دیوان حافظ لسان الغیب سے فال (استخارہ ) نکالنا۔




خواجہ حافظ محمد شیرازی   ۔ امامِ غزل

دیوان حافظ لسان الغیب سے فال  (استخارہ ) نکالنا۔

فال ایک قسم کا استخارہ ہے، دیوان حافظ وغیرہ (یا اس کےمثل کتاب )سے بطور تفاول جائز ہے۔

قرآن کریم سے فال کھولنا ناجائز ، ممنوع  و مکروہ تحریمی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حاصل مطالعہ : محمد سعید الرحمنٰ، ایڈوکیٹ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

به ناامیدی از این در مرو، بزن فالی

بُوَد که قرعهٔ دولت به نامِ ما افتد

اس در سے نا امیدی سے نہ جا، فال نکال
ہوسکتا ہے، کہ دولت کا قرعہ ہمارے نام نکلے

فارسی زبان دنیا کی جند نہایت شیریں اور دلکش زبانوں میں سے ایک ہے اور عالمی ادبیات میں فارسی  کو ایک خاص اور بلند مرتبہ حاصل ہے۔ فارسی  برصغیر میں مغلیہ دور   میں تقریبا تین سو سال سے زائد   سرکاری زبان کے طور پر رائج رہی ہے جس کی وجہ سے یہ زبان  اس خطے کے  عوام و خاص کی زبان رہی تھی اور اس ہی دور میں   اردو نثر و نظم کا باقاعدہ آغاز بھی   ہوا۔ اردو زبان کا فارسی زبان سے ایسا  عمیق و دقیق تعلق  ہے کہ فارسی زبان سے واقفیت حاصل کیے بغیر صحیح   معیاری اردو   لکھنے پڑھنے اور بولنے کی  صلاحیت پیدا ہونا   ممکن نہیں ہے، کیونکہ اردو زبان کی تخلیق ہی ہندی اور فارسی کی آمیزش سے ہوئی  ہے۔  

 فارسی ادب سے ہمارا جو تعلق عہد  مغلیہ میں قائم ہوا تھا  وہ تعلق  بتدرجہ کم تو  ہوتا چلا گیا ہے مگر ختم  نہیں ہوا،  اور کچھ حد تک تاحال بھی  قائم  ہے  جس کی وجہ بنیادی وجہ پاک وہند کے صوفیاء  کا   فارسی شاعری سے لگاو  ہے اور   فارسی شعراء میں  شیخ  سعدی، مولانا رومی   اور  خواجہ حافظ شیرازی  کے ساتھ ان  کا شغف اس بات کی روشن دلیل ہے۔  یہ امر حقیقت ہے کہ گلستان  و بوستان کے بعد   دیوان حافظ کو جو مقبولیت حاصل ہوئی وہ کسی اور  کتاب کو حاصل نہیں ہے۔ 

 حافط شیرازی  کا پورا نام خواجہ محمد شمس الدین حافظ ہے، آپ  سن 726 ہجری میں شیراز میں پیدا ہوئے ۔ حافظ اور قاری قرآن کے علاوہ آپ کا شمار اپنے عہد کے نامور عالم اور عارفِ کامل میں ہوتا تھا ۔ آپ کو عربی و فارسی اور تاجیک تینوں زبانوں پر مہارت حاصل تھی۔ آپ  کی وجہ شہرت آپ کی زندہ جاوید فارسی غزلیں ہیں ، جن کی بنا پر آپ کو امام ِغزل کہا جاتا ہے۔ علامہ اقبال جو کہ خود کم و بیش سات زبانوں کے ادب پہ گہری نظر رکھتے تھے نے ایک جگہ حافظ شیرازی کے حوالے سے راقم طراز ہیں کہ اگر عالمی سطح کے شاعروں کی ایک فہرت تیار کی جائے تو حافظ شیرازی پہلے پانچ شعرا میں کہیں نہ کہیں ضرور ہوگے ۔

حافظ ایک  درویش منش ، آزاد اور بے باک شاعر تھے اور ان کی اصل شاعری عشق و عاشقی رندی ومستی ہے ۔ خواجہ صاحب کا دیوان کا ہر شعر نزاکت و لطافت ، ضائع و بدائع اور حسن و ادا کا ایک اعلی نمونہ ہے۔ حافظ شیرازی صاحب کی تمام عمر کا حاصل بس ایک ہی دیوان ہے جو مقبول خاص و عام ہے۔ یہ دیوان انہوں نے خود مرتب نہیں کیا بلکہ ان کے معاصر محمد گل اندام نے ترتیب دیا تھا۔  دیوان حافظ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہےصوفیاء  کے وہ تمام سلاسل جس میں  سماع مروجہ  ہے آپ کا  کلام وجد اور انبساط  روح کا ذریعہ ہے۔ 

حافظ کی نظر میں عشق معبود مطلق کی طرف حرکت اور کشش کا نام ہے۔اسی عشق کی بدولت انسانوں کو فرشتوں پر فوقیت حاصل ہے۔ بقول حافط  عشق خدا کی امانت ہے۔ایک عاشق تڑپ اور جستجو کے ذریعے معشوق کی درگاہ تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔

حافظ دورِ قدیم اور عصر حاضر دونوں میں ہمیشہ مقبولیت کی بلندیوں پر رہے ہیں ۔ایران کے بادشاہوں کے علاوہ برصغیر کے سلاطین نے بھی حافظ کے کلام کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے ۔ایرانیوں میں دیوانِ حافظ سے فال نکالنا اور اپنے سوالوں کا جواب پاناانکے فکر و فن کو وسیع کر دیا ہے اور دیوان حاٖظ سے فال نکالنے کی یہ روایت زمانے قدیم سے برصغیر میں بھی چلی آرہی ہے جو کہ تاحال مروج ہے۔  فال حافظ کو دوام حاصل ہونے کی بنیادی وجہ برصغیر کے سلاطین، امراء وخواص   بھی اپنی زندگی کے اہم امو ر اور امور سلطنت  کے متعلق دیوان حافظ سے ہی فال نکالتے  تھےاور حافظ کو لسان الغیب   تصور کرتے ہیں۔

 فال کے لغوی معنی  استخارہ ،  بخت ،طالع عاقبت بینی اور پیشنگوئی کے ہیں۔۔ حافظ شیرازی کے دیوان سے فال نکالنے کی تاویل   آپ کے مداح اس  شعر سے لیتے ہیں :

آسمان بارِ امانت نتوانست کشید

قرعۂ فال بنام من دیوانہ زدند          

 ترجمہ : آسمان، امانت کا بوجھ  نہ اُٹھا سکا
مجھ دیوانے کے نام ، انہوں نے قرعہ فال نکال دیا۔  

جب کہ اس شعر کا مفہوم خود واضح ہے کہ جب بار خلافت کائنات کے سامنے پیش کیا گیا تو سب نے انکار کردیا اور صرف حضرت انسان ایسا تھا جس نے اس بار کو اٹھانے کی حامی بھر لی اور اس ہی لیے اس تمام کائنات پر برتری عطا کی گی۔

 دیوان حافظ سے فال نکالنے کی  شرعی حیثیت کی بابت مفتیاں اکرام کا فتویٰ کہ  "فال ایک قسم کا استخارہ ہے. استخارہ کی اصل کتب احادیث میں بکثرت موجود ہے. دیوان حافظ وغیرہ(یا اس کے.مثل کتاب )سے بطور تفاول جائز ہے". (فتاوی رضویہ جلد ۲۳.صفحہ.۳۹۷)۔  فال کھولنے والا اگر استخارہ کرکے بتاتا ہے (یا اس کے.مثل کتاب )سے فال کھولتا ہے تو یہ جائز ہے نہ کھولنےوالے پر گناہ ہے نہ کھو لوانے والے پر کیوں کہ یہ نیک فال ہے ۔

 

ایرانی فالِ حافظ پر بہت یقین رکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید کے بعد دیوانِ حافظ ہر گھر میں موجود ہے۔ ایرانی اپنے قدیمی رسم و رواج کے مطابق اپنی عید یعنی  جشن نوروز کی آمد پر  جب سفرہ  ھفت سین سجاتے ہیں تو سفرہ  ھفت سین پر قرآن مجید اور دیوانِ حافظ بھی رکھا جاتا ہے ۔اسی طرح شب یلدا(موسم خزاں کی آخری اور سردیوں کی پہلی رات کو کہا جاتا ہے) شبِ یلدا کے تہوار پر خاندان کے تمام افراد اپنے بزرگوں کے گھر جاتے ہیں۔اور ان کی ساری رات ہنسی مذاق اور شیرین گفتگو ، کہانی سنانے اور فال حافظ نکالنے میں گزر جاتی ہے۔

 

کلام حافظ سے فال لینے کا معروف طریقہ جو عوام الناس میں مروج ہے ایک طریقہ تو یہ ہے کہ فال نکالنے سے قبل حافظ شیرازی کی روح کوفاتحہ پڑھ کر ثواب پہنچایا جائے پھر جس مقصد یا غرض کے لیے فال نکالنا ہے اس کو ذہن میں رکھ کر اور یہ گمان کرتے ہوئے کہ غیب کا جانے والا اللہ تعالیٰ  ہے اور اس دیوان سے فال لینا صرف ایک وسلیہ ہے، دیوان کو یکبارگی میں کہیں سے بھی کھول لیں لیکن ذہن نشین رہے کہ کھولنے والا صفحہ قصائد یا قطعات نہ ہوں  بلکہ غزل ہو۔ اس طریق پر کھلنے والا دیوان کا دائیں ہاتھ کے صفحہ کا پہلا شعراس کے مطلب یا مقصد کی فال ہوگی، اگر یہ شعر اس کے مقصد پر کوئی روشنی نہ ڈال سکے تو پھر بائیں صفحہ کا پہلا شعر ضرور اس مقصد  کے عین مطابق ہوگا۔

اور ایک طریقہ دیوان حافظ سے فال نکالنے کا ہے کہ حسب قاعدہ حافظ کی روح کو ایصال ثواب پہنچا  کر دیوان کو کھولا جائے اور دائیں ہاتھ کے صفحہ کا پہلا شعر سے مطلب اخذ کیا جائے، اگر وہ غیر مبہم ہے اورمقصد و مدعا سے اس کا کوئی مطلب نہ ہوں تو اس ہی دائیں ہاتھ کے صفحہ کا ساتواں شعر پر غور کیا جائے اس شعر سے اس کی فال نکلے گی، اگر یہاں بھی فال نہ نکلے تو چھ صفحہ چھوڑ کر ساتوین صفحہ کا پہلا شعر کو دیکھا جائے۔ واللہ العلم بالصواب۔

علاوہ ازیں دیوان حافظ سے فال لینے کاایک اور طریقہ  بھی ہے جو عاملوں کا واضح کردہ ہے۔ اس طریقے سے فال نکالنے کےا نہوں نے دن اور رات کے پہر کے حساب سے جدول بھی مرتب کیے ہیں اور جس پہرے میں یہ فال نکالی جارہی ہے اس جدول سے مصرع اول مرتب کیا جاتا ہے۔ مگر یہ طریقہ بزرگوں سے رائج نہیں اس لیے مذکورہ بالا دو طریقوں پر ہی فال نکالنی چاہیے۔۔فال حافظ کے شعر کا  مفہوم بتانا ہر شخص کا کام نہیں، اس لیے ضروری  ہے فال کے شعر کے معنی اور مفہوم  بتانے  والا  شخص یعنی فال کی تعبیر اور تفسیر بتانے والا علم و دانش صاحب استعداد ہوش و فہم رکھتا ہو اور حافظ کے کلام کی صحیح ترجمانی کرتا ہو۔ والسلام  (محمد سعید الرحمنٰ، ایڈوکیٹ)

 

 

 

 

  

Comments

Popular posts from this blog

سلسلہِ صندلیہ . حضرت علی محمد المعروف میاں صندل شاہ رحمتہ اللہ علیہ

جون ایلیا ایک تعارف