حضرت شیخ محمد ابراہیم المعروف حیدر شاہ وارثی رحمتہ اللہ علیہ
حضرت شیخ محمد ابراہیم المعروف حیدر شاہ وارثی رحمتہ اللہ علیہ
سلسلہ وارثیہ کے ایک
قلندر منش فنا فی الشیخ صوفی بزرگ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرتبہ : محمد سعید الرحمنٰ، ایڈوکیٹ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یوں تو کہنے کو لانڈھی کورنگی کا شمار کراچی کے مصافاتی اور
پسماندہ علاقؤں میں ہوتا ہے مگر بغائر نگاہ سے دیکھا جائے تو یہ علاقے
شہری سہولتوں کے اعتبار سے توپس
ماندہ علاقہ ضرور کہلاتا ہے مگر علمی اور
روحانی اعتبار سے کراچی کے دیگر پوش علاقوں سے ہرگز پیچھے نہیں بلکہ اپنے دامن میں بیش بہا
گوہر نایاب کو سمیٹے ہوئے ہے۔ ان مصافاتی بستیوں میں ہر مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے خواہ
وہ ادبی ہو ، علمی ہو، سیاسی ہو یا روحانی ایک سے بڑھ کر ایک صاحب مقام
اصحاب بود وباش اختیار کیے ہوئے رہےہیں جن کی
شہرت صرف کراچی ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان
بھر میں بھی ہے جن کی ایک طویل فہرست ہے۔ان
ہی نامور اصحاب میں روحانی حوالے سے
بھی کئی جید صاحب ِ حال صوفی بزرگ گزرے ہیں جن کی ذات بابرکت ممبع ِ روحانیت رہی ہے جن میں
ایک نام حضرت شیخ محمد ابراہیم المعروف حیدر شاہ وارثی رحمتہ اللہ علیہ کا بھی ہے جو بلا مبالغہ ایک فنا فی الشیخ سلسلہ وارثیہ
کےصوفی بزرگ ہونے کے علاوہ دیگر سلاسل کے صوفیا ئے لانڈھی کورنگی میں ذوق ِسماع کے حوالے سے منفرد مقام کے حامل رہے تھے۔
برصغیر پاک و
ہند میں مروج سلاسل میں ایک سلسلہ وارثیہ
بھی کافی مقبول ہے۔ اس سلسلے کے
بانی حضرت وارث شاہ رحمتہ اللہ علیہ ہیں ۔
بنیادی طور پر یہ سلسلہ چشتیہ اور
قادریہ کا سنگم ہے۔ حضرت وراث شاہ رحمتہ اللہ علیہ
کو اپنے شیخ طریقت حضرت حاجی سید خادم علی شاہؒ سے دونوں سلاسل کی خلافت حاصل
ہوئی تھی اس لیے سلسلہ وراثیہ میں سماع بھی مروج ہے۔ مگر اس سلسلے عالیہ میں سلسلہ چشتہ اور سلسلے قادریہ کی طرح
حضرت وارث شاہ ؒ کے بعد خلافت یا جانشینی
کا سلسلہ جاری نہیں ہے اور آپ نے
اس سلسلہ کو عشق کا نام دیا ہے۔ حضرت وارث علی شاہؒ کا فرمان ہے کہ ہمارا مشرب عشق
ہے اور جو دعوی جانشینی کا کرے وہ باطل ہے ہمارے یہاں کوئی بھی ہو ، چمار ہو یا
خاکروب جو ہم سے محبت کرے وہ ہمارا ہے ۔ ہمارے تمام فقراء وارثی ہیں جنہوں نے اپنے عشق
کی سند میں لباس ِفقر پہن کر اور تمام دنیاوی مشاغل سے بے نیاز ہو کر صرف اپنے
وارث سے ہی عشق کیا ہے۔ البتہ آپ نے اپنے احرام پوش درویشوں کو یہ اجازت بھی مرحمت
فرمائی ہے کہ وہ آپ کے نام پر طالب ِ
حق کومرید کرسکتے ہیں مگر یہ سب وارثی ہی
کہلائیں گے اور آپ کے ہی مرید ہوں گے اور ہر داخلِ سلسلہ وراثی اپنے لیے یہ متصور کریں گے کہ
تمام فیوض وبرکات کا سرچشمہ صرف حضرت وارث
شاہ ؒ کی ذات بابرکت ہے اور ہرمشکل وقت
میں وہ اپنے ہر مرید کے حامی و مدگار ہیں۔
حضرت وراث شاہ
فرماتے تھےجن سلاسل میں خلافت کا
نظام جاری ہے وہ ان سلاسل کا اپنا انتظامی طریقہ کار ہے مگر ہمارے مشرب عشق ہے جس میں انتظام
حرام ہے۔ انتظام کرنا دراصل ظاہری کوششوں میں شمار ہوتا ہے اور یہ عمل فکر
و تفکر کہلاتا ہے جو آداب عشق کے
برخلاف ہے۔ سلسلہ وراثیہ
کی تعلیمات کے بموجب سلسلہ وارثیہ کے دیگر معروف صوفی بزرگوں کی طرح حضرت حیدر
شاہ ؒ کو بھی سلسلہ وارثیہ کی
خلافت کا حامل تو نہیں کہا جاسکتا مگر آپ
کا شمار سلسلہ وراثیہ کے احرام پوش درویشوں میں ہوتا ہے ۔
حضرت حیدر شاہ
وارثی کا مولد وطن جبل پور ہے جو ہندوستان کی ریاست مدھیا پردیش کا ایک شہر ہے۔ آپ کے والد گرامی شیخ عبدالکریم مذہبی رجحان
کی حامل شخصیت تھے اور انتہائی پابند صوم صلوۃ تھے اور یہی حال آپ
کی والدہ محترمہ کا تھا ۔ حضرت حیدر شاہ
وارثی ؒ کی پرورش مذہبی اقدار کے ماحول میں ہوئی تھی۔ آپ کے سن ولادت
کے بارےمیں ابہام ضرور ہے مگر یہ
بات یقینی ہے کہ آپ نے اپنے دور
بچپن میں حضرت بابا تاج الدین ناگپوری
رحمتہ اللہ (تاریخ وصال 17 اگست
سن 1925ء ) کی زیات کی تھی اور حضرت بابا تاج الدین ناگپوری ؒ کی شبیہ
مبارک کا مبہم ساخاکہ آپ کو ذہن نشین رہاتھا۔
خاندانی
ذرائع سے حاصل شدہ معلومات کے
مطابق آپ
نے مروجہ علم ظاہری اپنے آبائی شہر
میں ہی حاصل
کی تھی ۔آپ بچپن سے ہی غیر معمولی
طبیعت اور قوت حافظہ اور صوفیانہ مزاج کے حامل تھے، کمی گوئی اور دنیاوی گفتگو سے اجتناب کرنا آپ کی طبیعت کا خاصہ رہا تھا مگر
امور دنیا کی انجام دہی میں مستعد و چاق وچوبند رہا کرتےتھےاور بہت کم عمری میں اپنے والد کے کاروباری
امور میں بھر پور معاونت اور ذمہ داریاں احسن طرائق سے انجام دیتے رہے تھے۔ آپ کا
ذریعہ معاش ہر اداوار میں تجارت رہا اور
معاشی خوشحالی کے باوجود آپ نے
اپنی پوری زندگی متوکلانہ و درویشانہ بسر کی اور آشائش و نام ونمود سے دور
رہے۔
کیونکہ بچپن سے ہی
آپ کا میلان تصوف کی طرف مائل رہا تھا اور
اپنی حد درجے کاروبارئی مصروفیت کے باوجود آپ
کے اس مذہبی رجحان میں کوئی خلل واقع نہیں ہو پایا بلکہ ذوق و شوق استغراق
و انہماک ہمیشہ روحانی ترقی کی طرف ہی گامزن رہا۔ اوائل عمر سے ہی ذکر و ازکار و وظائف کی پابندی سے انجام
دہی آپ کا معمول تھا جس کی وجہ سے طبعیت میں جلالی
کیفیت موجزن رہی۔ پزرگان
دین کی
صحبت میں وقت گزارنا اور اولیاء اللہ کے مزارت پر حاضری دینا آپ کا محبوب مشاغل رہا تھاتاکہ روحانی بالیدگی حاصل ہو سکے۔
آپ نے اپنے قلب کو متجلیٰ کرنے اور حصول روحانیِ فیوض وبرکات کے لیے متعدد
بار روضہ خواجہ معین الدین چشتی رحمتہ اللہ علیہ اور حضرت نظام الدین اولیاء رحمتہ اللہ علیہ کی با ادب
حاضری کی سعادت حاصل کی۔ علاوہ ازیں آپ نے سی
پی ہندوستان کے مختلف شہر بلخصوس
دھوئے، ساگر، بھوپال میں مد فون بزرگان
دین کے مزارت پر بھی حاضری دینے کی سعادت بھی حاصل کی اور ان شہروں میں مدفون بزرگانِ دین کی باطنی توجہ سے آپ کوبے حد قلبی طمانیت حاصل
ہوئی اور یہی آپ کا مقصود تھا مگر ابھی تک
آپ کسی بھی روحانی سلسلہ سے وابستہ نہیں
ہوئے تھے اور نہ ہی کسی شیخ طریقت کے دست پر باقاعدہ بیعت کی سعادت حاصل کی تھی ۔ الغرض ابتدائی طور پر آپ نے بزرگان
دین سے فیض باطنی اویسی طرز پر ہی حاصل
کیا۔
قیام پاکستان کے بعد آپ نے جبل پور ، ہندوستان سے پاکستان ، کراچی عالم جوانی ہی میں ہجرت کی اور کراچی کے ریلوے کیمپ میں اپنی اہلیہ کے ساتھ مقیم ہوگے اس وقت تک آپ لاولد
تھے اور پاکستان ہجرت کے بعد ہی اللہ تعالیٰ نے آپ کو
اولاد کی نعمت سے سرفراز فرمایا اورپہلی اولاد کے طور پر صاحبزادی تولد ہوئیں اور
پھر ایک فرزند کی
ولادت ہوئی۔ آپ کثیر اولاد تھے اور آپ کے کل 9
صاحبزداگان و صاحزادیاں ہیں۔ پاکستان آنے کے بعد آپ کو نئے سرے سے
معاشی طور پر مستحکم ہونے کے لیے کاروبار ی سرگرمیاں شروع کرنی پڑئیں اس
غرض سے آپ نے گھوڑی گارڈن میں کاروبار
کا آغاز کیا۔ سن 1958ء میں جب
پاکستان سے ہجرت کرنے والے مہاجرین کی آباد کاری کی غرض سے لانڈھی کورنگی میں
ہندوستان سے آئے ہوئے مہاجرین کو
گھر فراہم کئے گئے تو آپ بھی ریلوے
کیمپ سے لانڈھی مستقل طور پر منتقل ہوگے اور
اپنا کاروبار بھی اس مصافاتی شہریہیں منتقل کرلیا اس طرح سے آپ
لانڈھی کے ابتدئی دور کےمکینوں میں شمار ہوتے
ہیں۔ یہ آپ کا سخت جدوجہد کا دور ہے جس
میں آپ کو کافی مشکلات اور کھٹن مراحل سے
گزرنا پڑا۔ اس سخت جدو جہد کے دور میں بھی
آپ اپنی روحانی و قلبی معاملات سے غافل نہیں رہے اور ہندوستان کی طرح پاکستان میں
بھی متعدد بزرگوں کی زیارت کی اور ان کی صحبت میں رہنے کی سعادت حاصل کی اور
ان کی روحانی محافل میں شرکت کرنا آپ کا
معمول رہا۔
آپ کی روحانی
زندگی میں اہم تغیر اس وقت رونما ہوا جب
آپ سن 1970 میں اپنے ایک قریبی دوست معصوم
شاہ وارثی جن کا تعلق تعلق وارثیہ سلسلہ تھا کے ساتھ حسب معمول
زیارت و ملاقات کے لیے حضرت عنبر
شاہ وارثی کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ کا حضرت عبنر شاہ وارثی کی
خدمت میں حاضر ی کا مقصد آپ سے بیعت ہونا یا سلسلہ وارثیہ میں داخل ہونا
نہیں تھا۔ مگر قدرت نے آپ کا روحانی حصہ اس سلسلے
عالیہ میں مقرر کیا ہوا تھا۔ جب خدا اپنے گنہگار بندوں پر رحمت کی نگاہ ڈالتا ہے
اور انہیں صراط مستقیم پر گامزن ہونے کی
توفیق عطا فرماتا ہے تو اسباب بھی مہیا فرمات دیتا ہے۔ حقیقی صوفیا کے نزدیک تصوف مال نہیں ایک حال ہے جو بندے پر وارد ہو تا ہے
جس سے اِس کے ظاہر و باطن کا تضاد دور ہو جاتا ہے اور قلب ِ و دماغ تزکیہ و طمانیت
کا مرکز بن جاتا ہے ۔ حضرت عنبر شاہ ؒ کی پہلی نظر کیمیاء پڑھنے پر ہی آپ کی
روحانی کیفیت یکسر مختلف ہوگی اور آپ کو یوں محسوس ہوا کہ آپ کی ذات والہ ہی آپ کی روحانی رہبر ہے گو کہ اس قبل بھی آپ
کثیر بزرگوں سے مل چکے تھے مگر کبھی قلب
پر جذب و کیف اس درجے کا طاری نہیں
ہوا تھا۔ آپ حضرت عنبر شاہ وارثی کی محبت
میں اس قدر مغلوب الحال ہوئے کہ آپ نے کچھ ہی دنوں کے بعد عالم سرشاری میں حضرت عنبر
شاہ کے قدموں میں سر رکھ دیا اور بیعت
ہونے کی سعادت حاصل کی۔ خوش
قسمت ہیں وہ لوگ جن کے دلوں میں مرشد کو پانے کی امنگ، آرزو اور تڑپ پیدا ہوتی ہے
اور انہیں کامل مرشد مل جاتے ہیں۔ بیعت ہونے کے بعد آپ کی پوری زندگی
کے شب و روز اپنے شیخ طریقت کی صحبت
و خدمت میں بسر ہونے لگے اور کچھ ہی عرصے کے بعد ہی آپ نے اپنی کاروباری مصروفیات سے بھی قطع تعلق اخیتار کرلیا اور دیگر احرام
پوش درویشوں کی طرح اپنے
شیخ طریقت کی محبت مین شرشار ہوکر دویشانہ اندگی بسر کرنے لگے ۔
حضرت عنبر
شاہ رحمتہ اللہ علیہ سلسلہ وارثیہ کے ایک احرام پوش بزرگ
تھے اور نسبی اعتبار سے آپ کا تعلق سید السادت گھرانے سے تھا۔ آپ
سلسلہ وارثیہ کے معروف بزرگ ہونے کے علاوہ ایک جید عالم دین بھی تھے
بچپن میں ہی آپ کو حضرت وارث پاکؒ سے ایک قلبی لگاو پیدا ہوگیا تھا، آپ
نے وارثیہ سلسلہ کا فیض حاصل کرنے کے لیے 13 سال کی عمر میں ہی حضرت حیرت شاہ
وارثیؒ کی صحبت اختیار کرلی تھی اور آپ ہی کی وساطت سے
سلسلہ وارثیہ میں شرف بیعت حاصل کیا تھا ۔ حضرت عنبر شاہ وارثیؒ کی احرام پوشی بدست مبارک حضرت خواجہ
مقصود شاہ وارثیؒ خانقاہ حضرت حافظ عبد الکریم المعروف
حافظ پیاری ؒ ،دیوہ شریف، ہندوستان میں ہوئی تھی ۔
حضرت حیدر شاہ
وارثیؒ کا ایک عرصے دراز تک اپنے شیخ
طریقت کی صحبت میں ہمہ وقت رہے اور ان کی
محبت میں سرشار ہوکر ان کا تصور قائم
کرنا آپ کا مشغلا رہا جسے تصور شیخ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور یہ
سلوک کی ایک منزل ہے۔ جس کا اثر یہ ہوا کہ
آپ کا وجود بھی اپنے شیخ کی ہوبہو
تصویر بنتا چلا گیا، جوآپ کےایک
سچے عاشق ہونے اور آپ کے شیخ طریقت کے کامل و اکمل ہونے کی دلالت کرتا ہے۔ حضرت عنبر شاہ
وارثی نے بھی آپ کو اپنی بے پناہ محبوتوں سے خوب نوازا ہوا تھا
اور ہمیشہ اپنے قریب رکھا اور آپ پر اپنی خصوصی روحانی توجہ فرمایا کرتے
تھے۔ تعلیمات تصوف کے مطابق جب تصور شیخ اتنا قوی ہوجائے اور شیخ کی صفات غالب ہوجائیں کہ سالک کو
اپنا خیال تک باقی نہ رہے تو یہی مقام فنا فی الشیخ ہے۔ جو سالک فنا فی
الشیخ ہوجاتے ہیں ان کی جسمانی صورت بھی
شیخ سے ملنے لگتی ہے اور دوسرے لوگ
بھی اس سالک میں شیخ کی جھلک محسوس کرتے
ہیں ۔ مقامِ فنا فی الشیخ سے گزرنے کے بعد ہی فنا فی الرسول کی منزل شروع ہوتی ہے
اور فنا فی الرسول کا مقام ان ہی بررگوں
کو حاصل ہوتا ہے جو فنا فی الشیخ کی منزل
سے گزر جاتے ہیں اور
ان کا ظاہر و باطن اپنے شیخ کے پیکر میں
ڈھل جاتا ہے۔
سلسلہ وارثیہ
بنیادی طور پر سلسلہ چشتیہ اور
قادریہ کی ایک شاخ ہے۔ سلسلہ چشتیہ
میں برائے معرفت سماع روح کی غذا ہے ۔ یہ ایک ایسا ذوق ہے جو بہت ہی لطیف اور جمالیات سے لبریز ہے۔ سلسلہ چشتیہ کی طرح سلسلہ
وارثیہ میں بھی سماع کو دل و دماغ کی
روحانی تسکین کے لیے جائز اور قرب الہیٰ
کے لیے مستحب سمجھا جاتا ہے۔ حضرت
حیدر شاہ وارثی ؒ بھی اپنے شیخ طریقت کی
طرح سماع کے دلداہ تھے۔ آپ نے اپنی حیات میں ہزاروں محفل سماع، نعت خوانی و میلاد کی محافل میں
شرکت کی اور خود بھی ان محافل کا انعقاد
کیا۔ اپنے حسن اخلاق
سے آپ تمام سلاسل کے صوفیوں میں
اور عوام الناس میں یکساں مقبول رہے۔ دیگر
سلاسل کے مشائخ بھی آپ کے اس ذوق سماع سے واقف تھے اور آپ کو بالتزام مدعو کرکے اپنی منعقدہ روحانی تقریبات میں آپ کی شرکت
کے متمنی رہا کرتے تھے۔ ایسے تمام محافل جس میں آپ کی شرکت ہوا کرتی تھی آپ کی ہم نشینی کی وجہ سے وہ محافل پرکیف ہوجایا کرتی تھیں۔ آپ کی عمر کا ایک بڑا حصہ عبادت الہیٰ کے ساتھ ساتھ ذوق سماع میں
بھی گزرا تھاجس میں آپ
شدید غلو رکھتے تھے۔ آپ نے اپنے دور کے ہر قسم کے ماہر قوال سے محتلف صوتی لحن
میں فارسی ، ہندی اور اردود کے کلام کا ذوق اُٹھایا اور انہیں اپنے داد تحسین سے بھی نواز تھا کیونکہ
آپ سماع اور اس کی موسیقی اور آداب سماع میں حد درجہ کمال
رکھتے تھے اس لیےسماع کے وقت آپ کا
جذب و بے خودی کی کیفیت قابل دیدنی ہوا کرتا تھا۔
موت ایک اٹل
حقیقت ہے اس سے کسی کو مفر نہیں ہے۔ یہ وہ قانون الٰہی ہے جس میں کسی کا کوئی
اختلاف نہیں ہے۔ روئے زمین پر بسنے والی تمام مخلوقات چاہے انبیاء ہوں یا اولیاء،
شاہ ہوں یا گدا، فقیر ہوں یا مالدار، عالم ہو یا جاہل، پاگل ہوں یا عاقل، مرد ہوں
یا عورت، چھوٹے ہوں یا بڑے ہر ایک کو موت کا جام پینا ہے۔ بیماری دراصل موت
کا ایک بہانہ ہی ہوتی ہے۔ عموماً موت کے کچھ ظاہری اسباب ہوتے ہیں،مثلا کسی کا مہلک بیماری کی وجہ سے انتقال
ہوجاتاہےیا دل کا دورہ پڑنےسے انتقال کرجانا
وغیرہ ۔ آپ بھی اپنے وصال سے قبل چھ ماہ تک مسلسل گردوں
کی بیماری میں مبتلا رہے اور مختلف اسپتالوں میں زیر علاج رہے مگر ہر لمحہ
شکر و صبر آپ کا شعار رہا ۔ خالق کائنات اللہ رب العزت نے ہر جاندار کے لئے
موت کا وقت اور جگہ متعین کردی ہے، بالاخر
آپ نے بھی
حکم ِربی کے تحت 6محرم الحرام 1413ھ بمطابق 8
جولائی 1992ء بروز منگل کو داعی اجل کو لبیک کہا اور اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ آپ کی تدفین احاطہ
خانقاہ جامعہ وارثیہ جونا دھوبی
گھاٹ میوہ شاہ قبرستان میں عمل میں لائی گئ اس
خانقاہ جامعہ وارثیہ میں آپ کے شیخ طریقت حضرت عنبر شاہ وارثی ؒ کی لحد مبارک بھی مرجع خلائق ہے۔ جناب یامین وراثی صاحب معروف نعت گو شاعر حضرت حیدر شاہ وارثی ؒ کے
فرزند ہیں اور
آپ نے ہی سن 1991 میں پہلی مرتبہ حضرت عنبر شاہ وارثی ؒ کا کلام کلیاتِ عنبرؔ شاہ وارثی "العشق
ہواللہ" کے نام سے آپ کی حیات میں ہی مولانا محمد اکبر وارثی اکادمی،
اللہ والی مارکیٹ، لانڈھی،کراچی کے زیر
اہتمام شائع کیا تھا۔
والسلام ۔ محمد سعید الرحمنٰ، ایڈوکیٹ۔
Comments
Post a Comment