خلوت نشینی (خلوت در انجمن)


تصوف میں خلوت نشینی (خلوت در انجمن)

بظاہر مخلوق میں شامل رہنا اور بباطن مشغول ِ بحق ہونا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حاصل مطالعہ : محمد سعید الرحمنٰ، ایڈوکیٹ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تصوف میں خلوت سے مراد رہبانیت اختیار کرنا نہیں ہے بلکہ غیر اللہ کے خیال سے دل کو خالی کرکے اللہ کی محبت میں مسٹغرق ہونا ہے۔ باالفاظ دیگر محبت الہیٰ میں اپنی ہستی ( نفس ) سے بیگانہ ہونا ہے۔ صوفیا ئے نقش بند جس کو خلوت در انجمن سے بھی تعبیر کرتے ہیں یعنی ایک سالک کا بظاہر مخلوق میں شامل رہنا اور بباطن مشغول ِ بحق ہونا ۔

اہل ِ تصوف کے ہاں خلوت سے ایک مراد یہ بھی ہے کہ بندے اور مولیٰ میں وہ راز و نیاز و اسرار کی باتیں ہونا جس کی خبر غیر کو نہ ہو ۔

تعلیمات تصوف کے مطابق خلوت اہلِ صفا کی صفات میں سے ہے اور گوشہ نشینی وصال اور قرب الی اللہ کی نشانی ہے۔ ایک سالک کے لیے ابتداً لوگوں سے علیحدگی ضروری ہے پھر بعد میں کامل خلوت اختیار کرنا تاکہ اللہ تعالیٰ سے انس حاصل ہو۔ خلوت اور گوشہ نشینی درحقیقت بُری خصلتوں سے کنارہ کشی کا نام ہے۔گوشہ نشینی کی غرض وغایت اپنی صفات کو تبدیل کرنا ہے اس سے مراد اپنے باطن سے دوری ہرگز نہیں۔ اہل تصوف کے ہاں صاحبِ معرفت وہی کہلاتے ہیں جو مخلوق کے ساتھ جڑے رہیں مگر باطن کے اعتبار سے الگ تھلگ ہوں۔

بالفاظ دیگر خلوت نام ہی لوگوں کے ہجوم میں داخل ہوکر اپنے باطن کو لوگوں کی مزاحمت سے محفوظ رکھنے ، اپنے نفس کو گناہوں سے علیحدہ رکھنے اور باطن کا تعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ قائم کرنے کا نام ہے۔ بقول اہلِ تصوف جس نے خلوت کو محبوب رکھا اس نے اللہ تعالیٰ کو محبوب رکھا۔ جب کہ رہبانیت محنت و مشقت سے جی چرانے اور خاندانی زندگی سے انکار کا نام ہے جس کے نتیجے میں انسانی زندگی ختم ہوجاتی ہے اور اسلام میں رہبانیت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

حضرت شیخ یحیی بن معاذ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اگر تمہیں خلوت کے ساتھ انس ہے تو تم خلوت کو ترک کردو تمھارا یہ انس جاتا رہے گا۔ اگر تمھیں خلوت میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ انس ہوگا تو خواہ صحرا ہو یا جنگل تمھارے لیے تمام جگہیں برابر ہو ں گی۔ خلوت میں اللہ تعالیٰ سے انس پیدا ہوجانا عطائے خداوندی ہے، اہل تصوف کے ہاں یہ مشہور ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کو گناہ کی ذلت سے نکال کر اطاعت کی عزت سے سرفراز کرنا چاہتا ہے تو اسے خلوت و گوشہ نشینی سے انس عطا فرماتا ہے اور قناعت کے ساتھ مستغنی کردیتا ہے اور اسے اس کے نفس کے عیوب دکھا دیتا ہے۔ جس شخص کو یہ چیزیں میسر ہوگئیں اسے دنیا و آخرت کی بھلائی حاصل ہوگی۔ خلوت سے مراد ہرگز ترک دنیا اور رہبانیت نہیں ہے بلکہ قرآن و سننت کے مطابق معاملاتِ زندگی کی ادائیگی کرتے ہوئے افراط و تفریط سے بچنا ہے۔ والسلام۔

(محمد سعید الرحمنٰ، ایڈوکیٹ) 

Comments

Popular posts from this blog

سلسلہِ صندلیہ . حضرت علی محمد المعروف میاں صندل شاہ رحمتہ اللہ علیہ

جون ایلیا ایک تعارف