ریاست  رام پور کے ایک جامع سلاسل  صوفی بزرگ

حضرت ابو شیر زماں خان ترابہ رحمتہ اللہ علیہ

''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''

مرتبہ : محمد سعید الرحمنٰ، ایڈوکیٹ۔

''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''

تقسیم پاک وہند سے قبل   ہندوستان میں کئی ریاستیں قائم تھیں  ان میں دہلی اور لکھنو کے درمیاں مسلمانوں کی ایک بڑی ریاست رام پور بھی تھی‘جو افغان  جنگجو  قبائل نےمصطفی  آباد کے نام سے بسائی تھی مگر شہرت رام پور کے نام سے حاصل ہوئی۔ ریاست  رام پور محض ایک سیاسی ریاست نہیں تھی بلکہ تہذیبی لحاظ سے بھی خاصی اہمیت رکھتی تھی ۔ اس ریاست کو دہلی اور لکھنؤ کے بعد تیسرا دبستان شاعری ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ اس ریاست کی سن 1719ء میں نواب علی محمد خان نے پہلے حکمران کی حیثیت سے باگ ڈور سنبھالی تھی اور یہ ریاست 1930ء تک قائم رہی۔ اس ریاست کو  انگریزوں کی آشیرباد حاصل تھی ۔انگریز پہلی جنگ عظیم کے دوران  جب نواب آف رام پور سے ناراض ہوگئے تھے تو اس ریاست کو 1930ء میں قومیا لیا  گیا اور ریاست کے آخری نواب رضا علی خان  بطور سربراہ ریاست اپنے محل تک محدود ہو کر رہ گئے اور   اس ریاست  میں انگریزوں  نےمغربی طرز حکومت  متعارف کروایا  جس میں دستور ساز اسمبلی بھی شامل تھی۔

سلوکِ نقش بندیہ میں سالک کا بظاہر  مخلوق کےساتھ رہنا اور بباطن  حق تعالی کے حضور میں رہنا خلوت در انجمن کہلاتا ہے ۔ اگر ہم  حضرت شیر زماں خان رحمتہ اللہ علیہ کی  حیات مبارک کا جائزہ لیں تو آپ کی ذاتِ مبارک نقش بندیہ سلوک کی اس اصطلاح  کی مصداق ہے۔  آپ نے  دینی و دنیاوی دونوں جہتوں سے ایک بھرپور اور مثالی زندگی گزاری جو کہ سالک راہ طریقت کے لیے  راہ نما ہے۔ آپ کا شمار  ریاست رام پور کے عالمِ دین و جید صوفی بزرگوں  میں ہونے کے ساتھ ساتھ ریاست کے انتظامی امور میں  ایک زیرک ، مدبر   ایڈمنسٹریٹر میں بھی ہوتا تھا  اور آپ کا ذکر تاریخ رام میں عظیم الشان انداز سے کیا گیا ہے جو کہ  درج ذیل ہے:

"محمد شیر زماں خاں  رام پور کے مشہور صوفی تھے۔ دینی اور  دنیوی تصرفات کے اعتبار سے آپ بے نظیر تھے۔ ریاست میں سررشتہ تعلیم اور سیشن جج رہے۔ حضرت میاں سبحان شاہ اور  شاہ وارث علی سے اکتساب فیض  روحانی کیا۔ اپنی آمدنی غربا، فقرا اور یتامی کے لیے وقف کر رکھی  تھی۔ 23جولائی  1931 کو انتقال کیا۔ 68سال کی عمر پائی۔قاضی شہر سید حامد شاہ نقوی  نے نماز جنازہ پڑھائی۔ حضرت سبحان شاہ میاں  کی خانقاہ سے ملحق اپنی خانقاہ  میں دفن ہوئے۔ تصوف کے بارہ رسالوں کے علاوہ  دو مستقل تصانیف تصوف پر لکھی ہیں۔ محمد زماں خاں۔ مولوی صوفی  سلطان زماں خاں، ، مولوی  محمود زماں خاں  اور  شاہ زماں خاں چار صاحبزادگان یادگار چھوڑے  تھے"۔

حضرت شیر زماں خاں ترابہ ؒ    قادری النسب  و قادری المشرب   بزرگ تھے  ۔ آپ  کے  جد امجد  نے  عرب مقدس سے بغداد القدس   اور صدیوں بعد ان کی نسل نے  افغانستان  پھر پشاور ہجرت فرمائی  تھی اور آپ کے جد امجد حضرت پیر بابا کے خاندان میں رشتہ ازواج سے  منسلک ہوئے تھے اس ہی سبب سے شاہان ِافغانستان  بھی  اس  خاندان کے  عقیدت مند رہے ہیں ، جب کہ سردارن روہیلہ   (کیھتر کھنڈ)بھی  آپ کے جد امجد کے  بے حد عقیدت مند تھے۔علاوہ ازیں نواب آنولہ، نواب  رامپور، نواب بریلی ، نواب  شاہجہان پور، نواب  بدایوں، نواب نجیب آباد،  نواب فرخ آباد،  بھی آپ کے جد امجد سے بیعت تھے جس کی وجہ سے  آپ کے جد امجد نے ریاست رام پور (خیرالبلاد  مصطفی آباد ) کے قیام کے بعد  یہیں سکونت اختیار کی  اور جملہ نوابین  ریاست کی طرف سے آپ کو ہمیشہ   پذیزائی حاصل ہوتی رہی۔ آپ کے نام کے ساتھ جو خان کا لاحقہ ہےیہ خطاب نوابین  کی جانب سے عطا کیے گئے ہیں اور نام کا جز بن گیا ہے ۔

 پیر بابا   کا اصل نام"سید علی ترمذی" تھا، آپ کو افغان  تاریخ میں  ارشاد وہدایت اور صحیح  اسلامی تعلیم کو  وسعت دینے میں  بلحاظ قدامت بزرگی خاص مرتبہ حاصل ہے۔ حضرت پیر بابا سادات ترمذ میں سے تھےاور آپ کی پیدائش سن 1502 ء  بمقام قندسر(ترمذ ) میں ہوئی ۔ آپ کا نسبی تعلق اکتیسویں واسطوں سے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جا ملتا ہے۔حضرت پیر بابا ؒ  نے حضرت شیخ سالار رومیؒ سے بیعت فرمائی تھی۔ جنہوں نے مجاہده کے بعد آپ کو سلسلہ چشتیہ، سہروردیہ، شطاریہ اور جلاجیہ میں اجازت عطا فرمائی اور سلسلہ کبرویہ میں آپ کو اپنے دادا سے اجازت حاصل ہوئی تھی۔ ان تمام سلاسل کا فیض ونسبت  حضرت شیر زماں خاں کے   خانوادے میں بھی  حضرت پیر باباؒ سے چلا آرہا ہے اور ان تما م خانوادوں کی  خلافت آپ کے جد امجد  کو بھی حاصل ہوئی ۔  

حضرت شیر زماںؒؒ  کا سن  ولادت   سن 1268ہجری نبوی ( 1852ء) ہے  اور آپ نے اپنی یہ سن پیدائش اپنی تصینف   فقہ تصوف میں بھی درج کی ہے۔  آپ کا  اصلی نام"   ابو شیر زماں خاں" ہے جس کے عدد  1268بنتے ہیں اور یہی آپ کا تاریخ نام ہے ۔ "ترابا " آپ کا  تخلص ہے۔

حضرت  شیر زماں ؒ  نے  اپنی  68سال حیات میں    رام پور کے  نواب  یوسف علی خان    (دور اقتدار  1855ءتا 1865 ء)،  نواب  کلب علی خان (دور اقتدا ر 1865  ءتا 1887ء)،   نواب مشتاق علی خان  (دور اقتدا ر 1887ءتا  1889ء) اور نواب  حامد علی خان  (دور اقتدار  1889ءتا 1930 ء) کے اقتدار کے نشیب وفراز    دیکھے تھے۔ نواب  یوسف علی خان  کا دور اقتدار  تقریبا دس سال تھا اور اس وقت تک حضرت شیر زمان ؒ  کی عمر مبارک صرف   تیرہ سال تھی اور یہ دور  آپ کی طالب علمی کا دور  ہےاور  اس دور میں آپ کا اپنا پورا رجحان  حصول تعلیم پر مذکور رہا ۔  البتہ بعد کے ادوار یعنی   دورِنواب  کلب علی خان ، دورِ نواب مشتاق علی خان  اور  دورِنواب  حامد علی خان   میں آپ علمی و روحانی مشاغل  و خلوت  نشینی کے ساتھ ساتھ  ریاستی امور کی انجام دہی میں بھی فعال رہے اور ریاستی ذمہ داریاں احسن طریقے  سے  انجام دیں۔

نواب کلب علی خان  جن کی تاج پوشی سن 1865 کو ہوئی تھی،   تاریخ رام میں درج ہے کہ نواب صاحب  سن  1872ء    میں  500سو  عمائدین  شہر کے ساتھ  حرمین شریفین کی زیارت  اور حج پر گئے تھے۔ اس وفد میں  حضرت شیر زماں ؒ بھی شامل تھے۔ نواب صاحب  نے مکہ میں پینے کے پانی  کی فراہمی  کی غرض سے نہر زبیدہ کی تعمیر  کے لیے دو لاکھ روپے عطیہ دئیے جو اس وقت ایک خطیر رقم شمار ہوتی تھی اور  پیغمبر اسلام ﷺ کی گبند کے لیے ایک سونے کی سیڑھی   بھی بنوائی تھی۔ نواب صاحب کا  مکہ و مدینہ میں قیام  ایک سرابرہ ریاست کی  حیثیت سے  تھا اس لیے اس وفد کا   سعودی گورنمنٹ کی جانب سے    سرکاری سطح پر استقبال  ہوا   تھا۔ واضح رہے کہ  دیگر ممالک کے دورہ   کے موقع پر  رام  پورکے سربراہان ریاسست کے اعزاز میں  برطانوی حکومت اور  ہندوستان کے وائسرائے کی طرف سے تیرہ توپوں کی سلامی کی  منظوری و احکامات جاری ہوئے تھے ۔  نواب کلب علی خان کا دورِ اقتدار    دس سال پر محیط ہے۔

نواب مشتاق علی خان(   دور ِاقتدا ر  1887   ءتا  1889 ء) دوسال پر محیط  ہے ، اپنے اس پورے دورِ اقتدار میں  نواب صاحب  بیمار رہے۔     مسند نشینی سے قبل آپ پر فالج کا حملہ ہوگیا تھا اور  انگریز حکومت نے ریاست کا نظام چلانے کے ایک کونسل بنادی تھی جس کے صدر خود  نواب مشتاق علی خان تھے اور  نائب صدر جنرل عطیم الدین خان  اور دیگر دو افراد کو ممبر بنایا گیا۔ دیگر شواہد سے انداز ہوتا ہے  حضرت شیر زماں ؒ    اپنے خاندانی مراسم کی بناء پر نواب مشتاق علی خان کے ذاتی مشیرِخاص رہے تھے۔  مزید برآں تاریخ رام پور میں   اس بات کا  حوالہ بھی ملتا ہے کہ آپ کے ایک فرزند    شاہ محمود الزماں ریاست رام کی پہلی   دستور ساز اسمبلی (قومی اسمبلی )جس کا قیام  1940 میں ہوا تھا  اس کے ممبر رہے تھے جو قطبِ مالوہ کے درجے پر بھی فائز تھے اور اس ہی ریاست میں آپ کے بڑے صاحبزادے  شاہ محمد زماں خان دیوانی عدالت کے  جج رہے تھے۔

 واضح رہے کہ    تاریخ رام پور کے مطابق نواب رضا علی خاں نے نے ریاست کے قوانین اور نظامِ عدلیہ کوبڑٹش انڈیا طرز پر بنانے کے لیے سن 1930 ہائی کورٹ قائم کرنے کا فیصلہ کیا تھا ۔ اس کے بعد ہائی کورٹ کا قیام عمل میں آیا۔۔  2مارچ سن 1931ء کو رامپورہائی کورٹ کا افتتاح ہوا۔ مسٹر ارشاد اللہ خان بارایٹ لا سب سے پہلے اس  ہائی کورٹ کے جج مقرر ہوئے۔ اس ہی سال 23 جولائی سن 1931ءکو حضرت شیر زماں ؒ کا وصال ہوا، اس لیے یہ کہنا کہ آپ رام پور ہائی کورٹ کے حیف جسٹس رہے تھےتاریخ رام پور سے ثابت نہیں ہوتا جیسا کہ  آپ کے متعلق تحریر کیا جاتا رہتا ہے۔



حضرت شیر زمان ؒ کا  روحانی تعلق خانقاہ سبحانیہ قلندریہ  سے جو  ریاست رام پور کی معروف روحانی  خانقاہ ہے اور آپ کے نام سے ہی موسوم ہے۔  حضرت   میاں سبحان شاہ قلندر  اور آپ کے برادرِ حقیقی  حضرت  مولوی گل شاہ قلندر  سجادہ نشین  خانقاہ سبحانیہ    حضرت شیر زماں ؒ کے  نسبی و پدری قرابت  دار  تھے اورحضرت  میاں سبحان شاہ  قلند ر کے جانشین فرد الافرادحضرت میاں مصطفی  شاہ قلندر حضرت شیر زماں خانؒ   کے  حقیقی ماموں تھے اور آپ کی علمی روحانی  تربیت  ان تینوں بررگوں نے اپنی ذاتی دلچسپی و توجہ  اور اپنے خاندانی وقار کے ساتھ فرمائی تھی۔ کیونکہ  حضرت شیر زماں کے والد گرامی  آپ کے بچپن میں ہی رام پور سے مدینہ ہجرت فرماگئے تھے اور اپنے فرزند کی تعلیم وتربیت کے لیے ان تینوں  بزرگوں کو مامور فرمایا تھا۔   حضرت سبحان شاہ قلندر اور  حضرت گل شاہ قلندر کا ذکر "   کاملاں رام پور  "مولف حافظ   احمد علی شوق   اشاعت اول سن  1229 ء میں  بھی ملتا ہے۔ درج ہے کہ "ملا  فقیر  محمد صاحب ولایتی  ۔ المعرف مولوی محمد گل صاحب ولایتی نےعربی علوم رام پور میں  حاصل کیے تھے۔ بہت سے طلبا نے  ان سے فیض پایا  تھا ۔ آپ خانقاہ سبحانیہ کے سجادہ نشین ہونے کے علاوہ  رام پور  کےبڑے فقہیہ  بھی تھے"۔

حضرت میاں سبحان شاہ قلندر  ایک جامع سلاسل صوفی بزرگ تھے،  نسباً قادری  اور مشرباً چودہ خانوادوں سے  فیض بخش نسبت  کے حامل تھے  اور   آپ کو سلسلہ قادریہ منوریہ کی خلافت کے علاوہ  بھی  کئی سلاسل کی  خلافتیں و نسبتیں اپنے  خاندان کے مختلف بزرگوں  سے حاصل ہوئی تھیں جن میں  قادری چشتی ،  صابری نظامی ،  نقشبدی ، قلندری ، سہرودری ، اویسی ، مداروی ، کبروی  رفاعی  شازلی   شامل ہیں جب کہ  آپ کے   جد مقدس کو  خواجہ غریب نواز  حضرت  معین الدین چشتی  کی بارگاہ دلایت سے  نسبت چشتیہ   بطریق  اویسیت عطا ہوئی تھی۔ اس سلسلہ  کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ  قلندریہ  میں  کئی صورتوں سے  خلافت حاصل ہونے کی بناء پر ا  س  سلسلے کے بزرگوں و مشائخ  کا  ذوقِ   روحانی  قلندری رہا ہے  ا ور تجرد عن الماسو ا  ہونے کی بناء پر انہیں استغراق فی الذات ہوجاتا ہے اور انہیں آخری عمر میں بہت ذیادہ  محویت ہو جاتی ہے۔ جب کہ  خانوادہ  اویسیہ ، سہروریہ ،   مداریہ  اور شطاریہ   کے حامل ہونے کی وجہ سے اس سلسلے کی تعلیمات  معجون مرکب ہیں اور  اہل ِعلم ہی ان تعلیمات کا فیض حاصل کرسکتے ہیں۔ اس سلسلے میں نسبت حاصل کر نے کے لیے  سخت ترین مجاہدے کرنے پڑتے ہیں اور اکثرنسبت خود  ا القا   ہوجاتی ہے۔ اس سلسلے کے   مشائخ صاحب کمال ہوکر  وصال پاتے ہیں۔

حضرت میاں مصطفی شاہ قلندر  ؒ   نے اپنی پیر ومرشد سے ایک عرصہ  دراز  تک آپ کی صحبت میں رہ کر  اکتساب فیض حاصل کیا  تھا اور   سلسلہ سبحانیہ  کی  مسندِ جانشینی پرجلوہ افروز ہوئے اور  ان تمام خانوادوں کی  نسبتیں  کی خلافت و  فیض آپ کو حاصل ہوا  جن کا فیض آپ کے اس خاندان میں جاری و ساری تھا، اور  آپ سے یہ سلسلہ  ہندوستان کے دیگر  شہروں میں بھی پھیلا۔

حضرت میاں سبحان شاہ قلندر کا  وصال  (21 ستمبر 1867 ء ) کو ہوا ۔ اس  وقت حضرت شیر زماں خان  کی عمر مبارک  تقریباً  15 سال سے کم تھی    اور یہ دور آپ کی ظاہری تعلیم کا ہے اس لیے  سلسلہ سبحانیہ کی تعلیمات  اور منازلِ سلوک آپ نے  حضرت     مصطفی شاہ قلندر  ؒ   کی زیر نگرانی طے کیے اور حضرت مصطفی شاہ قلندر ؒ  نے  ہی آپ کو  سلسلہ سبحانیہ کی جملہ خلافتوں  و سلسلتہ  الذہب  کی خلافت   و جانشینی اور دیگر سلاسل کے فیض  سے لبریز فرمایا۔ سلسلۃ الذہب  قادریہ کی     تواسل کی کڑی میں شجرہ شریف میں حضرت  میاں سبحان شاہ  قلندر  کے  بعد حضرت  میاں مصطفی شاہ قلندر ؒ   کا نام آتا ہے ۔ حضرت میاں مصطفی  شاہ قلندر ؒ کو سلسلتہ الوہب چشتیہ میں  رام پور کے مشہور صوفی بزرگ  حضرت امیر  شاہ المعروف امیر دوجہاں ؒ سے بھی خرقہ  خلافت حاصل ہوا تھا  اور اس سلسلے عالیہ چشتیہ صابریہ میں حضرت شیر زماں خاں ؒ     کو  خلافت حضرت میاں   مصطفی  شاہ قلندر ؒ  ْسے  براہ راست حاصل ہوئی   ۔ شجرہ شریف چشتیہ صابریہ  میں آپ کا نام حضرت  شیرزمان سے قبل آتا ہے۔  حضرت امیر دوجہاں کا وصال  21 اپریل سن  1873 ء میں ہوا۔ اس وقت حضرت شیرزماں خاںؒ کی عمر مبارک  تقریبا  20 سال تھی۔ علاوہ ازیں  تاریخ رام میں   یہ بھی ذکر ہے کہ  حضرت شیر زماں خاں ؒ  نےدیوہ شریف  جاکر  حضرت وراث شاہ سے بھی  براہ راست سلسلہ وارثیہ کی تعلیم و فیض  حاصل کیا تھا ۔ حضرت وارث شاہ  کا وصال 30/محرم الحرام 1323ھ، مطابق 7/اپریل 1905ء کو ہوا۔ 

 ریاست رام پور میں        حضرت عبدالکریم عرف ملا فقیر اخواند ؒ  سے جاری سلسلہ  چشتیہ صابریہ  اور حضرت  شاہ درگاہی  محبوب الہیؒ سے جاری سلسلہ  نقشبندیہ  عوام الناس میں کافی مقبول سلسلہ رہے ہیں۔ حضرت   مصطفی شاہ ؒ نے سلسلۃ الوہب  چشتہ صابریہ  کا فیض  سلسلہ سبحانیہ میں شامل  کیا   اور حضرت  شیرزماں خان ؒ نے سلسلہ  نقش بندیہ کی  دستار خلافت حضرت   سعادت علی شاہ  خلیفہ  مجاز حضرت نعیم شاہ ؒ سے حا صل کرکے اس سلسلہ کی نسبت  و فیض کو بھی    سلسلہ سبحانیہ میں شامل کیا ۔  حضرت نعیم شاہ کا وصال  21 نومبر سن 1855 ء بمطابق 11 ریبع الاول 1272 کو ہوا ، اس وقت حضرت  شیر زماں خاں ؒ کی عمر  چار سا ل سے بھی کم تھی،  اور آپ کا  اس عمر میں حضرت نعیم شاہ سے   سلوک کی تعلیم حاصل کرنا     تاریخ سے ثابت نہیں ہے ۔  الغرض حضرت شیر زمان کی   جملہ روحانی تعلیم اور منازل سلوک طے کرانے میں حضرت مصطفی شاہ ؒ     کا بہت بڑا حصہ ہے اور آپ ہی کی ذات بابرکت سلسلہ سبحانیہ میں حضرت سبحان شاہ قلندر کے بعد امام سلسلہ  ہے ۔

حضرت شیر زماں خان ؒ کے ایک فرزند  حضرت  میاں محمدد زمان خان  شیر زمانی جو قطبِ مالوہ اور ریاست ِرام پور کی  دستور ساز اسمبلی کے ممبر بھی رہیں ہیں انہوں نے  منہاج خانقاہ شریف کے نام سے  تین کتا بیں  تصنیف فرمائی تھیں  ایک  شجرات عالیہ خانقاہ شریف ، دوسری  کتاب احوال  و مقامات  حضرات پیران شجرہ  اور تیسری تعلیم و  تسکییک جس میں  بے شمار مشغولیات و مراقبات اور خاندانی  مجربات و وظائف   وغیرہ تحریر فرماے تھے یہ کتابیں اب نایاب ہیں۔

سن  1964ء میں  حضرت شیر زمان خانؒ کے ایک فرزند  مولوی صوفی  سلطان الزماں خاںؒ  جنہیں سلسلہ سبحانیہ  میں اپنے والد سے خلافت و جانشینی حاصل تھی سلسلہ سبحانیہ  کی ترویج کے لیے پاکستان تشریف لے آئے  اور  اس سلسلے کو فروغ دینے کے لیے کراچی کو مرکز بنایا۔ حضرت  شیر زماں خان ؒ کے ایک نواسے   حضرت   ڈاکٹر مولوی مرتضیٰ خان   شیر زمانی ؒ   جو قلندر وقت تھے  اور کراچی کے علمی ، ادبی و روحانی  حلقوں میں  معروف تھے نے اس  سلسلہ  عالیہ کے فروغ میں  حضرت  سلطان الزماںا خاں شیر زمانی ؒ کی بھر پور معاونت کی اور  اپنی  پیشہ وارانہ مصروفیات کے باوجود آپ کے شانہ بشانہ رہے۔ آج یہ سلسلے پوری آب و تاب کے ساتھ پاکستان میں بھی  متلاشیاں حق کے  قلوب کو منور کیے ہوئے ہے۔ بقول حضرت سلطان الزماںؒ "قلندریت جاںِ صوفیت" ۔  والسلام  

( تحریر : محمد سعیدالرحمنٰ، ایڈو کیٹ)۔

Comments

Popular posts from this blog

دعائے حزب البحر منسوب بہ حضرت امام شیخ ابو الحسن الشاذلیؒ

حضرت عبد الکریم رحمتہ اللہ علیہ المعروف ملا فقیر اخوند، رام پوری / Hazart Abdul kareem Mulla Faqeer Akhwand

خواب کی تعبیر ( تعبیر رویا)