صوفی اسد اللہ خان سلطانی مرحوم








 تعزیت و تاثرات
صوفی اسد اللہ خان سلطانی مرحوم

تحریر کردہ: محمد سعید الرحمن ایڈوکیٹ ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
زندگی کےایام گزرنے کےساتھ ساتھ ہمارے دوستوں میں بھی کمی واقع ہوتی چلی جارہی ہے اور وہ ہمیں ایک ایک کرکے داغ مفارقت دیتے جارہے ہیں۔ مورخہ 27جنوری 2021 کو نماز فجر کے بعد یہ اندوہناک خبر ملی کہ کراچی کے ایک صاحبِ حال صوفی اور دربار سلطانی کے فعال عہدیدار جناب صوفی اسد اللہ خان اس جہانِ فانی سے انتقال کرگے، بے ساختہ زبان سے "انا للہ وإنا إلیہ راجعون" کے الفاظ ادا ہوئے۔ اچانک ان کی موت کی اس خبر نے دل میں بے چینی کی کیفیت پیدا کردی جب کہ مرحوم کچھ دنوں سے عارضہ قلب میں مبتلا ہوجانے کی وجہ سے بستر علالت پر تھے لیکن ان کی صحت سے ایسا اندازہ بالکل نہیں ہوتا تھا کہ وہ اتنی جلدی داغ مفارقت دے جائیں گے، بہرکیف قدرت کے فیصلے ہمارے قیاسات و خواہشات اور تخمینوں سے ماوراء ہوتے ہیں اس دنیا میں ہر شخص زندگی کے گنے چنے سانس لیکر آیا ہے اور دنیا کی کوئی طاقت اس میں کمی زیادتی نہیں کرسکتی ۔موت برحق ہے، ہم سب کو مرنا ہے، کوئی پہلے جارہا ہے کوئی بعد میں جائے گا،ایمان، اعمال صالحہ اخلاق اور کردار ہی اللہ کے دربار میں ہمارے سب سے بہترین سفار شی ہیں۔
درحقیقت دوستوں کی تعداد کتنی ہی زیادہ ہو کچھ معنی نہیں رکھتی اگر کچھ معنی رکھتا ہے تو یہ کہ ان میں کتنے سچے اور مخلص ہیں جو لفظ دوستی کے میعار پر پورے اترتے ہیں۔ صوفی اسد سلطانی مرحوم بھی ان انسانوں میں تھے، جن کے دشمن کم اور دوست زیادہ تھے، وجہ ان کے اخلاق اور کردار اور دوستوں کے ساتھ حسن سلوک تھا۔ موصوف علم دوست ہونے کے علاوہ ایک خوش اخلاق، ملنسار اور بردبار انسان تھے،ان سے جوبھی ملتا اسے اپنائیت کا احساس ہوتا تھا۔ جیسی روح ویسے فرشتے کے مصداق ہراس سلاسل کے مشائخ و پیرانِ طریقت جو سماع سننے کے قائل اور سماع کی محافل منعقد کرنے کا اہتمام کیا کرتے تھے آپ کے حلقے احباب میں شامل تھے اور آپ ان کا بے حدادب اور احترام بھی کرتے تھے اور ان کی دعوتوں پر انکی سماع کی تقریبات میں اپنی عدیم الفرصتی کے باوجود شرکت فرما کر زینت محفل ہونے کے علاوہ اپنے ذوق کی آبیاری کیا کرتے تھے آپ کے رکھ رکھاو اور حامل ِاعلیٰ ذوقِ سماع ہونے کی شہادت وہ تمام حضرات دینگے جن کی مرحوم سےسماع کی محا فل میں ہم نشینی رہی ہے۔
آپ کا مشرب قادری تھا۔ سلسلۃ الذہب قادریہ جو سلسلہِ قادریہ میں افضل ترین سلسلہ ہے میں آپ کو حضرت ابو الخیر محمد حسنین سلطان الزماں المعروف سلطان الصوفیاء ؒ کے دست حق پرشرف بیعت کی سعادت حاصل ہوئی تھی، مگر آپ کو اپنے پیر ِباصفا سے سلسلۃ الوہاب چشتیہ کا فیض بھی بدرجہ اتم حاصل ہواتھا، اس لیے سماع کا ذوق آپ کے روحانی مزاج میں رچ بس گیا تھا۔ بقول اکابریں، اگر کسی سالک کو اپنے شیخ طریقت سے ایک سے زیادہ سلاسل کا فیض حاصل ہوا ہو تو ان میں سے غالب ایک ہی سلسلے کی نسبت ہوتی ہے جو اصل نسبت کہلاتی ہے، اس اعتبار سے آپ پر سلسلۃ الوہب چشتیہ کا غلبہ رہا اور کراچی کے صوفیاء میں یہی آپ کی وجہ پہچان تھی۔
اسلام دینِ فر ت ہونے کی بناء پرفطرتِ جمال اور توازن سے ہم آھنگ ہے، لہذا کامل انسان وہی کہلا تے ہیں جن کی شخصیت جمال اور جلال دونوں کی آئینہ دار ہو۔ اہلِ طریقت کے نزدیک سماع روح کی غذا ہے کیونکہ یہ ایک ایسا ذوق ہے جو بہت ہی لطیف اور جمالیات سے لبریز ہےاور اسکی لطافت کا ادراک رقیق طبیعت کے مالک اصحاب ہی ادراک کرسکتےہیں جن کی طبعیت میں توازن ہو ۔ بقول ان حضرات کے جو سماع میں صوفی اسد سلطانی مرحوم کے ہمنشین رہے ہیں ایسے اعلیٰ ذوق کے حامل صوفی خال خال نظر آتے ہیں جیسا ذوق و شوق اور سماع کے رموز و اسرار کا ادراک مرحوم کو تھا اور محافل میں آپ کی موجودگی سے سماع کی لذت و کیفیات دوبالا کردیا کرتی تھی۔
اہل علم حضرات اس حقیقت سے آشنا ہیں کہ انسان کی ایک دنیا یہ عالم، زمان و مکان ہے اور دوسری دنیا اسکے دل کی دنیا ہے جو رووحانی دنیا ہے۔ ایک صاحب حال صوفی کو ان دونوں عالموں میں رہنا پڑتا ہے تب ہی جاکر حقائق آشکار ہوتے ہیں۔ جب یہ دونوں جہاں اس کے ہیں اور وہ اس میں رہنے پر مجبور ہے تو پھر اپنے جمالیاتی تقاضوں کی تشفی کے لیے بھی اسے دونوں جہانوں کوحسین بنانا ناگزیر ہے ان ہی اصولوں کے تحت مرحوم نےکسب حلال کی کمائی سے خوبصورت انداز سےظاہری دنیا کی آشائش کے ساتھ ساتھ اپنے دل کی دنیا بھی آباد کی۔ حامل ذوق ِجمالیات اور ظاہر دنیا کے رموز و اوقاف سے آگاہی ہونے کی بناء پر آپ نے ایک کامیاب متوازن زندگی گزاری ۔
مرحوم جامعہ کراچی کے گریجویٹ تھے اور آپ نے اپنے ذوقِ سماع کی تسکین کے لیے باقاعدہ فارسی زبان کی تعلیم بھی حاصل کی تھی اور خصوصی طور پر مثنوی مولانا روم، کلام حافظ ، مولانا عبد الرحمٰن جامی اور دیگر نامور فارسی شُعراء کا سیرحاصل مطالعہ کیا تھا۔ اپنے اس اکتسابی علم کی بناء پر آپ فارسی کلام سے بے حد محظوظ ہوتے تھے اور سماع کا حق ہی یہی ہے کہ جو سننا جائے وہ دل میں اتر جائے۔ امام غزالی فرماتے ہیں سماع کا اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ سننے والا جو کچھ سنے اس کے معنیٰ و مفہوم کو سمجھے یعنی جو کچھ سننے اس کے معنیٰ و مطلب کا دل میں اترجانا ہے، جس کا ثمرہ یہ ہے کہ سننے والے کلام کوسمجھنے کے بعد اس میں وجد کی کیفت پیدا ہوتی ہے، پھر وجد کا ثمرہ اعضا کی حرکت میں حاصل ہوتا ہے۔ صوفی اسد سلطانی مرحوم کا سماع کی محافل میں ان کیفیات سے گزرنا اس امر کی تصدیق ہےکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم اور صوفیاء چشت کی محبت سے سرشار ہونے کی بناء پر حس ِ لطیف کاآپ کو وافر حصہ عطا فرمایا جو ایک سماع کے اہل صوفی کی روحانی ترقی میں معاون ہوتی ہیں۔ آپ کو فارسی کلام سے اس حد تک دلچسپی تھی کہ آپ نےمختلف سماع کی محافل میں پڑھے جانے والے فارسی کلام کا ترجمہ بھی کیا تھا تاکہ زبان فارسی سے نابلد سالکان راہ طریقت استفادہ حاصل کرسکیں جس کی ویڈیوز یوٹیوب پر موجود ہیں اور انفرادی طور پر سماع سننے والوں سالکین کو روح کی غذا فراہم کررہی ہیں۔
جناب صوفی اسد سلطانی صاحب کو بچپن سے ہی اپنی والدہ محترمہ کی طرف سےبھی اپنے شیخ طریقت حضرت ابو الخیر محمد حسنین سلطان الزماں ؒ کی نگاہ کرم اور شفقت کا فیض حاصل رہا تھا، کیونکہ آپ کی والدہ بھی حضرت سے بیعت تھیں ، بعدہ آپ بھی اپنی والدہ کے صاحبِ ارشاد شیخ طریقت کے دامن سے وابستہ ہوگے اور آپ کے دست حق پر باقاعدہ شرف بیعت کی سعادت حاصل کی یوں آپ کی یہ بیعت اپنی والدہ کی طرف سے ملنے والی وراثتی بیعت بھی کہلاتی ہے یہی وجہ ہے کہ آپ نے اپنی پوری زندگی اس خانقاہ کے لیے وقف کردی تھی اور آپ کے اہل وعیال بہن بھائی سب ہی اس خانقاہ سے منسلک ہیں اور آپ کی اس خانقاہ سے قلبی و روحانی عقیدت ایک فطری امرہے۔ علاوہ ازیں ،آپ نے اپنے شیخ سے اپنی استعداد کے مطابق روحانی تربیت ، اکتساب فیض کے علاوہ علم تصوف بھی حاصل کیا اور اس فن میں اپنےمطالعہ و مختلف سلاسل کی کتب بینی کی بنا پر حلقہ سلطانیہ میں ایک منفرد مقام کے حامل ہوئے ۔ آپ کا شمار اپنے اوصاف کی بناء پراپنےشیخ طریقت کے ان خاص الخاص مریدوں میں ہوتا ہے جو روحانیت کے ساتھ ساتھ ظاہریِ علوم سے بھی بہرمند ہوں۔ اپنے شیخ طریقت سے نسبت قریبیہ رکھنے کی بنا پر صوفی اسدسلطانی مرحوم کو اپنے شیخ طریقت کی سیرت، حالات زندگی اور مناقب سےمتعلق بہت حد تک معلومات تھیں اوراس حوالے سے آپ کی تحقیق کو مستند و معتبر تسلیم کیا جاتا تھا۔آپ نے ہمیشہ کوشش کی کہ اپنے شیخ طریقت کے حالات زندگی و مناقب کو متوسلین تک پہنچانے کے لیے عقیدت مندی میں مبالغہ آرائی سے کام نہیں لیا جائے اور صرف مستند ومعتبر روایتیں ہی منتقل ہوں جن کو تاریخی حوالوں اور تصوف کی کتب سے سے ثابت بھی کیا جاسکے۔
گو کہ مرحوم اسد سلطانی کواپنے شیخ طریقت سےخلافت حاصل نہیں تھی اور نہ ہی کبھی حصول خلافت آپ کی خواہش یامقصد حیات رہا،مگرآپ کا علمی تبحر و روحانیت دور حاضر کے ان بیشتر پیروں سے بہت بلند رہا جنہوں نے پیری کا لبادہ نام ونمودکی خاطر اوڑھا ہوا ہےاور رووحانی طور پر اندر سے خالی ہیں۔ مرحوم کے نزدیک تصوف کی اصل روح معرفت کا حصول رہا تھاجو ظاہری وباطنی علوم کے ذریعے ریاضت و مجاہدات کے بعد ہی حاصل ہوتی ہے اور مرحوم نے اپنی پوری توجہ حصولِ علم ظاہری و باطنی پر بھی ہی مرکوز رکھی ہوئی تھی، اور آپ کا مقصد بیعت بھی یہی رہا تھا، چنانچہ مرحوم نے ایسے ہی پیران طریقت کے دست پر بیعت کی سعادت حاصل کی جوصاحب علم و مقام ہوں جیسا کہ آپ کے شیخ طریقت تھے ۔ مرحوم تصوف میں موروثی خلافت و سجادہ نشینی کے بھی شدید معترض تھے اور ایسی خلافت و سجادہ نشینی کو باطل متصور کیا کرتے تھے جو علم و روحانیت دونوں اعتبارسے خالی ہوں۔ بہرکیف آپ نے خود کو بناوٹی تصوف سے ہمیشہ دور رکھا اورخود کو ایک سالک ہی متصور کیا ۔آپ کا ذریعہ معاش ہمیشہ تجارت و ملازمت ہی رہا اور ساتھ ہی آپ کا طریق خالصتاً اللہ کی رضا کے لیے ایک سالک کی حیثیت سے اپنی بساط کے مطابق پیر بھائیوں اور دوست احباب کے کام آنا تھا۔
آپ اپنے شیخ طریقت کی محبت سے شرشار ہونے کے علاوہ اپنے شیخ طریقت کے پیر بھائی اور حقیقی بھانجے حضرت ڈاکٹر مولوی مرتضیٰ خان شیرزمانیؒ جو روحانی مقام کے اعتبار سےقلندرِوقت تھے ، علاوہ ازیں اپنے دورکے ماہر امراض قلب تھے اور پاکستان کی مقتدر سرکاری و سیاسی شخصیات کے معالج خاص بھی رہےتھےسےبھی بہت بھی عقیدت رکھتے تھے۔ آپ کی حضرت ڈاکٹرخانؒ صاحب سے عقیدت مندی کی ایک خاص وجہ یہ بھی تھی حضور سلطان الصوفیا ؒ کے سن 1964 میں مستقل طور پر پاکستان میں سکونت اختیار کرنے کے بعد ڈاکٹر خان نے حضور سلطان الصوفیاءکے روحانی مشن کو جاری و ساری رکھنے میں آپ کی ہرجہت سےبھر پور معاونت فرماتے رہتے تھےبشمول اپنے اثرورسوخ کو بروکار لاتے ہوئے اپنے ماموں و پیر بھائی کے لیے باقاعد ایک خانقاہ کی تعمیر کے لیے اپنے نام پر کے ڈی اے سے ایک پلاٹ حاصل کیاجس پر دربار سلطانی کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ کیونکہ ڈاکٹر خان صاحب ایک اہل علم و روحانیت سے مالا مال اور اعلیٰ صلاحیتوں کے مالک تھے اور حضور سلطان الصوفیاء, کے پاکستان میں مقیم جملہ قرابت دار و حلقہِ وابستگان میں سب پر فوقیت رکھتے تھے اس لیے حضور سلطان الصوفیا ؒنے اپنے وصال سے قبل ہی آپ کواس دربار کی جملہ ذمہ داریاں تفویض فرمادی تھیں تاکہ یہ دربار آپ کےوصال کے بعد بھی اپنی شناخت برقرار رکھ سکےاورآپ کا مشن جاری و ساری رہے،صوفی اسد سلطانی مرحوم بھی اس مشن کے حامی رہے۔ خیر حضوز سلطان الصوفیاء, کے وصال کے بعد ہی اس دربار اور ڈاکڑخان صاحب کے ساتھ جوکچھ سلوک کیا گیا اوریہ دربارجن نشیب و فراز سے گززا اور ڈاکٹر خان صاحب نے ان حالات کا جس عزم و استقلال کے ساتھ مقابلہ کیا اس کی ایک لمبی داستان ہے جن کا ذکر اس تحریر میں مناسب نہیں کیونکہ خانقاہوں میں رونما ہونے اختلافات کوئی نئی بات نہیں اس طرح کے جھگڑے بیشتر خانقاہوں اور درباروں میں بھی روونما ہوتے رہتے ہیں۔ الغرض صوفی اسد سلطانی مرحوم کی بھی ڈاکٹرخان صاحب کی طرح یہ کوشش رہی کہ اس دربار کی شناخت علمی و روحانی ترویج کا مرکز رہے جس طرح سے معروف مشائخ عظام کی خانقاہیں رہی ہیں۔ دربار سلطانی کے موجودہ چئیرمین بھی اس بات کے معترف ہیں کہ صوفی اسد سلطانی کی وفات اس دربار کے لیے ایک ناقابل تلافی نقصان ہے ۔
مرحوم کی نماز جنازہ آپ کے شیخ طریقت کے روضے مبارک کے سائے میں ادا کی گئی، حسن گمان ہے کہ آپ کے شیخ اقدس کی بھی اس نماز جنازہ میں روحانی شرکت شامل رہی ہوگی۔ مرحوم وصیت کے مطابق آپ کی نماز جنازہ ایک معروف مفتی صاحب نے پڑھائی۔ نماز جنازہ میں حلقہ سلطانیہ کے وابستگان ، دوست احباب کے علاوہ مشاٗئخ کی ایک خاصی تعداد جس میں نمایاں نام حضرت صوفی عبداللہ سلطانی، حضرت صوفی علامہ عبدالقادر سلطانی، حضرت صوفی ولی حسن سلطانی، حضرت سید محمدعلی صابری عظمتی، پیر نصیرالدیں چراغ موتی میاں، حضرت سید ناصرحسن نظامی، حضرت پیر ننھے میاں، جناب شیخ صاحب اور جناب نور محمد چشتی کے ہیں نے شرکت فرمائی، بعدہ آپ کی تدفین سخی حسن کے قبرستان میں عمل میں لائی گی ۔ دعا گو ہوں کہ مولائے کریم مرحوم کی قبر کو نور سے منور فرمائے اور صبح و شام ابرہائے رحمت ان کی قبر کو سیراب کرتا رہےاور ان کے تمام پسماندگان کو صبر جمیل عطافرمائے آمین یارب العالمین۔
دعاوں کا طالب : محمد سعید الرحمن ایڈوکیٹ


Comments

Popular posts from this blog

جون ایلیا ایک تعارف

Hazrat Sayyed Ahmad Kabir Rifai Rahematullah Alaih / حضرت شیخ سید احمد کبیر رفاعی قدس سرہ العزیز