تصوف چند ظاہری رسومات کی ادائیگی یا کثرت وظائف کا نام نہیں ہے
تصوف چند ظاہری رسومات کی ادائیگی یا کثرت وظائف کا نام نہیں ہے
تحریر کردہ : محمد سعید الرحمن ایڈوکئٹ
=====================================
ہمارے دور کا یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ چند ظاہری رسومات کی ادائیگی کو تصوف کا نام دیا جاتا ہے اور بعض نے کثرت وظائف کو تصوف سمجھ لیا ہے اور بعض تصوف کو شریعت سے خارج اور متصادم سمجھ کر تصوف سے دور رہتے ہیں۔ جب کہ شریعت ”احکامِ تکلیفیہ “ کا نام ہے جس میں اعمال ظاہری اور باطنی دونوں شامل ہیں۔ جیسا کہ امام ابو حنیفہ سے فقہ کی یہ تعریف منقول ہےکہ ”معرفتۃ النفس مالھا وما علیھا “ یعنی نفس کے نفع اور نقصان کی چیزوں کا پہچانا اور ان کے جاننے کا نام فقہ ہے جس میں علم ظاہر اور علم باطن دونوں شامل ہیں۔ بعد ہُ متاخرین کی اصطلاح میں شریعت بمتعلق اعمال ظاہر کا نام ”فقہ “ ہوگیا اور بمتعلق اعمالِ باطنی کا نام” تصوف “ ہوا ، اور اعمال باطنی کے طریقوں کو ” طریقت “ کہا جانے لگا اس طرح دو اصطلاحات وجود میں آئیں ایک” فقہ “ اور دوسری ” تصوف “ اور یہ دونوں آپس میں لازم وملزوم ہیں۔
امر مسلمہ ہے کہ باطنی اعمال کی اصلاح اور درستگی سے قلب میں جلا اور صفا پیدا ہوتا ہے جو قرب الہیٰ کا باعث ہوتی ہیں جس کی بناء پر بعض کو کائنات کے حقائق آشکار ہوتے ہیں یعنی جو معاملات اللہ اور بندے کے درمیاں ہیں یا کائنات کے رموز ہیں وہ منکشف ہوتے ہیں اور ان انکشافات کو اصطلاحات تصوف میں ” حقیقت “ کہا جاتا ہے اور انکشاف کو ”معرفت “ اور صاحب ِانکشاف کو ” عارف “ کہا جاتا ہے اس طرح ”طریقت “، ”حقیقت”، ”معرفت “ اور ”عارف “ یہ سب بمتعلق شریعت ہی ہیں اور کہیں بھی شریعت کی بالا دستی ختم نہیں ہوتی ہے۔ شریعت سے معرفت تک کا جو سفر ہے وہ ” سلوک “ کہلاتا ہے سفر طے کرنے والے کو ”سالک “ یا ” صوفی “ کہتے ہیں ۔ اس ہی طرح جب کوئی شیخ ِطریقت کے بتلائے ہوئے طریقہ پر چلتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ یہ تصوف سیکھتا ہے۔ صوفی صرف نماز، روزہ ادا کرنے والے کو نہیں کہا جاتا بلکہ سلوک میں ” تزکیہ باطن “ بھی شامل ہے۔
جو لوگ اللہ کا قرب حاصل کرلیتے ہیں انہیں ہی” ولی “کہا جاتا ہے ۔ ولایت کا مدار دو چیزوں پر ہے ایک” ایمان “ اور دوسرا”تقویٰ “۔ ایمان اور تقوی جس درجہ کا ہوگا اس ہی مرتبہ کی” ولایت “ ہوگی۔ اگر ادنیٰ درجہ کا ایمان اور تقویٰ جو درست عقائد ، فرائض اعمال کی بجا آوری اور اعمال حسنہ سے حاصل ہوتا ہے تو ادنیٰ درجہ کی ولایت حاصل ہوگی جو ہر مومن کو حاصل ہے اس کو” ولایتِ تامہ “کہتے ہیں۔
اگر اعلیٰ درجہ کا ایمان و تقویٰ ہوجو تزکیہ باطن سے حاصل ہوتا ہے تو یہ اعلیٰ درجہ کی ولایت ہوگی جس کو ” ولایت خاصہ“ کہتے ہیں اور اصطلاحاً ” ولی“ وہی شخص کہلاتا ہے جو اس ” ولایت خاصہ“ کے ساتھ موصوف ہو اور تصوف کا موضوع بھی یہ ولایت ہے۔ بالفاظ دیگر ”ولی “ وہ ہے جو ایمان کامل اور تقویٰ کامل کا حامل ہو اور یہ دونوں چیزیں بغیر باطن کی اصلاح کے حاصل نہیں ہوتیں۔ جس طرح ظاہری علوم کی تحصیل کے لیے استاد کی ضرورت ہوتی ہے اس ہی طرح باطن کی اصلاح و تربیت کےلیے بھی استاد ضروری ہے جو” شیخِ طریقت “ کہلاتا ہے۔
اصطلاحات تصوف کے مطابق ” دلایت“ دو طرح کی ہیں پہلی ”وِلایت “ یعنی ( وِ )پر زیر والی ولایت اور دوسری ” وَلایت “ ( وَ) پر زبر والی ولایت اور دونوں ولایت کےاوصاف مختلف ہیں۔ مگر جو بھی صوفی زبر والی وَلایت کا حامل ہوتا ہے اس پر زیر سے شروع ہونے والی ولایت کا طلاق بھی ہوتا ہے کیونکہ و پر زبر والی ولایت کے حامل صوفی ہی زیر والی ولایت کے اہل قرار پاتے ہیں۔
پہلی وِلایت جس کی( وِ) پر زبر ہوتی ہے کا مفہوم صوفی کا اپنی ذات اور صفات کو فنا کرکے باقی باللہ ہوجانا ہے ۔ اور دوسری وہ وَ لایت جسکی (و َ)پر زبر لگائی جاتی ہے اہلِ تصوف کے ہاں معنی مدد دینا یا خدمت خلق کرنے کے ہیں۔ پہلے معنیٰ کی وِلایت جس صوفی کو حاصل ہوتی ہے وہ دائمی ہے اور یہ دونوں عالم میں انتہائی مقامِ قربِ الی اللہ ہے یہ وہ خاص محبت ہے جو اس کے اور اللہ کے درمیان قائم ہوئی ہے۔ جب اس وِلایت کا حامل صوفی اس دنیا سے انتقال کرتا ہے تو وہ یہ وِلایت بھی اپنے ساتھ لے جاتا ہے ۔
ولایت کی دوسری قسم جس کے و پر زبر ہوتی ہے یہ (وَلایت ) بمعنیٰ خود واصل بحق ہوکر دوسروں کی حاجت روائی کرنا اور خدمت خلق پر مامور ہوجانا کے استعمال ہوتی ہے۔ اس وَلایت کا حامل شیخ طریقت اپنے مریدوں کو خدا تک پہنچاتا اور انہیں طریقت کے آداب سکھاتا ہے۔ بالفاظ دیگر جو کچھ اس کے اور مخلوق یا مریدین کے درمیان ہے اس ہی کو وَلایت کہتے ہیں اور انہیں صاحبِ ارشاد ، قطب ارشاد یا قظب ولایت بھی کہا جاتا ہے اور یہ حرف عام میں شیخ ِ طریقت کہلائے جاتے ہیں۔
کیونکہ ( وَ ) پرزبر والی وَلایت اس عالم ناسوت سے متعلق ہے اور جب اس وَلایت کا حامل شیخ طریقت اس عالم سے منتقل ہوجاتے ہیں تو چالیس سال بعد خدمت خلق کا یہ کام ان سے منقطع ہوتاہے اور پھر صرف ان کی( وِ ) پرزیر والی وِلایت دائم رہتی ہے یعنی وہ خالص محبت جو انکے اور حق تعالیٰ کے درمیان ہے۔ جب کہ بعض منتخب اولیا ءاکرام دونوں ولایت پر ہمیشہ کے لیےفائز رہتے ہیں اور ان کا تصرف اس عالم ناسوت میں بھی جاری و ساری رہتا ہے۔
صاحب ِارشاد اولیاء ان اولیاء ان اولیاء اکرام پر فضیلت رکھتے ہیں جو صاحبِ ارشاد نہیں ہیں۔ کیونکہ صاحب، ارشاد اولیاء اکرام خود بھی واصل بحق ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی واصل بحق کرتے ہیں جس کے لیے وہ مقامِ فنا (فنا فی اللہ) سے مقام بقا (بقا باللہ) کی طرف نزول کرکے خلق کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔اس ہی وجہ سے فنا فی اللہ سے بقا باللہ کا مقام اعلیٰ و ارفع ہے۔
جب کوئی شیخِ طریقت جودونوں ولایت کا حامل ہے دنیا سے انتقال کرتا ہے وہ اپنی (وِ ) والی وِلایت اپنے ساتھ لے جاتا ہے مگر (وَ ) پر زبر وَلایت جس کو چاہتا ہے د ے سکتا ہے۔ اگر وہ اپنی پسند کے کس آدمی کو یہ وَلایت نہ بھی دے تو اس شیخ ِ طریقت کا یہ عمل بھی جائز ہے، حق تعالیٰ اس وَلایت کو کسی دوسرے کو خود عطا کردیتا ہے۔ اس ضمن میں سلطان المشائح ؒ نے ایک حکایت یہ بھی بیان فرمائی کہ کسی بزرگ نے اپنے ایک مرید کو کسی دوسرے بزرگ کے پاس بھیجا اور معلوم کروایا کہ رات بساطِ عالم پر کیا گزری، ان بزرگ نے جواب میں کہلوایا کہ رات کو شیخ ابو سعید ابوالخیر قدس سرہ العزیز نے” مسجد آمینہ “ میں وصال فرمایا ہے۔ان بزرگ نے اپنے ایک اور مرید کو آپ کے پاس بھیجا اور معلوم کروایاکہ اب ان کی وَلایت کس کو دی گئی ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ اس کی مجھے خبر نہیں۔ اس کے بعد معلوم ہوا کہ ان کی وَلایت شمس العارفین علیہ الرحمتہ کو دی گئی ہے۔آپ رات ہی کو شمس العارفین رحمہ کے دروازے پر پہنچے، شمس العارفین رحمہ نے اس سے قبل کہ وہ کچھ کہتے ان سے فرمایا کے اتنے سارے شمس العارفین ہیں، کیا خبر کے کن شمس العارفین کو وَلایت دی گئی ہے۔
اصطلاحات تصوف میں خلافت کی بھی دوقسمیں ہیں۔ایک خلافت صغریٰ اوردوسری خلافت کبریٰ۔
خلافت صضری ٰ یہ ہے شیخ اپنے مرید کی محنت وریاضت دیکھ کر یہ رائے قائم کرتاہے اور اپنی نظر میں اس کا معاملہ نیک پاتا ہےتو اسے اپنی خلافت دیتا ہے اور اس کے لیے کوئی شہر یاقبضہ بھی متعین فرمادیتا ہے کہ وہ وہاں رہ کر پیری مریدی کرئے ۔ پیری مریدی بمعنیٰ مریدوں کو خدا تک پہنچاتا اور انہیں طریقت کے آداب سکھانے کے ہیں ۔اس خلافت میں شیخ اسے اپنا لباس بطور خرقہ عطا کرتا ہے یا دستار بندی کرکے اعلانِ خلافت کردیا جاتا ہے۔
خللافت کبریٰ یہ ہے کہ جب شیخ کے دل پر الہام حق (اللہ کی طرف سے الہام) وارد ہو کہ فلاں شخص کو خلافت دی جائے اور شیخ اس کی تعمیل پرمجبور ہوجائے۔ اسے خلافتِ کبریٰ اور نیابت مطلقہ بھی کہتے ہیں اور اس طرح کی خلافت کا حامل ہی اپنے شیخ کےقائم مقام یعنی جانشین ہوتا ہے اور اس کے سجادہ کا وارث ہونے کے علاوہ شیخ کے جملہ تبرکات کا مستحق بھی ہوتا ہے۔
خلافت صغری ہو یا کبریٰ مگر حاملِ خلافت میں درج ذیل اوصاف کا پا یا جانا اشد ضروری ہے:
(1) صاحبِ علم و معرفت ہونے کے علاوہ صاحبِ ورع اور صاحبِ تقویٰ ہوں ۔
(2) کامل النّسبت، کامل الطریقت اور کامل التوجہ ہوں، ۔
(3) صاحبِ حسن خلق ، نہایت خوش اخلاق و پرُخلوص اور صاحبِ استغناء ہو ں یعنی ان کا دل دنیاوی مفاد ات سے بے نیاز ہوجائے۔
(4) صاحبِ حکمت و بصیرت ہوں، مریدوں سے ان کے حسب حال ان کے ظرف، ان کے ظاہر و باطن کے احوال اور ان کی تربیت کے تقاضوں کے پیش نظر ملتے ہوں۔ اپنے مریدین پر حد درجہ مہربان اور شفیق ہو اور ان سے اولاد جیسا برتاؤ کرتے ہوں۔ خود بھی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا پابند ہوں اور مریدوں کو بھی اچھائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں۔
یہ کہنا کہ اس طرح کے اولیاء اللہ دور حاضر میں نہیں مل سکتے ، ایک غلط مفروضہ ہے۔ اولیا, اللہ ہر دور میں نہ صرف موجود رہتے ہیں بلکہ خدمت ِ انسانی کے لئے ہمہ تن مصروف عمل رہتے ہیں جن کی وجہ سے دنیا قائم اور پُر رونق ہے ۔ آج بھی ہزاروں روحانی پیشوا اس کرہ ارض پر موجود ہیں ، اور ان میں کافی صاحبِ تصرف بھی ہیں کیونک قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ”اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور (عمل میں) سچوں کے ساتھ رہو“۔اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ ہر زمانے میں اللہ تعالیٰ ایسے اولیائے صادقین کو پیدا فرماتے رہیں گے۔ اس آیتِ قرآنی کے مطابق ہر دور اور ہر عہد میں باصدق و با صفا مشایخ کا ہونا لازمی ہے یہ صرف ہماری نظر کا قصور ہے اور ہماری سستی و کاہلی ہے جوہم انہیں تلاش نہیں کرتے ہیں۔
والسلام (محمد سعید الرحمن ایڈوکیٹ )۔
Comments
Post a Comment