ملنگ / مست قلندر (قلندریہ اور ملامتیہ کا امتزاج)
ملنگ / مست قلندر (قلندریہ اور ملامتیہ
کا امتزاج)
ملنگ بیخود
شخص جو اللہ کی محبت میں مجذوب ہو جائے
سلسلہ ملنگاں، امام سلسلہ حضرت جمال الدین جان من جنتیؒ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر و تحقیق : محمد سعید الرحمنٰ، ایڈوکیٹ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لغوی اعتبار سے لفظ ملنگ کے معنیٰ مست ومجرد
، بے باک اور آزاد طبع کے ہیں اور
یہ لفظ مست قلندر کے ہم معنیٰ بھی ہے ۔ملنگ
کی اصطلاح سلسلہ مداریہ کی رائج
کردہ ہے سلسلہ مداریہ کے بانی حضرت
سید بدیع الدین قطب المدار قدس سرہ العزیزہیں۔ احوال کے اعتبار سے بعض لوگ ملنگوں کو فرقہ قلندریہ میں شمار کرتے ہیں اور بعض فرقہ ملامتیہ میں کیونکہ ان کا طرز زندگی قلندریہ اور ملامتیہ
دونوں سے ملتا جلتا ہے ۔
تاریخ ِ تصوف
کے مطابق ملامتی صوفیہ کی وہ جماعت ہے جو اخلاص میں بے حد کوشش کرتی ہے ، ریا
سے بہت بچتی ہے اور اپنے کمالات ِ باطنی ( روحانی درجات )کو ظاہری شکستہ حالی کے
روپ میں پوشیدہ رکھتی ہے،۔ وہ اپنے اعمال لوگوں سے چھپاتے ہیں اور رندوں کی سی وضع بنائے رہتے
ہیں تاکہ عوام اُن سے قطع تعلق رکھیں کیونکہ ہجومِ عوام سے ان کے معمولات میں خلل
پڑتا ہے۔
دالعلوم دیوبند کے علماء کی بھی یہ رائے ہے کہ درویش اور فقیر ہم معنی الفاظ ہیں، جن کے پاس مال و زر نہ ہو ، اسی طرح جو لوگ اللہ کے لیے دنیاوی
خواہشات ترک کرکے عزلت اختیار کرلیتے ہیں وہ بھی درویش اور فقیر کہلاتے ہیں۔
ملنگ بیخود شخص کو کہتے ہیں، جو شخص اللہ
کی محبت میں مجذوب ہو جائے اور عقل کھودے اس پر بھی ملنگ کا اطلاق ہوتا ہے۔
کیونکہ مجذوب اور قلندر دونوں یکساں کیفیات کے حامل ہوتے ہیں یعنی اللہ کی محبت میں عقل کھو دیتے ہیں۔ بس دونوں
میں فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ
"مجذوبیت" مادر ذاد بحکمِ الہیٰ
ہوتی ہے، جبکہ قلندر وہ ہستی ہوتی ہے جس
نے کٹھن مجاہدے کے بعد اپنے نفس پر قدرت پا لیا ہو اور سوزعشق و مستی سے تجلیات
ذات حق میں محو ہو گیا ہو۔
اصطلاحات تصوف میں قلندر عشقِ حقیقی میں مست ہوجانے والے فقیر کو
کہتے ہیں یعنی وہ شخص جو روحانی ترقی یہاں تک کر گیا ہو کہ اپنے وجود اور علائقِ
دینوی سے بے خبر اور لاتعلق ہو کر ہمہ تن خدا کی ذات کی طرف متوجہ رہتا ہو ۔ یعنی وہ جماعت قلندر کہلاتی ہے جن کے اعمال
ظاہرہ تو کم ہوتے ہیں مگر اعمال قلبیہ
(روحانی معاملات) بہت زیادہ ہوتے ہیں یعنی خدا تعالیٰ کے ساتھ درست معاملہ رکھنا،
قلب کی نگہداشت رکھنا کہ قلب غیر حق کی طرف متوجہ نہ ہونے پائے، قلب کو ہمہ وقت
ذکر میں مشغول رکھنا، حقوق کا وقت پر ادا کرنا، نعمت پر شکر ادا کرنا اور حزن و غم
میں دل کو خدا تعالیٰ سے راضی رکھناوغیرہ۔
طریقِ قلندر کے دو جز
ہیں ایک عمل اور دوسرا محبت۔ قلندری ان دونوں جزوں کے مجموعے کا نام ہے۔ قلندری
میں بہت زیادہ نوافل اور وظائف نہیں ہوتے بلکہ محبت کی خاص
رعایت ہوتی ہے یعنی تفکر اور مراقبہ زیادہ ہوتا ہے۔ مزید برآں قلندری نام ہے خلق
سے آزادی کا کہ قلندر کو دنیا کی وضع اور رسوم کی پرواہ نہیں ہوتی، اس کا دل صاف
اور سادہ ہوتا ہے اس کی بڑی مصلحت یہی ہوتی ہے وہ ایک اللہ کو لیکر سب کو ترک
کردیتا ہے۔ اور یہی طرز عمل ملنگوں کا بھی ہے۔
ملنگیہ در اصل
قلندریہ اور ملامتیہ کا مرکب ہے۔ ملنگ وہی صوفی کہلائے گا جو دنیوی لحاظ سے مجرد ہو اور
روحانی احوال قلندوں جیسے ہوں اور لباس و حلیہ سے ملامتیہ نظر آتا ہوں اور رندوں کی سی وضع بنائے ہوئے ہوں اور اللہ کی محبت میں اپنے
حواس کھو بیٹھا ہو۔ ان کی ظاہری حالت کی وجہ سے عام لوگوں کو ان کی شناخت نہیں ہو پاتی ہے۔ یہ پیدائشی
مجذوب نہیں ہوتے بلکہ عشق حقیقی میں مبتلا
ہوکرمغلوبِ حال ہوجانے کی وجہ سے مجذوب ہوجاتے ہیں۔
ملنگ کے لغوی معنیٰ
مست ومجرد ، بے باک کے ہیں۔ یہ اصطلاح
سلسلہ مداریہ کی وضع کردہ ہے۔ اس کے علاوہ دنیا میں جتنے بھی سلسلے ہیں
ان میں ملنگ نہیں ہوتے۔ حضرت بدیع الدین مدار ؒ سے ملنگاں کا ہفت گروہ
(1)خادمان (2) دیوانگان (3) طالبان (4) عاشقان (5) اجملیان (6)حسامیان اور (7) مخدومیان کا اجرا
ہوا، ان میں چار گروہ یعنی
خادمان، دیوانگان، عاشقان اور طالبان کو تو خاص مداری نسبتیں حاصل ہیں اور
ملنگان حضرات ان ہی چار گروہ سے تعلق
رکھتے ہیں۔
سلسلہ مداریہ کی تاریخ میں بیان کیا گیا ہے کہ حضرت جمال الدین جان من جنتی ؒ جو حضرت غوث
صمدانی شیخ عبدالقادر جیلانی
ؒ کے حقیقی خواہر ذادے یعنی حضرۃ بی بی نصیبہ ؒکے صاحبزادے تھےاور آپ حضرت
بدیع الدین مدار کی دعاوں سے پیدا ہوئے آپ کی جائے پیدائش بغداد ہے اور آپ کے والد کا
نام حضرت سید محمود ؒ تھا۔
حضرت غوث پاک ؒ کی ہمشیرہ کی کوئی اولاد نہیں
تھی آپ اپنے برادر محترم کی بارگاہ میں حاضر ہوئیں اور اولاد کے لیے دعا
کی درخواست کی، حضور غوث پاک نے لوح محفوظ کا مطالعہ فرماکر بتایا
بہن تیری قسمت میں اولاد تو
ہے مگر وہ قطب المدار ؒ کی دعا پر موقوف ہے،
عنقریب آپ سیاحت فرماتے ہوئے بغداد پہنچنے والے ہیں۔ چنانچہ حضرت قطب مدار ؒ پانجویں
صدی ہجری میں بغداد پہنچے اور آپ نے غوث
پاک کی ہمشیرہ کے لیے اولاد کی دعا کی۔
حضرت
جمال الدین جان من جنتیؒ حضرت بدیع الدین
مدار کے جلیل القدر خلیفہ تھے ، آپ نے تمام عمر تبلیغ اور خدمتِ شیخ میں
گزادی تھی ۔ آپ سلسلہ ملنگانِ کے امام اور شہنشاہ ترکِ تجرید ہیں ۔ آپ ایک طویل العمر بزرگ تھے ، آپ کی عمر مبارک
تقریبا چارسو سال سے زائد بتائی جاتی ہے۔ پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ملنگوں کے مصدر
و منبع آپ ہی ہیں۔ آپ نے پوری زندگی مجردانہ
گزاری اور آپ کے خلفاء کے
ذریعے سلسلہ مداریہ کو کافی فروغ
حاصل ہوا۔ آپ کا وصال 14 محرم 951 ہجری کو ہوا، مزار مبارک
ریاست بہار کے ضلع پٹنہ کے قصبے
ہلسہ میں مرجع خلائق ہے۔
ہندوستان میں بے شمار ملنگ بزرگ گزرے ہیں ان میں
بہت ہی مشہور ومعروف حضرت عبد الرحمن ملنگ
(بمبی)، حضرت شیخ ابو الحسنات ولی ملنگ عرف
منگو پیر ؒ(کراچی)، حضرت قطب غوری
کولارؒ (میسور)، حضرت لکڑ شاہ بہرائچؒ وغیرہ کافی ہیں۔
ملنگ
حضرات میں سب سے پہلے دیوانگان گروہ سے ترکِ تجرید کی زندگی کا آغاز ہوا اس سے قبل دنیا اس اصطلاح کے واضح مفہوم سے ناواقف تھی بعد میں دوسرے گروہ کے طریق یافتہ بزرگ بھی اس زندگی میں داخل ہوگئے
اور ملنگ کے لقب سے ملقب ہوئے ۔
سلسلہ ملنگاں میں حضرت بایزید بسطامی کی رائج کردہ طریق پر تزکیہ کرایا جاتا ہے۔
سلسلہ
ملنگاں کی طرح ترکِ تجریہ (غیر شادی شدہ رہنا )کو سلسلہ وارثیہ میں بھی
خاص اہمیت حاصل ہے ۔حضرت وارث شاہ ؒ نے
اپنے عام مریدوں کوشادی سے نہیں روکا ہے مگر احرام پوش فقرا کو تجرید کی متواتر
تاکید فرمائی ہے اور اپنے خرقہ میں لنگوٹ کو شامل فرما یا ہے جو تجرید کی خاص علامت
ہے۔عاشق رسول حضرت اویس قرنی ساری عمر مجرد رہے ۔ آپ فرماتے ہیں کہ احرام پوش/
مغلوب الحال کے لیے سلامتی مجرد (تنہا) رہنے میں ہے۔
اس فرقہ ملنگیہ میں
حاجت روائی کے لیے تدبر کرنا یا کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا ممنوع ہے
بلکہ توکل کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ملنگاں
تعلیمات کے مطابق دنیا کے واسطے کوئی پیشہ اختیار کرنا مشغولیت دائمی ذکر وازکار میں خلل پیدا کرتا ہے۔ملنگ اس پر ہی قناعت کرتا جو بے طلب غیب سے اس تک
پہنچے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ (اور زمین پر چلنے والا کوئی ایسا نہیں
جس کا رزق اللہ کے ذمہ نہ ہو)۔ اس سلسلے کے نزدیک اللہ تعالیٰ کے اس پختہ وعدے کے بعد بھی بندے کا
اطمنان نہ ہونا سرا سر ایمان کے خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا
ہے اگر تم ایمان والے ہو تو خدا پر بھروسہ کرو۔اس لیے اہلِ تصدیق کسب نہیں کرتے جب اللہ تعالیٰ اقرب الیہ من جبل الورید ہے تو انسان کو اپنی
روزی کے لیے پریشان نہیں ہونا چاہیے۔
والسلام۔ حاصل مطالعہ : محمد سعید
الرحمنٰ، ایڈوکیٹ۔
Comments
Post a Comment