی ہوتی ہے کہ خود کو لوگوں میں گہنگار باورکرائیں تاکہ ان کی شہرت نہ ہو جو نفسانی خواہشات کا تقاضا ہے۔ ان کی ایک سادہ سی پہچان یہ بھی ہے کہ یہ خستہ حال ہوتے ہیں اور ان کے قول وفعل اور عمل سے دنیا سے بیزاری نظر آتی ہے اور یہ خلق میں راہ و رسم نہیں بڑھاتےتاکہ اپنی روحانی واردت کو غیر پر ظاہر نہ ہونے دیں۔ یہ عموماً مسجدکے کسی کونے میں خستہ لباس میں محوعبادت نظر آئیں گئے۔

Comments

Popular posts from this blog

سلسلہِ صندلیہ . حضرت علی محمد المعروف میاں صندل شاہ رحمتہ اللہ علیہ

جون ایلیا ایک تعارف