حضرت مولانا قاضی زین العابدین دہلوی رحمتہ اللہ علیہ
مزار
اقدس: میوہ شاہ قبرستان،کراچی
========================
حضرت مولانا قاضی زین
العابدین رحمتہ اللہ علیہ (ولادت1901ء
وصال 1974ء) کا شمار بھی اُنہی نفوسِ قدسیہ
میں ہوتا ہے، جنہیں اہل تصوف صوفی کہتے ہیں یعنی جن کا جینا اور مرنا اللہ تعالیٰ کے لئے ہوتا ہے اور ان کے طرز فکر اور طرز عمل میں زہد، تقوٰی، فقر کی خصوصیات شامل ہوتی ہے۔ خالقِ کائنات نے
آپ کو بھی اصلاحِ امت اور اپنی دوستی کے
لئے مخصوص فرما یا ہوا تھا اور آپ نے بھی اللہ سے
لو لگانے کے ساتھ ساتھ اپنی پوری زندگی علمی و روحانی دونوں جہتوں سے دین
اسلام کی ترویج میں بسر کی۔آپ ایک صاحبِ
ارشاد پیر ِطریقت، مبلغِ شریعت و خطیب اسلام ہونےکے علاوہ صاحبِ تصنیف بزرگ
بھی تھےاور آپ کی کئی کتب اہل ِمعرفت وطریقت کے لیے گراں قدر سرمایہ ہیں جن میں
آپ کی تصنیف حقیقتِ ایمان ایک معرکہ آرا کتاب ہے۔
آپ نے ابتدائی درسی تعلیم کے ساتھ ساتھ (گیارہ )11 برس کی عمر میں حفظ
القرآن اور علمِ قرأت و تجوید کی تعلیم حاصل کرلی تھی۔ مزید تعلیم کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے، آپ نے
دارالعلوم فتح پوری دہلی میں داخلہ لے لیا جو دہلی کی ایک معروف درسگاہ میں شمار ہوتا
تھا اور اس دارالعلوم میں وقت کے بڑے بڑے علما ء اکرام جلوہ گر تھےجن سے آپ نے فارسی درسیات کی متداول کتابیں پڑھیں۔ بعد از یں، آپ نے علوم شرقیہ کی تحصیل کے لیے
بھی اس ہی دارالعلوم میں شعبہ عربی میں داخلہ لے لیا اورعلم
تفسیر، علم حدیث، علم فقہ میں
دسترس حاصل کرکے دستار فضیلت سے مشرف ہوئے۔
علاوہ ازیں اسلامی افکار کے ساتھ ساتھ مغربی افکار کو سمجھنے کے لیے آپ نےحیدرآباد
دکن کی معروف علمی و روحانی شخصیت حضرت
علامہ عبد الرحمن ؒ سے باقاعدہ طور پر
علم منطق و فلسفہ کی تعلیم بھی حاصل کی
تھی۔
ظاہری
تحصیل علم کے بعد آپ درس و تدریس کے
شعبہ سے وابستہ ہوگے اور فتح پور، دہلی میں
اس دور کے عصری تقاضوں کے مطابق
اپنا ایک مدرسہ بنام "مصباح العلوم " قائم کیا جس میں آپ نےاپنے
وقت کےباصلاحیت اساتدہ اکرام اور نصابِ
تعلیم کا خصوصی التزام رکھا ۔ آپ نے درس نظای کی تعلیم کے لیے درجات مقرر فرمائے اور طلبا کے لیےکتب معتبرہ کی فراہمی کا خصوصی انتظام
کیا۔ آپ کی خوش خلقی اور ہر
دلعزیزی اور مدرسہ میں مہیا کردہ سہولیات کے باعث اطراف ِدہلی سے طالبان علوم
مشرقیہ نے آپ کے اس مدرسہ میں داخل ہوکر
اپنی شمولیت کو نعمت غیر مترقبہ سمجھا اور بہت ہی قلیل عرصے میں آپ کے
دارلعلوم کو دہلی میں خاص شہرت ھاصل ہوئی گئی تھی۔ آپ کی پوری کوشش اور جدوجہد رہی کہ اس
مدرسہ کے طالب علموں کو اس طرح زیور علم سے آراستہ کیا جائے کہ وہ تبلیغ دین
کے مشن کو کماحقہ ادا کرسکیں۔
اپنے
ذوق کے مطابق مخلوق خدا کی رہنمائی جو خالق کائنات نے آپکی فطرت میں ودیعت کی
ہوئی تھی ،آپ نے درس و تدریس کے ساتھ ساتھ
امامت و خطابت کو بھی اپنی
تبلیغ کا ذریعہ بنایا اور بہت جلد ہی دہلی میں آپ نےایک
بلند مرتبہ عالمِ دین و خطیب کے طور پر نمایاں شہرت حاصل کی۔خطابت اللہ
تعالیٰ کی عطاکردہ،خاص استعداد و صلاحیت
کا نام ہے جس کےذریعے ایک مبلغ اپنے مافی الضمیر کے اظہار ،اپنے جذبات واحساسات
دوسروں تک منتقل کرنے اور عوام الناس کو اپنے افکار ونظریات کا قائل بنانے کے لیے
استعمال کرتا ہے،کیونکہ فن خطابت میں آپ کو اوجِ کمال حاصل ہوگیا تھا اور اہلیان
دہلی آپ کا خطاب سننے دور دور سے آتے تھے
اور آپ کے چشمہ علمی سے سیراب ہوتے تھے۔
دران ِقیام
دہلی آپ کا معمول رہاکہ آپ پہاڑ گنج کی
جامع مسجد میں بلا ناغہ بعد نماز ِفجر
قرآن پاک و حدیث کا درس دیا کرتے تھے؛ ساتھ
ہی دوران درس مختلف شرعی مسائل اور دیگر اخلاقی شرعی رہنمائی کے لیے قرآن و
سنت اور آثارِ صحابہ سے اخذ کردہ دلائل
سےعامۃ الناس کو دین کے فہم میں
آسانی فراہم کرتے رہتے تھے۔ اسلامی معاشرے میں بطور راہنما دراصل ایک امام و خطیب ہی ہوتا ہے، جس کی ذمہ داریوں میں
سے ایک یہ ذمہ داری بھی ہوتی ہے کہ وہ
وقت، دن اور مہینوں کی مناسبت سے قوم کی راہنمائی کرے، آپ نے درس قرآن و درس
حدیث کے علاوہ اپنی اس ذمہ داری کو بھی کماحقہ
اداکیا اور مختلف موضوعات وعنوانات
پر خطاب کرنابھی آپ کا معمول رہا۔ دین میں
ہمیشہ علماء کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے؛ علماء ہی انبیاء کے وارث ہیں کہ جنہوں
نے نبوی مشن سنبھالتے ہوئے شریعت کےعلم کو دوسرےلوگوں تک پہنچانا ہوتاہے۔
حضرت قاضی صاحب ؒ کا شمار
بھی اپنی روحانی و علمی خدمات کے حوالے سے بلا مبالغہ انہی نفوس میں ہوتا ہے
جنہیں نائبِ رسول کہا جاسکتا ہے۔ آپ کا انداز مخاطبت انتہائی دلنشین و سادہ ہوتا تھا،
بے شمار افراد نے آپ کی نصحیت کے
زیر اثر اپنے اعمال میں بہتری پیدا کرکے
نمایاں مقام حاصل کیا، جس کی مثال آپ کے بے شمار مریدین ومحبین بھی ہیں۔
حضرت قاضی صاحب کا یہ بھی معمول تھا کہ آپ شب
3 بجے سے بیدار ہوکر بعد نماز تہجد بالحاح و زاری بارگاہ رب العزت میں دست دعا
دراز فرما کر مشغول مناجات ہوا کرتے تھے اور اپنی اس روش پر تا دم مرگ استقامت
فرمائی۔ آپ ایک جید حافظ و قاری تھے اور عموماً
شب بھر میں پورا قرآن ختم کیا کرتے تھے۔
آپ کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ آپ نے
رمضان المبارک میں نماز تروایح میں
میں 52 محرابیں سنانے کی سعادت حاصل کی تھی۔ آپ کو حج بیعت اللہ کی سعادت
سن 1938 ء میں جب آپ کا قیام دہلی میں تھا
حاصل ہوئی۔ اس کے بعد بھی آپ نے تین حج و عمرہ ادا کرنے کی سعادت سے مشرف
ہوئے۔ علاوہ ازین آپ کو عراق و شام کے مزارت مقدسہ کی زیارت کاشرف بھی حاصل ہو جو کہ ایک روحانی سفر تھا ، جس میں آپ دورانِ زیارت مقدسہ روحانی
کیفیات و قلبی داردات سے سرشار ہوئے جس کو آپ نے اپنے سفر نامہ عراق وشام کے نام
سے قلمند کیا ہے۔ آپ کی یہ تصنیف بھی ایک
سالکانِ راہِ طریقت کے گراں قدر سرمایہ ہے۔
آپ کا تعلق سلسلہ طریقت
میں نقشبندیہ سےہے اور آپ کو اس سلسلے میں
حضرت مولانا عبد السلام نقش بندی رحمتہ
اللہ علیہ (متوفی 9 ربیع الثانی 1368 ھ ) جن کا مزار اقدس
بہادر گنج، امروہہ، ہندوستان میں
مرجع خلائق ہے سے شرف بیعت و خلافت حاصل ہوئی۔ اس
سلسلہ کی امتیازی علامت اتباع شریعت اور رسم و بدعت سے نفرت ہے، اس سلسلے کےپیرو کار امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے مسلک پر ہوتے ہیں
اور اکثر مشائخ اس طریقۂ عالیہ کے حنفی مسلک کےہوئے ہیں ۔ حضرت قاضی صاحب
بھی حنفی مسلک تھے۔ آپ کا سلسلہ طریقت 19
واسطوں سے ہوتا ہوا حضرت شیخ بہاؤالدین نقشبند قدس سرہ العزیز سے جا ملتا ہے۔ حضرت
شیخ بہاؤالدین نقشبند کو سلسلہ نقش بندیہ کا بانی اور امام متصور کیا جاتا ہے۔
سلسلہ
طریقت میں سلسلہ نقش بندیہ ہی وہ واحد سلسلہ ہے جو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ
عنہ سے جاری ہوا۔ اس سلسلہ کوحضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے
لے کر حضرت شیخ طیفور ابن عیسیٰ ابو یزید بسطامی ؒ تک سلسلہ صدیقیہ کہا جاتا
تھا، پھر یہ سلسلہ حضرت شیخ طیفورؒ سے لے کر خواجہ خواجگان حضرت شیخ عبد الخالق
غجدوانیؒ تک سلسلہ طیفوریہ کہلا یاجا نے
لگا،پھرحضرت خواجہ عبد الخالق غجدوانی سے لے کر حضرت شیخ بہاؤالدین محمد اویسی
بخاری تک یہ سلسلہ خواجگانیہ کہلایا گیا اور
اب حضرت شیخ بہاؤالدین نقشبند ؒ سے لیکر تا حال یہ سلسلہ نقشبندیہ کہلا یاجا رہا
ہے۔
حضرت قاضی صاحب ؒ کے
شیخ طریقت حضرت مولانا عبد السلام نقش
بندی ؒ ایک قوی نسبت بزرگ تھے۔آپ کو اپنے
پیرومرشد سے نقش بندیہ سلسلہ کے فیض کے
علاوہ مجمع سلاسل
کافیض بھی حاصل ہوا۔ آپ کے پیران
شجرہ میں سلسلے کی کڑی میں ایک صوفی بزرگ
حضرت مولانا فخر الدین احمد حکیم بادشاہ الہ آبادی ؒ بھی
گزرے ہیں جن کا مزار اقدس یحیی پور، الہ آباد میں مرجع خلائق ہے۔
حضرت مولانا فخر الدین احمد حکیم بادشاہ الہ آبادی کو اپنے والد حضرت شاہ محمد زماں
فرزند حضرت شاہ محمد رفیع الزماں
رحمتہ اللہ علیہ سے سلسلہ قادریہ سہروریہ میں خلافت و جانشینی حاصل تھی علاو ازیں، آپ نے لکھنو جاکر حضرت مولانا مفتی محمد یوسف اور حضرت
مولانا محمد اصغر فرنگی محلی سے علوم مروجہ کی تکمیل کی تھی، آپ کی تصینف " ازلہ شکوک والابام" ایک معرکتہ
آرا تصنیف جو آپ نے مولوی محمد
اسماعیل دہلوی کے رسالے "تقویت الایمان" کے رد میں لکھی تھی۔
ہندوستان میں الہ آباد
بھی ایک ایسا شہر ہے جہاں اولیا اللہ نے
اپنے ڈیڑے جمائے ہوئے تھے اور خانقاہی نظام کی بنیاد ڈالی تھی اور اپنی اپنی
روحانی خانقاہیں قائم کی تھیں جنہیں دائرے کہا جاتا تھا۔ الہ آباد کے یہ دائرے (خانقاہیں) جنکی تعداد 12 تھی پورے ہندستان میں بہت مشہور ہوئے جن میں
ایک دائر ہ (خانقاہ) شاہ رفیع ؒکے نام سے بھی مشہور ہے۔
حضرت مولانا
فخر الدین احمد حکیم بادشاہ الہ
آبادی کی ولادت با سعادت سن 1231 ھ میں
اس دائرہ (خانقاہ) میں ہی ہوئی تھی۔ دراصل اس خانقاہ کے اولین صاحب
ارشاد بزرگ اور بانی حضرت شاہ عبدالطیف ؒ (متوفی
1039ھ)تھے جو دربارِ اکبری کے ایک اہم رکن
اور صوبہ جات بنگال ، بہار و
آڑیسہ کے طرف دار تھے بعد
میں آپ نے دربارِ اکبری سے مستعفی
ہوکر فقیری اختیار کی اور قادریہ و
سہروریہ سلسلے کے بزرگ حضرت راجو محمد قدس
سرہ العزیز کےدست حق پر بیعت کی سعادت حاصل کی اور
سلوک کی منازل طے کرنے کے بعد صاحب
مجاز ہوئے اور ایک عرصے تک اس خانقاہ کےمسند
ارشاد پر متمکن رہے۔ حضرت راجو محمد
رحمتہ اللہ علیہ کا سلسلہِ
طریقت آٹھ واسطوں سے حضرت بہاوالدین زکریا ملتانی ؒ سے جا ملتا ہے۔ جب اس خانقاہ میں سلسلہ با سلسلہ مسند ارشاد پر حضرت شاہ محمد رفیع الزماں رحمتہ اللہ علیہ (متوفی
1208ھ) جلوہ افروز ہوئے تو اس دائرے (خانقاہ) کو شہرت آپ کے نام سے حاصل ہوئی اور یہ
خانقاہ دائرہ رفیع کہلائی جانے لگی اور اس
خانقاہ کی مسند ارشاد پر سلسلہ با سلسلہ حضرت قاضی صاحب ؒ کے پیران شجرہ حضرت مولانا
فخر الدین احمد حکیم بادشاہ الہ
آبادی (متوفی 23 ربیع الثانی 1303 ھ ) بھی جلوہ افروز
ہوئے تھے۔
حضرت مولانا فخر الدین احمد حکیم بادشاہ الہ آبادی ؒ کو
سلسلہ قادریہ سہروریہ کی مسند نشینی کے علاوہ نقش بندیہ منازل سلوک طے کرنے کے بعد سلسلہ نقش بندیہ کی اجازت و خلافت بھی حضرت
میر فرخ علی عرف مولوی سید محمد
عاشق علی نقش بندی رحمتہ اللہ علیہ سے حاصل
ہوئی تھی۔آپ نے اپنے والد گرامی حضرت شاہ
محمد زماں رحمتہ اللہ علیہ کی حیات میں
ہی بیعت و ارشاد کا آغاز کردیا تھا اور آپ کے والد کے وصال (سن 1285ھ) کے بعد
سلسلہ قادریہ سہرودیہ کا فیض آپ سے
بھی جاری و ساری رہا اور بعد از حامل خلافت نقش بندیہ کے بعد سلسلہ نقش بندیہ بھی آپ سے جاری ہوا۔ الہ آباد، مراد پور، بنارس، کانپور،
بریلی اور کلکتہ وغیرہ میں آپ کے کثیر مریدیں آباد تھے۔ اس سلسلہ نقش بندیہ عالیہ میں حضرت مولانا فخر الدین احمد حکیم بادشاہ الہ آبادی ؒ سے لیکر حضرت قاضی زین العابدین ؒ تک تین
درج ذیل واسطے شامل ہیں اور یہ تینوں مشائخ بھی اپنے وقت کے جلیل
القدر صاحب ارشاد بزرگ گزرے ہیں:
1۔حضرت حافظ محمد عباس
علی خاں امروہوی ؒ (تاریخ وصال 6 رمضان
1326 ھ )مزار اقدس، امروہہ
ہندوستان۔
2۔ حضرت مولانا خواجہ
احمد حسین خان امروہویؒ (تاریخ
وصال 27 رجب 1361 ھ) مزار اقدس روضہ
حضرت عباس علی شاہ ؒ ، امروہہ، ہندوستان
3۔ حضرت مولانا
عبد السلام ؒ (تاریخ
وصال 9 ربیع الثانی 1368 ھ )
مزار اقدس بہادر گنج، مراد آباد۔
ہندوستان۔
حضرت قاضی صاحبؒ کے پیران شجرہ میں حضرت
حافظ محمد عباس علی خاں امروہویؒ ولد دلدار علی خان ولد غلام مولیٰ خاں کا نام بھی شامل جن کا
شمار بھی اپنے وقت کے ولی کامل میں ہوتاہے اور آپ
کی ولادت امروہہ میں ہوئی تھی۔ آپ ابھی کم سن ہی تھے کہ آپ کے والد
دلدار علی خان کا انتقال ہوگیا تھا اور آپ کی
تعلیم وتربیت آپ کے دادا غلام مولیٰ خاں کی نگرانی میں ہوئی تھی
۔مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی کی والدہِ
محترمہ آبادی بیگم(المعروف بی اماں)
دختر مظفر علی خان ولد غلام مولیٰ علی خاں آپ کی حقیقی چچازادہ بہن تھیں۔ حضرت
حافظ محمد عباس علی خاں امروہوی نےمولانا فخر الدین احمد حکیم بادشاہ الہ آبادی کے دست حق پر بیعت کرکے
برسوں انکی خدمت کرتے ہوئے راہ سلوک طے کیا تھا اور مسند ارشاد پر فائز ہوئےتھے ۔ امروہہ اور
دیگر شہروں میں آپ کے بے شمار مریدیں تھے اور آپ سلسلہ نقش بندیہ اور قادریہ سہرودریہ دونوں میں بیعت کیا کرتے تھے؛حضرت مولانا
خواجہ احمد حسین خان امروہویؒ
جو حضرت قاضی صاحب ؒ کے دادا پیر ہیں ،آپ ہی کے فرزند وخلیفہ مجاز ہیں۔
مجمع السلاسل حضرت
مولانا خواجہ احمد حسین خان امروہویؒ
بھی ہند وپاک کے ایک معروف بزرگ گزرے ہیں اور آپ
علامہ بایزید کے لقب سے مشہور ہوئے۔آپ بھی صاحب تصینف بزرگ تھے، آپ کی
کئی تصانیف ہیں جن میں آپ کی تالیف
کردہ علم حدیث و اعمال پرایک صخیم کتاب سنن احمدیہ معروف بہ فتاوی محبوبیہ کو شہرت دوائم حاصل ہے، یہ کتاب پہلی بار سن 1899 میں حیدرآباد دکن سے
شائع ہوئی تھی۔ حضرت مولانا خواجہ احمد حسین
خان امروہویؒ نے اپنے والد گرامی
سے سلسلہ عالیہ نقش بندیہ اور سلسلہ قادریہ
و سہرودیہ میں خلافت پائی تھی مگر اس کے
علاوہ بھی آپ کو حیدرآباد دکن میں حضرت
معروف علی شاہ قادریؒ نے بھی خلافت سے
سرفراز فرمایا تھا اور آخر میں سلاسل
طریقت کی تمام خلافتوں پر اعلیٰ حضرت امام
اہلسنت حضرت مولانا شاہ عبد المصطفے محمد احمد خاں رضا بریلوی ؒ نے
اپنے دست مبارک سے مہر تصدیق ثبت کی تھی اور فی البدیہہ تاریخ
خلافت " تاج الفیوض"
ارشاد فرمائی تھی جس سے سن 1331
برآمد ہوتے ہیں۔ حضرت مولانا خواجہ احمد حسین
خان امروہویؒ کے ایک خلیفہ مولوی محمد اختر خاں رامپوری ؒ اپنے مرشد کے حالات میں تحریر فرماتے ہیں کہ بایزید دوران حضرت مولانا خواجہ احمد حسین
خان امروہویؒ اس دور کے صوفیا
اکرام میں ایک ممتاز درجہ رکھتے ہیں، چاروں سلاسل
طریقت کے آپ تعلیماً و تفصیلاً جامع ہیں اس ہی لیے مجمع السلاسل کے الفاظ آپ کے
نام کے ساتھ لکھے جاتے ہیں۔ آپ کے کئی
نامور خلفا ءاکرام گزرے ہیں جن میں حضرت
مولانا عبد السلام ؒ بھی شامل
ہیں۔
حضرت قاضی صاحب ؒ کے پیر ومرشد حضرت مولانا عبد السلام ؒ
کا مسکن بہادر گنج، مراد آباد تھا۔ آپ کے کمالات
باطنی و مقاماتِ قرب کو ضبط تحریر میں لانا ممکن نہیں مگر یہ امر
ِحقیقت ہے کہ منازلِ سلوک میں انتہا کی چاسنی تک
سالک کی رسائی کرادینا
آپ کے لیےایک عام سی بات تھی اور ہمہ وقت مراقب ، حضور ذات آپ کا طرہ امتیاز تھا۔ آپ کا معمول تھا کہ آپ کچھ عرصے اپنے شہر مراد آباد میں قیام پذیر رہے کر اپنے مریدیں کو راہ سلوک کی منازل طے کرواتے تھے اور کچھ
عرصے کے لیے دہلی تشریف لے جاتے تھے اور وہاں
شہر سے دور حضرت سید حسن شاہ ؒ رسول نما کی مسجد جو "جنوں والی مسجد "کے
نام سے مشہور تھی، آپ وہاں اقامت پذیر ہوتے تھے۔ حضرت قاضی صاحب ؒنے اپنے پیر ومرشد
سے ہر دومقام پر فیض وتربیت حاصل کی اور پیر ومرشد کی صحبت عالیہ سے اکتساب فیض
فرمانے کے بعد فنا وبقا کے مراحل سے گزر کر صاحب ارشاد کے منصب پر فائز ہوئے اور رشد و
ہدایت کا آغاز کیا تھا۔ جلد ہی بہت سے
طالبانِ صادق آپ کے گرد جمع ہوگے تھے اور آپ کے دست حق پر بیعت ہوکر حلق ارادت میں داخل ہوئے۔آغاز بیعت کے بعد سے حضرت قاضی صاحب
ؒ کا معمول رہا کہ اپنی دیگر دینی
مصروفیات کے علاوہ بعد نماز عشا حلقے ذکر
کا اہتمام فرمایا کرتےتھے اور طالبانِ سلوک
کے قلوب کو اپنی باطنی توجہ و
نسبتِ روحانی سے فیض پہنچا کر توجہ دولت
الی اللہ سے مشرف فرماتے تھے۔ اصطلاحات تصوف میں صاحبِ
ارشاد پیر طریقت اللہ تعالیٰ کے وہ برگزیدہ بندے ہوتے ہیں جن کے دل اللہ تعالیٰ کی
معرفت میں ہمہ وقت مستغرق رہتےہیں اور انہیں فنا فی اللہ ہوجانے کی بناٗء پرقربِ
ذات باری تعالیٰ حاصل ہوتا ہے اور اسرارِ ذات حق اُن پر منکشف ہوتے ہیں اور یہ
حضرات انبیاء علیہ السلام کے حقیقی نائب ہوتے ہیں۔ ان ہی کے سپرد خدمت خلق متعلق اصلاحِ قلب و تربیتِ
نفوس وتعلیمِ طرائق قربِ الی اللہ ہوتی ہے۔
قیام پاکستان کے بعد آپ سن 1947ء میں پاکستان تشریف لے آئے۔ جس وقت آپ نے سنت
نبویﷺ کی پیروی کرتے ہوئے پاکستان ہجرت کا قصد کیا؛ ایک بہت بڑا قافلہ وہاں سے آپ کے ساتھ چل پڑا ، جس میں آپ کے
محبین و مریدین بھی شامل تھے۔ مملکت پاکستان پہنچ کر آپ کچھ عرصے تک لاہور میں
قیام پذیر رہے، پھر کراچی تشریف لے آئے اور
رنچھوڑ لائن میں مستقل رہائش پذیر
ہوئے اور اس علاقے کی ایک جامع مسجد صدیقی
کو اپنا مرکز بناکر روحانی
تربیت کے ساتھ ساتھ اشاعتِ دین کے کام کا آغاز کردیااور اس ہی مسجد سے درس
وتدریس، امامت و خطاب کا سلسلہ شروع کیا۔ اہل
کراچی کے علاوہ آپ کے اکثر وبیشر عزیز و
اقارب و محبین ومریدین بھی دہلی سے ہجرت کرکے کراچی میں آپ کے ارد گرد جمع
ہوگئے تھےاور آپ کے علمی وروحانی چشمہ سے
فیضیاب ہونے لگے۔ بعد ازین آپ نے جامع
مسجد آرام باغ ، کراچی کے منتظمین کے اصرار پر اس مسجد میں بھی ایک عرصے دراز تک
اپنے درس وبیان سے طالباں حق کو مستفید فرماتے رہے۔ دہلی کی
طرح کراچی میں بھی آپ کا معمول رہا کہ آپ بعد نماز عشا مریدین کے لیے جامع مسجد صابری میں حلقے ذکرقائم فرماکر راہ سلوک کی تعلیم فرمایا کرتے تھے، نسبتِ قوی
کی بنا پر آپ کے حلقے میں شامل طالبانِ راہِ سلوک کے قلوب کے اندربہت جلد جذب، محویت اور ذکر کی کیفیت دائم ہوجاتی
تھی اور جوق در جوق لوگ آپ سے فیضیاب ہوتے رہتے تھے، جن میں سے کئی ایسے بھی تھے جنہوں راہ سلوک کی منازلیں طے کرنے کے بعد آپ کی
خلافت سے مشرف ہوئے اوران سے بھی یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔
قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے: "کُلّ نَفْس ذَائِقَة
الْمَوْت" ترجمہ:(تم میں) ہرجان دار کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ بہرحال موت
رب کے دیدار کا ایک ذریعہ ہے؛ چناں چہ
حضرت قاضی صاحب ؒ بھی اپنے مقررہ وقت پر، پاک پروردگار کے حکم کا اتباع کرتے ہوئے 8 ذی الحج
1394ھ بمطابق سن 1974ء کواس عالم
ناسوت سے کوچ کرگئے۔آپ نے علم و روحانیت سے بھرپور ایک دور گزار اور اپنے علم و
روحانیت سے اپنے پیران طریقت کی طرح
متلاشیاں راہ حق کے کو مستفید فرماتے
رہے۔ کس قدر سچا اور جامع مقالہ ہے "موت العالم موت العالم"۔عالم دین کی
موت پورے عالم کی موت ہے۔آپ کا مزار اقدس میوہ شاہ قبرستان میں مرجع خلائق ہے۔ یہ
مزار میوہ شاہ قبرستان میں بکرا پیڑی روڈ سے داخل ہوتے ہی حضرت میوہ شاہ ؒ کے مزار اقدس کے احاطے سے قبل
واقع ہے۔ والسلام (محمد سعید الرحمن، ایڈوکیٹ)۔
Comments
Post a Comment