صوفی سید محمد علی صابری عظمتی، خلیفہ مجاز دیوان عظمت سید محمد چشتی مدظلہ العالیٰ ، جگر گوشہ گنج شکر ، پاک پٹن۔

 




تعارف و احوال

صوفی سید محمد علی صابری عظمتی

خلیفہ مجاز دیوان  عظمت  سید محمد چشتی مدظلہ العالیٰ  ، جگر گوشہ گنج شکر ، پاک پٹن۔
تحریک فیضان اولیاء پاکستان، کوآڈنیڑ صوبہ سندھ۔

 پاکستان مشائخ اتحاد کونسل، صدر کراچی ڈویژن ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
از: محمد سعید الرحمنٰ، ایڈوکیٹ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تصوف ان کیفیات کا علم ہے جن کے ذریعہ نفس کا تزکیہ اور اخلاق کا تصفیہ اور ظاہر و باطن کی تعمیر ہوتی ہے، تاکہ انسان ابدی سعادت حاصل کرسکے۔گویا تصوف کا دوسرا نام پسندیدہ اخلاق کو اختیار کرنا اوررذیلہ کو ترک  کرناہے یہی تصوف کا مقصود ہے جس کا نام "طریقت"  رکھا گیا ہے ۔ اس ہی اوصاف کی بناء پر تصوف کو عملی طور پر اختیار کرنے والے کو "صوفی"  کہا جاتا ہے اور  جن اصولوں کی بنیاد پر  تصوف عملی طور پر اختیار کیا جاتا ہے  اسے "علم الطریقت" کہتے ہیں طریقت درحقیقت شریعت ہی کا باطن ہے۔ بالفاظ دیگر شریعت جن اعمال و احکام کی تکمیل کا نام ہے ان اعمال و احکام کو حسن نیت اور حسن اخلاص کے کمال سے آراستہ کر کے نتائجِ شریعت کو درجہ احسان پر فائز کرنے کی کوشش علم الطریقت ہے۔ گویا صوفی وہ ہے جو قلب کی صفائی کے ساتھ شریعت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو لازم پکڑتا ہو۔ صوفی پرسکون جسم، دلِ مطمئن، منور چہرہ، سینہ کشادہ، باطن آباد اور تعلق مع اللہ کی وجہ سے دنیا کی تمام اشیاء سے بے پرواہ ہوتا ہے۔ تصوف کا منشاء انہی روحانی کيفیات کو اجاگر کرنا ہے جو طریقے اہل اﷲ نے وضع کیے ہیں اور وہ بزرگ ہستیاں جن کے ذمے  طالبِ حق کو اخلاقی و روحانی تربیت فراہم کرنا ہے وہ شیخ طریقت کہلاتے ہیں۔ صوفی محمد علی صابری  کو ان ہی اوصا ف کے حامل  ہونے کی  بناء  دورحاضر  کےایک صوفی کے درجے کا  پر فائز کیا جاسکتا ہے۔

جناب صوفی  سید محمد علی صابری صاحب  کا تعلق کراچی سے ہے  اور آپ کی  اپنی پوری زندگی  اولیاء اللہ کی صحبت اور اپنے ظاہر وباطن کی تعمیر میں ہی گزری ہے۔ آپ کا تعلق ایک صوفی گھرانے سے ہے، آپ کے والد گرامی   "حضرت صوفی سید عمردارز علی چشتی صابری"     ؒ  نسباً  سید السادت  ہیں  اور  ابتدا جوانی  میں ہی آپ کے والد سن 1942 ء میں  ہند وپاک کے ایک  چشتیہ صابریہ سلسلے کے معروف بزرگ  "حضرت   مولانا مشتاق احمد انبیٹھوی رحمتہ اللہ علیہ " کے دامن حق سے میں  وابستہ ہوگئے  تھے مگر سلوک کی منازلیں  اپنی پیر ومرشد کے خلفیہ مجاز  "حضرت صوفی عبد الغفور  چشتی صابری  رحمتہ اللہ"  کی زیر نگرانی طے کئیں کیونکہ حضرت   مولانا مشتاق احمد انبیٹھوی رحمتہ اللہ علیہ  کا وصال آپ کے بیعت ہونے کے کچھ ماہ بعد ہی ہوگیا تھا اور آپ کے والد کو  ان کے پیر طریقت نےاپنی حیات ہی میں   تربیت و سلوک  کے لیےاپنے خلیفہ مجاز کے سپرد کردیا تھا۔

 صوفی محمد علی صابری صاحب  کے والد گرامی کا آبائی  شہر  "ریواڑی "ہے جو شمالی بھارت میں واقع ریاست ہریانہ  کا ایک  ضلع ہے۔ مگر بعد میں آپ  کے والد نے دہلی میں سکونت اختیار  کرلی تھی  اور دہلی میں ہی رشتہ ازواج   سے منسلک ہوئے ۔   صوفی محمد علی  صابری صاحب  کی والد ہ محترمہ    کا تعلق  بھی دہلی  کے ایک صوفی گھرانےسے تھا۔ قیام پاکستان کے آپ  کے خاندان نے  پاکستان میں ہجرت  فرمائی اور کراچی میں مقیم ہوگئے۔ صوفی محمد علی  صابری صاحب کے والد گرامی کو اپنے پیر ومرشد سے بے پناہ عقیدت تھی اور اپنے شیخ کی محبت میں شرشار ہوکر آپ کا معمول تھا کہ ہر سال اپنے شیخ طریقت کا عرس بڑی شان و شوکت سے منایا کرتے تھے ۔ آپ کے والد گرامی کا وصال  سن 1992ء میں ہوا اور آپ کے وصال تک عرس منانے کا یہ سلسلہ آپ کے والد گرامی  کی زیر نگرانی ہی جاری و ساری رہا اور آپ کے والد کے وصال کے بعد عرس مقدسہ کا یہ سلسلہ اس ہی طرز پر جاری و ساری ہے اور اب اس عرس کی تقریبات صوفی محمد علی صابری  صاحب کے زیر انتظام منعقد ہوا کرتی ہیں۔


خاندانی ریکارڈ کے مطابق  صوفی محمد علی   صابری صاحب کا سن ولادت  1957 ہے،  اور آپ کا  مقام پیدائش کراچی ہے اور آپ  کی تربیت   بھی  ایک صوفیانہ ماحول میں ہوئی ہے اور  آپ نے  ظاہری  علوم کی تعلیم  بھی کراچی کے  اسکولوں اور کالج میں  حاصل کی۔ 

تاریخ تصوف کے مطابق حضرت   مولانا مشتاق احمد انبیٹھوی رحمتہ اللہ علیہ جو صوفی محمد علی صابری صاحب کے والد کے پیر ومرشد تھے    سن 1273 ہجری  میں سہارن پور  (یو۔ پی، بھارت ) میں پیدا ہوئے تھے۔ آپ نے اپنے وقت کے ممتاز عالم دین  مولانا سدید الدین دہلوی، مولانا  محمد علی چاند پوری اور مولانا فیض الحسن سہارن پوری  سے علوم دینیہ پڑھیں ۔ آپ 8 مرتبہ حج کی سعادت سے  بہرور ہوئے تین حج تو آپ نے مکہ مکرمہ کی سکونت کے دوران ہی کیے تھے۔ آپ قیام مکہ  شریف کے زمانے میں  مولانا حاجی رحمت اللہ کیرانوی مہاجر مکی رحمتہ اللہ علیہ  کے" مدرسہ صولتیہ " میں  تدریسی خدمات سر انجام دیتے رہے۔ مدرسہ صولتیہ میں  تدریس کے دوران ہاشمی عہد کے وزیر خزانہ  "علامہ  سید محمد  طاہر وباغ مکی  " نے آپ سے تعلیم پائی۔ حرمین شریف سے واپسی پر آپ نے  درس وتدریس جاری رکھا،  "مدرسہ معینیہ  عثمانیہ "   اجمیر شریف  میں مدت تک پڑھاتے رہے۔ لدھیانہ  میں بھی مدرس رہے۔ لدھیانہ سے آپ  ریاست گنج پورہ  کے مفتی ہوکر گنج پورہ چلے گئے اور آخر تک وہیں مقیم رہے۔


 حضرت   مولانا مشتاق احمد انبیٹھوی رحمتہ اللہ علیہ سلسلہ چشتیہ صابریہ میں"  حضرت حافظ  محمد علی  چشتی صابری رحمتہ اللہ علیہ  "
 (متوفی 1316 ہجری)سے بیعت ہوئے تھے اور شرف خلافت سے ممتاز ہوئے۔ آپ کے پیر ومرشد نے کئی دفعہ آپ کو  خلافت عطا فرمانے کا ارشاد کیا تھا لیکن آپ نے صراحتاً  اس عذر کے ساتھ انکار کردیا تھا کہ" عاجز اس قابل نہیں کہ خلیفہ بنایا جائے"۔آخرالامر  وصال سے چند ماہ بیشتر  آپ کے پیرو مرشد نےخلافت نامہ تحریر کرکے  آپ  کےپاس لدھیانہ  ڈاک سے ارسال کردیا جسے آپ  نے سر انکھوں پر رکھا اور نعمت عظمیٰ متصور  کیا۔

 حضرت   مولانا مشتاق احمد انبیٹھوی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنےچھوٹے بھائی  پیر جی  ظہور احمد رحمتہ اللہ علیہ کو اپنی   خلافت وسجادگی کے شرف سےسرفراز فرمایا  ہوا تھااور اپنے مریدوں کو  تربیت کے لیے ان کے سپرد کردیا کرتے تھے۔ آپ نے اپنے مریدیں کا حلقہ بہت ہی محدود رکھا ہوا تھا۔ آپ کے بھائی کا وصال  جن کو آپ نے اپنی خلافت دی تھی آپ کی زندگی میں ہی ہوگیا تھا پھر آپ نے اپنے دوسرے خلیفہ  حضرت صبغت اللہ عثمانی جلالی چشتی صابری پانی پتی کو اپنی سجادگی عطا کی جو قیام پاکستان کے بعد پاک پٹن تشریف لے آئے تھے اور آپ نے یہیں وصال فرمایا اور آپ کا مزار اقدس بھی پاک پٹن میں ہی مرجع خلائق ہے۔  حضرت   مولانا مشتاق احمد انبیٹھوی رحمتہ اللہ علیہ    کا وصال  27 محرم الحرام  1362 ہجری  (1943ء) کو ہوا۔

صوفی محمد علی صابری عظمتی صاحب  اپنے والد گرامی کے پیر ومرشد کی پُربہار شخصیت اور روحانی مقام سے  بچپن سے ہی    متاثر تھے اور آپ نے اپنے   خاندان میں ہمہ وقت آپ کا ہی ذکر و مناقب سنے تھے ، آپ کی بھی سلسلہ صابریہ سے ایک روحانی وابستگی قائم ہوجانا  ایک لازمی امر تھا  ۔   سماع کی محفلین منعقد ہونا آپ کے   گھر میں ایک عام سی  روایت رہی تھی اور آپ کا سماع کا ذوق بھی اپنے والد کی  وجہ سے ہی  پروان چڑھا تھا۔ آپ  بچپن سے ہی صوفیانہ  کلام   کا اپنے گھر کی محافل میں ہی    ذوق اُٹھایا کرتے تھے اور  بچپن سے ہی اپنے ذوق کی تسکین کے لیے  دیگر صوفیانہ محفل میں بھی بارغبت شرکت کیا کرتے تھے۔


صابریہ سلسلے میں غلبے کی وجہ سے آپ نے بھی  اپنے والد صاحب کے اس  سلسلے عالیہ  میں حضرت صوفی مولوی سلطان شاہ چشتی صابری رحمتہ اللہ علیہ کے دست حق پر بیعت ہونے کی سعادت حاصل کی۔ بلا مبالغہ    صوفی محمد علی صاحب انتہائی صوفیانہ شغف اور روحانی معمولات کے  سالکِ  راہ طریقت ہیں  اور تصوف آپکی زندگی میں رچا بسا ہوا ہے۔ اپنے شیخ طریقت کے بتائے ہوئے اشغال اور وظائف  کو پابندی کے ساتھ  ادا کرنا آپ کا معمول ہے جو روحانیت کی اساس ہے۔   جیسا کہ دور حاضر میں  صوفیوں میں عملیات کا رجحان پایا جاتا ہے اور ان کی شہرت ہی عملیات کے حوالے سے ہوتی ہے،  مگر صوفی محمد علی صابری      کی وجہ شہرت  اس حوالے سے  ہرگز نہیں ہے  بلکہ صوفیوں کے حلقوں میں   آپ اپنے حسن  اخلاق  اور    محفل نواز  کی شہرت کے حامل ہونے کی وجہ سے ممتاز ہیں، مگر اتنا ضرور ہے کہ بطور روحانی علاج آپ اپنے بزرگوں کے بتائے ہوئے   وظائف  جن کی اجازت عام ہے اپنے وابستگان اور حاجت مندوں کو  پڑھنے کی تلقین کیا کرتے ہیں اور آپ کا طریقے روحانی علاج  بلا معاوضہ صرف اس ہی حد تک محدود ہے۔ ویسے آپ کا ذریعہ معاش ایک عرصے دراز تک   ملازمت رہا ہے اور اب  آپ  ریٹائرمنٹ کی زندگی  اپنے روحانی مشاغل کے ساتھ گزار رہے ہیں۔

پاکستان میں پاک پٹن   شہر کو چشتیہ سلسلے کا مرکز اور  مرجع کی حیثیت حاصل ہے۔ صوفی محمد علی صاحب کا معمول رہا ہے کہ آپ ہر سال پاک پٹن شریف  حضرت بابا صاحبؒ کے عرس میں شرکت کے لیے جایا کرتے ہیں۔ آپ کا معمول ہے کہ آپ ہر ماہ کی پانچ تاریخ کو حضرت   بابا صاحب کی روح پُرفتوت سے برکت و فیض حاصل کرنے کے لیے بڑے تزک و احتشام کے ساتھ  آپ کی  ماہانہ فاتحہ کا اہتمام بھی اپنی قیام گاہ پر پابندی کے ساتھ کیا کرتے ہیں۔ آپ کی ملاقات حضرت بابا صاحب کے  ایک عرس کے  موقع پر  پاک پٹن میں    مقیم حضرت بابا صاحب ؒ   کی اولاد   جگر گوشہ گنج شکر حضرت  دیوان  عظمت  سید محمد چشتی مدظلہ العالیٰ   سے ہوئی تھی   اور حضرت دیوان صاحب نے  شفقت فرماتے ہوئے آپ کو اپنے دست حق پر طالب کرکے     اپنے  حلقہ ارادت میں شامل فرمایا لیا تھا ۔  بعدہُ         6جو ن سن  2013ء  کو آپ کو سلسلہ صابریہ قادریہ کی خلافت بھی عطا فرمائی۔ آپ بھی سلسلہ  عالیہ کی ترویج     کے مجاز ہیں   مگر  آپ کا حلقہ ارادت بہت ہی محدود ہے اور آپ  مرید کرنے میں بہت ہی احتیاط سے کام لیتے ہیں  اور جس کو مرید کرلیتے ہیں تو اس پر اپنی پوری توجہ رکھتے ہیں۔  آپ نے بھی حافظ محمد مستقیم فریدی  کوحضرت دیوان سید عظمت چشتی فریدی فاروقی صاحب دامت برکاتہم العالیہ  کے   حکم کے  بموجب  اپنی خلافت عطا فرمائی ہے  جو کہ کراچی   میں ہی مقیم ہیں ۔

کراچی میں  صوفی محمد علی صابری صاحب  کا کوئی  باقاعدہ آستانہ  یا  خانقاہ نہیں ہے،  البتہ آپ نے اپنی قیام گاہ  کو ہی سلسلہ عالیہ کی ترویج اور دیگر  سماجی  خدمات کا مرکز بنایا ہوا ہے۔ کراچی میں  جب بھی آپ کے پیر ومرشد تشریف لاتے ہیں تو  آپ  کوان کے اعزاز میں  روحانی تقریبات منعقد کرنے کی سعادت حاصل ہوتی  رہتی ہے۔  اس کے علاوہ بھی کراچی میں  دیگر  سسلاسل کی  سالانہ روحانی تقریبات  بلخصوص جلسہ میلاد النبی   آپ  ہی زیر نگرانی منعقد ہوتی  رہتی ہیں۔ علاوہ ازیں کیونکہ سلسلہ چشتیہ میں  جگر  گوشہ گنج شکر ہونے کی بناء پر آپ کے شیخ طریقت کو   پاکستان  بھر میں مرکزیت حاصل ہے، اس لیے کراچی کے چشتیہ سلسلے کے مشائخ  و خانقاہیں  جناب  صوفی محمد عل صابری صاحب  کی    اپنے شیخ طریقت کا خلیفہ ہونے کی بناء پر  خصوصی  عزت افزائی  کیا کرتی ہیں اور  کراچی کی بیشتر محافل میں آپ اپنے شیخ ِطریقت کی نیابت کرتے  ہوئے  رونقِ مسند  ہوتے ہیں۔ اگر آپ کے شیخ طریقت کراچی میں تشریف فرما  ہوئے ہوں تو آپ   کو ان کے ساتھ  ایسی تمام تقریبات میں  ہم نشینی کی سعادت بھی حاصل ہوتی ہے۔

صوفی محمد علی  صابری صاحب کا پیر خانہ ( شیخ طریقت کی حویلی )  پاک پٹن میں      حضرت بابا صاحب ؒ کے روضہ اقدس کے احاطے  کے سامنے واقع ہے  اور یہ حویلی  حضرت بابا صاحب  کی پاک پٹن آمد کے بعد سے ہی  آپ کی  اولایں   کے تصرف  میں ہے۔ وہیں قریب ہی آپ کے شیخ طریقت کا آستانہ بھی ہے۔  حضرت بابا صاحب ؒ کے عرس مقدسہ کے ایام میں   اپنے شیخ طریقت  کے اس آستانے  کے جملہ معاملات کی نگرانی    جناب صوفی محمد علی  صابری صاحب    کے ذمے ہوتی ہے جس میں  مرکزی عرس مقدسہ کی تقریبات کے انتظامات،  دیگر پاکستان کے شہر سے آنے والے مشائخ عظام   کا استقبال اور ان کی ضیافت اور زائرین کے لیے لنگر کے انتظامات بھی شامل ہیں جنہیں آپ اپنے شیخ طریقت کی منشا  کے مطابق  خندہ پیشانی کے ساتھ سر انجام دیتے ہیں۔

 حضرت بابا  صاحب کے عرس  میں شرکت کے لیے آنے والے پاکستان بھر کے مشائخ کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اس موقع پر حضرت بابا صاحب کی اولاوں سے بھی  قربت  حاصل کریں اور ان کے ساتھ عرس کی مرکزی تقریبات میں شریک ہوں  ۔ اس حوالے سے بھی صوفی محمد علی صاحب  کی پاکستان کی معروف خانقاہوں کے سجادہ نشینوں اور پیرانِ طریقت    سے راہ و رسم  و مراسم  ہیں  اور وہ سب بھی   بے انتہا آپ کی عزت و  تکریم کرتے ۔

 یہ بات  اظہر من الشمس  ہے کہ برصغیر میں اشاعت اسلام کا سہرا بزرگان دین، اولیاء کرام، مشائخ عظام اور صوفیا کرام کے سرجاتا ہے اور بزرگان دین کے آستانے آج بھی رشد و ہدایت کا منبع اور ہدایت کا ذریعہ ہیں ، اولیاء کرام سے فیض حاصل کرنےکا بہترین ذریعہ ان کے نقش قدم پر چلناہے ۔صوفیا کی تعلیمات ہمارا قیمتی ورثہ ہیں اور انہوں نے جو پیغام دیا ہے امت مسلمہ اس پر عمل پیرا ہو کر ہی  اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کر سکتی ہے۔  حضرت  سید عظمت چشتی نے  پاکستان کے مشائخ کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کے لیے تاکہ یکجہتی کی فضا قائم کرکے اسلام کے زریں اصولوں کو عام کیا جاسکے ایک فعال ادارہ بنام تحریک فیضان اولیاء پاکستان قائم کیا ہے جس کے سندھ کے کواڈئنٹر جناب محمد علی  صابری صاحب ہیں۔

جناب محمد علی صاحب کو یہ بھی شرف حاصل ہوا کہ آپ نے اپنے پیر ومرشد کی  زیر صدارت صوفی ازم کو اس کی اصل روح کے ساتھ متعارف کرانے  کے لیے   تحریک فیضان اولیاء پاکستان کے پلیٹ فارم سے کراچی کے ایک  ہال میں  علماء مشائخ کانفرنس بھی منعقد کی تھی    تاکہ  ہماری موجودہ  نسل جو آج اسلام سے دورہورہی ہے وہ  صوفی بزرگوں کے ایثار اور انکی قربانیوں سے آگاہی کے بعد ان سے متاثر ہوکر ان کےنقش قدم پر چلے ۔ اس صوفی کانفرنس میں کراچی و بیرون کراچی کے صوفی دانشور حضرات نے شرکت کی۔  کانفرنس کے مقررین کا یہی موقف تھا کہ  صوفی ازم کی ترویج سے ہی ملک سے دہشت گردی، خونریزی اور فرقہ واریت کا خاتمہ ممکن ہے۔ یہ کانفرنس ہر اعتبار سے ایک کامیاب کانفرنس تھی جس کی وجہ سے پاکستان کے مشائخ ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوئے۔  

مشائخ عظام نے ہمیشہ ہر موقع پر قوم کی رہنمائی کی ہے  اور ہر دور میں  بھائی چارے، یکجہتی اور مذہبی رواداری کے فروغ میں مشائخ  کا کردار لائق تحسین رہا ہے، مذہبی ہم آہنگی کے فروغ میں مشائخ  کے کردار کو فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے۔  کیونکہ  فئ زمانہ بھی اس امر کی اشد ضرورت تھی کہ مشائخ کو ایک بار پھر متحرک کیا جائے-حضرت  سید عظمت چشتی مدظلہ العالیٰ نے  پاکستان کے  مشائخ پر مشتمل ایک  کونسل بھی قائم کی گئی ہے جو پاکستان  مشائخ کونسل کے نام سے معروف ہے  اس کونسل کے قیام کا مقصد بھی  موجودہ  خانقاہی نظام میں بہتری لانا  اور  پاکستان   میں خانقاہی نظام کو جدید تقاضوں  کے مطابق  متعارف کرانا ہے۔   اس ہی مقصد کے تحت اس کونسل میں ملک کے   معروف مشائخ  کو شامل کیا گیا ہے تاکہ مطلوبہ مقاصد احسن طریقے سے حاصل کیے جاسکیں۔ جناب محمد علی صاحب اس کونسل کے ضلع کراچی کے صدر  ہیں  اور آپ  اپنی  ٹیم کے ساتھ   کراچی کی  خانقاہوں اور درباروں  سے رابطے میں  رہتےہیں۔  دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ صوفی محمد علی صاحب کو درازی عمر عطا فرمائے اور وہ اپنے شیخ  طریقت کی قیادت میں  انسانیت کی خدمت اور خانقاہی نظام کی بحالی  اور اپنے سلسلہ عالیہ کی ترویج میں     تا دیر تک  مصروف عمل رہیں۔ آمین ۔ والسلام
محمد سعید الرحمنٰ، ایڈوکیٹ

۔   ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Comments

Popular posts from this blog

سلسلہِ صندلیہ . حضرت علی محمد المعروف میاں صندل شاہ رحمتہ اللہ علیہ

جون ایلیا ایک تعارف