تعزیت و اظہار غم۔ صوفی ولی حسن سلطانی۔
تعزیت و اظہار غم۔ صوفی ولی حسن سلطانی
سلسلۃ الذہب قادریہ و سلسلۃ الوہب چشتیہ کی ایک فقیرمنش شخصیت۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاثرات : محمد سعید الرحمنٰ ، ایڈوکیٹ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
كُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَةُ الْمَوْتِ (ہرنفس
کو موت کا مزہ چکھنا ہے)۔
موت ایک اٹل حقیقت ہے، ہر انسان کو اس دارئے فانی سے کوچ
کرکے اپنی اصلی منزل کی طرف چلے جانا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے موت کو اجل سے تعبیر فرمایا ہے۔قانون قدرت کے
مطابق ہر فرد کی موت کا ایک وقت مقرر ہے۔ ارشاد
باری تعالیٰ ہے کہ بے شک اللہ تعالیٰ کی طرف سے موت کا فرشتہ آجائے تو
وہ ٹلٹا نہیں ہے۔
موت ایسی حقیقت ہے
کہ دنیا کا کوئی بھی شخص خواہ وہ کافر یا فاجر حتی کہ دہریہ ہی کیوں نہ ہو، وہ موت کو یقینی مانتا ہے۔موت بندوں کو ہلاک
کرنے والی اور گناہ گار فاسق وفاجر کو
جہنم کی وادیوں میں جھلسانے والی اور متقیوں کو جنت کے بالاخانوں تک پہنچانے والی
شی ہے۔ مگر یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ اس دارئے فانی سے جانے والے کا غم و دکھ اس کے لواحقین کو صدمے سے دوچار کردیتا ہے۔ کسی
بھی شخص کے مرنے سے اس کے گھروالوں پر گویا قیامت ٹوٹ پڑتی ہے، ایسے موقع پر قریبی
رشتہ داروں کا رنج و غم میں مبتلا ہونا ایک فطری عمل ہے۔اس ہی لیے اسلام میں
لواحقین سے تعزیت کرنا مسنون ہے۔ تعزیت کےلغوی معنی ہی مصیبت زدہ کو صبر دلانا غمخواری کرنا ہیں اور یہ
تحریربھی ایک تعزیت ہے۔
مورخہ 11 ستمبر سن 2022کو جب میں حسب معمول اپنے کام میں مشغول تھا کہ اچانک شام
پانچ بجے کے قریب عزیزم محمد سلطانی سلمہ
کا ایک پیغام واٹس اپپ پر موصول ہوا کہ" جناب ولی حسن بھائی اس دارئے فانی سے کوچ کرگئے ، جنازے کا اعلان
بعد میں کیاجائے گا"۔ یہ خبر سن
کر کچھ دیر تک سکتے کی کیفت طاری رہی اور کچھ دیر بعد ذہن نے اس خبر کو انتہائی دکھ و
صدمے کے ساتھ قبول کیا اور بے اختیار زبان سے انا للہ وانا الیہ راجعون کے
کلمات ادا ہوئے اور مرحوم سے اپنے تعلقات
کا ایک خاکہ ذہن میں مرتب ہونا شروع ہوگیا جو کہ فطری امر تھا کیونکہ مرحوم سے میرا بھی ایک قلبی اور روحانی لتعلق رہا تھا اور مرحوم مجھ سے بہت محبت و شفقت
فرمایا کرتے تھے۔ویسےمیری مرحوم سے کافی عرصے سے شناسائی تھی مگر قریبی مراسم تقریباً عرصے دس سال سے
زائدپر محیط ہیں اور اس دوستی کے استحکام میں مرحوم صوفی اسد سلطانی بھائی جن کا وصال کچھ عرصے قبل ہو چکا ہے کا
بنیادی رول رہاہے ۔ اسد بھائی مرحوم اعلیٰ ذوق سماع سننے کے دلداہ اور فارسی کلام
کامعیاری اردو ترجمہ کرنے میں مشاق تھے۔
صوفی ولی حسن
سلطانی کا روحانی تعلق سلسلۃ الذہب قادریہ اور سلسلۃ الوہب چشتیہ سے
تھا جو کہ پاک و ہند کے معروف
سلاسل ہیں ۔ مرحوم ولی حسن کو
اپنی نو عمری میں ہی متذکرہ سلاسل میں حضرت ابو الخیر محمد حسنین سلطان الزماں ، صاحبِ ارشاد ولی کامل جن کا شمار ریاست رام پور کے جید صوفیاء میں ہوتا تھا
اور بعد میں آپ نے پاکستان ہجرت
فرمائی اور کراچی میں بغرض رشد و ہدایت ایک خانقاہ قائم کی جو دربار سلطانی کے نام سے موسوم ہے کے دست اقدس پر شرف بیعت حاصل ہوا تھا ۔ مرحوم
ولی حسن نے واجبی سے ظاہری تعلیم
حاصل کی تھی مگر اپنے شیخ طریقت کی صحبت میں رہ کر علمِ ظاہری و باطنی سے
مستفید ہوتے رہا کرتے تھے ۔
یہ صحبت کا ہی فیضان کہ جس نے
آپ کی شخصیت کو پراعتماد بنادیاتھا
اور مرحوم نے اپنی پوری زندگی
صوفیانہ اور متوکلانہ طرز پر بسر
کی۔ یہ شیخ طریقت کی تربیت کا اثر ہے کہ
مرحوم کے معاملاتِ زندگی میں ہمیشہ صوفیانہ رنگ نمایاں رہا اور تاحیات اپنے
شیخ کے روحانی تابع داری آپ کا وصف
رہا۔ اپنے شیخ طریقت کے عرس کے موقع پر آپ
جس عقیدت و احترام سے چادر شریف پیش کیاکرتے
تھے اور بطور عقیدت جلوس کی شکل
میں یہ چادر اپنے قیام گاہ سے شیخ
کے مزار اقدس تک جس عشق ومحبت
کے جذبےسے شرشار ہوکر لایا کرتے وہ مناظر قابل دیدنی و یادگار ہیں ۔
شیخ طریقت کے وصال
کے مرحوم ولی حسن نے اپنے شیخ
طریقت کے جید خلیفہ حضرت صوفی عبداللہ سلطانی مدظلہ العالیٰ
ٰ کی نگرانی میں باقی ماندہ سلوک کے مراحلے طے کیے اور بعد
ازیں مرحوم کو اپنے شیخ طریقت کی خلافت بھی حضرت صوفی عبداللہ سلطانی مدظلہ العالیٰ سے حاصل ہوئی اور آپ کا شمار بھی ایک
صاحبِ ارشاد ولیِ کامل کے خلفاء میں ہونے لگا۔
مرحوم ایک میعاری روحانی معالج بھی رہے تھے جس کی
تربیت آپ نے اپنے شیخ طریقت کے خلفاء سے
حاصل کی تھی اور بلا
معاوضہ یہ خدمات بھی انجام دیا کرتےتھے اور اس حوالے سے آپ نے اپنی
قیام گاہ پر ہفتہ میں دو دن مختص کیے ہوئے تھے۔ اس ضمن میں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ جیسا کہ
دورحاضر میں اکثر صوفیوں
کا ذریعہ کسب ہی تعویز گنڈہ
ہے، مگر مرحوم کا ذریعہ معاش اپنا ایک نجی
کاروبار ( اسٹیٹ ایجنسی ) رہا تھا
اور آپ اس ہی کاروبار سے اپنے اہل
عیال کی کفالت کیا کرتے رہے۔ مرحوم کو اپنے وصال سے قبل یہ اعزاز بھی حاصل
ہو کہ آپ نے کچھ عرصہ اپنے شیخ طریقت کی خانقاہ میں بھی روحانی معالج کی خدمات انجام دیں۔
اپنے شیخ طریقت
کی خلافت کا حامل ہونے کے بعد مرحوم نے بیعت پیرانی
لینے کا آغاز کیا تھا اور کچھ نفوس
پر مشتمل آپ کا ایک حلقہ ارادت بھی ہے
جس میں خواتین و مرد شامل ہیں ۔
مرحوم کا معمول رہا کہ اپنی قیام گاہ
پر ہفتہ میں ایک دن اپنے وابستگان کی روحانی تربیت کا اہتمام کیا
کرتے تھے جس میں آپ کے پیر بھائیوں
بھی شریک ہو تے رہتےتھے۔ اس روحانی تربیت میں سلسلے کا ذکر واذکار بعد
ازین صلوۃ وسلام لحنِ سلطانی سے پیش کیا جانا بھی معمول تھا ۔
مرحوم کا معمول تھا کہ وہ ہر ماہ چاند کی 18 تاریخ کو اپنی قیام گاہ پر اپنے پیران
شجرہ بلخصوص حضرت شاہ اللہ نور
قلندر ؒ کی ماہانہ فاتحہ خوانی کا اہتمام کیا کرتے
تھے جس میں اہل ذوق صوفیوں کے لیے محفل سماع بھی منعقد کی جاتی تھی اور سماع کی جملہ شرائظ زمان،
مکان اور اخوان
کا خصوصی التزام رکھا جاتا تھا۔ سلسلۃ الوہب چشتیہ میں
برائے معرفت سماع روح کی غذا ہے اور یہ ایک ایسا ذوق ہے جو بہت ہی لطیف
اور جمالیات سے لبریز ہے اور اس ذوق کو قرب الہیٰ کے لیے مستحب سمجھا جاتا
ہے۔ مرحوم ولی حسن کی منعقد کردہ اس سماع کی محفل میں آپ کے پیر بھائیوں کے علاوہ
اپنے ذوق کی تسکین کے لیے اکثر و بیشتر کراچی کے دیگر سلاسل کےمعروف صوفی بزرگ بھی شرکت کیا کرتے تھے ۔ حضرت وارث میاں مدظلہ العالیہ سجادہ نشین درگاہ اجمیر شریف، اگر کراچی میں تشریف فرما ہوئے تو اس محفل میں ضروررونق افزا ہو کر مرحوم پر اپنی خصوصی
کرم نوازی فرمایا کرتے تھے ۔کراچی
کے معروف صوفی بزرگ حضرت عبداللہ سلطانی
مدظلہ العالی جن کا مرحوم کی
روحانی بالیدگی میں بڑا کردار ہا
ہے ، عموماً پابندی کے ساتھ اس ماہانہ محفل میں شرکت فرمایا کرتے تھے اور آپ کی محفل میں آمد سے محفل کی رونق دوبالا ہوجاتی کرتی تھی ۔
علاوہ ازین، مرحوم کو یہ اعزاز بھی حاصل رہا کہ آپ ہر
سال سالانہ ایک عرس کی محفل
بھی بڑے تزک و اہتمام سے عزیز آباد ، کراچی میں منعقدہ کیا کرتے تھے جس میں کراچی کے معروف صوفیاء کی ایک بڑی تعداد شریک ہوا کرتی
تھی۔ آپ کو حضرت بابا فرید رحمتہ اللہ علیہ سے
والہانہ عشق تھا ، آپ ہر سال اپنے
وابستگان کے ساتھ حضرت بابا فرید
کی عرس کی تقریبات میں شرکت کے لیے
خصوصی اہتمام کیا کرتے تھے اور
بعد اختتام تقریبات عرس آپ لاہور
حضرت داتا گنج بخش ؒ کے مزار اقدس پر حاضری دے کر واپس آتے تھے۔ اس سال آپ اپنی
ناسازی طبیعت کی وجہ سے حضرت بابا صاحب ؒ کے عرس میں شرکت نہیں کرسکے جس کا انہیں بہت خلق
رہا مگر آپ نے حضرت بابا صاحب ؒ کی
روح پُرفتوح سے فیوض و برکات کے حصول کے
لیے محرم کی پانج تاریخ کو اپنے قیام
گاہ پرمحفل منعقد کی ۔
مرحوم اپنے وصال سے قبل
کچھ ماہ سے علیل رہےتھے
اور یہ علالت ہی آپ
کی موت کا بہانہ ثابت ہوئی۔ دوران بیماری بھی آپ اپنے روزانہ کے معمولات و ذکر و ازکا بڑی پابندی سے ادا کیا
کرتے تھے ۔ آپ کی نماز جنازہ اس ہی روز
جسن دن آپ کا ؤصال ہوا تھا بعد نماز عشا
ادا کی گئی جس میں آپ کے پیر بھائیوں کے
علاوہ اہل محلہ کی ایک کثیر تعداد نے شرکت کی ۔
آپ کی تدفین عزیز آباد قبرستان میں عمل میں لائی گئی ۔ دعا گو ہوں کہ الله تعالیٰ مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلیٰ
مقام عطا فرمائے اور مرحوم کے لواحقین کو صبر جمیل سے ہم کنارے کرئے اور اللہ
تعالیٰ کی پاک بارگاہ میں یہ بھی دعا کے
کہ باری
تعالیٰ مرحوم کو جنت الفردو س میں انبیاء
صدیقین ، شہداء اور صالحین بشمول
مرحوم کے پیران شجرہ کے ساتھ
قیام نصیب فرمائے اور یہی بہترین ساتھی ہیں ۔آمین یارب العالمین۔ والسلام ۔
محمد سعید الرحمنٰ، ایڈوکیٹ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Comments
Post a Comment