حضرت مولانا سراج الاسلام رحمتہ اللہ علیہ





حضرت مولانا سراج الاسلام رحمتہ اللہ علیہ

سلسلہ قادریہ نقشبندیہ   مجددیہ کے ایک صاحبِ ارشاد بزرگ

!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!
مرتبہ: محمد سعید الرحمنٰ، ایڈوکیٹ

!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!

حضرت  مولاناسراج الاسلام ؒ    کا شمارسلسلےقادریہ نقشبندیہ مجددیہ کے صاحبِ ارشاد اولیاِء  میں ہوتا ہے، صاحبِ ارشاد    ایسے پیر طریقت کہلاتے ہیں جو خود بھی واصلِ بحق ہوتے ہیں اور اپنے روحانی فیض سے  دوسروں کو بھی منزل سلوک طے کراکے وصالِ بحق کے درجہ تک پہنچا سکتے  ہیں اور جن کا فیض ہر دور میں جاری و ساری رہتا ہے۔

 حضرت  مولاناسراج الاسلام کا سلسلہ طریقت دو(2) واسطوں یعنی   (1) آپ کے پیر ومرشد حضرت میاں سبحان شاہ ؒ   اور (2)  حضرت  سید احمد علی شاہ ؒ سے ہوتا  ہوا  پاک و ہند کے معروف  صوفی بزرگ حضرت  محبوب الہیٰ  مولانا شاہ  درگاہی ؒ  رام پوری سے جا ملتا ہے۔اس  سلسلہ عالیہ جس میں کئی سلاسل کا فیض شامل ہےاور اس سلسلے کے امام  مجدد الف ثانی  حضرت شیخ احمد فاروقی  قدس سرہ العزیز کو متصور کیا جاتا ہے۔  حضرت مجددثانی ؒ   نے سلسلہ چشتیہ کی تعلیم   وخرقہِ خلافت اپنے والد  سے حاصل کیا تھا  اور سلسلہ قادریہ  میں آپ کو  خرقہِ خلافت حضرت شیخ  سکندر کیتھلی ؒ  سے حاصل ہواتھا ، جب کہ سلسلے  نقش بندیہ کی تعلیم و خرقہ ِخلافت  آپ کو حضرت باقی باللہ  رحمتہ اللہ علیہ سے حاصل  ہوئی تھی، مزید برآں  آپ کو حضرت باقی باللہ رحمتہ اللہ کے وصال کے بعد سلسلہ نقش بندیہ  کی سربراہی کا شرف بھی حاصل ہوا۔   یوں   اس مجموع ِسلاسل  میں سلسلہ قادریہ سے سے وابستگانِ مشائخ ِطریقت و سالکین قادریہ نقش بندیہ  مجددیہ کہلاتے  ہیں جن کا  غلبہ ِ حال قادری  ہوتاہے اور تعلیماتِ سلوک نقش بندیہ مجددیہ  ہیں جب کہ سلسلہ چشتیہ  کی نسبت بھی فیض رساں ہے مگر اس سلسلے سے وابستگان سماع  کی بجائے اپنا زیادہ  وقت  مراقبے میں  بسر کرتے ہیں اور   منازل ِسلوک میں سماع کی حرمت کے قائل  بھی ہیں۔

حضرت میاں سراج الاسلام ؒ  کے والد گرامی کا نام  حضرت مولوی یار علیؒ تھا  جومتوطن   موضع  رسول آباد   ، ضلع فرخ آباد ، ہندوستان تھے۔ موضع رسول آباد  (آپ کے جد امجد حضرت قاضی  عبدالرسول  کے نام سے ہی  موسوم ہے  ) ۔ آپ نسباً صدیقی ہیں اورآپ کے جدِ امجد حضرت قاضی عبدالرسول ؒ     عہد عالمگیری میں ضلع فرخ آباد کے شاہی  قاضی بھی رہے تھے   اور یہ خاندان ہمیشہ سے   ہندوستان میں علم و فضل، معرفت و خدا شناسی،  اشاعت اسلام   میں شہرہ آفاق رہا ہے اور ساتھ ہی اس خاندان کو ہر ادوار میں  ریاست  کے انتظامی عہدوں و امارات  ِقضایا میں خاص مقام  و اہمیت حاصل رہی تھی۔

اس ہی خاندان کے ایک  بزرگ حضرت  مولوی قمر االاسلام ؒ    (برادرِمعظم  حضرت  مولاناسراج الاسلام ؒ  ) ایسٹ انڈیا کمپنی  کے دورِ حکومت میں  آگرہ  جو ہندوستان کے اضلاعِ مغربی و شمالی  و اودھ  کا صدر مقام  تھا   بسلسلہ ملازمت  ہائی کورٹ سے  منسلک ہوکر   تشریف لائے آئے تھے۔ آپ کی آگرہ میں آمد سے قبل   جامع مسجد آگرہ   جو ایسٹ انڈیا  کمپنی کے کمانڈر ضلعِ آگرہ  کے احکام کے تحت اس وقت کے نزاعی حالات  کو مدنظر رکھتے ہوئے  مقفل کردی   گئی تھی کو آپ نے  اپنے تدبر  و اثر و روسوخ کو استعمال کرتے ہوئے قانونی چارہ جوئی کرکے  اس کے دروازے مسلمانانِ  آگرہ کی عبادت گزاری کے لیے کھلوا ئے  اور  آپ ہی  اپنی ان کاوشوں کی ستائش   و   علم و عرفان  و خاندانی وقار وتقدس کی بناء پر  بحکم   حاکمِ   ضلع آگرہ    اس مسجد کے امام و  خطیب ومتولی مقرر ہوئے ۔

زمانہ غدر 1857 کی جنگ آزادی  کے  وقت  یہ مسجد قلعہ کے روبرو  واقع ہونے کی بنا ء پر     فوجی مصلحتوں کے تحت  ایک بار  پھر مقفل کردی گئی تو   حضرت مولوی قمر الاسلام ؒ  نے اس کو    دوبارہ کھلوانے کے لیے ضلع آگرہ    کے حکام  کے علاوہ گورنر جنرل  کی عدالتوں سے رجوع کیا اور  انتھک قانونی چارہ جوئی کے بعد اس کو دوبارہ  ایسٹ اندیا گورنمنٹ سے واہگذار کرایا، اس مرتبہ  اس مسجد کا انتظام   آپ کی زیر سرپرستی  ایک لوکل کمیٹی  کے سپردکردیا گیا  تھامگر متولی اور امام آپ  ہی مقرر  ہوئے۔ جب   ہائی کورٹ آگرہ سے الہ آباد منتقل ہونے لگا  تو  آپ کے یہ صاحبِ تذکرہ برادرِخورد     حضرت  مولانا   سراج الاسلام ؒ خلیفہ حضرت سبحان  شاہ ؒ (پیلی بھیتی) امام مسجد ہذا مقرر ہوئے۔ حضرت مولانا  سراج الاسلام ؒ   نے باقاعدہ     علوم ظاہری  کی تکمیل کی تھی۔ آپ  ایک بڑے جید عالم ،  صاحب اجتہاد مفتی،    خوش لحن و  ماہر فن قاری تھےاور فن طب میں  بھی  اعلیٰ  دستگاہ  رکھتے تھے ،ایک عالمِ باعمل اور صاحبِ قلم   و صاحبِ نسبت بزرگ  ہونے کی بناء پر اہل آگرہ نے آپ کے علم ِظاہری و  فیوض ِ باطنیہ  سے  بہت فیض پایا۔

مولانا  سراج الاسلام ؒ     عنفوان شباب میں   عملیات و فنِ تعویز نویسی میں بھی بہت مہارت رکھتے تھے مگر اس فن میں کسی بزرگ  کی روحانی توجہ  حاصل نہ ہونے کی بناء  پر آپ کی طبعیت مکدر رہا کرتی تھی  اور عبادات میں خشوع  وخضوع حاصل نہیں ہوتا تھا۔ اس سلسلے میں آپ کے برادرِ مکرم نے آپ کوفقرا ء سے ملنے اور ان کی کامل صحبت حاصل کرنے کی ہدایت کی اور آپ اس تلاش میں لگے رہے، آخر کار حضرت میاں سبحان شاہ ؒ سے آپ کو  رسائی  حاصل ہوئی اور حضرت نے آپ کو اپنے سامنے وضو کراکر   اپنے سامنےنماز پڑھوائی تب کہیں جاکر  آپ کی طبعیت میں  قرار وسکون  آنا شروع ہوااورجلد ہی آپ حضرت سبحان شاہ ؒ  دستِ حق  پر بیعت فرماکر آپ کے حلقہ ِارادت میں شامل ہوگے۔ مرید ہوکر آپ نے اپنے پیر ومرشد  کے حکم کے  مطابق و آپ کی زیر  نگرانی   دشوار ریاضتیں ،کٹھن عبادتیں و طولانی چلہ کشیاں کیں، مدتوں روزے رکھے یہاں تک کے اپنے پیر ومرشد کے منظور نظر قرار پائے اور  خرقہ خلافت سے بھی سرفراز ہوئے۔

آپ شبِ بیدار  تھے، آپ کا معمول تھا کہ نمازِ صبح سے فارغ ہوکر تلاوت کلام مجید فرماتے۔ بعدہُ   اپنا وقت علماء   و طلباء کی صحبت میں بسر  فرماتے تھے۔ نماز ظہر کے بعد  مطالعہ یا تصنیف و تالیف  آپ کا  معمول رہا تھا۔ نماز ِ عشاء کے بعد   شاہی جامع مسجد یا  آپ کی قیام گاہ پر  حلقہ ذکر  منعقد  ہوا کرتا تھا جس میں آپ اپنے مریدین کو رشد و ہدایت سے بھی  سرفراز فرمایا کرتے تھے۔ قائل سماع تھے  مگر  بے مزامیر کے سماع سنتے تھے۔ اکل حلال ، صدق مقال، اتباع ِ شیخ وشریعت میں حق گوئی، زہد و  تقویٰ، عسرت میں عشرت، عزلت نشینی، صبر و رضا ، توکل وقناعت کے شدت سے قائل و عامل رہے تھے۔ مریدین و حاجت مندوں کا ایک ہجوم ہمہ وقت آپ کے گرد رہتا تھا مگر  کبھی کسی سے  نذارنہ یا نذر ونیاز کے نام پر ایک  جبہ بھی قبول نہیں فرمایا۔  مسافروں  اور مسکینوں  کا بہت زیادہ  خیال رکھا کرتے تھے۔ خلق ِخدا  کو نفع پہنچانے کا  جذبہ آپ میں بہت نمایاں تھا، کھانا  تناول کرتےوقت دسترخوان پر چند آدمیوں کی ہمراہی کو آپ بہت ضروری سمجھتے تھے۔ آپ نے تقریباً 30 سال شاہی جامع مسجد آگرہ کی امامت کے فرائض انجام دئیے اور تنخواہ ِامامت  سے جو کہ واجبی سی تھی  توکل  کے ساتھ اپنا گزر بسر کیا ۔ آپ کے متوکل ہونے اور غنائے دنیوی  سے متنفر  و محتزر  رہنے کا ایک بدیہی ثبوت  یہ ہے کہ جب آپ کا وصال ہوا تو سوائے اثاثہ ِ فیوض ِ باطنی و تصنیف وتالیف کے کچھ بھی آپ کا منقولہ یا غیر منقو لہ اثاثہ  نہیں تھا۔کیوں کہ آپ کی تمام عمر امامت  و رشد ہدایت ،درس و افتاء، تصنیف و تالیف  میں بسر ہوئی تھی ، آپ نے مختلف  دینی موصوعات  کئی تصانیف یادگار چھوڑی ہیں جو آپ کی حیات میں ہی زیور طبع سے آراستہ ہوئیں تھیں۔

  آپ کا وصال  27 رجب المرجب سن 1315 ہجری  (بمطابق 22 دسمبر 1897ھ) کو ہوا۔ مزار اقدس اکبر آباد  مقام   پچکوئیوں میں مرجع خلائق ہے۔جس طرح اس عالمِ  ناسوت میں خلقِ خدا آپ سے استفادہ  کیاکرتی تھی، اب جب کہ آپ عالم ِ ارواح میں تشریف فرما ہیں لوگ آپ کے  فیوض باطنیہ سے فیض پاتے رہتے ہیں اور آپ کا مزار اقدس وسلیہِ فیض بنا ہوا ہے۔ حضرت میاں سراج الاسلام رحمتہ اللہ علیہ   کے وصال کے بعدیہ   سلسلہ عالیہ آپ کے خلیفہ مجاز و جانشین  حضرت  علی احمد شاہ  المعروف میاں صندل شاہ   سے ہندوستان و پاکستان میں پھیلا جو  بعد میں سلسلہ صندلیہ کے نام سے موسوم ہوا،   کیونکہ حضرت میاں صندل شاہ  آپ کے واحد خلیفہ مجازتھے اور اس کے علاوہ آپ  نے اپنے کسی بھی مرید کو اپنی خلافت عطا نہیں فرمائی تھی۔ حضرت میاں صندل شاہ ؒ  کا وصال  03 دسمبر 1943 ء بمطابق  05 ذی الحجہ 1362ھ کو پہاڑم   ، ضلع مین پوری میں ہوا۔  حضرت میاں صندل شاہ کے خلفاء کی ایک کثیر تعداد تھی جو ہندوستان و پاکستان میں سلسلہ عالیہ کی ترویج میں مصروف عمل رہے اور یہ سلسلہ اپنی پوری آب وتاب کے   ساتھ جاری و ساری ہے۔

 حضرت میاں سراج الاسلام رحمتہ الہ علیہ کے وصال کے بعد آپ کے فرزند  حضرت مولوی  محمد ضیا الاسلام ؒ   جامع شاہی مسجد، آگرہ کے امام و  خطیب و متولی مقرر ہوئے اور مسجد ہذا کی امامت کی سعادت حسب سابقہ کی طرح آپ ہی کے خاندان کو حاصل  رہی۔ حضرت مولوی محمد ضیاالاسلام ؒ   اپنے تبحر علمی کی بناء پر  یکم اپریل سن 1912ھ  سے تاحیات  مدرسہ عالیہ جامع مسجد آگرہ کے کے ناظم بھی رہے تھے اور اہلیانِ شہر نے آپ کو لوکل ایجنٹ کمیٹی  اہلِ اسلام  کا ممبر بھی  منتخب کیا تھا ۔ آپ  سن 1930 ء میں حج بیت اللہ کی سعادت سے بھی مشرف ہوئے۔    ظاہری علوم میں حضرت مولوی  محمد ضیا الاسلام ؒ    عربی کے عالم، فارسی کےفاضل، اردو کے  ادیب تھے  اور علوم اسلامیہ فقہ ، حدیث ، منظق و تجوید کے عالم بھی تھے۔ آپ نے ابتدائی زمانے میں  فن، رمل  میں بھی دستگاہ   حاصل کی تھی مگر  بعد امامت کے منصب پر فائز ہونے کے آپ نے اپنے  اس شغل کو ترک کردیا تھا۔  علاوہ ازیں آپ  کی عزلت نشینی، گوشہ گیری، عبادت، اکل حلال، صدق مقال، تزکیہ نفس ، توکل اور اپنے بزرگوں کے طریق  پراستقامت کے ساتھ عمل پیرا ہونے نے آپ کو  بھی اعلیٰ درجہ کا صوفی بنایا۔ آپ  کو سلسلے طریقت میں شرفِ بیعت کی سعادت  اپنے والد گرامی کے پیر ومرشد حضرت میاں سبحان شاہ ؒ  کے دست حق پر حاصل ہوئی  تھی مگر آپ کو سلسلہ عالیہ   کی دستار  ِخلافت  اپنے والد گرامی کے خلیفہ مجاز و جانشین حضرت  علی احمد شاہ ؒ المعروف میاں صندل شاہ ؒ سے حاصل ہوئی تھی مگر آپ سے سلسلہ جاری نہیں ہوا۔ آپ کا وصال میاں صندل شاہ ؒ کی  حیات میں ہی   17 اپریل سن  1938 ء کو  ہوگیا تھا۔ آپ کے وصال کے بعد مسجد ہذا کی امامت   و خطابت کے منصب پر آپ کے داما   و بھتیجے  حضرت ڈاکٹر علیم الدین صدیقیؒ جو  حضرت میاں صندل شاہ کے خلیفہ مجاز تھے فائز ہوئے تھے ۔

   حضرت مولانا  سراج الاسلام ؒ    کا سالانہ عرس  مبارک ہر سال آپ کی تاریخ وفات   27 رجب المرجب کو پاکستان و ہندوستان میں بڑے تزک واحتشام سے منعقد کیا جاتا ہے ۔ کراچی میں آپ کے عرس مقدسہ کی تقریب جناب   صوفی ظہور احمد قریشی  صندلی خلیفہ مجاز  حضرت مولانا ابراہیم صندلیؒ    کی زیر سیادت   آپ کے آستانے  واقع نور منزل، لانڈھی میں منعقد ہوتی ہے جس میں سلسلہ عالیہ کے وابستگان اور دیگر سلاسل کے     سالکانِ راہِ طریقت  حصولِ فیض کے لیے خصوصی شرکت کا اہتمام فرماتے ہیں۔  والسلام  

 (محمد سعید الرحمنٰ، ایڈوکیٹ)




 

Comments

Popular posts from this blog

سلسلہِ صندلیہ . حضرت علی محمد المعروف میاں صندل شاہ رحمتہ اللہ علیہ

جون ایلیا ایک تعارف