حضرت ڈاکٹرشاہ محمد حسن معشوق الہیٰ چشتی صابری قادری حنفی قدوسیؒ

 

پاک وہند میں سلسلہ چشتیہ صابریہ کا  ارتقا

مخدوم ِ زمن حضرت ڈاکٹرشاہ محمد حسن معشوق  الہیٰ  چشتی صابری قادری حنفی قدوسیؒ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مرتبہ: محمد سعید الرحمنٰ، ایڈوکیٹ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



حضرت بابا فرید گنج شکر ؒ کا وصال سن  1265ء  میں ہوا۔  آپ کے وصال کے بعد آپ کے خلفا سے یہ سلسلہ فروغ پایا  جو سلسلہ نظامیہ چشتیہ اور سلسلہ صابریہ چشتیہ کے نام سے مشہور  ہوئے۔ سلسلہ چشتیہ صابریہ کے بانی حضرت  مخدوم علاو الدین صابر کلیری کے حالات آپ کے وصال کے بعد کسی مرید یا  تذکرہ نگار نے  نہیں مرتب کیے  اور اس سلسلے میں تاریخ بالکل خاموش ہے۔ البتہ   سترھویں اور آٹھارھوں صدی میں   آپ کے حالات بڑھی تفصیل سے ملتے ہیں جن کا ماخذ کشف یا سنی سنائی روایات ہے۔ اس ہی ضمن میں  حضرت علاوہ الدین صابر کلیری ؒ  کے حالات پر ایک جامع کتاب حضرت ڈاکٹرشاہ محمد حسن چشتی صابری قادری حنفی قدوسیؒ کی بھی   تالیف ہے جو "حقیقت گلزار صابریہ "کے نام سے موسوم ہے جو آپ  نے  تین سو  مکاتیب نطاب یعنی کتب معغونہ سے چوبیس برس میں بحکم ِباطن اخد کرکے  ترتیب دی تھی جس کا سن اشاعت اول  سن 1304 ہجری  1887ء ہے۔   

تاریخ تصوف  کے مطابق بانی سلسلہ چشتیہ صابریہ حضرت علاوہ الدین صابر کلیریؒ کے  صرف ایک ہی  خلیفہ  حضرت شمس الدین ترک (وصال  1318ء) تھے اور ان کے خلیفہ اعظم  حضرت شیخ جلال الدین کبیر الاولیا پانی پتی ؒ تھے جن سے اس سلسلے کو   وسعت  ملی جن کی وفات سن  1364 ء میں ہوئی اور آپ کے خلیفہ  حضرت شیخ احمد عبد الحق  توشہ ردولویؒ نے  ردولی ضلع بارہ بنکی میں ایک صابریہ خانقاہ قائم کی جو سلسلہ صابریہ کی پہلی خانقاہ کہلائی جاتی ہے۔

 شیخ عبد الحق ردولوی ؒ  نے  837 ہجری  (سن 1437ء)میں وصال فرمایا، ان کے بعد اُن کے فرزندحضرت   شیخ عارف   اس خانقاہ کے سجادہ نشین ہوئے۔ حضرت شیخ عارف ؒ کے بعد شیخ محمد ردولوی سجادہ نشین ہوئے اور آپ نے ہی  سلسلہ  چشتیہ نیزاسی واسطے سےانھیں سہروردیہ،نقشبندیہ اور قادریہ میں بھی اجازت حاصل تھیصابریہ کو شمالی ہندوستان میں  ترقی دی۔ حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہی ؒ آپ ہی  کے مرید و  خلیفہ ہیں۔  عبد القدوس گنگوہی کو چاروں سلاسل طریقت میں اجازت حاصل تھی، سلسلہ چشتیہ نظامیہ میں آپ کو حضرت  حضرت شیخ درویش بن قاسم اودھی ( خلیفہ حضرت سید بڈھن بہرائچی) سے اجازت حاصل تھی۔ 

حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہیؒ  ابتدا میں ردولی میں ہی مقیم رہے پھر آپ سن 1491 ء میں  شاہ آباد آگئے  اور  آخری عمر میں گنگوہ  (ضلع سہارنپور)تشریف لے آئے اور وہیں 1537ء میں وفات پائی۔ آپ کے خلفا میں سے  حضرت مجددالف ثانی ؒ کے والد حضرت شیخ عبدالاحدؒ، حضرت شیخ  جلال الدین تھانیسری اور حضرت شیخ عبدالغفور اعظم پوری   کافی شہرت کے حامل ہیں۔

حضرت شاہ محمد حسن چشتی صابری  سلسلہ عالیہ صابریہ کی ان شخصیات میں شامل ہیں  جن سے سلسلہ  صابریہ کی  پاک وہند میں بہت ترویج ہوئی۔آپ کا سلسلہ صابریہ میں تواسل  حضرت عبد القدوس گنگوہی کے خلیفہ  حضرت شیخ جلال الدین تھانیسری ؒ سے ہے۔ آپ کے والد کا نام  حکیم حافط عبداللہ   بن شیخ نعمت اللہ تھا جوحضرت عبدالقدوس گنگوہی کی اولاد میں سے ہیں اور  آپ کے والد  حضرت  عبدالکریم  المعروف ملا فقیر اخوند   رام پوری کے برادر حقیقی کے پوتے تھے۔ حضرت شاہ محمد حسن چشتی صابری   کا شمار  قطب الارشاد حضرت امیر شاہ المعروف امیر دوجہاںؒ کے خلفاء و جانشین میں ہوتا ہے اور درمیان میں دو  واسطوں کے بعد آپ کا سلسلہ طریقت قطب الثقلین، غوثِ دارین، امامِ چشتیہ  مجددِ صابریہ حضرت ملا فقیر اخواند قدس سرہ العزیزسے جا ملتا ہے جن کے ہاں چودہ خانوادوں  کی فیض بخش نسبت مختلف صورتوں سے ہے ۔

حضرت میاں محمد امیرؒ     کو روحانیت کے اعلیٰ درجہ پر فائز ہونے کے علاوہ   عربی و فارسی زبان پر بھی کافی  دسترس حاصل تھی ۔  آپ کی کرامت و تصرفات بے شمار ہیں ۔ آپ نہایت با اثر  اور خدا پرست درویش تھے۔ بہت سے لوگ مرید ہوئے اور اکثر کو خلافت بھی ملی۔ آپ کی  شہرت یافتہ تصانیف  میں  "رسالہ کشفیہ  "بزبان فارسی ہے(یہ رسالہ کتب خانہ  رام پور میں موجود ہے)۔ اس رسالہ میں آپ نے  سن 1247 ہجری (1831ء) میں چالیس روز کا  چلہ کیا تھا اس چلہ میں  بوسیلہ آپ کے پیر و مرشد حضرت غلام شاہ  معصوم ؒ جو حالات منکشف ہوئے تھے ان کو درج کیا ہے۔  اس ہی طرح آپ کی تالیف کردہ "دعوت دعائے سیفی"   بزبان فارسی ہے  یہ بھی ایک قلمی رسالہ ہے، اس کا نام "دستورالعمل" بھی ہے۔ یہ رسالہ چار فصل اور ایک خاتمہ پر مشتمل ہے۔ خاتمہ میں  لکھا ہوا ہے کہ مجھے  میرے پیر ومرشد نے  دعوت سبع میں جو  تعلیم فرمایا ہے اکثر حصہ میں نے اس رسالہ میں لکھ دیا ہے۔  علاوہ ازین آپ کی ایک اور تصنیف" تعلیم الخواص"  بزبان  فارسی ہے ،  یہ ایک ضغیم کتاب ہے  جو ایک ہزار صفحات پر مشتمل ہے ۔ اس کتاب میں آپ نے اپنے طریقہ کی مکمل اور جامع تعلیم  تحریر کی  ہے۔

حضرت شاہ حسن صابری ؒ کے مریدوں کی ایک  کثیر تعداد تھی ۔ بہت سے مرید شب و  روز آپ کی خدمت میں رہ کر اکتساب فیض کیا کرتے تھے۔آپ کی خانقاہ میں نصف  شب کو ذکر جہر کی محفل منعقد ہوا کرتی تھی جس کی برکت سے اس محلے کے اکثر یت تہجد گزار ہوگئی تھی۔ حضرت شاہ حسن چشتی صابری ؒ   کواردو شاعری کا بھی ذوق تھا اور آپ کا شمار  دبستان رام پور کے جید شعراء اکرام میں ہوتا تھا۔ آپ نے پہلے اپنے ماموں  حکیم محمد حنیف رضا سے اصلاح لی پھر اپنے مرشد سے   اصلاح لینے شروع کردی تھی۔ آپ کئی کتب کے مصنف بھی ہیں ۔ آپ نے   کلمہ  طیبہ کی شرح  بنام "رسالہ  اسرار واحدنیت" بزبان فارسی  1303 ھ میں لکھی اس کے علاوہ  "حقیقت گلزار صابری"  اور" تواریخ آئینہ تصوف"  بھی آپ کی تصانیف  اور"  دیوان محمدی" (مجموعہ نعت شریف)۔ آپ کا وصال بروز  جمعہ  وقتِ تہجد مورخہ  26 شعبان  1313 ہجری  (11 فروی 1898ء )کو ہوا ،   اور  آپ کی تدفین آپ کی اپنی خانقاہ میں عمل میں لائی گئی۔

 سلسلہِ قادریہ میں افضل ترین سلسلہ "سلسلۃ الذہب "ہے۔ اس سلسلہ میں حضرت شاہ حسن صابری ؒ  (وصال 1313ھ)  اور   حضرت غوث الاعظم محی الدین عبد القادر الگیلانی  رضی اللہ (وصال 11 ربیع الثانی 561 ہجری) کے درمیاںصرف  پانچ(5) واسطےہیں یعنی۔

حضرت غوث الاعظم شیخ  محی الدین عبدالقادرالگیلانی رحمتہ اللہ علیہ

1۔حضرت  کبیراولیاءشاہ دولہ رحمتہ اللہ علیہ ۔

2۔حضرت منورعلی شاہ عمردرا رحمتہ اللہ علیہ ۔ 15 ربیع الثانی 1199  ہجری

3۔حضرت عبدالکریم عرف ملافقیرا ٓخون رامپوری رحمتہ اللہ علیہ ۔ یوم وصال  2 شعبان المعظم سن 1206 ہجری نبوی

4۔حضرت  غلام شاہ معصوم قطب زمانی  رحمتہ اللہ علیہ7  جمادی الاخر 1243ہجری کو وصال ہوا ۔ 

5۔حضرت  امیردوجہاںمیاںمحمدامیرشاہ قطب ارشاد رحمتہ اللہ علیہ  ۔ 23صفر 1290 ہجری

6۔حضرت  شاہ محمد حسن  معشوق الہی  رحمتہ اللہ علیہ  26 شعبان 1313 ہجری

(ا س قربِ اقربیت  کی   اصل وجہ  درازیِ عمر حضرت سیدنا منور علی شاہ   رضی اللہ عنہ(مزار اقدس الہٰ آباد )  ہیں جن کی عمر مبارک تقریباً چھ سو سال  سے زائدتھی۔آپؒ کوبیعتِ توبہ کا شرف28سال کی عمر میں براہ ِراست دستِ مبارک حضورغوث پاکؒ  سےحاصل ہوا تھا مگر آپ کو خلافت ارشاد  حضور غوث پاک کے وصال کے 16 سال بعد حضرت سیدناکبیراولیا شاہ دولہؒ  خلیفہ مجاز  حضور غوث الاعظمؒ نے مرحمت فرمائی)۔

 

ویسے تو حضرت شاہ حسن صابری ؒ  کے کئی خلفاء ہیں  جن میں  معروف نام   حضرت شاہ محمد فاروق  ولد مولوی  محمد حسن خاں  ہے ۔ حضرت شاہ محمد فاروق  کو ضروری تعلیم سے  فارغ ہوکرصحبت ِمشائخ کا شوق ہوا،  آپ  حضرت ڈاکٹر محمد حسن صابری ؒسے بیعت  ہوئے اور   بعد اکتساب  فیض  صاحب اجازت و خلیفہ  ہوئے۔ آپ کا لباس صابری رنگ کا از سریا پا تھا۔ آپ کی ذات سے چشتیہ صابریہ طریقہ کی اشاعت بدرجہ کمال ہوئی ۔ آپ اخبار "دبدبہ سکندری" کے مالک تھے اور ارشاد وتلقین کے علاوہ  مطبع کا کام بھی کرتے تھے۔ 13 رمضان سن 1340 ہجری کو آپ کا وصال  ہوا اور  بنگلہ آزاد خان کے محلے میں  اپنی خانقاہ میں مدفن ہوئے۔پیر طریقت  حضرت سید نوازش علی شاہ ؒ  گڑھی شاہو، لاہور پاکستان آپ  کے ہی خلیفہ مجاز تھے جن کے خلفا کی بھی کثیر تعداد ہے اور یہ سلسلہ پاکستان میں بھی آپ کی اولاد و خلفاء سے جاری و ساری ہے۔  والسلام

حاصل مطالعہ: محمد سعید الرحمن ، ایڈوکیٹ۔

کتابیات: 1۔  تاریخ مشائخ چشت (خلیق احمد نظامی) 2۔ رودِ کوثر (شیخ محمد اکرام) 3۔ تذکرہ کاملان رام پور (احمد علی شوق) 4۔ حقیقت گلزار صابریہ ( حضرت محمد شاہ حسن صابریؒ)

 

 

           

 

 

 

Comments

Popular posts from this blog

دعائے حزب البحر منسوب بہ حضرت امام شیخ ابو الحسن الشاذلیؒ

حضرت عبد الکریم رحمتہ اللہ علیہ المعروف ملا فقیر اخوند، رام پوری / Hazart Abdul kareem Mulla Faqeer Akhwand

خواب کی تعبیر ( تعبیر رویا)