تجرد (ترکِ نکاح )

 



تجرد (ترکِ نکاح )۔

طریقت کی اساس تجرد پر  رکھی گئی ہے۔

اگر عزلت نشینی میں بندے کا قلب و حال درست  رہتا ہے تو  اسےتجرد اختیار کرنا چاہیے  ۔

تجرد کے لیے  صوفیا اکرام  قرآن و حدیث  دونوں سے استدلال  کرتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرتبہ: محمد سعید الرحمنٰ، ایڈوکیٹ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"تجرد "کے  معنی    غیر شادی شدہ  زندگی گزارنا،  ترکِ دنیا اور قطع علائق کے ہیں مگر اصطلاحات صوفیہ میں" تجرد"سے مراد اپنے آپ کو حصولِ قربِ الہیٰ کے لیے علائقِ دنیا سے پاک کرلینا  ہے، علائقِ دنیا میں "نکاح"  بھی شامل ہے۔ صوفیوں کا ایک طبقہ  راہ ِطریقت میں شادی (بیوی اور بچوں)  کے بندھن کو  بندے اور خدا  کے درمیان  سنگ راہ  تصور کرتا ہے ۔  ترکِ نکاح  یا تجرد کے لیے  صوفیا اکرام  قرآن و حدیث  دونوں سے استدلال  کرتے ہیں۔

 یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّ مِنْ اَزْوَاجِكُمْ وَ اَوْلَادِكُمْ عَدُوًّا لَّكُمْ: اے ایمان والو! بیشک تمہاری بیویوں  اور تمہاری اولاد میں  سے کچھ تمہارے دشمن ہیں  ( سورہ تغابن)  ۔ شیخ شہاب الدین سہروردی نے اس  آیت  کےاستدلال  میں پیش کیا ہے کہ  نکاح  ایک فتنہ  اور عظیم خطرہ ہے۔ اس ضمن میں  تجرد کے جواز میں یہ احادیث بھی  پیش کی جاتی ہیں۔

 دوسو سال بعد  بہترین آدمی وہ ہونگے جو ہلکا پھلکا  اور کم مال والا ہوں اور جس کے بیوی بچے نہ ہوں۔ 

 جب دوسو سال گزر جائیں گے تو میری امت کے لیے  تجرد جائز ہوگا۔

دوسری صدی ہجری میں جب تصوف کی نشو نما ہوئی  تو  صوفیاء کے  کچھ حلقوں میں ترکِ نکاح کو مستحسن نظروں سے دیکھا جانے لگا  ہے مگر  عملا صوفیا ءنے کبھی "تجرد "کو  "نکاح" کے مقابلے میں اولیت نہیں دی،  مگر ہر ادوار میں  مجرد اور تارک الدنیا  صوفیاؤں کو  عزت و احترام کا مقام ضرور حاصل ہوتا رہا ہے۔۔ گو کہ   اس حقیقت سے انکار نہیں  کیا جاسکتا کہ   نکاح نہ کرنے میں  دو قباحتیں ہیں ایک  تو ترک سننت اور دوسرے  شہوت کا دل میں پرورش پانا۔ 

 صوفیا کے اس طبقے کے نزدیک تجرد اختیار کرنا صرف   ان صوفیوں کے لیے جائز ہےجنہیں زنا کا خوف نہ ہو ،  کیوں کہ جب کوئی زنا کرتا ہے تو  اس کے دل سے نور ایمان سلب ہوجاتا ہے۔

 اسلام  میں نکاح  ہر مرد و عورت پر "مباح (حلال)" ہے مگر نکاح  اس شخص  پر" فرض" ہے جو حرام سے نہ بچ سکےاور اس شخص کے لیے "سننت "ہے جو حقِ عیال داری پورا کرسکتا ہو۔

نکاح  کی غرض و غایت کے   مختلف  توجیہات  ہیں ، ایک طبقہ کہتا ہے کہ" نکاح  دفع شہوت اور فراغ دلی کے لیے ہے"۔ایک  طبقہ کی رائے  ہے کہ" نکاح  نسل بڑھانے کے لیے ہے تاکہ اس کی اولاد اس  کے لیےدعاگو رہے"۔

روایت میں ہے کہ  جس نے اللہ تعالی کے لیے نکاح کیا اور اللہ تعالی کی خاطر  نکاح کرایا  وہ اللہ تعالیٰ کی  ولایت کا مستحق  ہے  اور یہ ولایت کی سب سے ادنیٰ حالت ہے۔  حضرت  حسن  ابو سعید  روایت کرتے ہیں کہ فرمایا  رسول اکرم ؒ نے جس نے تنگدستی  کے  خوف سے نکاح کو ترک کیا وہ ہم میں سے  نہیں۔  

  مگر یہ ایک  حقیقت ہے کہ  نکاح کرنے میں دو آفتیں  درپیش ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے  ایک" غیر  اللہ کی طرف دل کا  مشغول ہوجانا"  اور دوسرے  "بدن کا  نفسانی  خواہشات پورا کرنے  میں مشغول ہوجانا ہے" ۔ اور ان ہی آفتوں کو مد نطر رکھتے ہوئے اکابرین صوفیا کی یہ رائے ہے کہ جو خلقت میں صحبت اختیار کرئے اس  کے لیے نکاح ضروری ہے اور جو  خلقت سے گوشہ نشینی چاہے اس کے لیے مجرد رہنا موزوں ہے، مگر ایک     سالک   پر لازم ہے کہ   وہ کسی سننت کا استعمال   ہرگز دنیا اور  مشغلہ ذلیل  کے لیے نہیں کرئے جس سے قرب الہیٰ  کی جدوجہد میں فرق آئے کیونکہ صوفی کی ہلاکت اس کے دل کی خرابی میں  ہوتی ہے،۔

 حضرت شیخ ہجویریؒ   نے  اہل عیال  کو ہلاکت کا موجب بنا کر حضرت حسن بصری  ؒ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ  " مجرد لوگ  نجات پاگئے اور بال بچے والے ہلاک ہوگئے"۔ اہل اللہ  کی نگاہ میں صوفیا  کو یقین و توکل  کو  صعف و کمزوری سے دوچار کرنے والے اہل و عیال  ہی ہوتے ہیں انہیں  سے انسان کے پایہَ  ثبات کو لغرش  ہوتی ہے۔ کیوں کہ  نکاح کی   خرابیوں میں  ایک خرابی  یہ  بھی ہے  جب ذریعے معاش  "طیب و حلال نہ ہوں"   اور یہ  کمائی "معصیت  "کے ذریعے حاصل کی جائے گی جب کہ اس کے بارے میں سوال کیا جائے گا کہ   مال کہاں سے  کمایا اور  کہاں خرچ کیا۔ اگر نا جائز  طریقے سے کمایا تو  وہ چیز اس کے  خلاف جائیں گی ۔

حضرت ابراہیم بن ادھم ؒ فرماتے ہیں  جو شخص عورتوں کا عادی ہو وہ کامیاب نہیں ہوسکتا۔ حضرت بشر رضی اللہ تعالیٰ  عنہ فرماتے ہیں اگر میرا عیال  ہوتا تو مجھے اندیشہ ہے میں پل صراط پر گھسیٹا جاتا۔  اہل زہد نے  دنیا سے  اس ہی لیے بے رغبتی اختیار کی  کہ اس میں  قلبی راحت، بے فکری اور مطالبہ سے آزادی ہے اور اس ہی لیے امت کے آخری زمانے میں عزلت نشینی کو جائز قرار دیا ہے اور تجرد کو فضیلت دی گئی ہے۔ روایت ہے کہ لوگوں پر  ایک زمانہ آئے گا کہ آدمی کی ہلاکت اس کی بیوی اور بچوں  کے ہاتھوں ہوگی کہ  یہ لوگ اسے فقر کا طعنہ دیں گے اور ایسے کام پر آمادہ کردیں گے جو اس کے بس میں نہیں ہوگا پھر وہ ایسے راستوں پر چل پڑے گا کہ اس کا دین برباد ہوجائے گا اور وہ ہلاک ہو جائے گا۔

اس ہی سبب سے صوفیوں کا  ایک طبقہ کہتا ہے کہ  مجرد رہنے میں  ہلکا رہا جاتا  ہے اورجن صوفیوں  نے تجرد اختیار کیا اور وہ اس حدیث پر عامل ہیں کہ  فرمایا رسول اکرم ﷺ نے " آخر زمانے میں بہتریں شخص وہ ہوگا  جو خفیف الحاذ ہو( جن کے بچے نہ ہوں) اور ایک اور حدیث کہ " سیر کرو بیشک مجرد لوگ سبقت  لے گئے"۔

حضرت شیخ ہجویری ؒ فرماتے ہیں  طریقت کی اساس تجرد پر  رکھی گئی ہے۔  حضرت  حسن بصری فرماتے ہیں کہ  جب اللہ  تعالیٰ اپنے کسی   بندے کی بھلائی چاہتا ہے تو اسے اہل عیال میں مشغول نہیں کرتا۔  حضرت شیخ ابو سلیمان دارانی فرماتے ہیں  جس نے تین چیزین طلب کیں وہ  وہ دنیا کی طرف مائل ہوا  طلب  معاش، نکاح ا ور  کتابتِ حدیث ، آپ نے یہ بھی فرمایا  میں نے اپنے دوستوں میں سے کسی کو نہیں دیکھا  کہ وہ شادی کرنے کے بعد اپنے سابق  رتبہ پر قائم رہا ہو۔ حضرت  شیخ سہل بن عبداللہ تستری ؒ کا قول ہے کہ صوفی کا لوگوں کے ساتھ  اختلاط ذلت  ہے اور اس سے علیحدگی  عزت ہے، میں نے خدا کے ولیوں میں سے  زیادہ تر کو  مجرد  پایا ہے۔ بہرحال اگر عزلت نشینی میں بندے کا قلب و حال درست  رہتا ہے تو  اسےتجرد اختیار کرنا چاہیے  اس لیے کہ اس میں سلامتی ہے اور سلامتی ہی   فضلیت و غنیمت  ہے۔  پھر بھی  اگر کوئی صوفی نکاح کرنا چاہتا  ہو اور وہ  خواہشاتِ نفسانی سے خطرہ محسوس کرتا ہوتو دین کی سلامتی کے خاطر  اسےنکاح کرلینا چاہیے۔ اگر  ایک بیوی ناکافی ہے تو  عدل قائم کرتے ہوئےدوسری بیوی بھی کرلے اور اگر دو بیویاں بھی ناکافی ہوں تو تین اور چار کرسکتا ہے مگر اس کا  مقصود صرف دین کی سلامتی ہو۔

صوفیا ءعموماً   نکاح یا  تجرد دونوں معاملے میں  اپنا اختیار استعمال نہیں  کرتے ہیں بلکہ   وہ  دیکھتے  ہیں کہ پردہ غیب سے کیا حکم  تقدیر کا ہوتا ہے۔ اگر مجرد رہناان کے نصیب میں ہو تو اس  میں پاک دامنی  کی کوشش کرتے ہیں،  اور اگر نکاح کرنا نصیب میں ہو تو سنت کے تابع ہوکر فراغتِ دل کی کوشش کرتے ہیں۔ جنہیں   پردہ غیب ( استخارہ  سے ) مجرد   رہنے کا اشارہ ملتا ہےانہیں یقین کامل ہوتا ہے کہ   جب اللہ تعالیٰ کی حفاطت قائم ہوتی ہے تو بندہ  کا مجرد ہونا ایسا ہوتا ہے جیسے  حضرت یوسف علیہ السلام  کا زلیخا کی بلاء میں  بچاو کی طاقت رکھتے ہوئے اپنی  مراد سے رو گردانی رہی اور  خواہش کو مغلوب  کرنے  اور نفس کو عیب سے محفوظ  میں کامیاب  ہوئے۔ 

حضرت شیخ عبد القادر جیلانی ؒ کی روحانی تربیت حضور اکرم ﷺ نے اویسی طریق پر فرمائی  تھی ، حضور غوث پاک ؒ   فرماتے ہیں  کہ میں نے تب تک نکاح نہیں کیا  جب تک آنحصرت ﷺ نے  مجھے نکاح کرنے کا حکم نہیں دیا۔ یہی اصول    دیگر سالکِ راہ طریقت پر بھی   قابل عمل ہے کہ   اگر کوئی سالکِ نکاح کرنا  چاہے تو ایسی  صورت میں  اسے اجازت اہلِ قرب  ( یعنی شیخ طریقت) سے لینی چاہیے ۔ اس ہی اجازت  کو پیش نظر  رکھتے ہوئے امام غزالی فرماتے ہیں  کہ مرید کو ابتدائے ارادت شادی نہیں کرنی چاہیے کیونکہ شادی کا عمل  اسے راہِ سلوک سے  ہٹا کر   بیوی سے مانوس کرئے گا اور جو اللہ کے سوائے  کسی اور سے مانوس ہوگیا وہ اللہ سے پھر گیا۔ تصوف میں جو چیز  بندہ اور  خدا کے درمیاں  حائل ہوجائے اسے چھوڑنا  یا راستے سے ہٹانا طریقت کی اساس ہے۔

نکاح کی آفت سے بچنے کے لیے صوفیا کے ہاں  چند ہدایات بھی  ملتی ہیں۔ امام قشیریؒ   کا  مشورہ ہے کہ اگر مرید کا دل نکاح کی طرف مائل  ہو اور وہاں اس کی رہنمائی کے لیے شیخ موجود نہ ہو تو  اسے سفر  کرنا چاہیے تاکہ یہ حالت دور ہوجائے۔حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی  ؒ فرماتےہیں کہ  اگر فقیر کے دل میں نکاح کا خیال متواتر آئے تو وہ اللہ سے حسن اختیار کی دعا مانگے، خلوت میں خوب روئے اور استخارہ کرئے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نیند، بیداری یا کسی متدین آدمی کے ذریعے ممانعت یا  اجازت دے گا ویسے بھی  ہر نیک مقاصد کے لیےاستخارہ کرنا سنت ہے۔

 صوفیہ کا  خیال ہے کہ  نکاح کے خیالات  سے بچنے کا بہترین  ہتھیار  روزہ ہے۔ اگر فقیر کے لیے شادی کرنا ضروری ہوجائے تو اسے غریب یا بیوہ عورت سے نکاح کرنا چاہیے۔ حضرت شیخ ابو سلیمان  درانیؒ  فرماتے ہیں کہ عورتوں کے بارے میں زہد یہ ہے کہ  غریب اور یتیم  عورت سے نکاح کیا جائے۔ والسلام

حاصل مطالعہ : محمد سعید الرحمن۔
کتابیات ۔ 1۔ اصطلاحات صوفیہ (حضرت شاہ محمد عبد الصمدؒ)    2۔ کشف المجوب (حضرت داتا گنج بخشؒ)۔ 3۔ مطالعہ تصوف۔ (حضرت ڈاکڑ غلام قادر لونؒ) 4۔ قوت القلوب (حضرت شیخ ابو طالب ؒ)۔ 5۔ رسالہ قشیریہ (حضرت شیخ عبدالکریم ؒ)

 


 

 

 

Comments

Popular posts from this blog

سلسلہِ صندلیہ . حضرت علی محمد المعروف میاں صندل شاہ رحمتہ اللہ علیہ

جون ایلیا ایک تعارف