حضرت الحاج سید قاسم علی شاہ بخاری رحمتہ اللہ علیہ (ٹھٹھ مکلی)

 




حضرت الحاج سید قاسم علی شاہ بخاری رحمتہ اللہ علیہ
مکلی( ٹھٹھ )  میں  مدفون  سلسلہ قادریہ نقشبندیہ کے ایک صوفی بزرگ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مرتب کردہ: محمد سعید الرحمنٰ، ایڈوکیٹ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بزرگان دین کا معمول  رہا ہے کہ  جب بھی وہ  کسی شہر میں جاتے ہیں تو وہاں کے مزارات پر حاضری دیا کرتے ہیں ۔  علماء ومشائخ  نے ایسی حاضری کی نیت کو سفر کے آداب میں شمار کیا ہے  کہ جس شہر میں  بھی جائیں تو نیک  نیتوں کے ساتھ ممکنہ صورت میں وہاں کے  بزرگان ِ دین  کے مزارات پر حاضری دیں۔ کیونکہ اولیا اللہ کے مزارات رشد و ہدایت کا ذریعہ ہیں۔ ان کی روشن اور روحانی تعلیمات میں پیار و محبت الفت کا درس پوشیدہ ہوتا ہے اور ان کی روحانی توجہ دل کی دنیا بدل دیتی ہے۔صدیاں گزر جانے کے باوجود ان بزرگان دین کا  روحانی فیض آج بھی جاری و ساری ہے۔ اولیا کرام کی جلائی ہوئی شمع سے آج بھی دنیا فیض یاب ہورہی ہے۔زیارتِ قبور ایک جائز ومستحب بلکہ مسنون عمل ہے۔ نبی کریم ﷺبھی قبروں کی زیارت کے لئے تشریف لے جاتے اور اہل قبور کے لیےدعا کرتے اور فرماتے تم قبروں کی زیارت کیاکرو، وہ دنیا سے بے رغبتی کا سبب بنتی ہیں اور آخرت کی یاد دلاتی ہیں۔ اہل سنت کے نزدیک انبیاء کرام اور صلحاء امت کو وسیلہ بنانا قرآن مجید اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے۔ چونکہ وسیلہ شرک نہیں ہے بلکہ کسی نیک ہستی کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے سوال کرنا ہےلہذا نیک لوگوں کو بعد از وصال وسیلہ بنانا بھی جائز ہے۔ اولیائے اکرام اپنی قبروںمیں حیاتِ اَبدی کے ساتھ زندہ ہیں ، اِن کے عِلم واِدراک وسَمع وبَصر پہلے کی بہ نسبت بہت زیادہ قوی ہوتے ہیں۔ ان کے مزارات پر حاضری دینا مسلمان کے لیے سعادت وباعثِ برکت ہے،انہیں ایصالِ ثواب کرنا نہایت مُوجبِ برکات و امرِ مستحب ہے۔

اہل اللہ کے مزارات  سے روحانی  وابستگی رکھنے والے زائرین کی ایک بڑی تعداد اپنے قلوب  کو روحانیت سے معمور کرنے کے لیے   صوبہ سندہ کے   شہر ٹھٹھہ کے قریب ایک معروف قبرستان  "مکلی قبرستان"   میں مدفون  بزرگان دین کے مزارت پر حاضری دینے کے لیے جاتی ہے۔ اس قبرستان کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ ایشیا کا سب سے بڑا قبرستان  ہے جوتقریباً آٹھ کلومیٹر کے رقبے پر محیط ہے اور دنیا کا گیارہواں بڑا قبرستان ہے جس میں لاکھوں قبور ہیں ۔ اس تاریخی قبرستان  میں  کئی  بزرگان دین ، اولیا اللہ ، بادشاہ، ملکہ، علما، فضلا، فقہا، محدثین، شعرا، مغل نواب، فلسفی اور جرنیل اور عام آدی  سپرد خاک ہیں ۔  اس قدیمی قبرستان  میں چودھویں صدی سے اٹھارویں صدی تک کے مقبرے اور قبریں موجود ہیں۔قبروں ومزارات کی منفرد طرز تعمیر کی وجہ سے اس قبرستان کا شمار دنیا کے عظیم تاریخی ورثے میں کیا جاتا ہے اس قبرستان کو یونیسکو نے1981 میں عالمی ورثے کا درجہ بھی  دیا ہے۔

مکلی قبرستان میں      ایسے بزرگ بھی مدفون ہیں جن کا فیض جاری وساری ہے اور جن کے مزارت  مرجع خلائق بنے ہوے ہیں جن میں معروف نام    حضرت سید عبد اللہ شاہ اصحابی  اور قادریہ صلسلہ کے صوفی بزرگ  حضرت شاہ فضیل قادری  رحمتہ اللہ علیہ کا بھی ہے۔  حضرت عبدالللہ شاہ اصحابی ؒ  بغداد سے ٹھٹھہ میں تشریف لائے تھے۔ آپ حضرت  شیخ عبد القادر جیلانیؒ  کی اولاد میں سے ہیں۔ حضرت عبد اللہ شاہ اصحابیؒ کا وصال ایک روایت کے مطابق 1060ھ مطابق 1650ء میں ٹھٹھہ میں ہوا تھا اور آپ  کی تدفین مکلی کے قبرستان میں عمل میں لائی گئ۔ اس ہی قبرستان میں   کراچی کے دور حاضر کے ایک اہل اللہ قطب  دوران  حضرت  الحاج سیدقاسم علی   شاہ بخاری  رحمتہ اللہ قادری نقشبدی مجددی  کا مزار اقدس بھی ہے جو تشنگان کے لیے  اکتسابِ فیوضِ روحانی کا مرکز  ہے۔

حضرت سید قاسم علی شاہ بخاری نسباً سید السادت ہیں  اور آپ کا سلسلہ نسب  حضرت امام زین العابدین سے ہوتا ہوا   43   پشتوں میں  حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے جاملتا ہے۔ آپ  کے  جد امجاد میں   حضرت  سید جلال الدین  سرخ بخاریؒ  ، حضرت  سید جلال الدین  مخدوم  جہانیان  جہاں گشت  بخاریؒ   اور  حضرت  سید ناصر الدین  محمود بخار ی ؒجیسے  معروف اہل اللہ  شامل ہیں۔حضرت جلال  الدین سرخ بخاری  کا تعلق بنیادی طور پر نقوی سادات سے   ہے  ، اس  نسبی تعلق  کی وجہ سے آپ کی  تمام اولادیں  اپنی شناخت کے لیئے اپنے آپ کو بخاری سادات کہتے ہیں۔ حضرت  علی بن محمد امام علی نقی ؑ کے نام سے مشہور ہیں۔ آپ کے والد ماجد امام محمد تقیؑ ہیں ۔

حضرت جلا ل الدین بخاری جہانیاں جہاں گشتؒ  کے کئی صاحبزادگان تھے جن سے کئی  خاندان یا شاخیں پھوٹیں۔حضرت مخدوم سید ناصر الدین محمود بخاریؒ ۔ حضرت جلا ل الدین بخاری جہانیاں جہاں گشتؒ کے فرزند اکبر اور خلیفہ مجاز تھے سید ناصر الدین محمود بخاریؒ    کثیر الاولاد تھے  اور ان ہی کی اولاد کو قنوج بطور جاگیر دہلی کے حکمرانوں نے دیا تھا  ۔ حضرت جلال  الدین سرخ بخاری  5 ذی الحجۃ 595ھ کو بخارا (موجودہ ازبکستان) میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم بخارا ہی سے حاصل کی اور بچپن ہی سے روحانی وجوہات سے مشہور ہو گئے تھے۔ آپ سلسلہ سہروردیہ کے ایک بہت ہی معروف بزرگ او رمبلغ اسلام ہیں۔آپ کوسرخ پوش اس لیے کہاجاتاہے کہ آپ ہمیشہ سرخ چوغہ اوڑھے رہتے تھے ۔ جلال اعظم،میرسرخ پوش بخاری وغیرہ یہ سب آپ کے القاب ہیں۔ آپ  کی اولاد وں  میں  کئی مشہور اولیاء  گزرے ہیںجن  میں    حضرت سید محمد غوثؒ،  حضرت جلال الدین جہانیاں جہاں گشتؒ  وغیرہ کے نام سرفہرست ہیں۔  حضرت جلال الدین  سرخ ؒ  کی کاوشوں سے سندھ اور جنوبی پنجاب میں اسلام کو بہت تقویت ملی تھی۔ آپ کا انتقال 95 سال کی عمر میں 19 جمادی الاول 690ھ (20 مئی 1294ء) کو ہوا۔ آپ کا مزار موجودہ بہاولپور کی تحصیل اچ شریف میں ہے۔

حضرت  سید  قاسم علی شاہ بخاری  جن کا  نسبی تعلق  بھی حضرت جلال  الدین سرخ بخاری سے ہے  اور آپ  اولادِ حضرت  امام علی نقی ہونے کی بناء پر بخاری کہلاتے ہیں۔ آپ   سن  1894 ء مطابق  1314  ہجری کو  ضلع مانسہرہ  پاکستان  میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام سید  بہادر علی شاہ بخاری  تھا۔ آپ نے ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی۔ آپ مادر    زاد ولی تھے   اور بچپن سے ہی  خاموش طبع  اور دویشی کا رنگ آپ پر غالب تھا ،  اللہ اور اس کے رسول کی محبت میں ہمیشہ شرشار رہتے تھے اور دنیا سے الگ تھلک رہ کر عبادت الہیٰ و   اسرار حق کی جستجو میں   مشغول رہا کرتے تھے۔ حالت استغراق میں اکثر  جگلوں بیابانوں میں نکل جانا آپ کا م شعار     تھا،  آپ کے والد بزرگوار  آپ کو کئی کئی میل دور سے ڈھونڈ کر لایا کرتے تھے۔ تقریبا  آپ کی  بیس برس کی عمر تک یہ سلسلہ جاری رہا۔  جنگ عظیم اول  میں آپ  کو انگریزوں کی فوج میں  بھی جبری بھرتی کرلیا گیا مگر کچھ عرصے بعد ہی آپ  گھر واپس آگئے ۔ کچھ عرصے بعد ہی آپ گھر سے ایسے غائب ہوئے کہ  بے حد تلاش  کے باوجود  نہ ملے اور آپ کے والدین کا  اس ہی صدمے کے باعث  کچھ ہی عرصے میں وصال ہوگیا۔

حضرت سید قاسم شاہ ؒ     مختلف  مقامات کی زیارتیں اور چلہ کشی  و مجاہدات کرتے ہوئے اپنی وجدانی کیفیت میں  اجمیر شریف حضرت خواجہ  غریب نواز  کی درگاہ میں تشریف لے گئے۔آپ کو  بچپن سے ہی حضرت خواجہ  غریب نواز ؒ سے روحانی نسبت تھی۔  ایک رات آپ    کی عبادت کرتے کرتے  آنکھ لگ گئی توعالم رویا میں آپ کی ملاقات حضرت خواجہ  غریب نواز ؒ سے ہوئی اور حضرت خواجہ  غریب نواز ؒ نے آپ سے فرمایا " بیٹا تم کسی سے مرید ہوجاؤ تمھارا کسی سے بیعت ہونا  بہت ضروری ہے" ،  اس پر  آپ نے حضرت خواجہ صاحب راہنمائی کی درخواست کی   تو آپ کو  حضرت شاہ  عباالقادر جیلانی  رحمتہ اللہ  علیہ جو  اس وقت کے غوث اور  کلکتہ کی ولایت پر فائز تھے سے بیعت ہونے کا حکم   صادرہوا۔    حضرت خواجہ صاحب کے حکم کے بموجب آپ نے کلکتہ جاکر  حضرت شاہ  عباالقادر جیلانی ؒ کے  دست حق پر بیعت کی سعادت حاصل کی  اور   سلسلہ قادریہ نقش بندیہ میں مجاز ہوئے۔  آپ  کے پیر ومرشد کی صحبتِ کامل  نے آپ کو بام عروج پر پہنچایا  ۔ بعد ازین آپ   اپنے پیر ومرشد کے حکم پر   دوبارہ  اجمیر شریف  تشریف لے آئے   ۔ 

 قیام اجمیر آپ  چلہ کشی ، کسبِ ولایت اور مجاہدات میں  مشغول رہے۔ کیوں کہ آپ کو حضرت خواجہ غریب نواز سے خاص نسبت   اور روحانی تعلق تھا جس کی  بناء پر  آپ  "عطائے خواجہ" اور  "اجمیری بابا"  کے لقب سے   مشہور ہوئے۔قیام پاکستان کے بعد آپ  حضرت خواجہ غریب نواز کے حکم پر اجمیر سے  پاکستان تشریف لے آئے اور   حیدر آباد سندھ میں مقیم ہوکرر شد و ہدایت کا سلسلہ جاری فرمایا۔      آپ کے مریدین کی تعداد ہزاروں میں ہے۔  سن 1961 میں آپ نے حج بیت اللہ  کی  سعادت سے بھی مشرف ہوئے۔

آپ کا سلسلہ طریقت قادریہ  نقش بندیہ ہے۔ حضرت سید قاسم شاہ بخاری ؒ  کا یہ  سلسلہ طریقت دس واسطوں سے ہوتا ہوا حضرت امام ربانی مجد د الف ثانی تک پہچتا ہے۔ حضرت مجدد الف ثانی نے تصوف میں سلسلہ چشتیہ کی تعلیم اپنےوالدسےپائی تھی، سلسلہ قادریہ کی حضرت شیخ سکندرکیتھلیؒ سے اورسلسلہ نقشبندیہ کی تعلیم دہلی جاکرخواجہ باقی باللہ سےحاصل کی تھی ۔ اس ہی وجہ سے حضرت سید قاسم شاہ بخاری ؒ کا سلسلہ طریقت قادریہ نقشبندیہ ہے اور آپ کا یہ سلسلہ طریقت قادری ونقشبندی (23) واسطوں سے بشمول حضرت مجدد الف ثانیؒ سے ہوتا ہوا شیخ عبدالقادرجیلانی رحمتہ علیہ سے جاملتا ہے جو سلسلہ قادریہ کے امام کہلاتے ہیں ۔کیونکہ آپ کو   حضرت  خواجہ  غریب نواز ؒ سے خصوصی نسبت ہے اور آپ  سلسلہ  قادریہ نقش بندیہ میں آپ کے  حکم کی وجہ سے بیعت ہوئے تھے اور درگاہ خواجہ غریب نواز    میں  کئی عرصے تک معتکف  رہے تھے  اور حضرت خواجہ معین الدین اجمیریؒ نے آپ کی جانب خصوصی توجہ مبذول فرمائی تھی جس کی وجہ سے آپ کا قلب روشن ہوگیا اور جملہ حجابات اُٹھ گئے اس لیے آپ پربھی چشتیہ رنگ غالب ہے اور آپ کے سلسلے عالیہ  قادریہ نقش بندیہ میں اس ہی   نسبت کی بناء پر سماع بھی  مروج ہے۔  

واضح  رہے کہ  قادریہ سلسلہ کے ایک معروف بزرگ  حضرت شاہ فضیل قادری رحمتہ اللہ علیہ المعروف زندہ پیر جن کا مزار اقدس بھی مکلی میں ہے کا تعلق  بھی حضرت قاسم شاہ ؒ کے روحانی خانوادے سے ہے اور  حضرت شاہ فضیل قادری رحمتہ اللہ علیہ  کا نام آپ کے شجرہ طریقت میں شامل ہے ۔ حضرت شاہ فضیل قادری ؒ ٓ بھی  اپنے وقت کے سرداراولیاء، امام العارفین و قطبِ ارشاد صوفی بزرگ تھے۔ آپ ؒ کے روحانی مقام کے بارے میں حضرت مجدد الف ثانی ؒ فرماتے ہیں کہ جب مجھ کو خاندان قادریہ کا کشف ہوتا ہے تو مجھےحضرت غوث اعظم دستگیرؒ کے بعد حضرت شاہ فضیل قادریؒ اور آپ کے خلیفہ حضرت شاہ کمال کیتھلی قادری رحمتہ اللہ جیسے علو مرتبت بزرگ نظر آتے ہیں۔ حضرت شاہ فضیل قادری ؒ نےسندھ کے قدیمی شہر ٹھٹھ میں اپنے پیر ومرشد کے حکم پر مستقل سکونت اختیار کی تھی ۔ٹھٹھ میں مستقل قیام کرنے سے قبل آپ نے دنیا کےبیشتر ممالک کی سیاحت بھی کی تھی جس میں سمرقند،بخارا، تاشقند، روم، شام، مصر شامل ہیں۔ آپ کا وصال  17محرم الحرام سن 999ھ کو ہوا  اور آپکا مزار مبارک بھی حضرت قاسم شاہؒ کے مزار اقدس سے کچھ فاصلہ پر ہی مکلی کے قبرستان میں  مرجع خلائق ہے۔  

آپ  اپنے وصال سے قبل سن 1980 کے  اوئل میں  پاکستان بھر کے دورے پر نکلے  تھےاور مختلف  اولیاء اکرام کے مزارت کی زیارت کی اور  اپنے وصال سے ایک دن قبل کراچی تشریف لے آئے اور دوسرے دن شام  3 رجب المرجب 1400 ہجری بنوی بمطابق  17 مئی 1980ء کو  آپ نے  اس عالم ظاہری سے پردہ فرمایا  اور اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون.۔ حضرت  قاسم شاہ ؒ کو حضرت عبد اللہ شاہ اصحابی ؒ سے بے پناہ محبت اور عقیدت رہی  تھی اور مکلی  شریف سے بھی آپ کو انس تھا جس کی بناء پر  آپ کا جسد خاکی کو کراچی سے مکلی لایا گیا اور آپ بھی اس ہی شہر میں  مدفون ہوئے۔ آپ کا عرس ہر سال آپ کے مزار اقدس کے احاطے میں  3، 4  اور 5 رجب المرجب کو  نہایت عقیدت و تزک و  احتشام کے ساتھ منایا جاتا ہے۔  والسلام

مرتبہ : محمد سعید الرحمنٰ، ایڈوکیٹ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

 


Comments

Popular posts from this blog

سلسلہِ صندلیہ . حضرت علی محمد المعروف میاں صندل شاہ رحمتہ اللہ علیہ

جون ایلیا ایک تعارف