شیخ طریقت حضرت الحاج صوفی عبداللہ سلطانی مدظلہ العالیٰ

 




شیخ طریقت حضرت الحاج  صوفی عبداللہ سلطانی مدظلہ العالیٰ

ذوق ِسماع کے حوالےسے منفرد شناخت کے حامل کراچی کے ایک صوفی بزرگ  ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرتب کردہ: محمد سعید الرحمنٰ، ایڈوکیٹ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صوفیانہ مزاج عطائے خداوندی ہےاور یہ ذوق جس کو صوفیوں میں  حال سے بھی  تعبیر کیاجاجاتاہے انہی سالکوں میں  منفرد نظر آتا ہےجو اس ذوق کی نشونما اسلامی تصوف کے عین  اصولوں کے عین مطابق اپنے پیر طریقت کی روحانی توجہ سے کیا  کرتے ہیں اور تصوف ان کی   ظاہری زندگی میں رچا بسا ہوا ہوتا ہے۔ دور حاضر میں ایسے صوفی بزرگ خال  خال نظر آتے ہیں  جنہیں حقیقی  صوفیانہ مزاج کا حامل کہا جاسکے اور جن کی ظاہری زندگی تصوف کی اقدار پر استوار ہو اور جن کا  باطن بھی متجلیٰ ہو۔  دورحاضر کے معتبر صوفی بزرگوں میں ایک نام حضرت الحاج صوفی  عبد اللہ سلطانی مد ظلہ العالی کا بھی ہے  جن کی شخصیت، مزاج اورطرائق سلوک میں     اسلاف کا رنگ نمایاں نظر آتا ہےاور آپ کا باطنی بھی آپ کے بزرگوں کی  روحانی توجہ کی بدولت    نورانیت سے لبریزہے۔ 

اصطلاحات ِتصوف میں" جامع سلاسل " وہ خانوادہ یا سلسلہ کہلاتا ہے جو کئی سلاسل کی فیض رساں نسبتوں کا حامل ہو۔  حضرت صوفی صاحب کا تعلق بھی ایک جامع سلاسل خانوادے سے ہے جو سلسلہ سبحانیہ سلطانیہ سے شہرت کا حامل ہےجس کے بانی حضرت ابو شیر زماں خان ترابہ رحمتہ اللہ علیہ ہیں جن کاشماررام پور کے اولیا کاملین میں ہوتا  اور یہ سلسلہ پاکستان میںآپ کے فرزند حضرت صوفی شاہ محمد سلطان میاں شیرزمانی المعروف سلطان الصوفیاء سے فروغ پایا جن سے حضرت صوفی عبد اللہ سلطانی  مدظلہ کو شرف بیعت و خلافت حاصل ہوئی تھی ۔

حضرت ابو شیر زماںؒ کو سلسلہ الذہب قادریہ منوریہ (امام سلسلہ حضرت منور علی شاہ ؒ عمر دراز) میں  مسند خلافت حضرت میاںسبحان شاہ قلندرسے حاصل ہوئی تھی جو نسباً قادری اور مشرباً چودہ خانوادوں سے فیض بخش نسبت کے حامل تھے جن  میں قادری  چشتی، صابری نظامی ، نقشبدی ، قلندری ، سہرودری، اویسی ، مداروی، کبروی رفاعی شازلی شامل ہیں مگر غلبہ حال قادری تھا۔ علاوہ ازین آپ کو  اپنے ماموں حضرت مصطفی شاہ قلندررؒ سے سلسلتہ الوہب چشتیہ میں بھی خلافت حاصل ہوئی تھی ۔ سلسلۃ الوہب چشتہ سے مراد سلسسلہ چشتیہ کی ذیلی دونوں  شاخیں صابریہ و نظامیہ کے فیص کا سنگم ہے اور اس سلسلہ کے امام حضرت عبد الکریم رحمتہ اللہ علیہ عرف ملا فقیر اخوند ؒ رام پوری کو متصور کیا جاتا ہے جو حضرت عبدالقدس گنگوہی کی اولادوں میں سے تھے۔حضرت شیرزماں خان ؒ نے سلسلہ نقش بندیہ کی دستار خلافت حضرت سعادت علی شاہ خلیفہ مجاز حضرت نعیم شاہؒ سے حا صل کرکے اس سلسلہ کی نسبت و فیض کو بھی سلسلہ سلطانیہ سبحانیہ میں شامل کیا تھا ۔

یہاںاس امر کی وصاحت بھی ضروری ہے کہ حضرت  ملا فقیر اخواند کو برصغیر پاک و ہند میں سلسلہ صابریہ کی مرکزیت حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے اس سلسلے سے وابستہ  صوفی بزرگوں میں  ذوق سماع بدرجہ اتم پایا جاتا ہےاور حضرت صوفی عبد اللہ سلطانی مدظلہ بھی اس ہی زمرےمیں شامل ہیں  کہ آپ کو اپنے اکابرین  اہل چشت کی طرح سماع سے غیر معمولی رغبت ہے  اور اس ضمن  میں مشائخ چشت کی وضع کردہ شرائطِ سماع  کو خصوصیت کے ساتھ ملحوظ  خاطر رکھتے ہیں۔ آپ ہر سال ١٣ ربیع اول کو حضور صابر پاک کی سالانہ فاتحہ کا نہایت تزک واحتشام کے ساتھ اہتمام کرتے ہیں۔

حضرت صوفی عبد اللہ سلطانی مدظلہ کا مولد وطن ہندوستان کا شہر دہلی ہےاور آپ کا سن پیدائش 1947 ہے۔ یہ وہ مبارک سرزمین جسے "بائیس خواجہ کی چوکھٹ" اور "دارالاولیاء " ہونے کا شرف حاصل ہے۔ یہ وہی بابرکت سرزمین ہے جہاں قطب الاقطاب حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ نے اپنے مرشد خواجہ خواجگان سلطان الہند‘ خواجہ غریب نواز‘ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے حکم پر سکونت فرمائی تھی۔ حضرت صوفی عبداللہ سلطانی مد ظلہ  کے والد گرامی کا نام شیخ عظمت اللہ تھا جو انتہائی منسکر المزاج، تسلیم و رضا اور صبر و شکر  کا پیکر تھے۔ قیام پاکستان کے بعد آپ اپنے خاندان کے ساتھ  پاکستان تشریف لے آئے اس وقت حضرت صوفی عبداللہ سلطانی مدظلہ  کی عمر تقریباً تین ماہ رہی ہوگی۔ پاکستان آمد کے تین ماہ بعد ہی آپ کی والدہ کا وصال ہوگیا تھا اسلیے آپ کی پرورش وتربیت آپ کے والد محترم اوردادی محترمہ نے اپنے خاندانی اقدار کے مطابق فرمائی۔

آپ کو بچپن ہی سے بزرگان دین  بلخصوص اولیا اللہ  سے محبت و عقیدت رہی تھی  اور آپ اپنا ذیادہ وقت مختلف صوفیوں کی صحبت میں گزارا کرتے تھے جس کی وجہ سے آپ کے مزاج  بھی صوفیانہ ہوگیا تھا۔  اپنے صوفیانہ مزاج کے زیر ااثر آپ نے  پہلی بار  سن  1964 میں جب آپ کی عمر   تقریباً  17 برس کی ہوگی ہندوستان کا سفر کیا اور دہلی میں مدفون بزرگانِ دین کے مزارت پر حاضری دینے کی سعادت حاصل کی۔  دہلی میں آپ  کو  حضرت مولانا عبدالسلام نیازی رحمتہ اللہ علیہ (مدفوں درگاہ نظام الدین اولیاؒ)سے ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا، اور اس ملاقات اور آپ کی نگاہ خصوصی پڑھ جانے کے بعد حضرت صوفیصا حب کی دل کی دنیا ہی بدل گئی۔ مولانا عبد السلام نیازی علیہ رحمتہ اپنے وقت کے نابغۂ روزگار عالم، محقق، مدبر، مفکر اور بزرگ گزرے ہیں ۔

مشائخ چشت میں پاک پٹن شہر کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ یہ شہر حضرت بابا فرید گنج شکر کا مسکن اور آپ کی آخری آرمگاہ ہونے کی وجہ سے صوفیائے چشت و دیگر سلاسل طریقت کا روحانی مرکزِ فیض ہے۔ بچپن سےہی حضرت صوفی عبد اللہ سلطانی مدظلہ کے دل میں مشائخ چشت سےمحبت وعقیدت رچی  بسی ہوئی تھی اور اس غلبہ محبت کے زیر اثر آپ  نے پہلی مرتبہ سن 1964 میں پاکستان میں سلسلہ چشتیہ کے امام و روحانی پیشوا حضرت بابا فرید گنج شکر ؒ کے  سالانہ عرس میں شرکت کی سعادت حاصل کی  اور پھر ہر سال حضرت بابا صاحب اور پاک پٹن میں مدفون  دیگر بزرگان دین کے اعرواس مقدسہ میں شرکت آپ کا معمول ہے۔ اس ہی سال آپ نے پہلی مرتبہ حضرت داتا گنج بخش ہجویریؒ کے عرس میں بھی شرکت کی تھی ۔

 پاک پٹن میں حضرت بابا صاحب کے عرس مقدسہ میں شرکت کے لیےہندوستان وپاکستان کے دیگر شہروںسے آنے والے زائرین کی مہمان نوازی کے لیے حضرت صوفی عبد اللہ  سلطانی مدظلہ کی کاوشوں سے آپ کے خلیفہ مجاز حضرت صوفی محمد علی چشتی  مدظلہ العالیٰ (ٹنڈوآدم) نے ٹاؤن ہال کے نزدیک  ایک خاصی بڑی ارضی پر ایک ڈیڑہ (آستانہ ) بھی قائم کیا ہےجو  ڈیڑہ  ٹندو آدم کے نام سے مشہور ہے اور حضرت صوفی عبداللہ سلطانی مدظلہ اس  آستانے کے سرپرست متصور کئے جاتے ہیں۔ اس آستانے میں منعقدہ تمام روحانی تقریبات حضرت صوفی عبداللہ سلطانی مد ظلہ کی سرپرستی میں منعقد ہوتی ہیں۔ کراچی سے آنے والے زائرین اور حضرت کے مریدین و محبین و پیر بھائیوں کی اکثریت اس ہی آستانےمیں قیام پذیر ہوتی ہے جس کے جملہ انتظام  کی نگرانی اور سہولت بہم  رسانی  کی سعادت کا شرف دارین محترم محمد علی  چشتی صاحب (ٹنڈوم آدم) کو حاصل ہوتا ہے۔ حضرت صوفی محمد علی چشتی صاحب کو شرف بیعت غزالی زماں،رازی دوراں، حضرت علامہ سید احمد سعید شاہ صاحب کاظمی رحمتہ اللہ علیہ کےدست مبارک پر حاصل ہوا تھا  ا مگر آپ کے شیخِ طریقت کے وصال فرماجانے کے بعد آپ کو    شرف خلافت حضرت  حضرت صوفی  عبد اللہ سلطانی مدظلہ العالیٰ سے حاصل ہوئی اس طرح آپ کے خلفاء میں ہوتا ہے۔  

برِّ عظیم پاک و ہِند میں ایمان واسلام کی جو بہار نظر آرہی ہے اِس میں حضرت خواجہ غریب نواز رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی سعی بے مثال کا بھی بہت بڑا حصہ ہے۔ حضرت خواجہ معین الدین حسن اجمیری کا دربار اجمیر (انڈیا) میں ہے ۔ آپ کے سالانہ عرس کی تقریبات کی مناسبت سے پاکستان کے دیگر شہروں بھی جشن خواجہ غریب نواز منایا جاتا ہے۔ حضرت صوفی عبد اللہ سلطانی مدظلہ  نے بھی  سن 1964 میں جناب  صوفی صدیق میمن ابوالعلائی  رحمتہ اللہ علیہ (مد فون پاک پٹن شریف ) جو ایک صوفی بزرگ تھے کی معاونت سے کراچی میں جشن خواجہ غریب نواز منانے کا سلسلہ شروع کیا اور اس ضمن میں پہلی مرتبہ پرانا گولیمار (وحید آباد) میں یہ جشن منعقد ہوا  اور  جناب  صوفی صدیق میمن ابوالعلائیؒ کی وفات کے بعد بھی سالانہ جشن منانے کا یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔ اس جشن غریب نواز میں آپ کے شیخ طریقت سن 1968ء سے ہر سال رونق مسند ہوتے رہیں ۔ سالانہ جشن غریب نواز میں 1988ء میں جب آپ کے شیخ طریقت حضور سلطان الصوفیاء ہر سال  کی طرح جلوہ افروز ہوئے تو آپ کافی علیل تھے مگر اس علالت کے باوجود آپ نے اس جشن میں شرکت فرمائی  اور محفل کو رونق بخشی۔ یہ محفل اولیاء مارکیٹ،کراچی کی چھت پر منعقد ہوتی تھی جس میں آپ کے شیخ طریقت کو کرسی پر بٹھا کر اوپر چھت پر لے جایا گیا تھا۔آپ کے شیخ طریقت کا وصال  14 جون سن 1989 کو ہوا۔

کراچی میں جشن خواجہ غریب نواز منانے کے سلسلے کے آغاز کے بعد حضرت صوفی عبد اللہ سلطانی کا کراچی کے معروف بزرگوںاورخانقاہوںکے سجادہ نشینوں سے خصوصی تعلق قائم ہوا ور آپ کو ان کے روحانی محافل میں شرکت کے سعادت بھی حاصل ہوتی رہی جن میں نمایاں نام حضرت بابا ذھین شاہ تاجی ،حضرت سید خالد شاہ کمل پوش، حضرت  پیر جی فاروق، حضرت امبرشاہ وارثیؒ   اور حضرت مولانا عبدالقادرنیازی ؒوغیرہ ہیں۔ حضرت امبر شاہ وراثیؒ  کی آپ پر بے انتہا نظر شفقت تھی اور آپ نے حضرت صوفی عبداللہ سلطانی مد ظلہ کو اپنا روحانی فرزند بھی بنایا ہوا تھا اور آپ پر پدرانہ شفقت فرماتے تھے۔ سلسلہ وارثیہ میں خلافت دینے کا رواج نہیں ہے مگر حضرت امبر شاہ وارثیؒ سے آپ کو سلسلہ وارثیہ کا احرام بھی عطا فرمایا یوں ایک طرح سے آپ کا شمار سلسلہ وارثیہ کے احرام پوش صوفیوں میں بھی ہوتا ہے۔ حضرت صوفی عبد اللہ سلطانی مدظلہ کو  تحریک ختم بنوت 1956 ضلع سرگودھا  پنجاب کے معرورف صوفی بزرگ رہنما قطب دوران،عصر وحید دہرحضرت خواجہ نور محمد خان چشتی نظامی سلیمانی برھانی رحمتہ اللہ علیہ کی صحبت اور روحانی فیض حاصل کرنے کی سعادت حاصل ہوئی اور آپ کا حضرت سے بہت گہرا قلبی  تعلق ہے ۔حضرت  خواجہ  نور محمد خان  چشتی  رحمتہ اللہ علیہ کا  آستانہ عالیہ اور مزار اقدس "نوری دربار کوٹ فرید روڈ سرگودھا " میں مرجع خلائق ہے۔ آپ کا ایک آستانہ  (ڈیڑہ) پاک پٹن میں بھی ہے جس کو خاصی شہرت حاصل ہے۔

حضرت صوفی صوفی عبداللہ سلطانی مدظلہ اپنی بیعت کے مطالق فرماتے ہیں کہ کراچی کے معروف صوفی بزرگوں اور دیگر خانقاہوں کے سجادہ نشیوں کی صحبت میں رہنے کے باوجود  میں نے کس بھی بزرگ کے دست حق پر بیعت حاصل نہیں کی  جو اس بات کا واضح اشارہ تھا کہ میرا روحانی حصہ  کہیں اور ہے جو مجھے وقت مقررہ پر مل جائے گا اور میںاس ہی  انتظار میں اپنے شب و روز گزارتا رہا ۔ آپ فرماتے ہیں کہ میں  نےاپنے شیخ طریقت کی پہلی مرتبہ زیارت  جناب  صوفی رفیع صابری کے یہاں جشن غریب نواز کے موقع پر کی،  آپ اس بابرکت محفل کی صدارت فرمارہے تھے اور اس پُر رونق محفل میں پاکستان بھر کے مشائخ  جلوہ  افروز تھے۔  آپ نے جامع کلاتھ مارکیٹ کے اپنے ایک دوست عبدالستار سے پوچھا  کہ بھائی ! یہ کون بزرگ ہے؟  میرے اس استفسار پر موصوف نے جواب دیا کہ  "یہ میرے پیر مرشد حضرت صوفی  شاہ محمد سلطان میاں شیرزمانی المعروف سلطان الصوفیاء ہیں اور آپ  رامپور سے تشریف لائے ہیں اور کریم آباد میں عبدالقادر سیٹھ کے بنگلے پر قیام پذیر ہیں"۔ واضح رہے کہ اس وقت تک  خانقاہ شریف (دربارِسلطانی)تعمیر نہیں ہوئی تھی۔ آپ فرماتے ہیں یہ میرے پیر طریقت کا پہلا تعارف  تھا جو مجھے اپنے دوست سے حاصل ہوا ۔ میں اس محفل  میں آپ کی پُرنور شخصیت سے اتنا متاثر ہوکہ  میرے دل نے یہی گواہی دی کہ یہ وہی بزرگ ہیں جن کے پاس  میرا حصہ  مقررہے اور مجھے بلا تاخیر خود کو آپ کی غلامی میں دے دینا چاہیے۔ متذکرہ محفل ہفتہ کی رات  کو منعقد ہوئی تھی ، اتوار کا دن گزانے کے بعد میں بروز پیر   اپنے دوست عبدالستار سلطانی کے ساتھ  حضور سلطان الصوفیا ؒ کی بارگاہ میں مٹھائی اورچھول  ہار لے کر حاضر ہوا، اور عبدالقادر سیٹھ کے بنگلے پر آپ کے دست مبارک پر بیعت ہونے کی سعادت حاصل کی  اور اپنے نام کے ساتھ     سلطانی کی اضافت لگانے کو باعث عزو شرف متصور کیا۔

شرف بیعت حاصل کرنے کے بعد  حضرت عبد اللہ سلطانی مدظلہ کا معمول رہا کہ آپ  نےروزانہ کی بنیاد پر اپنےشیخ ِ طریقت سے ملاقات اور اکستاب فیض کا سلسلہ جاری رکھا  اور شب و روز عبادت و ریاضت اور مرشد کے بتائے ہوئے وطائف میں مشغول رہے۔  آپ نے ہند وپاک کے دیگربزرگان دین  کے مزارت سےسے اکتساب فیض کے لیے اپنے شیخ طریقت کی معیت میں  مختلف مزارات کی حاضری جن میں اجمیر شریف،دہلی حضرت محبوب الہی کے عرس مبارک  اور امیر خسرو کے عرس مبارک اور رامپور شریف میں پیران شجرہ کے مزارت پر  حاضری  دی  اور اپنے شیخ ِ طریقت کے وسلیے سے ان بزرگانِ معظم کا خصوصی فیض حاصل کیا۔ اس کے علاوہ بھی آپ اپنے طور پر جب بھی رام پور جانا ہوتا ، ان بزرگان دین کے مزارت پر جانے کا خصوصی اہتمام بھی کیا کرتے تھے۔  پاکستان میں بھی آپ متعدد بار اپنے شیخ ِطریقت   کی معیت میں    حضرت بابا فرید گنج شکرؒ، حضرت داتا گنج بخش ہجویری ؒ،  حضرت  سید کبیر الدین شاہ دولہ بغدادیؒ، حضرت لعل شہباز قلندرؒ اور حضرت سید عبد اللہ شاہ اصحابیؒ و دیگر بزرگان ِدین کے مزارت پر حاضری کی سعادت حاصل کی۔  

حضرت صوفی  عبداللہ سلطانی  مدظلہ کو  یہ شرف بھی حاصل ہوا کہ آپ نے اپنا پہلا  حج کی سعادت بعمر 29 سال سن  1976 میں اپنے شیخ طریقت کے ساتھ حاصل کی ، آپ کے شیخ طریقت کا  بھی پاکستان آنے کا بعد یہ پہلا حج تھا۔ دوران حج آپ کو اپنے شیخ طریقت کی  ہمہ وقت قرابت حاصل ہوئی اور آپ کے شیخ ِطریقت نے  آپ کے روحانی درجات کی بلندی کے لیے بیت الحرم اور مدینہ منورہ میں  متعدد بار  دعائیں کیں اور دوران سفرِ حج  اپنی خصوصی توجہ فرماتے رہے۔  آپ کے شیخِ طریقت کے ساتھ  حج کی ادائیگی کے لیے جانے سے قبل آپ کو اپنی خلافت سے سرفراز فرمایا ۔ علاوہ ازین آپ نے بعدہُ اس سعادت کے  چھ حج اور رمضان کریم میں چھ مرتبہ عمرہ کی سعادت  بھی حاصل کی  ہے۔

حضرت صوفی  عبد اللہ سلطانی مدظلہ   کا ذریعہ معاش تجارت ہے اور جامع کلاتھ مارکیٹ میں آپ کی   کافی منافع بخش دوکان ہےجس سے معقول یافت ہے اور اس آمدنی کا ایک بڑا حصہ  آپ روحانی محافل کے انعقاد  و دیگر دینی مشاغل کے مصارف میں لاتے ہیں۔دن میں آپ اپنے کاروبار میں مشغول رہتے ہیں اور شب  اپنے صوفیانہ مشاغل و عبادات میں بسر ہوتی ہے۔ آپ سن  1978 میں رشتہ ازواج میں منسلک ہوئے اس نکاح کی تقریب میں آپ کے شیخ طریقت نے بھی شرکت فرمائی اور اپنی خصوصی دعاوں سے زوجین  کو نوزا۔ اپنے شیخ طریقت  کی حیات میں ہی رب کریم نے آپ کو  تین بیٹوں سے نواز ،دوبیٹے اور دو  دصاحبزادیاں آپ کے شیخ طریقت کے وصال کے بعد  تولد ہوئیں یعنی آپ کے کل  پانچ بیٹےاور دو صاحبزدایاں ہیں جو الحمدللہ  بقید حیات  ہیں۔

سماع کا ذوق حضرت صوفی عبد اللہ سلطانی مد ظلہ کی طبیعت میں لڑکپن سے ہی تھا مگر اس ذوق کو آپ کے شیخ طریقت کی  خصوصی توجہ سے مزید جلا  حاصل ہوئی۔ آپ کے شیخ طریقت کا معمول تھا جب بھی کوئی  آپ کو محفل سماع کا دعوت نامے دینا آتا تو آپ اس سے ضرور یہ سوال کیا کرتے تھے کہ کیا آپ نے صوفی عبداللہ سلطانی کو بھی دعوت دی ہے یا نہیں؟۔اور اگر جواب نفی میں ہوتا تھا تو برملال آپ کے شیخِ طریقت یہ وضاحت فرمایا کرتے تھے کہ جب سماع سننےوالے کو ہی نہں بلایا تو سماع کیوں کروارہے ہو۔  گویا یہ وضاحت آپ کی جانب سے اس بات کی سند تھی کہ  حضرت صوفی عبد اللہ سلطانی مد ظلہ سماع سننے کے اہل ہیں اور سماع کے رموز واوفاف سے آشنا بھی ہیں۔ آپ کے شیخ ِطریقت آپ کےذوق سماع کی آبیاری میں اس قدر دلچسپی لیتے تھے کہ عموماً جب رات کے اوقات میں اپنے شیخ، طریقت کی صحبت میں ہوتے تو خاص طور پر  صوفی عبد اللہ سلطانی سے دریافت کرکےاگر کہیں سماع کی محفل ہوتی تو وہاں اپنی  رغبت کے ساتھ روانہ کیا کرتے تھے۔

 اس ہی تربیت  کا اثر ہے کہ حضرت صوفی عبد اللہ سلطانی مدظلہ  کا ذوق سماع کا یہ عالم ہےکہ  کراچی کے بیشتر صوفیوں کے حلقے اور خانقاہیں آپ کو محفلِ سماع میں خصوصیت کے ساتھ مدعو کرتی ہیں اور حضرت صوفی صاحب کی ہم نشینی میں  انکی محافل کی رونقیں دوبالا ہوجاتی ہیں۔کراچی کے تمام معروف قوال منشی رضی الدین قوال ، بہا الدین قوال، منظور نیازی قوال  اور غلام فرید صابری قوال تو آپ کے گرویدہ رہے تھے اور آپ کی بہت تکریم کیا کرتے تھے اور    دیگر جو کراچی کی مشہور قوال پارٹیں ہیں، آپ کےذوق سماع  کی معترف ہیں اور بہت رغبت سے آپ کو کلام سننا کر داد تحسین حاصل کرنا  اپنے لیے باعث اعزا سمجھتی ہیں۔ آپ کی عادت ہے کہ آپ قوالی سننے کے لیے ہمیشہ قوال پارٹی کے قریب ہی اپنی نشست وبرخاست رکھتے ہیں اور  اپنی خواہش و ترتیب سے  خواہ وہ فارسی  ہو یا اردو  صوفیانہ کلام  سنتے ہیں اور آپ کو صاحبِ مسند نشین محفل کی جانب سے بھی  اس امر کا کلی اختیار حاصل ہوتا ہے۔  حضرت صوفی عبد اللہ سلطانی مد ظلہ  کی   زیر سرپرستی بھی آگر کوئی  محفل سماع منعقد  ہوتی  ہو تو آپ مسند  پر جلوہ افروز ہونے کی بجائے اپنے ذوق سماع کی  مکمل  سیرابی کے لیے یہی انداز اپناتے ہیں۔

الحمد للہ اپنے شیخ طریقت کےوصال کے بعد حضرت صوفی عبد اللہ سلطانی  کراچی کےصوفیوں  میں اپنے شیخ طریقت کی پہچان بنے ہوئے ہیں اور یہ سلسلہ عالیہ اس ہی آب وتاب کے ساتھ   آپکی سرپرستی  میں روحانیت کی ضیاع پاشی کررہا ہے۔ آپ کے مریدین و محبین کی ایک کثیر تعداد ہے جو آپ کے دامن سے وابستہ ہے اور  فیضِ روحانی حاصل کر رہی ہے۔ اس سلسلے کی ترویج کے لیے آپ نے بھی اپنے مریدین کو اپنی خلافت  عطا کرکے  بیعت پیرانی لینے کی اجازت مرحمت فرمائی ہوئی ہے اور صوفی محمد عثمان سلطانی کو  اپنا جانشین مقرر کیا ہے جو زیادہ تر وقت اپنے شیخ کی صحبت میں   ہی گزارتے ہیں۔
 
 بنیادی طور پر صوفی محمدعثمان سلطانی نے سن 2005ء میں بعمر تیرہ سال  حضرت الحاج صوفی محمد اقبال سلطانی ؒ جو کہ حضرت صوفی  شاہ محمد سلطان میاں شیرزمانی  کے خلیفہ مجاز تھے کے دست حق پر داخل سلسلہ ہوئے تھے اور آپ کے شیخ طریقت کا وصال سن 2010 ء میں ہو گیا تھا، بعدا ز وصال ِشیخ فوراً  ہی  آپ حضرت صوفی عبد اللہ سلطانی مد ظلہ کے   حلقے ارادت میں شامل ہوگے اور ان کی صحبت سے بے انتہا مستفید ہورہےہیں  ۔ حضرت صوفی عبد اللہ سلطانی مد ظلہ نے بھی آپ کی روحانی  تربیت کی طرف   خاص توجہ فرمائی   ہوئی ہےاور  سن 2015 میں حضرت  الحاج صوفی محمد اقبال سلطانی ؒ کے عرس کے موقع پر  آپ کو نعمت باطنی سے سرفراز فرماتے ہوئے اپنی خلافت کبریٰ و عظمیٰ  و جانشینی سے سرفراز فرمایا تھا ۔ صوفی   عثمان سلطانی کا ذوق سماع بھی قابل رشک ہے۔ دعا گو ہیں کہ باری تعالیٰ حضرت صوفی صعبداللہ سلطانی مد طلہ کو درازی عمر عطا فرمائے اور اس سلسلے عالیہ کا فیض تا ابد جاری و ساری رہے، آمین ۔

والسلام۔ محمد سعید الرحمنٰ، ایڈوکیٹ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

 

 

Comments

Popular posts from this blog

سلسلہِ صندلیہ . حضرت علی محمد المعروف میاں صندل شاہ رحمتہ اللہ علیہ

جون ایلیا ایک تعارف