حضرت شاہ ولی محمد چشتی سیکری رحمتہ اللہ علیہ
راجپوتایہ ، ہندوستان میں سلسلہ چشتیہ کی ترویج
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرتبہ کردہ : محمد سعید الرحمنٰ، ایڈوکیٹ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیکر بھارت کی ریاست راجستھان ( سابق ریاست راجپوتانہ) کا ایک اہم شہر ہے جسے شیخادائی بھی کہا جاتاہے۔تقسیم ہند اور تشکیل راجستھان سے قبل یہاں کثیر تعداد میں چھوٹی بڑی ریاستیں اور رجواڑے آباد تھے جن میں اکثریت راجپوتوں کی تھی ۔حضرت شاہ ولی محمد چشتی سیکری رحمتہ اللہ علیہ کا شمار ریاست راجھستان ، اندیا کے معروف بزرگوں میں ہوتا ہے آپ سن 1218 ہجری میں ﻗﺼﺒﮧ سنگھانہ ( ﺳﺎﺑﻖ رﯾﺎﺳﺖ جے ﭘﻮر) ﻣﻮﺟﻮدہ ﺿﻠﻊ ﺟﮭﻨﺠﮭﻨﻮں، راﺟﺴﺘﮭﺎن میں پیدا ہوئے۔ آپ سنگھانہ کے سادات رضوی بغدادی خاندان کے چشم وچراغ تھے۔آپ کے والد کا نام حضرت مولانا سید امانت علی شاہ سنگھانویؒ تھا جو میر نظام دکن کے دور شہنشاہت میں افواج دکن میں معزز عہدے پر فائز رہے تھے ۔ آپ کا نسب 28 واسطوں بشمول حضرت علی رضا رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہوتا ہوا حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے جاملتا ہے۔
آپ کے اسلاف کی سادات رضوی بغدادی کہلائے جانے کی وجہ یہ ہے کہ آپ کے جد امجاد کی آٹھ پشتیں یعنی (حضرت مخدوم سید ابو الخیر ؒ ، بن حضرت سید داود ؒ بن حضرت سید بہاو الدین ؒ ، بن حضرت سلیمان ؒ ، بن حضرت سید ابولفتح ؒ، بن حضرت سید عبد العزیز ، بن حضرت سید محمد ابراہیم ؒ ، بن حضرت امام علی رضا رضی اللہ عنہ ) تک مدنیہ منورہ میں ہی سکونت پذیر رہیں ہیں۔سن 660 ہجری میں حضرت مخدوم سید ابو الخیر رحمتہ اللہ علیہ کے صاحبزادے حضرت سید نطام الدین رحمتہ اللہ علیہ مدنیہ سے ہجرت کرکے بغداد تشریف لے آئے تھے اور باقی خاندان مدنیہ میں ہی رہا جو رضویہ کہلایا جاتا ہے اور حضرت سید نطام الدین رحمتہ اللہ علیہ کی اولاد رضو ی بغدادی کہلائی گئی۔جب کہ آپ کے اجداد میں سے ایک بزرگوار حضرت سید داود رحمتہ اللہ علیہ (داد حضرت مخدوم سید ابو الخیر رحمتہ اللہ علیہ) کو پہلے ہی حضرت غوث پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیعت اور ان کی محافل میں شرکت کا شرف بھی حاصل ہوا تھا۔
سن 828 ہجری میں پہلی دفعہ اس سادات رضوی بغدادی خاندان کے چشم و چراغ حضرت سید ابراہیم بغدادی(بن حضرت سید ملا عمر بغدادی، بن سید جلال صوفی ؒ بن حضرت سید محمود شہد بغدادی ؒ ، بن حضرت سید نطام الدین رحمتہ اللہ علیہ) بہ عہد سلطان مبارک شاہ بغرض سیاحت بغداد سے دہلی تشریف لائے تھےواپسی پر حضرت ناصرالدین محمود قادری اوچیؒ سے بیعت ہوئے اور بعدہ سن 829 ہجری کو بحکم مرشد دوبار ہندوستان تشریف لے آئے اور قبضہ سنگھانہ (ریاست جے پور)میں مستقل قیام پذیر ہوگے۔ حضرت سید ابراہیم بغدادی رحمتہ اللہ کا وصال سن 898 ہجری میں ہوا، مزار اقدس قبرستانِ ساداتِ سنگھانہ میں مرجع خلائق ہے ، اس کے بعد سے یہ خاندان سادات رضوی بغدادی سنگھانوی کہلایا جانے لگا اور حضرت سید ابراہیم بغدادی رحمتہ اللہ ہندوستان میں اس خاندانِ سادات رضوی بغدادی کے جد امجد ہیں۔
حضرت شاہ ولی محمدؒ کا نسبی تعلق بھی حضرت سید ابراہیم بغدادی رحمتہ اللہ سے ہے اور آپ کا شجرہ نسب دس واسطوں سے ہوتا ہوا حضرت سید ابراہیم بغدادی سےجا ملتا ہے ۔ آپ نے ظاہری تعلیم اپنے وقت کے نہایت فاضل و عالم بزرگ حضرت مولانا محمد بخش ؒ سے حاصل کی تھی اور ساتھ میں اپنے عم بزرگ اور والد محترم سے بھی علوم ظاہری اور فن طب کی تحصیل کرتے رہے۔ علاوہ ازین آپ نے حضرت مولانا مستجاب خان صاحب افغانی جونرہڑ شریف سے سنگھانہ تشریف لائے تھے سے فقہ اور حدیث کی تمام متداول کتب بھی پڑھیں اور تعلیم کے ساتھ ساتھ تقریبا سن 1237 ہجری سے آپ نے بذریعہ طب یونانی علاج معالجہ کا سلسلہ شروع کیا جو سن 1249 ہجری تک جاری رہا ۔ بعدہ آپ اپنے بھائی حضرت سید امین الدین شاہ ؒ کے ہمراہ ریاست جودھپور تشریف لے گے اور والئی جودھپور مہاراجہ مان سنگھ کے ہاں ملازم ہوگے۔ ریاست جودھپور سے آپ کے خاندان کا یہ پہلا تعلق تھا۔
سن 1250 میں جب آپ کے بڑے بھائی حضرت سید محمد شاہ ؒ کی وصال کی اطلاع ہوصول ہوئی تو آپ برادران ملازمت ترک کرکے سنگھانہ تشریف لے آئے اور حضرت شاہ ولی محمدؒ سیکر میں طبیب سرکاری کے طور پر مامور ہوئے اور سیکر کے نوجوان فرمانروا راو راجہ رام پرتاب سنگھ کی اردو اور فارسی کی تعلیم کے اتالیق بھی رہے۔
تاریخ سے اس بات کے شواہد بھی ملتے ہیں کہ سن 1252 ہجری تا سن 1264 میں آپ سیکر ریاست کے سرکاری وکیل بھی رہے تھے اور اس ہی زمانے میں آپ سلسلہ بیعت سے بھی منسلک ہوئے۔ آپ وکالتِ سیکر کے سلسلے میں عموماً جے پور، اجمیر اور آبو آتے جاتے رہتے تھے اور آپ کو علما، مشائخ اور فقرا کی صحبت کا شوق بھی تھا۔ جے پور میں آپ نے حضرت مسیکن شاہ کی تعریف سن کر ان کی زیارت کے لیے تشریف لے گئے اور چند روز ان کی خدمت میں رہ کر بیعت کی سعادت حاصل کی اور اپنے پیر ومرشد کے حکم پر ملازمت ترک کرکے گوشہ نشینی اختیار کرلی۔
حضرت مسکین شاہؒ نے چند ہی عرصے میں منازل سلوک کی تکمیل کے بعد آپ کو اپنی خلافت واجازت سے بھی مشرف فرمایا اور تبرکات مشائخ حضرت مولانا فخر الدین دہلوی ؒ کی کلاہ مبارک، حضرت مظہرجان جاناں دہلوی ؒ کا عصا اور اپنی قمیص مبارک بھی عطا فرمائی( یہ تمام تبرکات سیکری کی جامع مسجد کے حجرہ میں محفوظ ہیں) اور بغرض رشد وہدایت آپ کو سیکر جانے کا حکم دیا۔ آپ نے سیکر میں ایک ویران جگہ پر قیام فرمایا جہاں اب آپ کی درگاہ معلیٰ واقع ہے۔
حضرت مسیکن شاہ سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں حضرت شاہ غلام علی دہلویؒ اور سلسلہ عالیہ چشتیہ میں حضرت مولانا شاہ نیاز احمد بریلوی کے خلیفہ ہیں۔ حضرت شاہ غلام علی دہلویؒ سلسلہ نقشبندیہ کے دہلی کے نامور صوفی بزرگ اور تیرہویں صدی ہجری کے مجدد تھے، آپ کو حضرت خواجہ میرزا جان جاناں شہید کے دست حق پرست پر بیعت کی سعادت حاصل ہوئی تھی۔ بعد بیعت سالہا سال آپ نے پیر و مرشد کی خدمت میں اوقات بسر کی اور وہ زہد و مجاہدہ و ریاضت کی جنہیں بیان نہیں کیا جاسکتا جس کی بدولت دن بدن عروج کمال اور مشاہدہ جمال شاہد بے زوال اور مکاشفہ و ترقیات فائقہ ہوئی یہاں تک کہ اپنے وقت کے شیخ الشیوخ اور صاحب ارشاد ہوئے۔ اپنے پیر و مرشد کی موجودگی میں ہی تلقین و ارشاد کا سلسلہ جاری فرمایا۔ اگرچہ آپ نے بیعت سلسلۂ قادریہ میں کی تھی لیکن ذکر و اذکار اور شغل و اذکار طریقۂ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ میں جاری فرمایا اور اس ہی طریقہ کی اجازت حاصل کی اور اپنے پیر و مرشد کے وصال کے بعد سجادہ نشین ہوئے ۔حضرت میرزاشہید کی طرح حضرت شاہ غلام علی دہلویؒ کے زمانہ میں بھی خانقاہِ مظہریہ کو رشد و ہدایت کے لحاظ سے مرکزی حیثیت حاصل رہی تھی اور آپ کو نقشبندِ ثانی کا خطاب عطا کیا گیا تھا۔ آپ کا وصال 22 صفر 1240ھ 16 اکتوبر 1824ء کو چوراسی (84) برس کی عمر مبارک میں حالت استغراق میں ہواور اپنے پیر ومرشدحضرت میرزا شہیدؒ کے پہلو میں مدفون ہوئے۔
حضرت سید یناز احمد علوی، قادری، چشتی ،سہروردی، نقشبندی قدس سرہ العزیز کا ا سما مبارک راز احمد ہے۔ آپ کو حضرت نیاز بے نیاز ؒ بھی کہا جاتا ہے۔ آپ کے والد محترم سلسلہ نقشبدیہ (قدیمہ) کے صاحب ارشاد بزرگ تھے اور انہیں سلسلہ چشتیہ صابریہ کی خلافت حاصل ہوئی تھی۔ ابتداً جب حضرت نیاز بے نیاز ؒ مدرسہ جانے کے قابل ہوئے تو آپ کے محترم نانا حضرت مولانا سعید الدین رضوی رحمتہ اللہ علیہ جنہیں سلسلہ چشتہ میں حضر ت کلیم اللہ جہان آبادی قدس سرہ العزیز سےخلافت حاصل تھی نے اپنا دست مبارک آپ کے ہاتھ پر رکھ دیا تھاْ جسے بیعت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ آپ کو دہلی میں ظاہری و باطنی علوم کی تعلیم کے لیے حضرت مولانا شاہ فخر الدین فخرجہاں دہلوی رحمتہ اللہ علیہ کے سپرد فرما دیا تھا جو خلیفہ و فرزند حضرت کلیم اللہ جہاں آبادی کے تھے اور وہ اُن دنوں اپنے والد گرامی حضرت کلیم اللہ جہاں آبادی کے حکم کے موجب اپنے پیر بھائی حضرت سعید الدین رضوی ؒ سے بطریق سلوک نعمتِ ہائے سلسلہ حاصل کرنے میں مشغول تھے۔ لہذا حضرت مولانا شاہ فخر الدین فخرجہاں دہلوی رحمتہ اللہ علیہ آپ کے نانا حضرت سعید الدین رضوی ؒ کا بہت احترام کرتے تھے اورسوئے ادب حضرت نیا ز بے نیاز ؒ کو اپنے دست مبارک پر بیعت کرنے کی بجائے اپنا دامن پکڑا کا اپنی بیعت سے بھی سرفراز فرمایا اور آپ کے نانا کے دست مبارک کو فوقیت دی اور اس کے بعد ظاہری و باطنی تعلیم دینا شروع کی۔ اس طرح گویا آپ کو سلسلہ چستیہ میں بیعت کا شرف حضرت کلیم اللہ جہان آبادی کے دونوں خلفاء یعنی حضرت سعید الدین رضوی ؒ اور حضرت مولانا شاہ فخر الدین فخرجہاں دہلوی ؒسے حاصل ہوا۔
جب حضرت نیاز بے نیاز ؒ سترہ (17) سال کی عمر میں فارغ تحصیل ہوگے توحضرت مولانا شاہ فخر الدین فخرجہاں دہلوی نے آپ کو دستار فضیلت کے ساتھ ہی خرقہ خلافت بھی مرحمت فرمایا۔ علاوہ ازین حضور غوث پاک نے آپ کو رویا میں حضرت سید عبداللہ بغدادی قادری ؒ جو کہ حضور غوث پاکؒ کے حکم پر بغداد سےدہلی تشریف لائے تھے کے دست مبارک پر قادری سلسلہ میں بیعت کرنے کا حکم بھی دیا۔ حضرت سید عبداللہ بغدادی قادری ؒ نے آپ کو ہر قسم کی تعلیم وتلقین کے علاوہ اشغال واذکار قادریہ وعربی میں خلافت نامہ و اپنی دستار ودیگر تبرکات مع خرقہ شریف حضور غوث اعظم کے مرحمت فرمایا۔ آپ ان دوسلسلوں کے علاوہ دیگر سلاسل کے بھی صاحب ِارشاد بزرگ تھے ۔ آپ کو سلسلہ چشتیہ صابریہ اور خاندان نقشبندیہ کا فیض اپنے والد گرامی سے حاصل ہوا۔ جب کہ سہروریہ کا فیض آپ کوبواسط حضرت مولانا فخر الدین دہلوی حاصل ہوا تھا ۔آپ اپنے پیران عظام کی طرح اہلِ سماع تھے اور جملہ لوازم شریعت اور شرائط طریقت و معرفت کے ساتھ سماع سنتے تھے۔
حضرت شاہ ولی محمدؒ کو اپنےمرشد گرامی سے چاروں سلاسل کے فیض حاصل ہوئے مگر غلبہ حال چشتیہ رہا۔ حصول خلافت و اجازت کے بعد ہی آپ کی ذات اقدس سے ہدایت وعرفان کا فیض جاری ہونے لگا اور آپ کا شمار ہندوستان میں تیرہویں صدی کے مشاہیر اولیا اکرام اور صاحب ارشاد بزرگوںمیں ہوتا ہے۔ آپ کی ذات بابرکات سے سیکر میں ایک ایسا چشتی چراغ روش ہوا جس نے راجپوتانہ کے چپہ چپہ اور گوشے گوشے کو منور فرمایا تھا ۔ طبی دنیا میں آپ نے ایک طبیبِ جسمانی اور روحانی ِ دنیا میں طبیب ِروحانی کی حیثیت سے شہرت پائی ۔ ہندوستان و پاکستان میں آپ کے متوسیلن کا ایک وسیع سلسلہ پھیلا ہوا ہے۔ علاوہ مریدین کے آپ کے معتقدین کا دائرہ بھی بہت وسیع تھا جسن میں راجہ راو پڑتاب سنگھ اور ان کے جانشین راجہ راو بھیروں سنگھ اور شہر کے تمام مسلم وغیر مسلم حکام وعمائدین شامل تھے ۔
تاریخ تصوف کے مطابق ریاست سیکر کے آپ ہی پہلے بزرگ ہیں جن سے اہلیان راجپوتانہ میں ہدایت کے فیض کا چشمہ جاری ہوا اور آپ ہی اس ریاست کے اولین طبیب آعظم ہیں جنہوں نے یہاں سب سے پہلے طب یونانی کو متعارف کروایا اور سیکر میں سب سے پہلا کتب خانہ بھی آپ نے اپنی خانقاہ عالیہ میں قائم فرمایا جو عربی فارسی اور قدیم اردوکی نادر اور نایاب کتب کا بے نظیر کتب خانہ تھا۔
آپ کا وصال 5 ذی قعدہ سن 1283 ہجری کو ہوا ، آپ کا مزار اقدس خانقاہ عالیہ سیکر میں مرجع خلائق ہے۔ ہر سال آپ کا عرس مبارک 3 سے 5 ذی قعدہ تک نہایت تزک و اختشام سے منایا جاتا ہے۔ عرس کی مرکزی تقریبات خانقاہ عالیہ سیکر میں منعقدہ ہوتی ہیں جب کہ خانقاہ چشتیہ میرپور خاص سندھ منسوب بہ پیر طریقت حضرت سید اکرام حسین رضوی چشتی سیکری رحمتہ اللہ علیہ میں بھی آپ کے محبین و متوسیلن مقررہ تاریخ کو سالانہ عرس کا اہتمام کرتے ہیں ۔ کراچی میں آپ کے عرس کا اہتمام زیر سرپرستی حضرت سید انصار حسین چشتی مدظلہ العالیٰ بمقام رہائش گاہ فرزندگان حضرت عبد الرحمن قریشی رحمتہ اللہ علیہ ،سیکر ہاوس، خداداد کالونی منعقد کیا جاتا ہے جس میں دیگر سلاسل کے مشائخ بھی شرکت فرماتے ہیں۔ حضرت عبد الرحمن قریشی رحمتہ اللہ علیہ کوشرف بیعت دست مبارک حضرت حکیم سید شمشاد حسین شاہ ؒ حاصل ہوا تھا، جب کے آپ کے فرزند جناب ناصر قریشی چشتی مدظلہ العالیٰ کا روحانی تعلق خانقاہ چشتیہ میرپور خاص ، سندھ سے ہے اور آپ کو اس خانقاہ کے سجادہ نشین حضرت سیدا کرام حسین چشتیؒ سے شرفِ بیعت و خلافت حاصل ہے۔
حضرت شاہ ولی محمدؒ نے اپنے وصال سے قبل ہی اپنے مرید و بھتیجے حضرت مولانا حکیم سید کرامت علی شاہ ؒ بن حضرت حکیم سید امین الدین شاہؒ کو اپنی خلافت سے سرفراز فرما کر خانقاہ عالیہ سیکر، راجپوتانہ کا سجادہ نشین مقرر کردیا تھا۔بعدہ ُاس خانقاہ عالیہ کی سجادہ نشینی پر بلتریب حضرت حکیم مولاناسید اکبر علی شاہ ؒ اور پھر حکیم مولانا سید سجادہ حسین شاہ ؒ جلوہ افروز ہوئے۔ حضرت مولانا حکیم سید کرامت علی شاہ ؒ اور حضرت حکیم مولاناسید اکبر علی شاہ کا مزار اقدس خانقاہ چشتیہ سیکر میں حضرت شاہ ولی محمد ؒ کے روضہ مبارک سے متصل ہے۔ ان دونوں بزرگوں کے بعد حضرت مولانا سید سجادہ حسین شاہ ؒ خانقاہ عالیہ سیکر کی مسند سجادگی پر رونق افزا ہوئے تھے مگر قیام پاکستان کے بعد آپ نے اپنی اہلیہ محترمہ اور تین فرزندان حضرت سیدا کرام حسین چشتیؒ ، حضرت سید اقبال حسین چشتی ؒ اور حضرت سید اسلام حسین چشتی ؒکے ہمراہ پاکستان ہجرت فرمائی اور اپنے بڑے فرزند حضرت حکیم سید شمشاد حسین شاہ ؒ کو اپنی خلافت واجازت سے مشرف فرما کر خانقاہ عالیہ سیکر کی مسندِ سجادہ نشینی پر فائز فرمایا۔
حضرت حکیم مولانا سید سجادہ حسین شاہ ؒ کا وصال پاکستان میں ہوا اور آپ کا مزار اقدس حیدرآباد سندھ میں زیات گاہ خاص و عام ہے۔ حضرت حکیم مولانا سید سجادہ حسین شاہ ؒ کے وصال کے بعد آپ کے ایک اور فرزند حضرت مولانا حکیم سید اکرام شاہ سیکریؒ جوآپ کے ساتھ پاکستان تشریف لے آئے سلسلہ چشتیہ نیازیہ کے فروغ میں مشغول ہوئےاور خانقاہ عالیہ چشتیہ میرپور خاص سندھ کا قیام عمل میں لایا گیا اور آپ نے اس خانقاہ کی سجادہ نشینی و سرپرستی فرمائی۔ حضرت مولانا حکیم سید اکرام شاہ سیکریؒ کے مریدین و معتقدین کا ایک وسیع حلقہ رہا ہےجس میں پاکستان کی متعدد سیاسی، علمی ، ادبی شخصیت شامل تھیں، آپ کا وصال 19 ربیع الثانی 1428 ہجری بمطابق 6 مئی 2007 کو ہوا۔ مزار اقدس خانقاہ عالیہ چشتیہ میرپور خاص میں مرجع خلائق ہے۔ حضرت مولانا حکیم سید اکرام شاہ سیکری ؒ کے وصال کے بعد حضرت سید انصار حسین چشتی مدظلہ العالیٰ مسند سجادگی پر فائز ہیں اور آپ کے دست مبارک سے سلسلہ نیازیہ چشتیہ کا فیض جاری و ساری ہے۔
والسلام۔ محمد سعید الرحمن ، ایڈوکیٹ۔
Comments
Post a Comment