بابا گرونانک (1469 ۔ 1539 ء) سکھ مت کے بانی

 





بابا گرونانک (1469 ۔ 1539 ء)  سکھ مت کے بانی

مسلمان بزرگوں  اور صوفیہ  کی صحبت  سے کافی مستفیض ہوئے تھے ۔

سلسلہ مداریہ، سہروردیہ اور چشتیہ  کی فیض یافتہ شخصیت ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حاصل مطا لعہ : محمد سعید الرحمنٰ، ایڈوکیٹ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اصطلاحات تصوف میں موحد ایسے شخص کو کہتے ہیں جو خدا کو  وَحدَہُ لاَ شَرَیکَ مانتا ہوں اور اس کے نزدیک غیر حق کا وجود نہیں ہو۔ موحد خدا کی مطلق عبادت کرتے ہیں ، برعکس مشرک کے جو خدا کو مقید کرکے اس کی عبادت کرتا ہے،موحد کی عبادت کا راستہ سیدھا خدا کی ذات کی طرف ہے اسی وجہ سے یہ لوگ اول قدم ہی سے تقرب کے درجے کو پہنچتے ہیں۔ بابا  گرونانک  کا شمار بھی موحد میں ہوتا ہے آپ سکھ مت کے بانی اور دس سکھ گروؤں میں سے پہلے گرو تھے۔ بابا گرونانک ایک ہندو گھرانے میں پیدا ہوئے تھے مگر آپ کی تربیت اسلامی ماحول میں ہوئی جس کے اثرات آپکی تعلیمات میں نمایاں نظر آتے ہیں۔

 

تذکرۃ الرشید  میں ذکر ہے کہ بابا  گرونانک حضرت بابا فرید گنج شکر کی اولاد میں سے ایک صاحب کے مرید تھے ، بعد میں مجذوب ہوگئے تھے۔ چونکہ اکثرمجاذیب سے کشف وکرامات کا بکثرت   ظہورہوا کرتا ہے،  اس لیے ہندولوگ جو عام طور پر عجائب پرست واقع ہوئے ہیں ، ان کے گرویدہ ہوگئے۔ اسی طرح بڑھتے بڑھتے ان کے معتقدین نے ایک علیحدہ فرقہ کی صورت اختیار کرلی اور ایک جدا مذہب کی بنیاد پڑگئی ۔

 

بابا گرو نانک صاحب  کی تعلیمات سکھ صحیفے گروگرنتھ صاحب میں موجود ہیں جنہیں اشلوک کہا جاتا ہے۔ ایسی شاعری جو فلسفہ سے لبریز ہو اشلوک  کہلاتی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ بابا گرونانک  فکری  اعتبار سےمسلمان تھے اوران کی کتاب گرو گرنتھ صاحب  جو گرمکھی میں لکھے گئے اشعار کا مجموعہ ہے کے پہلے  شعر میں خدا اور رسول کی حمد و ثنا  موجود ہے ۔ مورخین لکھتے ہیں کہ  بابا گرونانک گرنتھ صاحب کی تصنیف کیلئے دو مرتبہ پاکپتن بھی تشریف لائے  تھے اورحضرت دیوان ابراہیم (فرید ثانی ؒ  متوفی  1552ء) جو کہ بابا  فریدؒ کے روحانی خلیفہ اور اولادوں  میں سے تھے اور ان کی  صحبت میں ایک عرصہ گزارا تھا۔ 

 

تاریخ مشائخ چشت میں درج ہے کہ  پندرھویں صدی  میں اسلام کے اثر سے  ہندووں میں مذہبی رہنما پیدا ہوئے، ان میں بابا گرونانک (1469 ۔ 1539 )  کی شخصیت خاص اہمیت  رکھتی ہے۔ وہ بڑے وسیع مشرب انسان تھے، واحدنیت ، اخلاقی زندگی اور سماجی مساوات پر ان کا ایمان تھا۔ مسلمان بزرگوں  اور صوفیہ  کی صحبت  سے کافی مستفیض ہوئے تھے۔ پاک پٹن  میں حضرت بابا فرید گنج شکر ؒ  کے سجادہ نشینوں کی صحبت سے کافی  فائدہ اُٹھایا تھا۔  جب تک سکھوں کی تحریک خالصتاً مذہبی رہی، مسلمان بادشاہوں نے  اس کے رہنماوں کے ساتھ بڑی  عزت  اور احترام  کا برتاو کیا۔ جب اس نے سیاسی  رنگ  اختیار  کرلیا تو  مغل بادشاہوں  کے تعلقات کی نوعیت  بھی بدل گئی۔ مشہور ہے کہ  جب  بابر  ہندوستان آیا تو ، بابا گرونگ کی خدمت میں عقیدت مندانہ  حاضر ہوا تھا۔ بابا گرونانک   نے اس ہندوستان کی فتح  اور سات  پشتوں  تک اس کی نسل کی حکمرانی  کی دعا دی تھی۔

 

سکھوں کی مقدس کتاب گرو گرنتھ صاحب میں   خدا تعالیٰ کی توحید  اور  اس کی صفات کاملہ کو خاص طور پر بیان کیا گیا ہے۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ گروگرنتھ صاحب  کا خاص اور بنیادی مضمون  توحید باری تعالیٰ ہے۔ یہ درست ہے کہ  بعض بھگتوں  اور بھاٹوں وغیرہ کے کلام سے  مشرکانہ عقائد  اور خیالات کی تائید ہوتی ہے۔ تاہم جہاں تک بابا گرو نانک  کے کلام ونظریات کا تعلق ہے وہ مشرکانہ  خیالات پر مبنی نہیں تھے  بلکہ  شرک کی تعلیم سے بہت بلند و بالا ہیں۔

 

بابا گرو نانک صاحب نے اپنے کلام میں  متعدد مقامات پر خدا تعالیٰ کی توحید کو  اپنایا ہے  اور اس کی صفات کاملہ کو بیان کیا ہے ۔ بابا گرونانک  نے اس امر کی وضاحت بھی کی ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا خالق  و مالک ہے اس ہی لیے وہی  عبادت کے لائق ہے، اس کے علاوہ کسی کی عبادت کرنا سراسر  نا جائز اور شرک ہے۔ باباگرونانک نے توحید کے اظہار کے علاوہ  اللہ تعالیٰ پر توکل کی تعلیم   بھی فرمائی اور آپ کی تعلیمات کے مطابق بھی  اللہ کے علاوہ کسی پر توکل کرنا  سراسر ناجائز ہے۔  انسان کو ہر حال میں  اپنے رب پر ہی توکل کرنا چاہیے۔ اس کی معرفت حاصل کرنے سے ہی انسان کو حقیقی خوشی  اور راحت حاصل ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ  ہر اس شخص کے گناہ معاف کردیتا ہے  جو صدق دل سے توبہ کرتا ہے  ۔ گرو  گرنتھ صاحب میں  اس امر کی وضاحت بھی کی گئی ہے کہ  ہر چیز میں اللہ تعالیٰ کا جلوہ  موجود ہے۔ جب کسی شخص کو  ہر چیز میں اللہ کا جلوہ نظر آنا شروع ہوجائے تو  وہ حقیقی معنیٰ میں موحد کہلانے کا مستحق  ہوجاتا ہے اور یہ مقام  انسان کو  محض  اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی حاصل ہوتا ہے۔

 

گروگرنتھ صاحب میں  ہر اس شخص کو  گیانی قرار دیا  گیا ہے جو  توحید کا پرستار ہے اور خدا تعالیٰ کی عبادت میں  کسی دوسرے کو شریک نہیں ٹہراتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے جسے قبول فرمالیا ہو اور جس کے  دل میں ہی ہر دم  اللہ تعالیٰ کی یاد رہتی ہے۔ گرو گرنتھ میں نماز کے بارے میں درج ہےکہ "بے نماز کتے تیرا یہ طریقہ اچھا نہیں کہ تو کبھی بھی پانچ وقت نماز ادا کرنے نہیں جاتا۔اے فرید صبح اٹھ اور نماز پرھنے کے لیے وضو کر" ۔ جو شخص اپنا سر خدا تعالیٰ کے حضور نہیں جھکاتا اسے ڈھر سے الگ کردینا چاہیے۔

 

گروگرنتھ صاحب  میں درج  تعلیمات کے مطابق خدا تعالیٰ کی عبادت کے ساتھ ساتھ دوسروں کو حاجت روا خیال کرنا  اور بتوں کی پرستش کرنا  شرک ہے۔  جو لوگ پتھروں کی مورتی کو خدا تعالیٰ کا  شریک  ٹھراتے ہیں وہ گناہ گار  اور نمک حرام ہیں۔ دیوی   اور دیوتا کی پوجا  لاحاصل ہے، نجات تو صرف خدا تعالیٰ  کی عبادت کے ذریعے  حاصل ہو سکتی ہے۔ گرو گرنتھ صاحب میں  کئی مقام پر ملائکہ کے وجود کو ماننا  بھی ضروری قرار دیا ہے اور ان فرشتوں کا وجود  غیر مادی اور لطیف قراردیا ہے۔ فرشتے اللہ تعالیٰ اور بندوں کے درمیان ایک لطیف واسط ہیں۔ گروگرنتھ صاحب میں قرآن شریف کا بھی ذکر کیا گیا ہے اور بیان کیا گیا ہے کہ یہ کل زمانے کے لیے  قابل عمل کتاب ہے  اس کےعلاوہ دوسری پوتھیاں اور  جملہ پورانِ پنڈت  منسوخ ہوچکے ہیں،  قرآن شریف  ہی تمام کتب سماویہ  سے مقدس ہے۔  

دور شریف کی برکات کے حوالے سے گروگرنتھ میں  درج ہے کہ  پیر پیغمبر سالک ، شیخ مشائخ  قاضی و ملاں اور خدا رسیدہ درویش جو درود شریف پڑھتے ہیں ان کو خدا تعالیٰ کی طرف سے  بہت برکت ملتی ہے۔  جن لوگوں کے دلوں میں رسول اکرم کی عظمت  اور عزت نہیں وہ آٹھوں پہر بھتکتے پھریں گے اور مرنے کے بعد بھی ان کا ٹھکانہ جہنم ہوگا۔ 

حضرت شاہ سید محمد ذوقی ؒ کے ملفوظات  تربیت العشاق میں درج ہے کہ  حقیقت یہ ہے کہ   بابا گرونانک مسلمان تھے ۔ سکھوں کے پاس بابا گرونانک  کے وقت کا  ایک پردہ  ہے جس پر کلمہ طیبہ  لکھا ہوا ہے۔ انہوں نے حج  بھی کیا تھا، چونکہ استغراق کی حالت  رہتی تھی  ایک دفعہ کعبہ کی طرف پیر پھیلا کر سوگئے۔ لوگوں نے اعتراض  کیا تو آپ نے فرمایا " اچھا جس سمت خدا نہ ہو  میرے پیر اسی طرف کردو" ۔  حضرت شاہ محمد ذوقی ؒ  فرماتے ہیں  سکھوں کو چاہیے تھا  کہ اپنے آپ کو اسلام کا ایک فرقہ سمجھتے  کیونکہ درحقیقت  بابا گرونانک مسلمان تھے، لیکن اس فرقہ نے  تو مسلمانوں سے دشمنی  اور ہندوں سے  سازباز کرلی ہے۔  حالانکہ  بابا گرونانک  کی تعلیمات اور  ہندو ازم میں  زمین آسمان کا فرق ہے، ہندو بت پرست ہیں،جب کہ گرونانک موحد تھے۔ غلبہ استغراق کی وجہ سے  وہ بال نہیں کٹواتے تھے ، اس لیے ان کے معتقدین  بھی بال نہیں کٹواتے ہیں۔

مسلم صوفیاء میں بھی  سلسلہ  مداریہ  کی ایک شاخ جو  سلسلہ ملنگاں کہلاتی ہے جس  کے بانی  خلیفہ قطب مدار حضرت  سید  جمال الدین   جان من جنتیؒ  (وصال  951 ہجری  مزار اقدس  بہار پٹنہ) ہیں،  جو حضور غوث پاک کے حقیقی بھانجے تھے، اس سلسلے کے وابستگان بھی بال نہیں کٹواتے ہیں۔  بابا گرو نانک بنیادی طور پر  حضرت سید مراد بخاری  المعروف نو لکھ ہزاریؒ جن کا سلسلہ طریقت  مداریہ سہروردیہ تھا کے مرید تھے۔ حضرت سید مراد بخاری  المعروف نو لکھ ہزاریؒ کے پیرو مرشدسلسلے مداریہ کے بزرگ  حضرت شیخ مٹھن مداری کنتوریؒ   تھے اور آپ کو سلسلہ سہروریہ کا فیض  حضرت  شیخ عبدالجلیل چوہڑ بندگیؒ سے حاصل ہوا تھا۔  اغلبا ہے کہ مداریہ سلسلے  کے زیراثر بابا گرونانک  نے بھی بال نہ کٹوانے  کی روایات کی پاسداری کی ہوگی۔  حضرت بابا گرونانک نے چار سال بغداد شریف میں بھی قیام کیا تھا۔  

حضرت بدیع الدین قطب مدار کی سوانح عمری میں درج ہے کہ  حضرت سید جمال الدین جان من جنتیؒ کے بال بھی بڑے بڑے تھے اور آپ کے بال نہ کٹوانے کی وجہ  یہ تھی کہ حضور مدار پاک ؒ نے عہد طفلی میں   اپنا دست اقدس آپ کے سر پر  رکھ کر دعا فرمائی تھی۔  ایک وجہ یہ بھی بیاں کی جاتی ہے کہ  حضور شاہ مدارؒ نے  حضرت سید جمال الدین جان من جنتیؒ کو اجمیر میں ایک پہاڑ پر ذکرحق اور اشغال حبس دم میں بٹھا دیا تھا،  یہاں آپ کے سر سے خون نکلنے لگا  جب حضور  شاہ قطب مدار کو اس کی اطلاع ملی تو آپ نے جان حضرت جان من جنتیؒ  کے سر پر اپنے دست مبارک سے مٹی ڈال دی تھی جس سے خون کا بہنا روک گیا۔ ملنگان عظام سلسلہ مداریہ اسی باعث اپنے سر سے بال جدا نہیں کرتے۔  والسلام۔

حاصل مطالعہ: محمد سعید الرحمنٰ، ایڈوکیٹ۔

 


Comments

Popular posts from this blog

سلسلہِ صندلیہ . حضرت علی محمد المعروف میاں صندل شاہ رحمتہ اللہ علیہ

جون ایلیا ایک تعارف