حضرت ڈاکٹر علامہ شاہ محمدعلیم الدین صدیقی صندلیؒ

 

حضرت ڈاکٹر علامہ شاہ محمدعلیم الدین صدیقی صندلیؒ  

صاحبِ وَلایت بزرگ  و سابق امام وخطیب  شاہی مسجد، آگرہ، ہندوستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

از: محمد سعید الرحمن ، ایڈوکیٹ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حضرت ڈاکٹر  علامہ علیم الدین صدیقی رحمتہ اللہ علیہ کا شمار سلسلہ صندلیہ کےصاحبِ  ولایت بزرگوں میں ہوتا ہے۔ آپ کو سلسلے صندلیہ جو بنیادی طور پر سلسلہ قادریہ نقش بندیہ مجددیہ ہے میں حضرت علی محمد شاہ  قادری نقش بندی ؒ المعروف  میاں صندل شاہ ؒ ،  شہر پہاڑم، ضلع مین پوری، ہندوستان سے خلافت و نیابت  حاصل ہوئی تھی۔ اس سلسلے کی صندلیہ  کے نام سے وجہ شہرت  آپ کے پیر ومرشد کے جسم مبارک  سے صندل کی  خوشبو  کا  پھوٹ  کر فضاوں کو معطر کرنا ہے، کیوں کہ اس سلسلےکو صندل سے ایک خاص نسبت ہے اس لیے یہ سلسلہ پاک وہند میں سلسلہِ صندلیہ کہلایا جاتا ہے۔

 حضرت ڈاکٹر علیم الدین صدیقی  اپنے  پیرو مرشد کے  جانشین  و حامل خلافت کبریٰ ہیں ، کیونکہ عطائے خلافت  اوردستار بندی  کے وقت آپ کے پیر ومرشد نےآپ کو اپنے سینے مبارک سے لگاتے ہوئےخصوصی طور  اس امر کا بھی  اظہار فرمایا تھا کہ  ہم نے جو کچھ اپنی محنت سے  کمایا  اور جو ہمیں  براہ راست  رسول اکرم ﷺ سےا اور اپنے پیران شجرہ سے ملا وہ سب کچھ  تمھیں منتقل کردیا ہے، جب کہ آپ نے اپنےکسی بھی خلیفہ کو سوائے  دستار بندی اور خلافت  کا عہد لینےکے اس طرح کی خلافت عطا  نہیں کی تھی جس قسم کی خصوصی صراحت کے ساتھ خلافت آپ  کو  عطا فرمائی گئی تھی ۔

 اس ضمن میں ایک روایت یہ بھی ہے کہ  حضرت میاں صندل شاہ ؒ نے  حضرت ڈاکٹڑ علیم الدین صدیقی  کوعطائے خلافت کے وقت یہ   اظہار بھی فرمایا تھا کہ  جو کچھ ہمیں  اپنے پیر ومرشد یعنی حضرت میاں سراج الاسلام ؒ سے ملا  اور  جو ہمارے پاس ہے  اس کے اصل امین اور حقدار آپ ہیں اور یہ  امانتیں ہم آپ کی جانب لوٹاتے ہیں۔ لامڈھی کورنگی کے ممتاز عالمِ دین حضرت علامہ مولانا ابراہیم صندلی ؒ      جنہیں خود بھی  حضرت  میاں صندل شاہ ؒ سے خلافت حاصل ہوئی  تھی  اس طرز پر ملنے والی خلافت  کے بارے میں فرمایا کرتےتھے کہ حضرت ڈاکٹر علیم الدین صیدیقی ؒ  کو  حضرت میاں صندل شاہ ؒ سے  جو خلافت ملی ہے وہ خلافت کبریٰ ہے اور اس طرز پر ملنے والی خلافتِ کبریٰ کے حامل خلیفہ  ہی اپنے شیخِ طریقت کے قائم مقام وجانشین ہوتے ہیں اور یہی خلافت اصطلاحاتِ تصوف میں خلافتِ نیابت اور اصلی  خلافت  و جانشینی کہلاتی ہے جو الہام خداوندی پر عطا کی جائے۔اس کی مثال اس طرح  بھی دی جاتی ہے کہ حضرت بابا فریدگنج شکر رحمتہ اللہ علیہ ایک صاحب اولاد بزرگ تھے  مگر آپ نے اپنی ولایت(   جانشینی)  اپنی اولاد یا نواسوں کو  دینے کی بجائے  حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمتہ اللہ کو عطا فرمائی۔ اور حضرت  نظام الدین اولیا نے یہ ولایت  اپنے بھانجوں کو  دینے کی بجائے حضرت خواجہ نصیر الدین چراغ دہلی کو عطا کی۔ 

 علمی و  ادبی لحاظ سے آپ کے تعارف  کے لیے اتنا ہی بیان کردینا کافی ہے کہ  آپ کا شمار آگرہ  کے ممتاز علماء  اکرام میں ہوتا تھا، آپ قیام پاکستان سے قبل  شاہی مسجد ,  آگرہ، ہندوستان کے امام  و  خطیب رہے تھے اور آگرہ میں اپنے اس منصب پر فائز ہونے کی بناء پر  ہر خاص و عام  میں  آپ  امام صاحب کے نام سے ہی متعارف تھے اور اہلِ آگرہ   آپ کےانتہائی عقیدت مند تھے اور آپ کی علمی و روحانی  چشمہ فیض سے استفادہ حاصل  کیا کرتے تھے۔ آگرہ میں حاصل  اس   ہی اعزاز کی  وجہ سے ہی حلقہِ صندلیہ میں بھی آپ امام صاحب کے نام سے ہی معروف  رہےاور آپ کے پیر ومرشد حضرت میاں صندل شاہ ؒ نےبھی خود آپ   کے لیے ہمیشہ خاندانی نام  کی بجائے  امام صاحب کے نام کو استعمال کیا۔

 حضرت ڈاکٹر علیم الدین صدیقی کی جائے پیدائش جون پور، انڈیا ہے۔آپ کے والد گرامی کا نام  حضرت ڈاکٹر بدیع الزمانؒ  تھا  جب کہ آپ کی زوجہ ِمحترمہ  حضرت میاں صندل شاہ کے پیر ومرشد حضرت سراج الاسلام ؒ     کی حقیقی پوتی تھیں جن کے والد گرامی کا نام حضرت ضیاالاسلام تھا جو حضرت میاں صندل شاہ ؒ کے خلیفہ مجاز بھی تھے ۔حضرت سراج الاسلام ؒ   رشتے میں آپ کے نانا بھی ہوتے ہیں۔ کیونکہ آپ علمی اعتبار سے تو  اپنا ایک منفرد تشخص  پہلے سے ہی رکھتےتھے مگر اپنے شیخ طریقت سے اکتساب فیض اور منازل سلوک طے کرنے  کے بعد ر وحانیت کے بھی بلند درجے پر تھے اس لیے پاکستان اور ہندوستان کے  علماء و مشائخ آپ کی  بہت عزت وتکریم فرمایا کرتے تھے ۔ حضرت علامہ  مولانا ابراہیم صندلی ؒ  بھی آپکےبہت عقیدت مند تھے اور اپنے پیر ومرشد کے وصال کے بعد  حضرت ڈاکٹر  علیم الدین صدیقی ؒ   کوعلم و روحانیت کے اعلیٰ درجے پرفائز ہونے کی بناء پر پاکستان  میں اپنا روحانی  پیشوا و مرجع متصور کرتے تھے۔ اس لیے آپ نے وصیت فرمائی تھی کہ میری نمازِ جنازہ  کی امامت   کے لیے ترجیح حضرت ڈاکٹر علامہ علیم الدین صدیقی کو دی جائے اور اگر  کسی ناگیزیر وجوہات کی بنا ءپر ان سے رابطہ نہ ہو سکے تو پھر  حضرت ڈاکٹر فاروق  علی  فاروق مدظلہ العالیٰ  (لانڈھی کورنکی کے معروف فزیشن وسرجن ، کاشف کلینک )سے رابطہ کرکے ان سے نمازِ جنازہ کی امامت کے لیے     درخواست کی جائے۔ جناب ڈاکٹر فاروق  علی  فاروق مدظلہ العالی خود بھی  حضرت ڈاکٹر علامہ علیم الدین صدیقی ؒ کے  عقیدت مند ہیں اور آپ سے  گہرے مراسم رکھتے تھے۔

ویسے تو حضرت میاں صندل شاہ ؒ  کے خلفاء کی ایک خاصی  تعداد ہے، مگر ان تمام خلفاء  میں  عالم ِ دین  و  داعی اسلام ہونے کے علاوہ  اعلیٰ روحانی مقام پرفا ئزہونے کی بناء پر سلسلے صندلیہ میں (1) حضرت  علامہ ضیا الاسلامؒ (آگرہ، ہندوستان) فرزند حضرت سراج الاسلام ؒ  (2)  حضرت علامہ  ڈاکٹر علیم الدین صدیقی  ؒ  (3) حضرت  علامہ مولانا ابراہیم صندلی ؒ   کوہمیشہ فوفیت حاصل  رہی  اور حضرت میاں صندل شاہ ؒ نے بھی آپ تینوں  کو عالم ِدین ہونے کی  وجہ سے اپنے دیگر خلفاء حضرات پر ہمیشہ مقدم رکھا اور اپنے مریدیں و معتقدین  کو  بھی اس امر کی تاکید فرمایا کرتے تھے۔

  واضح  رہے کہ حضرت  ڈاکٹر علیم الدین صدیقیؒ   کو  حضرت میاں صندل شاہ ؒ سےبراہ راست خلافت حاصل ہونے کے باوجود آپ نے ایک عرصے دراز تک  سلسلہ کو  جاری نہیں فرمایا  اور پاکستان ہجرت فرمانے کے بعد  تبلیغِ  دین  و  رشد وہدایت  کے  کاموں میں انتہائی مشغول رہے بشمول پاکستان میں سیاست میں آپکا    تعلق ایک دینی جماعت سے بھی رہا تھا  مگر  آپ   اپنی دینی و سیاسی جماعت سے وابستگی اور بے انتہا  مصروفیات کے باوجود حضرت میاں صندل شاہ ؒ کے پاکستان میں مقیم دیگر خلفاء سے بھی مکمل رابطے میں رہا کرتے تھے اور سلسلہ صندلیہ کے فروغ میں آپ  نے ان کی  کامل رہنمائی و سرپرستی فرمائی اور الحمد اللہ آپ کی سرپرستی میں یہ سلسلہ پاکستان میں بھی کافی پھیلا۔

 خانقاہ فضیلیہ و  درگاہ ، ٹھٹھ سندھ  موسوم بہ حضرت شاہ فضیل قادری رحمتہ اللہ علیہ المعروف زندہ پیر  جن کا شمار سلسلہ  قادریہ نقش بندیہ کے پیران  شجرہ میں ہوتا ہے  کی سجادہ  نشینی     و  نگرانی حضرت میاں صندل شاہؒ کے خلفاء ومتوسلین  کو حاصل  رہی ہے۔   جب حضرت میاں صندل شاہ ؒ کے خلفاء  حضرات پاکستان تشریف  لے آئے تو ان خلفاءحضرات نے   حضرت شاہ فضیل قادری رحمتہ اللہ علیہ  کےمزارِ اقدس پر  باقاعدہ  ایک درگاہ  و خانقاہ  تعمیر کرکے آپ کےسالانہ عرس کی تقریبات کا سلسلہ جاری فرمایا ۔ابتداء میں اس درگاہ  و  خانقاہ کے ناظم اعلیٰ  حضرت مولانا  فضل الرحمن صندلیؒ  اور حضرت میاں اسحاق صندلیؒ    رہے اور ان دونوں برگوں کی حیات  تک حضرت شاہ فضیل قادری رحمتہ اللہ علیہ  سالانہ عرس کی تقریبات ان دونوں بزرگوں کی زیر نگرانی  ہی منعقد ہوتی رہیں ہیں اور اس درگاہ وخانقاہ عالیہ کو حضرت ڈاکٹر علیم الدین صدیقی کی سرپرستی حاصل رہی تھی۔ حضرت مولانا فضل الرحمن صندلی ؒ  کا وصال سن  1988 ء میں ہوا جب کہ حضرت میاں اسحاق صندلی ؒ کا وصال سن1991 ء کو ہوا۔ دونوں بزرگوں  کے وصال کے بعد  حضرت ڈاکٹر علیم الدین صدیقی  سے مشاورت کے بعد حضرت مولانا فضل الرحمن صندلی ؒ کےسجادہ نشین و فرزند حضرت محمد ظفر القادری  متذکرہ   درگاہ عالیہ  بر مزار اقدس حضرت شاہ فضیل قادری  ؒ  کے ناظم اعلیٰ مقرر ہوئے ۔

حضرت  ڈاکٹر علیم الدین صدیقیؒ   کی  سلسلہ صندلیہ کے فروغ میں کی جانے والی کاوشوں میں یہ امر   بھی ریکارڈپرہے کہ حضرت  علامہ مولانا  محمد ابراہیم  صندلی ؒ رحمہ کے وصال کے بعد آپ نے اپنی عدیم الفرصت کے باوجود حضرت مولانا  ابراہیم صندلی ؒ کے آستانہ صندلیہ  ، کورنگی ، کراچی کی سرپرستی فرمائی اور انتطامی امور کی نگرانی فرماتے رہتے تھے۔ جب تک آپ حیات رہے اس  آستانہ عالیہ میں حضرت مولانا ابراہیم صندلیؒ  و دیگر پیران شجرہ کےعرس مقدسہ کی تقریبات آپ ہی کی مشاورت و   زیر ِسیادت منعقد ہوا کرتی رہیں تھیں۔

 حضرت مولانا ابراہیم صندلی ؒ کےوصال کے  بعد حضرت  ڈاکٹر علیم الدین صدیقی ؒ سے بھی  سلسلہ  صندلیہ  جاری  ہوا  ہےاور آپ  نے کچھ اپنے معتقدین کو اپنے دست حق پر بیعت فرما کر داخلہ سلسلہ فرمایا ۔ کیونکہ حضرت  ڈاکٹر علیم الدین صدیقی کو اپنے پیر ومرشد سے خلافت کبریٰ حاصل تھی جو ایک خاص وَلایت کہلاتی ہے، مگر  آپ  نےاپنے کسی بھی مرید کو اس ولایت کا اہل نہیں پایا    جس کو  اپنی یہ وَلایت  عطا کریں جس طرح   آپ کے مرشد حضرت  میاں    صندل شاہ  ؒ  نے  آپ  کو اور  حضرت مولانا ابراہیم صندلی ؒ نے بھی اپنے مرید خاص حضرت جمال میاں اجمل صندلی مدظلہ العالیٰ  کو عطا کی تھی ۔    اس ہی وَلایت کی بابت  سلطان المشائخ   حضرت نظام الدین اولیاء ؒ  فرماتے ہیں کہ جب صاحبِ وَلایت تائب ہوتا ہے اور اطاعت کرتا ہے تو اس طاعت سےوہ بڑا  ذوق پاتا ہے اور ممکن ہے کہ مریدوں کو  خدا تک پہنچادے اور انہیں طریقت کے آداب سکھائے،   اگر وہ چاہے تو اسے استحقاق حاصل ہے کہ  یہ وَلایت کسی اپنے مرید کو    د ے سکتا ہے جو اپنے شیخِ طریقت کا جانشین  بھی کہلائے گا۔ اگر وہ اپنی پسند کے کس مرید  کو یہ وَلایت نہ  بھی دے  تو  اس شیخ ِ طریقت کا  یہ عمل بھی جائز  ہے، حق تعالیٰ اس وَلایت کو کسی دوسرے کو خود عطا کردیتا ہے۔

 واللہ اعلم بالصواب اللہ تبارک و تعالی ہی بہتر جانتا ہے کہ منجانب باری تعالیٰ حضرت ڈاکٹر علیم الدین صدیقی کی وَ لایت کسی کو عطا کی گئی یا کی جائے گی۔ تصوف میں یہ ایک عام رواج بھی ہے  کہ  اگر کوئی شیخِ طریقت کسی اپنے مرید کو خلافت دئیے بغیر اس   عالم ناسوت سے وصال فرما جائے  تو اس سلسلے کے مریدیں  باہم جمع ہوکر  اپنے میں سےکسی کو  یا  شیخِ طریقت کے کسی وارث کو  اس کا   جانشین  یاسجادہ نشین  بنا کر اس کی مسند پر  بیٹھا دیتے ہیں، مگر مشائخین کے نزدیک ایسی سجادگی  و جانشینی جائز نہیں ہے  ۔  البتہ  کسی خانقاہی نظام کو چلانے کے لیے جہاں مالی معاملات  کا دخل ہو،  وصال فرماجانے والے شیخِ طریقت کے کسی قرابت دار یا مرید کو کسی خانقاہ کا  سجادہ  نشین یا متولی بنانا ایک مختلف امر ہے اور یہ نامزدگی انتظامی نامزدگی کہلاتی ہے جو وَلایت کا متبادل نہں ہے اور نہ ہی اس نامزدگی کے حامل   کو صاحبِ وَلایت کہا جا سکتا ہے۔ بہرحال حضرت ڈاکٹر علیم الدین صدیقی نے اپنے  کسی مرید یا اپنے فرزندان کو بھی سلسلہ کی خلافت نہیں  دی اور نہ ہی اپنا سجادہ  نشین  مقرر کیا۔

آپ کا وصال  8 محرم الحرام  1424 ہجری بمطابق 12 مارچ  2003   کو ہوا۔ آپ  کی لحد مبارک   محمد شاہ قبرستان نارتھ کراچی میں  واقع ہے، پہلو ہی میں آپ کی اہلیہ محترمہ  بھی مدفون ہیں جو آپ کے وصال کے ایک سال بعد اس دارئے فانی سے کوچ کرگئیں تھیں۔ حضرت میاں صندل شاہ ؒ کے دیگر خلفاء کی طرح ، آپ کی   لحد مبارک پر کوئی گنبد  یا چار دیواری نہیں   اور نہ ہی آپ کا کوئی آستانہ  طریقت   یا  خانقاہ ہے بلکہ  یہ ایک عام سی لحد ہے جو اس امر کی نشاندھی کرتی ہے کہ جس طرح آپ کی  ظاہری زندگی فقیرانہ رہی، اللہ تعالیٰ نے بعد از وصال بھی آپ   مقام فقر پر فائز فرمایا ہے،آپ کی   لحد مبارک سے بھی اس کا اظہار ہوتا ہے۔  ویسے بھی یہ بات عام  مشاہدے میں ہے کہ بیشتر آستانوں و خانقاہوں میں شیخ طریقت کے وصال کے بعد  صرف رسومات ہی ادا ہوتی ہیں  اور ان خانقاہوں کا تشخص صرف مالی منافعت پر کنٹرول    اور ان سے حاصل ہونے والی  ذرائع آمدنی  کو  اپنے استعمال میں لانے کے لیے برقرار رکھا جاتا ہے،  یہی وجہ ہے کہ  علمی طبقے میں اس طرح کی خانقاہیں اور آستانے  نشان ِتنقید بنے ہوئے ہیں،  مگر الحمد للہ  حضرت ڈاکٹر علیم الدین  صدیقی اس طرح کی تنقید سے بھی مبرا ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ کی اولادوں کو بھی دینی و دنیاوی دونوں اعتبار سے خوب نوازا ہوا ہے  جو قابل رشک ہے۔   دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ   حضرت ڈاکٹر علیم الدین  صدیقی ؒ  کی سلسلے صندلیہ کی ترویج میں کی جانے والی بیش بہا خدمات کو اپنی پاک بارگاہ میں قبول فرمائے اور آپ کے فیض سے سلسلہ صندلیہ کے وابستگان و متوسلین کو مستفید فرمائے (آمین)۔ والسلام
(محمد سعید الرحمن، ایڈوکیٹ)

 

 

Comments

Popular posts from this blog

سلسلہِ صندلیہ . حضرت علی محمد المعروف میاں صندل شاہ رحمتہ اللہ علیہ

جون ایلیا ایک تعارف